تازہ تر ین

” راحیل شریف کیلئے پاک امریکہ تعلقات اور عسکری امداد بڑے امتحانات تھے “کہنہ مشق صحافی ، عہد ساز لکھاری ضیا شاہد دفاعی تجزیہ کار مکرم خان کے مقبول کالم کی 11 ویں قِسط

فرنٹیئر کور بلوچستان وزارت داخلہ کے ماتحت ہونے کے باوجود بری فوج کا ذیلی ادارہ سمجھا جاتا ہے۔ بعینہ یہی صورتحال سندھ میں درپیش تھی۔ بالخصوص کراچی میں حالات خراب سے خراب تر ہوتے چلے جا رہے تھے۔ سندھ رینجر وزارت داخلہ کی فورس ہونے کے باوجود فوج کا ہی ادارہ سمجھی جاتی ہے سول آرمڈ فورسز میں ادنیٰ و اعلیٰ افسران کے علاوہ آئی جی اور ڈی جی کی خدمات بری فوج سے ہی مستعار لی جاتی ہیں۔ آرمی چیف کو متعلقہ کور کمانڈرز کے ذریعے دونوں صوبوں میں امن و امان کی صورتحال سے براہِ راست نگرانی کرنا ہوتی ہے۔
خیبر پختونخوا میں فرنٹیئر کور بری فوج کے جزوِ لاینفک کے طور پر دہشت گردی کےخلاف آپریشن کا حصہ تھی۔ جنرل راحیل شریف کو فیصلہ کن کیفیت درپیش تھی۔ شورش زدہ علاقوں میں آپریشن کی نوعیت کیا ہو گی؟
رواں طریقہ کار کو جاری رکھیں گے یا کچھ تبدیلیاں لائی جائینگی۔ ذرائع ابلاغ ہی نہیں عوامی مقامات پر سوالات تھے کہ بڑھتے ہی چلے جا رہے تھے۔
عدالت عظمیٰ میں گمشدہ لاپتہ افراد کیس زیر شنوائی تھا۔ جس سے قومی سلامتی کے ضامن ادارے اور فوج کے بارے میں غلط فہمیاں عروج پر تھیں۔ مخصوص اخبارات اور ٹی وی چینلز اس حساس معاملے کو الگ اچھال رہے تھے۔ جو دہشتگردوں کےخلاف جاری کارروائیوں پر اثرانداز ہو رہا تھا۔ پاک بھارت تعلقات کے تناظر میں دیکھا جائے تو بھارتی ذرائع ابلاغ میں جنرل راحیل شریف کو اپنے پیشرو سے مختلف پیش کیا جا رہا تھا بلکہ ان کے خاندان کے شہداءکی نسبت سے بھارت دشمن قرار دیا جا رہا تھا جو اپنے بھائی کی شہادت کا بدلہ لینے کے علاوہ بھارت کےلئے سخت دشمن ثابت ہونگے۔ مسئلہ کشمیر اور لائن آف کنٹرول کی صورتحال پر جنرل راحیل شریف کا مو¿قف الگ کھٹک رہا تھا۔
پاکستان کا مسئلہ کشمیر سے گزشتہ ایک دہائی میں عملی طور پر پیچھے ہٹنا ملکی و بین الاقوامی حالات کے تابع تھا لیکن اس کے بداثرات پاکستان کے سہ طرفہ گھیراﺅ کا باعث بن چکے تھے۔ کراچی میں بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ پہلے سے پنجے گاڑے ہوئے تھی۔ بلوچستان الگ سلگ رہا تھا اور کے پی کے میں فوج طالبان سے حالتِ جنگ میں تھی۔ سارا کیا دھرا ”را“ کا ہے جس میں دیگر ممالک کی خفیہ ایجنسیاں کود چکی تھیں۔ سیاچن اور سرکریک جیسے اہم مسائل پر وقت اور حالات کی گرد کی دبیز تہہ چڑھ چکی تھی۔ لائن آف کنٹرول پر بدترین سرحدی خلاف ورزیاں جاری تھیں جن کی شدت میں دن بدن اضافہ ہو رہا تھا پاک بھارت تعلقات کے ضمن میں سویلین حکومت اور فوج کے نقطہ ہائے نظر متصادم ہونے کے امکانات تھے۔
مغربی سرحدوں پر امریکہ اور نیٹو افواج افغانستان سے انخلاءکے معاملے میں الجھی ہوئی تھیں۔ سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے تعلقات میں دراڑیں تو عرصہ دراز سے موجود تھیں لیکن اس دور میں صورتحال شاید بدترین تھی۔ ڈرون حملوں کے نتیجے میں نیٹو سپلائی کو پرتشدد مزاحمت کا سامنا تھا۔ امریکی عسکری قیادت اور ایساف کمانڈر کے پاکستانی فوجی قیادت سے تعلقات سرد مہری اور تلخی کی آخری حدوں کو چھو رہے تھے۔
کیری لوگر بل، قضیہ آپریشن، جیرونیمو اور میمو گیٹ جیسے واقعات کا اعادہ ناممکن نہیں تو بعید از قیاس بھی نہیں تھا۔ جنرل راحیل شریف کے لئے پاک امریکہ تعلقات اور عسکری امریکی امداد بڑے امتحانات تھے۔
پاکستان میں جمہوریت کے پنپنے کا عمل جاری تھا اور فوج پر بیرونی عناصر کے ایماءاور دیگر وجوہات کی بناءپر شدید تنقید کا سامنا تھا۔
خواجہ محمد آصف، محمود اچکزئی، اسفند یار ولی اور ان کے ہمنوا نے اُدھم مچا رکھا تھا۔ الطاف حسین آگ اُگل رہے تھے۔ اس صف میں آصف زرداری بھی شامل ہوگئے۔ جنرل راحیل شریف کی فوج اور سول حکومت کے درمیان معاملات افہام و تفہیم سے چلانے اور کسی بھی غیر آئینی اقدام کے امکانات کو صفر تک محدود رکھنے کا امتحان شروع ہو چکا تھا۔ جنرل راحیل شریف فطری طور پر مہم جُو نہیں اور نہ ہی احکامات کی بجا آوری میں آزاد منش تھے بہرحال ارض پاک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت ان کا اولین فرض تھا۔
کراچی کے آتش بداماں حالات اور اندرون سندھ حکومتی وانتظامی مسائل کے انبوہ نے اہلیان سندھ کو مسلسل دردِسر میں مبتلا کر رکھا تھا۔ اندرون سندھ میں فوج کی توجہ شاید ماضی کے ناخوشگوار تجربات کی وجوہ کی بنا پر مرکوز نہیں تھی۔ البتہ شہری سندھ بالخصوص کراچی میں انسانی خون کی ارزانی عروج پر تھی۔ لسانی ونسلی قوتیں بہروپ بدل کر اہلیانِ کراچی پر ظلم وستم ڈھا رہی تھیں جس میں مذہبی اور سیاسی قوتیں بھی حسبِ توفیق شامل تھیں۔ جنرل راحیل شریف کو معلوم تھا کہ ایم کیو ایم کی خون آشام سیاست نے شہری سندھ کو بُری طرح متاثر کر رکھا ہے اور لیاری وار گینگ وغیرہ جیسے متشدد گروہ سرگرمِ عمل ہیں۔
اندرونِ سندھ ڈاکوﺅں کے گروہوں نے لوگوں کی زندگی اجیرن کر رکھی تھی جنہیں سیاسی شخصیات کی سرپرستی اور تحفظ حاصل تھا۔ شہری سندھ مختلف مافیا گروہوں کی زد میں تھا جس نے روشنیوں کے شہر کو ویرانیوں میں بدل دیا تھا۔ اس لہو رنگ شہر میں عام وخاص گولیوں کا نشانہ بن رہے تھے بلکہ خون میں نہلانے اور موت کی نیند سُلانے کا بے رحمانہ کھیل جاری تھا۔
(جاری ہے)


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain