تازہ تر ین

”جب تک آصف زرداری اصل سربراہ بلاول بھٹو جتنی بھی کوشش کریں پنجاب میں پی پی کو کامیاب کرانا ممکن نہیں“ نامور اخبار نویس ضیا شاہد کی چینل ۵ کے پروگرام میں دبنگ گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) خبریں گروپ کے چیف ایڈیٹر، سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ ورلڈ اکنامک فورم بہت بڑا فورم ہوتا ہے۔ ایسے موقع پر پاکستان کا سافٹ امیج دینے کے اچھے ثمرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کا سافٹ امیج باہر دینے کے ساتھ ساتھ ملک کو اس طرح کا بنانا چاہئے کہ یہاں آتے ہوئے خوفزدہ نہ ہوں۔ بدقسمتی سے دنیا بھر میں گزشتہ 8 برس سے پاکستان کے خلاف دہشتگردی کی خبریں شائع ہو رہی ہیں۔ چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکہ میں ٹی وی پر سرکاری اشتہار آتے ہیں کہ عوام فلاں فلاں جگہ اپنے رسک پر جائیں وہاں خطرہ ہے، جن میں پاکستان سرفہرست ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں سرمایہ کار یہاں نہیں آئیں گے۔ دنیا میں پاکستانکا امیج بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی ایک بڑی جماعت ہے۔ لاول بھٹو نئے لیڈر بن کر ابھرے ہیں۔ ایک بار لوگوں کی توجہ ان پر ضرور مبذول ہو گی لیکن جب تک عملی طور پر پی پی کے سربراہ آصف زرداری ہیں تو ان کے خلاف جو پروپیگنڈا ہے وہ بلاول کے سرپر بوجھ رہے گا۔ آصف زرداری کو چاہئے کہ وہ مستقل طور پر دبئی یا لندن میں رہائش پذیر ہو جائیں اور بلاول کو موقع دیں۔ لوگوں کو بلاول میں نانا کی جھلک اور ان کی والدہ محترمہ بینظیر کی خوشبو آتی ہے۔ اگر بلاول کو زرداری کی بی ٹیم بن کر ہی چلنا ہے تو گزشتہ روز کی ریلی میں ان کے ساتھ 10، 15 ہزار لوگوں کا جمع ہو جانا بھی بڑی بات ہے۔ بدقسمتی سے گزشتہ چند برسوں میں پنجاب کے عوام میں پی پی کا معیار بہتر ہونے کے بجائے خراب ہوا ہے۔ ہو سکتا ہے بلاول تحریک میں جان ڈال دیں، ان پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں۔ بلاول کو ذوالفقار بھٹو کی طرح عوامی مسائل کے حل کے لئے کوئی واضح پلان دینا ہو گا۔ پنجاب میں بھٹو کو اگر 80 فیصد عوام پسند کرتے تھے تو آج پی پی کے حق میں 15 فیصد سے زیادہ عوام نہیں ہوں گے۔ پنجاب میں ذوالفقار بھٹو کا بہت گہرا اثر تھا، ان کا روٹی، کپڑا، مکان کا نعرہ، قومی اور بھارت کے خلاف سلوگنز کو بہت مقبولیت ملی تھی۔ انہوں نے انتہائی خوبصورتی اور ذہانت سے عوام کے دکھوں پر ہاتھ رکھا تھا، لوگ ان کو پوجنے جاتے تھے۔ ذہین آدمی تھے سارے طبقوں کو ساتھ لے کر چلتے تھے۔ لیکن آج کی پیپلزپارٹی کا دور دراز تک بھٹو سے کوئی تعلق نہیں۔ پی پی کو 5 سال حکومت کرنے کا موقع ملا، جس دوران آصف زرداری کی جانب سے اسامہ بن لادن کو کیفر کردار تک پہنچانے کا خط بھی چھپا، امریکی اخبارات میں انہوں نے خوشی کا اظہار بھی کیا۔ انہوں نے بعض دوسرے معاملات میں بھی ایسے اقدامات کئے جن کو عوام نے پسند نہیں کیا۔ یوسف رضا گیلانی کا دور بھی کرپشن سے بھرا ہوا تھا۔ یوسف رضا گیلانی الزامات کی تردید کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ جوڈیشری کی روایت رہی ہے کہ پی پی کے خلاف اور پنجاب کے حق میں جانا ہے۔ جتنی باتیں اب وزیراعظم نوازشریف کے خلاف کی جا رہی ہیں، اس کا دسواں حصہ بھی ان کے خلاف نہیں تھا لیکن یکے بعد دیگرے ان کے دو وزرائے اعظم کو نکال باہر کیا۔ ضیا شاہد نے کہا کہ بھٹو کے زمانے میں لاہور شہر میں علامہ اقبال کے داماد میاں صلاح الدین اور ان کے بیٹے جاوید اقبال کو انتہائی قابل احترام شخصیت سمجھا جاتا تھا لیکن علامہ اقبال کا بیٹا بھٹو کے امیدوار کے مقابلے میں ہار گیا تھا۔ آج ملک بھر میں کوئی اس بات پر یقین نہیں کرتا کہ پی پی ن لیگ کی بی ٹیم نہیں ہے۔ پی پی نے اچھی اور موثر سیاسی جماعت ہونے کے باوجود لندنن میں میثاق جمہوریت پر دستخط کر کے بڑی غلطی کی، جس کے تحت باریاں بانٹ لی گئیں، وزرائے اعلیٰ، چیئرمین نیب اور الیکشن کمیشن کے سربراہ کی تعیناتی مل کر کرنے کا معاہدہ کر لیا، یہ اپوزیشن کا کام نہیں ہوتا۔ عمران خان میں ایک کروڑ خرابیاں ہوں گی لیکن صرف انہی کی پارٹی ہے جو مخالفت برائے مخالفت کر رہی ہے۔ ایسے لوگ اپوزیشن سمجھتے ہیں، پی پی کو کوئی اپوزیشن نہیں سمجھتا۔ پنجاب میں پیپلزپارٹی کو واضح سوچ دیئے بغیر دوبار زندہ نہیں کیا جا سکتا۔ قائدین سر جوڑ کر بیٹھیں، عوامی مسائل سمجھیں اور ان کے حل کے لئے پلان دیں۔ 1970ءمیں فیصل آباد کے انتخابات میں 100 فیصد سیٹیں بھٹو کی تھیں، ان کے جانے کے بعد وہیں پر گھڑیاں رکی ہوئی ہیں۔ آج بہت سے لوگ ہنستے ہیں کہ بلاول کو چھوڑو جو کرنا ہے زرداری نے کرنا ہے اور اس کا نوازشریف سے مک مکا ہوا ہے۔ ملک میں بھی ایسی ہی فضاءہے کہ پیپلزپارٹی اور نون لیگ اندر سے ایک ہیں۔ پیپلزپارٹی کے رہنما منظور احمد وٹو نے کہا ہے کہ بلاول کی سربراہی میں تحریک کا آغاز ہو چکا ہے۔ یو ٹرن نہیں ہے۔ 4 مطالبات تسلیم ہونے تک تحریک جاری رہے گی۔ نوازشریف کے ساتھ ہاتھ ملا کر نہیں چلا جا سکتا، راستے جدا جدا ہو چکے ہیں۔ پیپلزپارٹی نے بلاول کے اعلان پر 13,12 سال کے بعد تحریک چلائی ہے۔ گزشتہ روزکی ریلی میں لاہور سے فیصل آباد تک بلاول کو زبردست استقبالیہ ملا۔ پی پی کی مصالحتی پالیسی کی وجہ سے مایوس کارکن گھروں سے نکل آئے ہیں اور بلاول پر اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔ چینل ۵ کے نمائندہ لاہور امین اسماعیل نے کہا ہے کہ جمعرات کو پیپلزپارٹی کی ریلی کی صورتحال مایوس کن رہی۔ بلاول 2 گھنٹے قافلوں کا انتظار کرتے رہے پھر چندکارکنوں کے ہمراہ بلاول ہاﺅس سے ریلی لے کر چلے۔ ٹھوکر نیاز بیگ پر بلاول نے خطاب کرنا تھا لیکن وہاں ایک بھی جیالا ان کے استقبال کے لئے نہیں پہنچا۔ شیخوپورہ میں 15 سے20 ہزار کارکنوں نے ان کا استقبال کیا اور پھول نچھاور کئے۔ خواتین کی بھی بڑی تعداد موجود تھی۔ ریلی میں پی پی کے سابق وزرائے اعظم سمیت سینئر قیادت موجود نہیں تھی۔ اعتزاز احسن تھوڑی دیر کے لئے بلاول ہاﺅس آئے لیکن وہ بھی 20,15 منٹ بعد وہاں سے چلے گئے۔ پی پی انتظامیہ ریلی کیلئے بہتر انتظام کرنے میں ناکام رہی۔ چینل ۵ کے نمائندہ فیصل آباد سجاد حیدر نے کہا ہے کہ پی پی ریلی کی صورتحال فیصل آباد میں بھی مایوس کن رہی۔ جتنی بڑی تعداد میں کارکنوں کی شرکت کا کہا گیا تھا ویسا نہیں ہوا۔ چھوٹے سے چوک میں سٹیج سجایا گیا۔ فیصل آباد سے پی پی قیادت دوسری پارٹیوں میں شامل ہو چکی ہے۔ ریلی کو لیڈ کرنے کیلئے یہاں کوئی لیڈر ہی موجود نہیں تھا۔ راجہ ریاض بھی تحریک انصاف میں شامل ہو چکے ہیں لیکن اب وہ وہاں بھی ناراض دکھائی دے رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی نے بلدیاتی انتخابات میں فیصل آباد میں صرف 6 کونسلرز کی سیٹیں جیتیں۔ پی پی کو جو صورتحال پورے پنجاب میں ہے ویسی ہی فیصلل آباد میں ہے۔


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain