تازہ تر ین

خاندان سمیت جیل جانے کو تیار،لیکن, سابق وزیراعظم نے اہم شرط بھی بتادی

اسلام آباد (صباح نیوز، مانیٹرنگ ڈیسک) سابق وزیراعظم میاں محمدنواز شریف نے کہا ہے کہ اداروں کے درمیان تصادم کو روکنے کی ذمہ داری صرف ان کی نہیں ہے۔ اداروں کے مابین ٹکرا وکے حق میں نہیں ہوں، ٹکرا وکی کیفیت پیدا نہیں ہونی چاہیے،یہ تاثردرست نہیں کہ تمام فوجی سربراہان کے ساتھ میری مخالفت رہی برطانوی نشریاتی ادارے کو دئیے گئے انٹرویو میں سابق وزیر اعظم نے ایک مرتبہ پھر اپنے اس عزم کو دہرایا کہ وہ عوام کے ووٹ کے تقدس کو مجروح نہیں ہونے دیں گے اور اس کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ایک سوال پر کہ دنیا میں ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں عوامی مینڈینٹ کو پامال کیا گیا تو عوام ٹینکوں کے سامنے آئے اور انھوں نے فوج کو پیچھے دھیکیل دیا جس کی حالیہ مثال ترکی کی ہے، کیا پاکستان بھی ایسے ہی ٹکرا وکی جانب بڑھ رہا ہے تو نواز شریف نے کہا کہ وہ اداروں کے مابین ٹکرا وکے حق میں نہیں ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ‘ٹکرا وکے خلاف صرف مجھے ہی نہیں ہونا چاہیے۔ سب کو ہونا چاہیے اور ٹکرا وکی کیفیت پیدا نہیں ہونی چاہیے اور اداروں کے مابین تصادم نہیں ہونا چاہیے، یہ صرف میرے اکیلے کی ذمہ داری نہیں، سب کی ذمہ داری ہے۔’نواز شریف نے کہا کہ یہ تاثر ٹھیک نہیں ہے کہ ان کی فوج کے تمام سربراہوں کے ساتھ مخالفت رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ‘کچھ جرنیلوں کے ساتھ یقینا بنی بھی ہے، اچھی بنی ہے۔ اور میں یہ نے کبھی آئین سے انحراف نہیں کیا، جو قانون کہتا ہے اس کے مطابق چلا ہوں۔’اگر کوئی قانون کی حکمرانی یا آئین پر یقین نہیں کرتا تو میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔نواز شریف کا کہنا تھا کہ اس ملک کو چلانے والوں نے جو اس ملک کے ساتھ کیا ہے خاص طور پر آمریت نے، وہ پاکستان کی تباہی کا ایک نسخہ تھا۔نواز شریف نے کہا کہ ‘جب پرویز مشرف نے مارشل لا لگایا تھا، مشرف میرے خلاف تھا، مشرف کے کچھ ساتھی میرے خلاف تھے لیکن باقی فوج میرے خلاف نہیں تھی۔ باقی فوج کو تو پتہ ہی نہیں تھا کہ مارشل لا لگ چکا ہے۔اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اب ہم نے اس مرض کی تشخیص کر لی ہے کہ جس کی وجہ سے اس ملک میں تمام مشکلیں اور مصیبتیں جھیلنی پڑی ہیں۔ اس کے لیے ملک کی ایک سمت کا تعین کرنا ضروری ہے اور یہ تبھی ممکن ہوگا جب ہم ووٹ کے تقدس کا احترام کریں گے۔’ان کا کہنا تھا کہ اب وہ ووٹ کے تقدس کی بحالی کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ احتجاج نہیں ہے بلکہ ایک مہم ہے، میں یہ اس لیے نہیں کر رہا کہ میں دوبارہ منتخب ہو کر وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھوں، وہ پھولوں کا بستر نہیں کانٹوں کی سیج ہے۔ انھوں نے کہا کہ ‘وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھنا بذات خود ایک قربانی ہے۔’پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے متعلق ایک سوال کے جواب میں نواز شریف کا کہنا تھا کہ ‘عمران خان صاحب کے بارے میں کیا کہوں، ان کی باتوں کا جواب نہ دینا ہی اچھا ہے۔ آصف علی زرداری کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ‘میں نے ان سے کچھ نہیں مانگا اور نہ کوئی مانگنے کا ارادہ ہے۔’اداروں کے مابین گرینڈ ڈائیلاگ کے حوالے سے سینیٹ چیئرمین رضا ربانی کی تجویز پر نواز شریف نے کہا کہ یہ ڈائیلاگ وقت کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘میں نے اپنے کچھ دوستوں سے کہا ہے کہ وہ رضا ربانی کے ساتھ مل کر بیٹھیں اور ان سے پوچھیں کہ ان کہ ذہن میں اس کا کیا خاکہ ہے۔’نواز شریف کا کہنا تھا کہ ہم نے چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کیے تھے اور آج تک اس کی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔اس کی ایک خلاف ورزی ہوئی تھی جو ایک این آر او سائن ہوا تھا، مشرف اور کچھ فریقوں کے درمیان وہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ وہ نہ ہوتا تو اچھا تھا۔’پاناما مقدمے کے حوالے سے نواز شریف کا کہنا تھا کہ چار مہینے تک یہ مقدمہ چلا، پھر جے آئی ٹی بنی، یہ جے آئی ٹی کس طرح بنی اس ساری کہانی آپ کے سامنے ہے۔ انھوں نے کہا کہ جے آئی ٹی میں شامل لوگ ان کٹر اور بدترین مخالفین میں سے تھے۔’ اس جے آئی ٹی کے سامنے ‘ہمارا پورا خاندان پیش ہوا۔’وزیراعظم نواز شریف نے اپنی نااہلی سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ ‘چار سال ہوگئے ہماری حکومت قائم ہوئے اور واضح مینڈینٹ تھا۔’ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی تیسرے نمبر پر تھی اور اس نے دھاندلی دھاندلی کی رٹ شروع کر دی جس میں طاہرالقادری بھی شامل ہوگئے۔انھوں نے کہا کہ دھرنوں سے ترقی کا پہیہ تقریبا جام ہوگیا اور دھرنے والے وزیراعظم ہاوس، پالیمان کی گیٹ اور دیگر اداروں کے سامنے پہنچ گئے تھے اور کہتے تھے کہ ‘ہم وزیراعظم کو گلے میں رسہ ڈال کر وزیراعظم ہاس سے باہر نکالیں گے۔ جمہوریت تو کیا آمریت بھی میں ہم نے ایسی چیزوں کو کم ہی دیکھا ہے۔پی ٹی آئی کی وجہ سے پاکستان میں جمہوریت کو نقصان پہنچا،انھوں نہ کہا کہ ‘یہ دھرنا ختم توا تو پاناما کا معاملہ سامنے آگیا جس میں انھوں نے دوبارہ دھرنا دینے کی کوشش کی۔ ان دنوں سی پیک کا معاملہ بڑی بری طرح متاثر ہوا اس کے باجود ملک نے ترقی کی ہے۔”ان کا مقصد شروع دن سے یہی تھا کہ نواز شریف کو ووٹ کیوں مل گیا ہے، کیوں یہ وزیراعظم بنا ہے اور اس کو وزیراعظم کی سیٹ سے نیچے اتارا جائے۔ جہاں مقصد ہی یہ ہو وہاں باقی چیزوں کی کیا قیمت رہ جاتی ہے۔ سپریم کور کے فیصلے کو عوام نے مسترد کردیا ہے اس لئے ووٹ کے تقدس کیلئے میں آخری حد تک جاﺅں گا۔ اگر مزید تحقیقات کے دوران جرم ثابت ہوجاتا ہے تو میں اور میری فیملی جیل جانے کیلئے تیار ہیں ووٹ کے احترام کو پاﺅں تلے روندنے کی روایت کو توڑنا ہوگا۔ اپوزیشن کے اتحاد کے حوالے سے سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ میں نے ہمیشہ جمہوریت کے فروغ کے لئے اقدامات کئے ہیں جبکہ میرا کوئی بھی اقدام ایسا نہیں ہے جو اس نظرئیے کے خلاف ہو ، میں نے آج تک چارٹرڈ آف ڈیموکریسی کی خلاف ورزی نہیں کی،اس وقت کے صدر زرداری کو ہم نے بہت عزت کے ساتھ رخصت کیا، ہم نے کوئی بھی اپوزیشن کے خلاف ایسے اقدامات نہیں اٹھائیے ہم نے دھرنوں میں بھی صبر اور ضبط سے کام لیا، ہم نے ہمیشہ بردباری کا مظاہرہ کیا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم ووٹ کے احترام کو یقینی بنائیں یہ میں اکیلا نہیں کر سکتا بلکہ اس کے لئے تمام سیاسی جماعتو ں کو میرا ساتھ دینا ہوگا۔ سابق وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا کہ میں اداروں کے درمیان تصادم کا حامی نہیں ہوں یہ میری اور ہم سب کی اولین ذمہ داری ہے کہ اداروں کے درمیان ہم آہنگی کی فضاکو یقینی بنائیں۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain