تازہ تر ین

”22ٹن کوئلہ غائب, افسوسناک واقعہ ذمہ داران کو فوری سزا دی جائے“ نامور صحافی کی چینل ۵ کے مقبول ترین ٹاک شو میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے گورنر سندھ کی تعیناتی کیلئے یقینا پیپلزپارٹی کے مشاورت کی ہو گی۔ گورنر وفاق کا نمائندہ ہوتا ہے اس لئے آئینی طور پر وفاق اس کی تعیناتی کیلئے کسی سے بھی مشاورت کا پابند نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ حکومت نے گورنر کی تعیناتی کیلئے ایم کیو ایم سے بھی مشاورت نہ کی ہو۔ محمد زبیر ایک مہذب اور معتدل مزاج کے حامل شخص ہیں، وہ کسی کیلئے بھی مشکلات کا باعث نہ بنیں گے، ن لیگ نے اچھے بندے کو منتخب کیا ہے۔ سینئر صحافی نے کہا کہ ماضی میں غیر سیاسی اور غیر جماعتی سیاسی گورنر لگائے جاتے تھے جس کے پیچھے ایک سیاسی روایت تھی اور یہ سمجھا جاتا تھا کہ غیر سیاسی گورنر ہو گا تو وہ صوبائی حکومت کیلئے رکاوٹیں کھڑی نہیں کرے گا۔ دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ کسی صوبے کو صرف ایک ہی سیاسی جماعت کے سپرد نہ کر دیا جائے اب ایسی صورتحال نہیں ہے اور تمام صوبوں میں حکمران پارٹی کی مطلق العانی بھی نظر آتی ہے۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ ساہیوال جانے والی ٹرین کی ایک بوگی سے 22 ٹن کوئلے کا غائب ہو جانا اچنبھے کی بات ہے۔ اتنی بڑی مقدار میںکوئلے کا غائب ہو جانا حیرت انگیز ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ دنیا کے بہت سے حصے خانہ جنگی کی لپیٹ میں آ چکے ہیں۔ آج کل کی سیاسی جماعتیں چلتی ہی بدمعاشوں کے سر پر ہیں، بابا لاڈلا جیسے لوگ بھی ایک مقصد کے تحت پالے جاتے ہیں ان کے ذریعے سیاسی مخالفوں کو مارا پیٹا اور مروا بھی دیا جاتا ہے۔ ایسے کرداروں کے گرد بدمعاشوں کا جمگٹھا ہوتا ہے جو مستقل ان کے ساتھ رہتے ہیں۔ ان لوگوں کی سرکاری محکموں میں بھرتی کرا دیا جاتا ہے جہاں یہ صرف تنخواہ لینے جاتے ہیں اور کام صرف بدمعاشی ہوتا ہے۔ سینئر صحافی نے کہا کہ جب کسی شخص کو سنیٹر منتخب کیا جاتا ہے تو اس کے ذمے بڑے اہم فرائض ہوتے ہیں اس لئے اسے مشیر یا وزیر لگانے کی کیا ضرورت ہے۔ سنیٹر کو صرف اپنا کام کرنا چاہئے۔ چونکہ ہمارے یہاں جمہوریت کا صرف لیبل ہے اور اس کے نیچے اصل میں بادشاہت ہے۔ ایوان زیریں و بالا میں ارکان کا اصل کام قانون سازی اور بجٹ سازی ہے لیکن ہمارے ارکان اسمبلی اور سنیٹرز کا مطمع نظر کچھ اور ہی ہوتا ہے۔ وہ ایوانوں میں قانون سازی کیلئے نہیں آتے بلکہ سرکاری کھاتے میں بدمعاشی اور دادا گیری کی خواہش لئے آتے ہیں۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ عام آدمی کا تو پاکستان میں پرسان حال ہی کوئی نہیں ہے۔ ہماری لندن کی نمائندہ شمع جونیجو کے بہنوئی کراچی کے کلفٹن ضیا الدین ہسپتال میں زیر علاج تھے 10 لاکھ روپے ادا کر کے آپریشن کرایا لیکن جانبر نہ ہو سکے۔ ہسپتال والوں نے صرف 73 ہزار روپے جو ان کے ذمے ابھی باقی تھے کے لئے ان کی میت کو روک لیا۔ ہسپتال انتظامیہ کے رویے کے خلاف قریبی تھانہ میں رپورٹ کرنا چاہی تو پولیس والوں نے کانوں کو ہاتھ لگایا اور کہا کہ کسی صورت آصف زرداری کے قریبی دوست ڈاکٹر عاصم کے ہسپتال کے خلاف درخواست درج نہیں کر سکتے۔ اب جس ملک میں یہ کچھ ہو رہا ہے وہاں کیا بات ہو سکتی ہے۔ پیپلزپارٹی کے سنیٹر سعید غنی نے کہا کہ بدقسمتی سے عدالتوں کا رویہ پیپلزپارٹی کے ساتھ کچھ اور ہوتا ہے اور ہمارے مخالفین کے لئے رویہ مختلف ہوتا ہے۔ اس وقت بھی وفاق میں 5 مشیر اور سات آٹھ خصوصی معاون ہیں جن کو وزیر کا سٹیٹس بھی حاصل ہے جبکہ سندھ میں ہمیں تو وزیر کا سٹیٹس بھی حاصل نہ تھا۔ عدالت میں پٹیشن دائر ہو تو عام طور پر پہلے نوٹس جاری کیا جاتا ہے لیکن ہمارے معاملے میں تو اس کی ضرورت بھی محسوس نہ کی گئی میں نے چیلنج کے طور پر مشیر کا عہدہ لیا تھا اور ادارے میں کافی حد تک بہتری لانے میں بھی کامیاب ہوا لیکن ادارے ہی کے کرپٹ افسران نے میرے خلاف عدالت میں پٹیشن دائر کر دیں۔ یہی افسران مجھے کروڑوں کی آفر کرتے رہے جو میں نے ٹھکرا دی تو یہ دن دیکھنا پڑا۔ پچھلے ڈیڑھ دو ہفتوں سے تو یوں محسوس ہوتا تھا کہ میرے ہاتھ پاﺅں باندھ کر کرپٹ عناصر کے آگے پھینک دیا گیا ہے۔ اس بات کا زیادہ افسوس ہوا کہ عدالت نے دوسرے فریق کا موقف تک سننا گوارا نہ کیا۔ خود کو بے بس محسوس کر رہا تھا اس لئے مستعفی ہو گیا کیونکہ عزت بچانے کا یہی آخری راستہ تھا۔ پہلے مرکز میں سابق چیف جسٹس افتخار چودھری ہمارے لئے مسائل پیدا کرتے تھے اب سندھ کی عدالتوں نے یہ کام شروع کر رکھا ہے۔ ہم جو کام کرنا چاہیں اس میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہے۔ عدالتی فیصلوں سے کرپٹ عناصر کو فائدہ ہوا ہے۔ میں چیلنج کرتا ہوں کہ کمیشن بنایا جائے جو چیک کرے کہ ادارے کی کارکردگی میری موجودگی میں بہتر ہوئی تھی یا نہیں۔ کراچی سے تجزیہ کار وحید جمال نے کہا کہ سینئر وزیر نہیں بن سکتا صرف مشیر بن سکتا ہے۔ چند ہفتے قبل ہائیکورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ 18 ویں ترمیم کے تحت ایک خاص تعداد میں ہی مشیر رکھے جا سکتے ہیں اور ان مشیروں کو فوری ہٹانے کا حکم دیا۔ صورتحال یہ تھی کہ ان مشیروں نے دفاتر جانا تو بند کر دیا لیکن کام کرنا جاری رکھا تھا۔ اب کورٹ کا حکم آنے کے بعد مستعفی ہوئے ہیں۔ ”خبریں“ کے ساہیوال سے نمائندہ سہیل بہادر بھٹی نے کہا کہ کراچی سے کوئلہ لے کر دوسری ٹرین ساہیوال پہنچی تھی، کوئلے کی چوری کی اطلاع ملنے پر وہاں موجود چینی باشندے بھی پریشان ہوئے اور انہوں نے ریلوے حکام سے اس بابت سوال کئے تو جواب صرف آئیں بائیں شائیں تھا۔ چینی باشندوں کی جانب سے مسلسل اصرار پر ریلوے حکام نے بتایا کہ چنی گوٹھ اور بہاولپور کے درمیان ایک سٹیشن پر ایک گوگی کے لیور لوز ہو گئے جس کے باعث کوئلہ آہستہ آہستہ راستے میں گر گیا۔


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain