تازہ تر ین

فوجی عدالتوں کی توسیع خوش آئند ، نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد شروع کریں

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ حکومت فوجی عدالتوں کی توسیع میں کامیاب ہو گئی ہے، شاید اس سے آگے کوئی اور کام نہیں ہو سکے گا۔ راحیل شریف بھی کہتے کہتے ریٹائرڈ ہو گئے جبکہ موجودہ آرمی چیف بھی کہتے رہتے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے بغیر دہشتگردی کے خلاف کارروائی کا عمل ختم نہیں ہو سکتا۔ ناصر جنجوعہ سے ایک بریفنگ میں سمجھا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان کے 20 میں سے 9 نکات پر عملدرآمد نہیں ہو رہا، جن میں دینی مدارس، سہولت کاروں، سیاستدانوں کی پشت پناہیاں اور کرپشن کے پیسوں سے دہشتگردوں کو خریدنے سمیت دیگر نکات ہیں۔ حکومت نے ان نکات پر عملدرآمد کے لئے ایک قدم بھی نہیں بڑھایا اگر بڑھایا ہے تو آرمی چیف اعلان فرما دیں، خوش آئند بات ہے۔ وزیراعظم کی جانب سے پنجاب میں گیس لائن توسیع کے 97 منصوبے شروع کرنے کے حوالے سے تجزیہ کار نے کہا کہ ایسے اعلانات سن کر لگتا ہے کہ انتخابات قریب ہیں۔ انتخابات سے قبل شروع سے ایسے اعلانات سنتے آ رہے ہیں لیکن ایوب دور سے لے کر آج تک کسی حکومت نے عملدرآمد نہیں کیا۔ اگر 50 فیصد بھی عمل ہو جائے تو کافی ہے۔ انتخابات سے قبل سیاسی جماعتوں و حکومتوں کی جانب سے ایسے اعلانات ووٹرز کی حمایت حاصل کرنے کے لئے ہوتے ہیں۔ امید ہے نوازشریف حیدرآباد کے بارے میں اپنا وعدہ ضرور پورا کریں گے۔ انتخابات سے قبل حکومتوں و سیاسی جماعتوں کے اعلانات کو سنجیدگی سے نہیں لینا چاہئے۔ اس حوالے سے ماضی کی مثالیں سناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مشاہد حسین سید اکثر کہتے تھے کہ وزیر بنا تو شعبہ وزارت اطلاعات بند کر دوں گا، وزیر بنے لیکن نہیں کیا۔ بھٹو کی 70ءمیں انتخابی مہم کا بڑا نعرہ تھا کہ تاشقند کا راز بتاﺅں گا، پھر 5 سال حکومت میں رہنے کے بعد بھی ان کے منہ سے ایک لفظ نہیں سنا۔ مولانا مفتی محمود کا 9 ستاروں کا قومی اتحاد ”پی این اے“ نے 77ءمیں بھٹو کے خلاف مشترکہ امیدوار کھڑے کئے، جس پر لاہور میں پولیس و فوج کی گولیوں سے متعدد لوگ مارے و زخمی ہو گئے۔ متاثرہ لوگوں کے ساتھ فراڈ کیا گیا تھا کہ ”تحریک نظام مصطفی“ ہے، بھٹو اس میں رکاوٹ ہے۔ پھر ضیاءالحق اسلام لانے کے لئے حکومت میں آ گئے۔ اس کے بعد پی این اے ٹوٹا، ایئرمارشل، شاہ احمد نورانی سمیت 5 پارٹیاں الگ ہو گئیں، اس وقت میں نے بطور اخبار نویس علیحدہ ہونے اور باقی رہ جانے والی تمام پارٹیوں کے لوگوں سے پوچھا کہ آپ نے وعدے کئے تھے کہ مذہبی اختلافات ختم ہو جائیں گے اور ملک میں ”نظام مصطفی“ لائیں گے؟ تو سب کا کہنا تھا کہ کس نے کہا کہ وہ ”نظام مصطفی“ کیلئے تحریک چلا رہے تھے وہ تو بھٹو حکومت کے خلاف تھی۔ وزیراعظم کو وزیراعلیٰ سندھ کے گیس لائن منصوبے کے حوالے سے خط پر انہوں نے کہا کہ انتخابات سے قبل ہر پارٹی جہاں وہ کمزور ہوتی ہے عوام کو زیادہ مراعات دینے کی کوشش کرتی ہے، اس کھینچا تانی میں اگر سندھ کی سنی جاتی ہے تو اچھی بات ہے۔ پاکستان میں سیاست فریب کاری کا نام ہے۔ انہوں نے کہا کہ آصف زرداری تگڑی جماعت ہے، ایک صوبے میں حکومت بھی ہے لیکن شاید زیادہ سے زیادہ ق لیگ ان کے ساتھ آ جائے، کے پی میں شاید اے این پی لیکن لگتا ہے کہ وہ نون لیگ کو ناراض نہیں کرے گی۔ میری معلومات کے مطابق کے پی میں اے این پی، فضل الرحمن اور ن لیگ مل کر عمران خان کا تختہ الٹانے کی کوشش کریں گے۔ پیپلزپارٹی چھوٹی موٹی ایک دو سیاسی جماعتوں کو اپنے ساتھ ملا لے گی، لگتا نہیں کہ کوئی بڑی جماعت ان کے ساتھ ملے گی۔ بلوچستان کی پارٹیوں کے بارے تو کچھ کہا ہی نہیں جا سکتا، نہ جانے وہ کب کیا فیصلہ کر لیں۔ خالد لانگو کے معاملے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حیرت کی بات ہے کہ قوم کا پیسہ لوٹنے والے سرکاری افسر کے گھر کو سب جیل قرار دے دیا جاتا ہے، پھر وہ بیمار ہو جاتا ہے اور علاج کے لئے بیرون ملک بھی چلا جاتا ہے۔ بے نظیر بھٹو کو بھی جب لاڑکانہ میں نظربند کیا گیا تو وہ اپنے کان میں تکلیف کا کہہ کر بیرون ملک چلی گئی تھیں۔ یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ انہوں نے بیرون ملک کون سے ہسپتال یا ڈاکٹر سے علاج کرایا۔ پنجاب کو انتظامی طور پر دو حصوں میں تقسیم کرنے کی خبر پر انہوں نے کہا کہ ہمیشہ سے اس بات کے حق میں ہوں کہ جنوبی پنجاب بڑا علاقہ ہے، ایک نہیں دو صوبے بننے چاہئیں۔ اگر وزیراعلیٰ شہبازشریف نے پہلے مرحلے میں الگ سیکرٹریٹ بنانے کا انتظام بھی کر دیا ہے تو خوش آئند ہے لیکن ابھی یہ خبر لیک ہوئی ہے، درست یا غلط کا بعد میں پتا چلے گا۔ سابق وزیراطلاعات محمد علی درانی نے کہا ہے کہ بہاولپور صوبے کی بحالی اور جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کے حوالے سے صوبائی اسمبلی نے 2012ءمیں متفقہ قرارداد منظور کر لی تھی۔ جس کے بعد اس وقت کے اور موجودہ وزیراعلیٰ شہبازشریف اور وزیراعظم نے بہاولپور میں عوام سے وعدہ کیا ان کا مسئلہ اسمبلی میں رکھیں گے، نہیں مانا گیا تو آئندہ انتخابات کے بعد اسمبلی میں اپنی اکثریت کے ذریعے ان صوبوں کو بحال کروائیں گے۔ ن لیگ نے اس مسئلہ کو اپنے منشور کا حصہ بنایا تھا۔ اقتدار ملنے کے بعد وعدہ وفا نہیں کیا۔ جنوبی پنجاب کے عوام نے انتظامی تقسیم کو مسترد کر دیا ہے۔ صرف ایڈیشنل چیف سیکرٹری و ایڈیشنل آئی جی کا لگانا ایسا ہی ہے، جیسے ایک گلے میں بیورو کریسی کا ایک اور پھندا ڈال دیں کے برابر ہے۔ ن لیگ اقتدار میں آنے کے بعد جنوبی پنجاب کے عوام کی محرومیاں بھول گئی اور گزشتہ بجٹ کا 70 فیصد صرف لاہور میں لگتا رہا ہے۔ ن لیگ کو چاہئے کہ انتخابات سے قبل بہاولپور صوبے کو بحال کرے اور جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ قرار دے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain