تازہ تر ین

پانامہ کیس معاملہ، جعلی دستاویزات پر 7 سال کی سزا

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک، نیوز ایجنسیاں) پاناما عملدرآمد کیس کی چوتھی سماعت میں مریم نواز کی ٹرسٹ ڈیڈ میں کیلبری فونٹ سے متعلق عدالت نے شدید برہمی کا اظہارکیا۔ ججزنے ریمارکس دیئے کہ ٹرسٹ ڈیڈ کےوقت کیلبری فونٹ کا استعمال نہیں ہوسکتا تھا۔مریم نوازکے ہرجگہ ایک جیسے ایک سائز کے دستخط کیسے ہوسکتے ہیں؟بادی النظر میں سپریم کورٹ کو جعلی دستاویزات فراہم کی گئی ہیں۔ غلط دستاویزات پیش کرنے پرسات سال قید سزا ہوتی ہے۔ جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ کے بعد پاناماعملدرآمد کیس کی چوتھی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے جعلی دستاویزات جمع کرانے کے معاملے پر برہمی کا اظہار کر دیا۔ جسٹس شیخ عظمت نے ریمارکس دیئے ٹرسٹ ڈیڈ کے وقت کیلیبری فونٹ کا استعمال نہیں ہو سکتا تھا۔ فرانزک آڈٹ میں پتا چلا کہ دستخط والا صفحہ دوبارہ استعمال ہوا۔ رپورٹ میں مریم نواز کے دستخط کو بنیاد بنایا گیا جبکہ دونوں صفحات پر ایک جیسی غلطی کی گئی ہے۔ بظاہر عدالت میں جعلی اورخود ساختہ دستاویزات پیش کی گئیں۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے وزیراعظم کے بچوں کے وکیل سے کہا کہ سلمان راجہ صاحب یہ آپ لوگوں نے کیاکردیا ،سوچ بھی نہیں سکتے کہ عدالت میں جعلی دستاویزات جمع کرائی جائیں گی، فرانزک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹرسٹ ڈیڈ کے وقت کیلبری فونٹ دستیاب نہیں تھا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اس جرم پر 7 سال قیدکی سزا ہو سکتی ہے۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے استفسار کیا کہ کیا آپ کے موکل نے یہ جرم کیا ہے؟جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ہم کیلبری فونٹ پراپنا مو¿قف دیں گے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ چھٹی والے دن ٹرسٹ ڈیڈ کی تصدیق کیسے ہوئی۔ اس دن تو برطانیہ میں کوئی فون بھی نہیں اٹھاتا۔ سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ ممکن ہے کوئی غلطی ہوگئی ہو۔ سپریم کورٹ میں جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں پاناما عملدرآمد کیس کی چوتھی سماعت ہوئی۔ وزیراعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے لندن فلیٹس کی ملکیت سے متعلق نئی دستاویزات عدالت میں پیش کیں۔ فاضل بنچ نے عدالت میں جمع کروائی گئی دستاویزات میڈیا پر پہلے ہی آنے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم کے بچوں کے وکیل کو سپریم کورٹ کے باہر میڈیا ڈائس پر ہی دلائل دینے کا مشورہ دے ڈالا، فاضل بنچ نے ریمارکس دئیے ہیں کہ نواز شریف کے بچے ثابت کر دیں۔ انہوں نے اپنی کمائی سے لندن فلیٹس خریدے تو وزیراعظم بچ جائیں گے اگر عدالت کو مطمئن نہ کر سکے تو وزیر اعظم کو نتائج بھگتنا پڑیں گے،بادی النظر میں ہمارے سامنے کیس جعلی دستاویزات کا ہے فی الحال بادی النظر سے آگے نہیں جا رہے، نواز شریف کو اپنے اور بچوں کے اثاثے ظاہر آمدن کے مطابق ہونے سے متعلق ثابت کرنا پڑے گا،پوچھتے ہیں ہم پر الزام کیا ہے تو کہہ دیتے ہیں کہ (نائین اے فائیو) کا الزام ہے جس کا مطلب ہوتا ہے کہ کرپشن اور کرپٹ پریکٹس ،لندن فلیٹس نیلسن اور نیسکول کس کے ہیں اس پر کوئی جھگڑا نہیں۔ نیلسن، نیسکول پہلے بیریئر سرٹیفکیٹ پھر ملکیت میں تبدیل ہوئے، موزیک فونسکا کے ریکارڈ پر ٹرسٹ ڈیڈ موجود نہیں ہے،مریم پر جعلی دستاویز عدالت میں دینے کا بھی الزام ہے،قطری شہزادے نے تو ویڈیو لنک پر جواب دینے سے بھی انکار کر دیا ،شاید اسکی تصویر اچھی نہیں آتی اس لیے ویڈیو لنک پر نہیں آئے،عدالت میں غلط دستاویزات جمع ہونا کیسے ہو گیا ہم تو سوچ بھی نہیں سکتے ،یہ آپ لوگوں نے کیا کر دیا،ٹرسٹ ڈیڈ کی تصدیق ہفتہ کے روز کرائی گئی۔ جے آئی ٹی کے رابطہ کرنے پر کمپنی نے کوئی جواب نہ دیا، چھٹی کے دن تو برطانیہ میں کوئی فون بھی نہیں اٹھاتا،جن کی جائیداد ہوتی ہے انکو وضاحت دینا پڑتی ہے یہ دیکھنا ہے کہ کیس بنتا ہے کہ نہیں،سلمان اکرم راجہ کے عدالت سے سوال کا جواب دینے کی مہلت طلب کرنے پر سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس کی سماعت (آج)جمعہ کی صبح تک ملتوی کر دی۔ جمعرات کو جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں جسٹع اعجاز الاحسن اور جسٹس عظمت سعید شیخ پر مشتمل 3 بنچ نے پانامہ کیس کی سماعت کی۔ اس موقع پر وزیراعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے لندن فلیٹس کی ملکیت سے متعلق نئی دستاویزات عدالت میں جمع کروا ئیں۔ جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ تمام دستاویزات پیش کرنے سے پہلے میڈیا میں زیربحث رہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ایک خط قطری شہزادے کا ہے جب کہ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس میں کہا کہ آپ نے میڈیا پر اپنا کیس چلایا جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میڈیا پر دستاویز میری طرف سے جاری نہیں کی گئی۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ باہر میڈیا کا ڈائس لگا ہے وہاں دلائل بھی دے آئیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے ریمارکس میں کہا ایک دستاویز قطری شہزادے اور ایک برٹش ورجن آئی لینڈ سے متعلق ہے جب کہ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ دونوں دستاویزات عدالت میں ہی کھولیں گے تمام دستاویزات لیگل ٹیم نے ہی میڈیا کو دی ہوں گی۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی نے متعلقہ حکام سے تصدیق کروانا تھی، مریم کے وکیل نے عدالت میں منروا کی دستاویزات سے لاتعلقی ظاہر کی جس پر سلمان اکرم نے کہا کہ جے آئی ٹی نے یو اے ای کے خط پر نتائج اخذ کیے اور یو اے ای کے خط پر حسین نوازسے کوئی سوال نہیں پوچھا گیا جب کہ حسین نواز کی تصدیق شدہ دستاویزات کو بھی نہیں مانا گیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ مریم نواز کے وکیل نے عدالت میں منروا کی دستاویزات سے انکار کیا تھا جس پر وکیل سلمان اکرم نے کہا کہ جے آئی ٹی نے دبئی حکام کے جواب پر حسین نواز سے جرح نہیں کی اور یو اے ای کے محکمہ انصاف کے خط کو دیکھ لیں جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے جو دستاویزات دیں جے آئی ٹی نے ان کی محکمہ انصاف سے تصدیق کرائی۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ دبئی کی دستاویزات بارے حسین نواز سے پوچھا جانا چاہیے تھا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ متحدہ عرب امارات سے بھی حسین نواز کی دستاویزات کی تصدیق مانگی گئی تھی۔سماعت کے دوران سلمان اکرم راجہ نے یو اے ای کی وزارت انصاف کا خط پڑھ کر سنایا اور کہا کہ یو اے ای حکام نے گلف سٹیل ملز کے معاہدے کا ریکارڈ نہ ہونے کا جواب دیا اور 12 ملین درہم کی ٹرانزیکشنز کی بھی تردید کی گئی۔ خط میں کہا گیا کہ مشینری کی منتقلی کا کسٹم ریکارڈ بھی موجود نہیں جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس میں کہا کہ یو اے ای حکام نے کہا تھا یہ مہر ہماری ہے ہی نہیں۔ وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ کچھ غلط فہمی ہوئی ہے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ حسین نواز اور طارق شفیع سے پوچھا تو انہوں نے کہا ہم نے نوٹری نہیں کرایا اور سب نے کہا یہ نوٹری مہر کو نہیں جانتے۔ اس کا مطلب یہ دستاویزات غلط ہیں اور یہ بھی پوچھا گیا تھا کہ حسین نواز نے نوٹری پبلک سے تصدیق کروائی۔ حسین نواز نے جے آئی ٹی کو بتایا تھا کہ وہ دبئی نہیں گئے پھر کس نے نوٹری پبلک سے تصدیق کروائی اس سے تو یہ دستاویزات جعلی لگتی ہیں جس پر سلمان اکرم نے کہا کہ حسین نواز کی جگہ کوئی اور نوٹری تصدیق کے لیے گیا تھا جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ہم آپ سے پوچھ رہے ہیں اپنا مو¿قف ہمیں بتا دیں جس پر سلمان اکرم نے کہا کہ یو اے ای حکام سے سنگین غلطی ہوئی ہو گی۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو چاہیے تھا تمام ریکارڈ جے آئی ٹی کو فراہم کرتے اب آپ نئی دستاویزات لے آئے ہیں اب دیکھتے ہیں کہ ان کے کیس پر اثرات ہوں گے یا نہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ 12 مئی 1988 اور 30 مئی 2016 کے دونوں نوٹری پبلک کو دبئی حکام نے جعلی قرار دیا۔ دبئی حکام نے دبئی سے اسکریپ جدہ جانے کی تردید کی جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یہ سکریپ نہیں مشینری تھی جے آئی ٹی نے غلط سوال کیے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اگر دبئی میں اندراج نہیں ہوتا تو دبئی کے محکمہ کسٹم کی کیا ضرورت ہے جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ایک ریاست سے دوسری ریاست سامان لے جانے کا اندراج نہیں ہوتا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کیا مشینری کی ترسیل کی دستاویزات مصدقہ ہے جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عدالت مہلت دے تو مصدقہ دستاویز بھی دے سکتا ہوں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی دی گئی دستاویز میں میٹریل کی تفصیل شامل نہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ یہ کیس کب سے شروع ہوا ہے آدھا حصہ بتاتے ہیں جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جب سوال اٹھایا جاتا ہے تو دستاویز لے آتے ہیں۔ سلمان اکرم نے کہا کہ مشینری کی منتقلی پر پہلے کسی نے شک و شبہ کا اظہار نہیں کیا جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ خلا کو وقت کے ساتھ پر کیا گیا۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ ان دستاویز کو جے آئی ٹی رپورٹ کے جواب میں لایا گیا یہ نقطہ ہم نے نوٹ کر لیا۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ آپ ٹائی ٹینک کی دستاویز لے آئیں۔ تاکہ ہم مان لیں۔ نجی دستاویز میں تو یہ بھی لکھا جا سکتا ہے کہ سامان ٹائی ٹینک میں گیا کوئی مصدقہ دستاویز لائیں اور آپ کو لکھ کر دے دیتا ہوں کہ نتائج کی کوئی حیثیت نہیں اور حیثیت ہے تو ان کے میٹریل کی ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی کے نتائج پر حملے نہ کریں اور ان کی دستاویزات کا جواب دیں جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عزیزیہ اسٹیل مل کا بینک ریکارڈ بھی موجود ہے جس پرعدالت کی جانب سے ریمارکس دیئے گئے کہ کیا فروخت کے وقت عزیزیہ پر کوئی بقایا جات تھے جس پر سلمان اکرم نے کہا کہ جو بقایا جات تھے وہ ادا کر دیئے گئے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ دستاویزات کے مطابق 21 ملین ریال عزیزیہ کی فروخت کے وقت بقایا جات تھے جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یہ دستاویزات ذرائع سے حاصل کی گئی تھیں۔ جے آئی ٹی نے قرار دیا کہ عزیزیہ سٹیل مل 63 ملین ریال کی بجائے 42 ملین ریال میں فروخت ہوئی۔ 63 ملین ریال کی رقم عزیزیہ کے اکاو¿نٹ میں آئی جس کا بینک ریکارڈ موجود ہے جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ یہ بینک ریکارڈ لے آئے ہیں تو دوسرا بھی لے آئیں جس پر سلمان اکرم نے کہا کہ نقطہ یہ ہے کہ 63 ملین میرے اکاو¿نٹ میں آئے اس سے آگے چلنا ہے جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کیا عزیزیہ کے واجبات کسی دوسرے نے ادا کئے جس پر وکیل نے کہا کہ معلوم کر کے بتا سکتا ہوں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ حسین، عباس اور شہباز شریف کی بیٹی عزیزیہ کے حصہ دار تھے۔ جسٹس عظمت سعید نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کیس کی تاریخ یہ ہے کہ خفیہ جگہوں سے ادائیگیاں ہوتی ہیں جس پر سلمان اکرم نے کہا کہ جے آئی ٹی کو چاہئے تھا کہ ان پر سوالات کرتی۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ کیا اخبار میں اشتہار دے کر سوال پوچھتے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ تین حصہ دار تھے صرف حسین نواز نے عزیزیہ فروخت کی کیا حسین نواز پہلے دونوں حصہ داروں کے شیئرز خرید چکے تھے۔ حسین نواز نے پاور آف اٹارنی آج تک جمع نہیں کرائی جس پر سلمان اکرم نے کہا کہ میرا یہ کہنا ہے کہ یہ ایک خاندانی معاملہ تھا جس کا تحریری جواب موجود نہیں جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ پہلے تو کہا گیا تھا پاور آف اٹارنی موجود ہے۔ دستاویزات سے ثابت کریں کہ باقی لوگوں کو حصہ دیا گیا جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جے آئی ٹی نے یہ سوال نہیں پوچھا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی میں حسین نواز نے پاور آف اٹارنی دینے کی بات کی تھی۔ کیا پاور آف اٹارنی ہے بھی یا نہیں جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ابھی تک سامنے نہیں آیا اس کا مطلب ہے یا نہیں ہے۔ عزیزیہ کے دو حصہ دار رابعہ اور عباس شریف عدالت آ سکتے ہیں۔ دوسرے دو شراکت داروں نے عزیزیہ کی فروخت کو چیلنج نہیں کیا۔ الزام یہ ہے کہ 1993 ء میں حسن، حسین لندن فلیٹ نہیں خرید سکتے تھے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ 1993 سے آج تک لندن فلیٹس میں وزیر اعظم کے بچے رہائش پذیر ہیں اس وقت تک ہم آمدن کا ذریعہ اور منی ٹریل نہیں ڈھونڈ سکے۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ لندن فلیٹس نیلسن اور نیسکول کس کے ہیں اس پر کوئی جھگڑا نہیں۔ نیلسن، نیسکول پہلے بئیریر سرٹیفکیٹ پھر ملکیت میں تبدیل ہوئے۔ موزیک فونسکا کے ریکارڈ پر ٹرسٹ ڈیڈ موجود نہیں ہے۔ موزیک فونسکا کے مطابق مریم نواز فلیٹس کی مالک ہیں جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ الزام مریم نواز کے مالک ہونے کا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ یہ الزام نہیں دستاویز کے مطابق حقیقت ہے کیونکہ موزیک فونسکا کے مطابق مریم فلیٹس کی مالک ہیں۔ سلمان اکرم نے کہا کہ ان کا کہنا ہے مریم مالک ہیں اور ہمارا کہنا ہے حسین مالک ہے فرق تو نہیں جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ بہت فرق ہے اگر مریم مالک ہے تو پھر ہم فنڈز کو بھی دیکھیں گے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ وہ تو حسین کے معاملہ میں بھی فنڈز دیکھے جائیں گے جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ 93 میں بچوں کی عمریں دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ فلیٹ خرید نہیں سکتے۔ الزام ہے کہ فلیٹ وزیراعظم نے خریدے اور درخواست گزار کہتے ہیں کہ وزیر عظم فنڈز بتائیں۔جسٹس عظمت سعید نے اپنے ریمارکس دیئے کہ پوچھتے ہیں ہم پر الزام کیا ہے تو کہہ دیتے ہیں کہ (نائین اے فائیو) کا الزام ہے جس کا مطلب ہوتا ہے کہ کرپشن اور کرپٹ پریکٹس جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ الزام یہ ہے کہ بچے بے نامی دار ہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ اگر نواز شریف کے بچے ثابت کر دیں انھوں نے اپنی کمائی سے لندن فلیٹس خریدے تو وزیراعظم بچ جائیں گے اگر عدالت کو مطمئن نہ کر سکے تو وزیر اعظم کو نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ نواز شریف کو اپنے اور بچوں کے اثاثے ظاہر آمدن کے مطابق ہونے سے متعلق ثابت کرنا پڑے گا۔دلائل کے دوران سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ مریم، حسن اور حسین نے کوئی غلط کام نہیں کیا صرف اپنے شیئرز وصول کیے۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ ٹھیک ہے نوٹ کر لیا کہ فلیٹ حسین نواز نے حاصل کیے۔ الزام ہے کہ مریم وزیر اعظم کی کفالت میں ہیں اور نعیم بخاری کا کہنا ہے کہ مریم عدالت سے سچ نہیں بولیں گی تو اس کے نتائج ہوں گے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ مریم پر جعلی دستاویز عدالت میں دینے کا بھی الزام ہے۔سلمان اکرم نے کہا کہ عدالت سوالیہ نشان لگا رہی ہے تو مجھے جواب کا موقع دیا جائے جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ آپ ایک گھنٹے سے دلائل دے رہے ہیں لیکن کوئی نئی بات نہیں کی۔ سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ عزیزیہ اسٹیل ملز بنی اور کام شروع کر دیا جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اور نقصان بھی اٹھانا شروع کر دیا۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ اگر آپ کے خلاف الزام نہیں تو اپنی توانائی کیوں خرچ کر رہے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ الزام غلط اور جعلی دستاویزات دینے کے ہیں۔ ٹھیک ہے مان لیا رقم گلف اسٹیل ملز سے گئی لیکن کیسے ہم ڈیڑھ سال سے اس بارے میں پوچھ رہے ہیں لیکن کوئی جواب نہیں آ رہا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ فنڈز کے سوالوں کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں جبکہ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ نہ ادھر ہے نہ ادھر ہے کیا کریں۔ حسن، حسین اور مریم کے اکاﺅنٹ میں رقم آئی تو ان کو معلوم ہو گا کدھر سے آئی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ قطری خط میں فلیگ شپ اور عزیزیہ سٹیل مل کا ذکر نہیں۔ سماعت کے دوران عدالت نے حمد بن جاسم اور بی وی آئی کی دستاویز کھولیں جن میں جے آئی ٹی کو بھیجے گئے دو لیٹرز شامل ہیں۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی اپنا کام مکمل کر چکی ہے اس لئے دستاویزات رجسٹرار کو بھیج دی گئیں ہم نے کھلی عدالت میں دستاویز کا جائزہ لیا اور دونوں فریقین اس ریکارڈ کو حاصل کر سکتے ہیں۔سلمان اکرم نے اپنے دلائل میں کہا کہ جے آئی ٹی نے خود سے نتیجہ نکال لیا کہ حمد بن جاسم کے انٹرویو کی ضرورت نہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کہہ چکی ہے فیصلہ دستاویز پر ہونا ہے اور آپ دلائل دے رہے ہیں کہ کیس مزید تحقیقات کا بن چکا ہے۔ سلمان اکرم نے کہا کہ میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ مکمل انکوائری ہونی چاہیے دادا محمد شریف نے اپنی زندگی میں حسن اور حسین کے لیے رقم کا انتظام کیا جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ مزید تحقیقات کا کہہ کر آپ نے نئی بات کر دی۔سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میں نے موکل سے پوچھا ہے انکا کہنا ہے کہ 63 ملین ریال ٹوٹل ہے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے موکل نے جے آئی ٹی کو کہا 21 ملین ریال کی ادائیگی میری ذمہ داری تھی۔سلمان اکرم نے کہا کہ دونوں فیملیز نے 63 ملین ریال استعمال کرنے کی اجازت حسین نواز کو دی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ سب باتیں زبانی ہی ہیں۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یہ تو خاندان کے اندر کی بات ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی کو دستاویز نہیں دیں اور ہمیں نہیں دکھائی پھر کس کو دکھائیں گے۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ کسی متعلقہ فورم پر دستاویز دینا چاہتے ہیں۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یہ بات عدالت پر چھوڑتا ہوں۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ ہل میٹل سے کس نے فائدہ اٹھایا۔ سماعت کے دوران سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ کسی غلط کام کا ثبوت نہیں ہے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کسی صحیح کام کا بھی ثبوت نہیں ہے۔ سلمان اکرم نے کہا کہ کسی کا بے نامی دار ہونا بھی ثابت نہیں جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ جن کی جائیداد ہوتی ہے انکو وضاحت دینا پڑتی ہے یہ دیکھنا ہے کہ کیس بنتا ہے کہ نہیں۔سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ہزاروں پاکستانی ملک سے باہر کام کر رہے ہیں جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ وہ ہزاروں پاکستانی وزیراعظم نہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ آپ ہم سے کہہ رہے ہیں کہ معاملہ احتساب عدالت کو بھیج دیں جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میں صرف انکوائری کا کہہ رہا ہوں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ قانون کے مطابق وضاحت نہ آئے تو سمجھا جائے گا وضاحت نہیں۔ سلمان اکرم نے کہا کہ ہمارا مو¿قف ہے کہ 40 سال گزر گئے اب کوئی ثابت کرے کہ کچھ غلط ہوا۔ حسین نواز نے منروا کمپنی سے رابطہ ارینہ کمپنی کے ذریعہ کیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اس موقع پر 2006 سے بینیفشل آو¿نر ثابت کرنے کی ضرورت نہیں۔ مریم کے بینیفشل مالک ہونے کی دستاویز موجود ہے۔ نیب کا سیکشن 14 اے بھی پڑھ لیں کیا قطری خاندان سے تعلق قابل قبول ہے کیونکہ آفیشل کمپنی کہہ رہی تھی کہ مریم نواز مالک ہیں۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ سرکاری دستاویزات چھوڑ کر نجی کمپنی کی دستاویز تسلیم کر لیں جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عدالت اجازت دیں کہ میں اس کا جواب دوں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ نجی کمپنی جو آپ سے پیسے لیتی ہے اس کا موقف تسلیم کر لیں۔ کیا آپ چاہتے ہیں کہ ایم ایل اے کی دستاویز کو مسترد کر دیں۔ نجی کمپنی حسین نواز کے لیے کچھ بھی کہہ سکتی ہے جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جے پی سی اے نے تسلیم کیا کہ حسین نواز مالک ہیں اور مریم ٹرسٹی اور جے پی سی اے نے تحریر کیا کہ مریم سے انکی ملاقات نہیں ہوئی۔سلمان اکرم نے کہا کہ دبئی میں نوٹری کی تصدیق کروانے والے مسٹر وقار یہاں موجود ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ وقار بیان دینا چاہتے ہیں اور حسین انکا نام بتانا نہیں چاہتے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ حکام سے غلطی ہوئی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی بات سے لگتا ہے کہ دبئی حکومت بہت غلطیاں کرتی ہے جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ بی وی آئی نے 2012 میں کمپنیوں کی تفصیلات چند گھنٹے میں طلب کیں۔ ایک خبر کے مطابق ان معلومات میں بہت سی غلطیاں ہوئیں۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ منروا ون مین کمپنی ہے جو صرف سروس دیتی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جے پی سی اے چارٹرڈ اکاو¿نٹنٹ کمپنی ہے وہ آپکو سروس مہیا کرے گی۔ سلمان اکرم نے کہا کہ فیصل ٹوانہ حسین نواز کے نمائندہ کے طور پر ان کمپنیوں سے ڈیل کرتے ہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ منروا کیساتھ جو معاہدہ ہوا وہ دیکھائیں۔سلمان اکرم نے کہا کہ منروا کیساتھ ہونے والا معاہدہ ابھی موجود نہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ عدالت میں پہلی ٹرسٹ ڈیڈ کوکمبر کی دی گئی لیکن میڑیل نیلسن اور نیسکول کا لگایا گیا۔ جے آئی ٹی نے یہ دستاویز تصدیق کے لیے بھیجیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ فونٹ 2007 میں آیا اور ٹرسٹ ڈیڈ 2006 میں تیار ہوئی۔ فرانزک رپورٹ میں کہا گیا دونوں کمپنیوں کے دستخط والا صفحہ ایک ہے۔ بادی النظر میں وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ دستاویزات غلط ہیں اور دونوں صفحات پرغلطی بھی ایک جیسی ہے۔عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار کو روسٹرم پر طلب کیا اور استفسار کیا کہ رانا صاحب بتائیں اگر سپریم کورٹ میں غلط دستاویزات دی جائیں تو کیا ہوتا ہے جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ غلط دستاویزات پر مقدمہ درج ہوتا ہے اس جرم کی سزا سات سال قید ہو سکتی ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ عدالت میں غلط دستاویزات جمع ہونا کیسے ہو گیا ہم تو سوچ بھی نہیں سکتے یہ آپ لوگوں نے کیا کر دیا۔ چھٹی کے دن تو برطانیہ میں کوئی فون بھی نہیں اٹھاتا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے ریمارکس دیئے کہ ٹرسٹ ڈیڈ کی تصدیق ہفتہ کے روز کرائی گئی جے آئی ٹی کے رابطہ کرنے پر کمپنی نے کوئی جواب نہ دیا۔ سلمان اکرم نے کہا کہ یہ دستاویزات اکرم شیخ نے جمع کرائی ہیں اور معلوم کروں گا یہ کیسے ہوا۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ جعلی دستاویزات کے معاملہ نے میرا دل توڑ دیا اور جعلسازی پر قانون اپنا راستہ خود اختیار کرے گا۔ سلمان اکرم نے کہا کہ تکنیکی بنیاد پر کلبری فونٹ کا معاملہ درست نہیں جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ گورے تو چھینک مارتے ہیں تو رومال لگا لیتے ہیں کیا کوئی قانونی فونٹ چوری کرے گا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ٹرسٹ ڈیڈ کیساتھ بہت سے مسائل ہیں ہر شخص کے آئینی اختیارات پر ہم بہت محتاط ہیں جب کہ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ بادی النظر میں ہمارے سامنے کیس جعلی دستاویزات کا ہے فی الحال بادی النظر سے آگے نہیں جا رہے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ مریم نواز کا آف شور کمپنیوں سے تعلق نہیں ناصر خمیس اور وقار کو جے آئی ٹی نہیں بلایا۔ ناصر خمیس اور وقار اور حسین کے درمیان ہونے والے معاملات کے گواہ ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ مسٹر وقار احمد نے ان دستاویز کو دیکھا تک نہیں۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ مسٹر وقار عدالت میں موجود ہیں۔ حمد بن جاسم کی فیملی کی جانب سے تین ادائیگیاں کی گئیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کیا یہ ادائیگیاں بھی نقد کی گئیں جس پر سلمان اکرم نے کہا کہ یہ رقوم بینک کے ذریعہ منتقل ہوئیں اور پیسہ کا سوال حمد بن جاسم سے ہو سکتا ہے۔جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ آپکے اکاو¿نٹ میں پیسہ آیا اور آپ بتا دیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ حمد بن جاسم نے خطوط میں رقم بھیجنے کا ایک لفظ نہیں لکھا۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ شہزادے کو کہا آ جائیں اس نے کہا میں نہیں آتا اور پاکستانی سفارتخانے آنے کا کہا وہ ادھر بھی نہیں مانے کیا اب ہم سارے اب دوحہ چلے جائیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ خط میں حمد بن جاسم نے کہا کہ میں پاکستانی عدالتوں اور قانون کا پابند نہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ لاء فرم کا اکاو¿نٹ دیکھا دیں رقم کے بارے میں واضح ہو جائے گا۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ شیخ حمد اس کا جواب دے سکتا ہے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ قطری شہزادے نے تو ویڈیو لنک پر جواب دینے سے بھی انکار کر دیا ہے۔ شاید اسکی تصویر اچھی نہیں آتی اس لیے ویڈیو لنک پر نہیں آئے۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ شہزادے نے ویڈیو لنک پر نہیں آنا پھر کیا رہ گیا جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ارسلان افتخار کیس کے مطابق جے آئی ٹی کو قطر جانے کی ضرورت نہیں تھی ان سے صرف سوال پوچھے جا سکتے تھے جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ کیا قطری شہزادہ پاکستان آنے کو تیار ہے جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ مجھے اس بارے میں کوئی ہدایات نہیں دی گئیں۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ شیئرز حسین نواز کو 2006 میں دیئے گئے جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ دبئی کمپنی کے فنڈز کہاں سے آئے تھے سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آج اس کمپنی کا وجود نہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ کیا وزیر اعظم اسکے چیئرمین ہیں جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جی بالکل چیئرمین ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جبل کمپنی سے 615 ہزار پاونڈز فلیگ شپ کمپنی کو بھیجے گئے۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ اس کمپنی کے کوئی اثاثے نہیں جس پر سلمان اکرم راجہ نے عدالت سے سوال کا جواب دینے کی مہلت مانگ لی۔ اس کے بعد سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس کی سماعت ایک بار پھر کل صبح تک ملتوی کر دی۔ عدالت نے سلمان اکرم راجہ سے استفسار کیا کہ قطری شہزادے کو جو ا±ن کا سٹار گواہ تھا، جے آئی ٹی کے سامنے پیش کیوں نہیں کیا گیا جس پر سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ حمد بن جاسم نے جے آئی ٹی کے ارکان کو قطر آنے کی دعوت دی تھی۔ ا±نھوں نے کہا کہ جے آئی ٹی نے قطری شہزادے کا انٹرویو کرنے کی بجائے خود ہی نتیجہ اخذ کرلیا۔بینچ میں موجود جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ قطری شہزادے کو پیش کرنا شریف فیملی کی ذمہ داری تھی۔جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بعض غیر ملکیوں کو پاکستان کا ویزہ حاصل کرنے میں استثنیٰ ہے اور وہ صرف تلور کے شکار کے لیے پاکستان آجاتے ہیں لیکن جے آئی ٹی کے سامنے پیش نہیں ہوتے۔سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم اور ا±ن کے بچوں نے کوئی ‘رانگ ڈوئنگ’ نہیں کی جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ‘رائٹ ڈوئنگ’ کے ثبوت تو فراہم نہیں کیے گئے۔عدالت کے پوچھنے پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ وزیر اعظم دبئی میں قائم ایف زیڈ ای کمپنی کے چیئرمین تھے لیکن ا±نھوں نے کوئی تنخواہ وصول نہیں کی۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain