تازہ تر ین

ایم کیو ایم کے مرکزی رہنما سلیم شہزاد کو بھی بچا لیا جائےگا مگر کیسے ؟….صورتحال واضح ہو گئی

کراچی (خصوصی رپورٹ) سلیم شہزاد کی واپسی مکمل انڈرسٹینڈنگ سے ہوئی ہے اور وہ پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کو اعتماد میں لے کر کراچی پہنچے ہیں۔ اس ڈویلپمنٹ سے آگاہ ذرائع کے مطابق لندن سے کراچی آنے سے قبل دبئی میں سلیم شہزاد کے مختصر قیام کا مقصد ان ہی معاملات کو آخری شکل دینا تھا۔ دبئی میں سلیم شہزاد کے نہ صرف پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ رابطے ہوئے بلکہ انہوں نے سابق گورنر سندھ عشرت العباد اور سابق آمر مشرف سے بھی ملاقاتیں کیں اور یہ کہ ”کارآمد“ صلاح مشورے کے بعد کراچی کے لئے اڑان بھری جہاں طے شدہ پلان کے تحت انہیں پیپلزپارٹی کے ایک منظور نظر افسر نے گرفتار کیا۔ دوسرے دن عدالت میں پیش کرکے جوڈیشل ریمانڈ پر 18 فروری تک جیل بھجوا دیا۔ ذرائع کے مطابق تفتیشی افسر کی طرف سے ملزم کے جسمانی ریمانڈ کا اصرار نہ کرنا اس سمجھوتے کا حصہ تھا جس کے تحت سلیم شہزاد کی واپسی ہوئی ہے۔ عدالت میں رینجرز کے لاءافسر نے تفتیشی عمل سے گزارے بغیر سلیم شہزاد کو جیل بھیجنے کا راستہ ہموار کرنے کے معاملے کو تفتیشی افسر کی بدنیتی قرار دیا۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ سلیم شہزاد کی واپسی سے ڈاکٹر عاصم کے خلاف دہشت گردوں کو تحفظ دینے اور ان کا علاج کرنے سے متعلق کیس اب تیزی سے آگے بڑھے گا۔ اس کیس میں ڈاکٹر عاصم اور دیگر چار ملزمان ایم کیو ایم کے وسیم اختر اور رﺅف صدیقی‘ پیپلزپارٹی کے قادر پٹیل اور پاسبان کے عثمان معظم کی ضمانتیں پہلے ہی منظور ہوچکی ہیں جبکہ کیس کے چھٹے ملزم سلیم شہزاد کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے عدم حاضری پر اشتہاری ملزم قرار دے رکھا تھا۔ کیس سے جڑے ذرائع کے بقول اب کوٹہ مکمل ہوچکا ہے۔ اس کیس میں سلیم شہزاد کی ضمانت بھی جلد ہی ہو جائے گی کیونکہ جب ایک کیس میں بہت سے ملزمان کی ضمانتیں ہوچکی ہوں تو قانونی طور پر باقی ملزمان کی ضمانت بھی آسانی سے ہوجاتی ہے۔ اس کیس کی سماعت کے موقع پر ہر بار آئی او کو عدالت ہدایت کرتی تھی کہ مفرور ملزم سلیم شہزاد کو پیش کیا جائے۔ اب یہ ٹنٹا ختم ہوچکا ہے سج کے سبب کیس آگے بڑھانے میں تاخیر ہورہی تھی۔ ذرائع کے مطابق اگرچہ عدالت ایک مرحلے پر آکر اشتہاری ملزم کی غیرموجودگی میں بھی باقی ملزمان کے خلاف کیس چلا کر فیصلہ سنا سکتی تھی لیکن اب یہ مرحلہ پیش نہیں ہوسکا اور کیس بھی تیزی سے آگے بڑھے گا جبکہ اس میں شامل کسی ملزم کا معاملہ التوا کا شکار نہیں رہے گا۔ پیپلزپارٹی کی قیادت پر امید ہے کہ بعض قانونی موشگافیوں کے نتیجے میں تمام ملزمان بری ہوجائیں گے۔ لندن میں موجود ذرائع نے بتایا کہ اگرچہ سلیم شہزاد پچھلے چند ماہ سے واپس آنے کی کوششیں کررہے تھے لیکن انہیں پالیسی سازوں کی طرف سے گرین سگنل نہیں مل رہا تھا جس کے بعد انہوں نے پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ رابطہ کرکے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ یہ رابطہ کرانے میں سابق گورنر سندھ عشرت العباد نے بھی رول ادا کیا۔ جیسا کہ بیان کیا جاچکا ہے کہ ڈاکٹر عاصم کے خلاف دہشت گردوں کی سہولت کاری سے متعلق کیس کو تیزی سے منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے پیپلزپارٹی کو بھی سلیم شہزاد کی ضرورت تھی جو اب پوری کرلی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ طے تھا کہ ایئرپورٹ پر سلیم شہزاد کی ڈرامائی گرفتاری پولیس کے ہاتھوں ہوگی۔ رینجرز کو یہ موقع نہیں دیا جائے گا۔ گرفتاری کے بعد سلیم شہزاد سے ملزمان جیسا سلوک نہیں کیا جائے گا۔ تفتیشی افسر جسمانی ریمانڈ پر اصرار نہیں کرے گا اور یہ کہ ڈاکٹر عاصم کیس میں ضمانت کے بعد سلیم شہزاد کو جن دیگر مقدمات کا سامنا ہے‘ اس میں بھی قانون کے مطابق جتنی سہولت دی جا سکتی ہے‘ وہ دی جائے گی۔ سلیم شہزاد کے خلاف ڈاکٹر عاصم کیس کے علاوہ دیگر 23کیسز درج تھے۔ ان میں سے تین جوہرآباد تھانے اور دیگر تین مقدمے کراچی کے مختلف پولیس سٹیشنوں میں درج ہیں۔ میجر کلیم کیس سمیت 4مقدمات میں بری کیا جا چکا ہے جبکہ 14کیس این آر او کے تحت بند کر دیئے گئے تھے۔ اگرچہ سپریم کورٹ کی جانب سے این آر او کو کالعدم قراردیئے جانے کے بعد سارے مقدمات کھل چکے ہیں تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ ان میں سے بیشتر کیسوں کی فائلیں ایم کیو ایم نے اپنے اچھے وقتوں میں غائب کرا دی تھیں۔ ان میں سلیم شہزاد کے 14کیسوں کی فائلیں شامل ہیں‘ لہٰذا یہ امکان معدوم ہے کہ ان کے خلاف ان مقدمات کو چلایا جا سکے۔ یوں چند ماہ کی جیل کے بعد سنگین مقدمات میں مطلوب ملزم آزاد فضا میں سانس لے رہا ہو گا۔ ادھر اقتدار کی راہداریوں تک رسائی رکھنے والے ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر عاصم کی رہائی پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کی اولین ترجیح بن چکی ہے۔ ڈاکٹر عاصم کے خلاف فوجداری کا واحد مقدمہ دہشت گردوں کی سہولت کاری اور ان کے علاج سے متعلق تھا۔ اس کیس سے نجات کی صورت میں ان پر نیب کی طرف سے دائر کرپشن کے دو بڑے مقدمات باقی بچیں گے‘ اس کیلئے پس پردہ پی پی قیادت کی حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) سے بات چل رہی ہے اور یہ خارج از امکان نہیں کہ ان کیسوں کا بھی وہی انجام ہو جو سابق صدر آصف زرداری کے بہنوئی منور تالپور کے خلاف جاری انکوائری کا ہوا ہے۔ واضح رہے کہ میر منور تالپور کے خلاف نیب نے غیرقانونی اثاثے بنانے کے الزام کی انکوائری یہ کہہ کر بند کر دی ہے کہ ٹھوس شواہد نہیں مل سکے۔ یہ انکوائری پچھلے دو برس سے جاری تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی عام انتخابات سے قبل اپنے کراچی ڈویژن کے صدر ڈاکٹر عاصم کو ہر صورت قید سے باہر لانا چاہتی ہے تاکہ ایم کیو ایم میں ٹوٹ پھوٹ کا سیاسی فائدہ اٹھا کر سندھ کے شہری علاقوں کی چند سیٹیں اپنی جھولی میں ڈال سکے۔ ان ذرائع کے بقول بالخصوص ضمنی انتخاب میں ملیر کی قومی اسمبلی کی نشست حاصل کر لینے کے بعد پیپلزپارٹی کے حوصلے خاصے بلند ہیں جبکہ دوان قید ہی ڈاکٹر عاصم کو کراچی میں پارٹی کا صدر منتخب کرانے سے پیپلزپارٹی کے اس یقین کی عکاسی ہوتی ہے کہ وہ زیادہ دیر سلاخوں کے پیچھے نہیں رہیں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دوران قید ڈاکٹر عاصم کو کراچی ڈویژن کا صدر براہ راست آصف زرداری کی ہدایت پر بنایا گیا تھا۔ اس کا ایک مقصد انہیں سیاسی شیلٹر دینا بھی تھا‘ جبکہ پی پی قیادت عام انتخابات سے قبل انہیں میدان میں اتار کر ان شہری علاقوں میں جہاں ایم کیو ایم کا ووٹ بینک کمزور ہے مہاجروں کے ہمدردی کے ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس پلان کو مزید مضبوط بنانے کیلئے ہی سابق گورنر سندھ عشرت العباد کو پیپلزپارٹی میں شامل ہونے کی پیشکش کی گئی ہے‘ تاہم ذرائع کا کہنا ہے یہ معاملہ ابھی حتمی مرحلے میں داخل نہیں ہوا ہے۔ اعلیٰ سکیورٹی حلقوں سے جڑے ذرائع کا کہنا ہے کہ اگرچہ پیپلزپارٹی ڈاکٹر عاصم کو بچانے کی حددرجہ کوششیں کر رہی ہے تاہم نیب کی طرف سے دائر کرپشن کے مقدمات میں شواہد اس قدر مضبوط ہیں کہ اگر اس کا فیصلہ سیاسی طریقے سے کرانے کی کوشش کی گئی تو سخت کشیدہ صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ ان ذرائع کے بقول پیپلزپارٹی سلیم شہزاد کی واپسی کا راستہ ہموار کر کے صرف اتنا ہی کام لے گی‘ جتنا اسے مطلوب ہے‘ بعدازاں سلیم شہزاد کو ایم کیو ایم پاکستان یا پی ایس پی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا۔ ایم کیو ایم کے یہ دونوں باغی گروپ فی الحال سلیم شہزادکو لینے سے گریزاں ہونے کا تاثر دے رہے ہیں‘ لیکن سلیم شہزاد اس وقت سے ہی دونوں گروپوں کے ساتھ رابطے میں ہیں جب وہ لندن میں تھے۔ لندن میں موجود ذرائع نے بھی اس کی تصدیق کی ہے۔ ان ذرائع کے مطابق بالخصوص پی ایس پی کے رضا ہارون لندن میں سلیم شہزاد کے ہم نوالہ وہم پیالہ ہوا کرتے تھے اور یہ کہ دونوں میں اب بھی گاڑھی چھنتی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دوسری ایم کیو ایم پاکستان کی بھی خواہش ہے کہ سلیم شہزاد ان کے گروپ کو جوائن کرلیں۔کیونکہ بالخصوص اورنگی ٹاﺅن میں پی ایس پی کے مضبوط نیٹ ورک سے نمٹنے کے لیے جہاں بڑی تعداد میں محصور ین رہائش پذیر ہیں، انہیںسلیم شہزاد کی اشد ضرورت ہے۔ کیونکہ سلیم شہزاد کو نہ صرف بہاری ہونے کا ایڈوانٹیج حاصل ہے بلکہ وہ ماضی میں غیر منقسم ایم کیوا یم کا قتل و غارت پر مشتمل نیٹ ورک بھی چلاتے رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اس وقت ایم کیو ایم پاکستان کو سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ درپیش ہے کہ بیشتر نامی گرامی ٹارگٹ کلرز اور دہشت گرد ڈرائی کلین ہوکر پی ایس پی جوائن کرچکے ہیں ، جبکہ لوگوںکوڈرانے والاکوئی قابل ذکر فیگر ایم کیو ایم پاکستان کے پاس نہیں۔سلیم شہزاد 92ءکے آپریشن میں جعلی دستاویزات پر ملک سے فرار ہوئے تھے۔ انہیں یہ جعلی ڈاکو منٹس نصیرآباد کے نزدیک واقع عابد اسکوائر میں مقیم ایک ٹریول ایجنٹ نے بناکردئیے تھے۔ وہ گزشتہ 24 برس تک خودساختہ جلاوطنی کاٹتے رہے ۔اس دوران دوبار ان کا کراچی آنا ہوا لیکن یہ قیام بہت مختصر تھا۔ سیلم شہزاد کے ایک قریبی ذریعے نے بتایا کہ شروع میں ایم کیو ایم کا قتل و غارت سے متعلق نیٹ ورک چلانے والے بالی اور گوگا کے انچارج سلیم شہزاد ہی ہوا کرتے تھے۔ میجر کلیم پر تشدد کے بقول 92ءکے آپریشن کے دوران سلیم شہزاد براہ راست لندن نہیں گئے تھے بلکہ انہوں نے دبئی میں ڈیرہ ڈال لیا تھا، جہاں وہ خود بھی کاروبار کی آڑ میں شراب کے کنٹینر کراچی بھیجنے کا دھندہ شروع کیا تھا، جلد ہی یہ کام چل نکلا۔ ان دنوں عامرخان بھی دبئی میں کاروں کا بزنس کررہے تھے ۔ایم کیو ایم حقیقی بن چکی تھی۔ عامرخان کا دبئی اور کراچی آنا جانا رہتا تھا ۔ سلیم شہزاد بھی ان سے رابطے میں رہتا ذریعے کے بقول یہ سن گن ہونے پر پارٹی قیادت کی جانب سے سلیم شہزاد کو لندن آنے کی اجازت نہیں مل رہی تھی۔ تاہم چند برس بعد بغیر اجازت سلیم شہزاد لندن پہنچے تو انہیں گھاس نہیں ڈالی گئی۔ اس وقت تک ایم کیو ایم لندن پر محمد انور کی گرفت مضبوط ہوچکی تھی۔ سلیم شہزاد کی خواہش تھی کہ وہ محمد انور کے ترتیب دئیے گئے سسٹم میں داخل ہوجائیں کہ اس میں مال پانی بہت تھا۔ پھر یہ کہ محمد انور کے سسٹم کا حصہ بن جانے کی صورت میں کراچی میں بھی کنٹرول ہوجاتا تاہم سلیم شہزاد کی کوشش کامیاب نہیں ہوسکی اور محمد انور نے انہیں الطاف حسین کے قریب نہیں ہونے دیا۔ذریعے کے بقول کبھی کبھار الطاف حسین کے ساتھ سلیم شہزاد کا فوٹو سیشن ضرور ہوجایا کرتا تھا لیکن ساتھ ہی دوسرے روز ان کی معطلی کی خبر آجاتی۔ اپنے لندن کے قیام کے دوران سلیم شہزاد کو اوسطاً ہر ماہ معطلی کا سامنا رہتاتھا تاہم میڈیا میں ان کی معطلی کی چند ہی خبریں آیا کرتی تھیں ۔ ذرائع کے مطابق بالخصوص 2010ءسے سلیم شہزاد کے لئے حالات مزید کٹھن ہوگئے تھے۔ مسلسل چار برس تذلیل سہنے کے بعد 2004ءمیں دبئی آکر سلیم شہزاد نے اعلان بغاوت کیا اور کہا کہ وہ جلد ہی ایم اکیو ایم میں موجود مافیا کوبے نقاب کریں گے لیکن اس کی نوبت نہ آسکی اور ایک بار پھر سلیم شہزاد معافی تلافی کرکے الطاف حسین کے چرنوں میں جا بیٹھے۔تاہم سلیم شہزاد مخالف لابی نے جلد ہی انہیں پھر کھڈے لائن لگوادیا۔2015ءمیں حد درجہ مایوس سلیم شہزاد نے سیاست سے کنارہ کشی کااعلان کردیا ، لیکن حسب عادت وہ اپنی اس بات پر بھی قائم نہ رہ سکے۔ 22اگست 2016ءکے بعد ایم کیو ایم پاکستان وجود میں آئی تو انہوں نے محب وطنی کا نعرہ لگا کر فاروق ستار کے ساتھ چلنے کا اعلان کردیا۔ ذریعے کے مطابق اس کے بعد سے وہ مسلسل پاکستان واپسی کے راستے تلا ش کررہے تھے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain