تازہ تر ین

ضیا شاہد کی کتاب قائد اعظم کی سیاست اور نظریے کی مخالفت کا منہ توڑ جواب ہے

نیویارک (بیورو رپورٹ) ضیا شاہد کی کتاب” قائد اعظم کی سوچ اور دو قومی نظریہ کے بجائے زبان اور نسل کی بنیاد پر پاکستان کے خلاف سازش“ پاکستان، پاکستانی عوام اور پاکستانیت کا مقدمہ ہیں جس میں ضیا شاہد نے قائداعظم کے دو قومی نظریہ سے لیکر قیام پاکستان تک اور قیام پاکستان سے لیکر آج کے پاکستان تک، وطن عزیز میں لسانیت، قومیت اور نسلی کی بنیاد پر سیاست اور عوام کے حقوق کی آڑ میں پاکستان کے خلاف کی جانیوالی سازشوں کا پردہ چاک کیا ہے۔ یہ کتاب اس مخالف کی مخالفت ہے کہ جو تحریک پاکستان سے لیکر قیام پاکستان تک اور قیام پاکستان سے لیکر اب تک کسی نہ کسی صورت میں دو قومی نظریہ اور اس کی اساس کی کی جاتی رہی ہے۔ ان ملے جلے خیالات کا اظہار خبریں گروپ آف نیوز پیپر کے چیف ایڈیٹر، چینل ۵کے چیف ایگزیکٹو ضیا شاہد کی کتاب ”قائد اعظم کی سوچ اور دو قومی نظریہ کے بجائے زبان اور نسل کی بنیاد پر پاکستان کے خلاف سازش“ کی یہاں تقریب رونمائی میں کیا گیا۔ یہ تقریب لبرٹی فورم نیویارک کے زیر اہتمام روزنامہ خبریں اور چینل ۵ نیویارک کے بیورو چیف محسن ظہیر نے منعقد کی۔ سینئر و معروف صحافی عظیم ایم میاں کی صدارت میں منعقدہ تقریب کے مہمانان خصوصی کونسل مسلم لیگ کے چیئرمین سردار نصر اللہ، شاعر و ادیب اشرف میاں تھے جبکہ تقریب میں دفاعی تجزیہ نگار کرنل (ر) مقبول ملک، سابق رکن کشمیر کونسل سردار سوار خان، سینئر صحافی و بیورو چیف دنیا ٹی وی نیویارک معوذ صدیقی، الائنس فار پاکستان اردو سٹڈیز (APUS) کے ڈائریکٹر شاہد حمید خان ،سعید اختر (رحم ٹی وی )، سونی وطن گلگت بلتستان امریکہ کے پریذیڈنٹ نسیم گلگتی کے علاوہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات فاروق مرزا، یونس خان ، خواجہ فاروق، ارشد چوہدری ، غلام غوث، سردار ساجد سوار، رانا اقبال، توقیر ناصر،ایم آر فرخ اور صبغت چوہدری سمیت کمیونٹی کے مقامی ارکان نے شرکت کی۔ سینئر صحافی عظیم ایم میاں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ضیا شاہد نے اپنی کتاب میں سیاسی کرداروں کا جائزہ لیا ہے، کاش کہ وہ اس کتاب میں ان سیاسی کرداروں کا بھی احاطہ کرتے کہ جن کے کرداروں کی وجہ سے پاکستان کو نقصان پہنچا اور ہمیں وہ دن دیکھنے پڑے کہ جو ہم نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ اس کتاب کا حصہ دوئم لکھنا ضیا شاہد پر واجب ہے۔ ضیا شاہد کے پاس اسلوب بھی ہے اور بیباکی بھی ہے۔ اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ وہ پاکستان کے خلاف کارفرما ہر سازشی عنصر کو بے نقاب کرنے کا ملکہ رکھتے ہیں۔ علمی اور تحقیق کے اعتبار سے یہ کتاب اچھی ہے۔ ضیا شاہد نے اچھی کاوش کی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ غفار خان اور قائد اعظم کے درمیان ڈائیلاگ کا آغاز ہو چکا تھا۔ غفا ر خان ذہنی اور جذباتی طور پر ایک شکست خوردہ آدمی تھے۔ ریفرنڈم میں صوبہ سرحد نے غفار خان کی مرضی کے خلاف الحاق کا فیصلہ کیا تھا۔ ایسے رہنما کو تنہا نہیں رہنے دینا چاہئیے تھا ۔خان عبدالقیوم خان نے اس معاملے میں پڑ کر غلط فہمی پیدا کی کیونکہ شاید انہیں شک تھا کہ اگر قائد اعظم اور غفار خان میں کوئی معاملہ ہو جاتا تو خان عبدالقیوم کی سیاست مدہم پڑ جاتی اور مسلم لیگ کا غلبہ کم ہو جاتا۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں قائد اعظم اور پاکستان کا بھلائی تھی۔ مخالف کو قائل کرنا کوئی برا کام نہیں۔ عظیم میاں نے مزید کہا کہ پاکستان کے خلاف جب بھی سازشوں کا ذکر ہو تو اس دور کا بھی ذکر ہونا چاہئیے کہ جس دور میں پاکستان میں پہلا مارشل نافذ کیا گیا، پارلیمان کو تحلیل کیا گیا، جمہوریت کا قتل کیا گیا اور سپریم کورٹ نے مارشل لاءکے حق میں فیصلہ دیا۔ ایسے ادووار اور ان ادوار میں پیش پیش عناصر بھی ملک و قوم کے خلاف سازش کے زمرے میں آتے ہیں۔ پاکستان کے خلاف سازش کا آغاز اس وقت ہوا کہ جب ایک سپیکر جو کہ مشرقی پاکستان تھا، اس کو پاگل کہہ کر کہا گیا کہ یہ بنگالی پاگل ہے، ہم جانتے ہیں کہ ملک کیسے چلائے جاتے ہیں۔ سپیکر عدالت میں گیا تو اس وقت عدلیہ نے شرمناک فیصلہ دیا، وہ فیصلہ دینے والے بھی پاکستان کے خلاف سازش میں ملوث تھے۔ عظیم میاں نے کہا کہ سانحہ مشرقی پاکستان کی سازش میںکوئی ایک عنصر ملوث نہیں تھا، اس سازش میںبھی جو جو ملوث تھا، اس کو بھی بے نقاب کیا جانا چاہئے۔ اسی طرح خان لیاقت علی خان کی شہادت کے ذمہ دار کو جنہوں نے بے نقاب نہیں ہونے دیا، ان کو بھی بے نقاب کیا جانا چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ آج پاکستان میں سیاست کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے اور جس طرح ایک دوسرے سے سیاسی حساب چکائے جا رہے، کیا یہ پاکستان کے خلاف سازش نہیں ہے؟ میں ایسے سوال بار بار اس لئے اٹھا رہا ہوں کہ ہمیں ہر پہلو کا جائزہ لینا ہوگا۔ سیاستدانوں کے کرداروں پر بہت انگلیاں اٹھائی گئیں لیکن جنہوں نے سیاستدانوں سے بھی زیادہ ملک و قوم پر حکومت کی، وہ بھی تو کوئی حساب دیں۔ عظیم میاں نے کہا کہ ضیا شاہد کی کتاب قابل تحسین ہے۔ ان کے پاس جو کچھ تھا، اس کو تو انہوں نے قارئین اور قوم کے سامنے لاکر رکھا۔ یہ نکتہ آغاز ہونا چاہئے۔ آگے بڑھ کو دیگر عوامل و عناصر کو بھی بے نقاب کیا جانا چاہئے تاکہ اگر کم از کم ہم نہیں تو ہماری کم از کم آنیوالی نسلوں کو سامنے ہر ایک کو حساب پڑا ہو۔ پاکستانی امریکن کمیونٹی کی معروف سیاسی و سماجی شخصیت اور کونسل مسلم لیگ کے چیئرمین سردار نصر اللہ خان نے اپنا خطاب ان اشعار سے کیا۔
بہت قریب سے دیکھا ہے رہنماو¿ں کو
بہت قریب سے کوئی راز پائے ہیں میں نے
کہوں تو گردش لیل و نہار ہو جائے
کچھ ایسے زخم عیقدت میں کھائے ہیں میں نے
انہوں نے کہا کہ کونسل مسلم لیگ وہ جماعت ہے کہ جس نے اس ملک کے سب سے پہلے ڈکٹیٹر کو للکار اور گیارہ کروڑ عوام کی بات کی۔ آج بائیس کروڑ عوام ہونے کے باوجود لیڈر اپنے اپنے گھروں کی بات کرتے ہیں، پاکستان کی بات نہیں کرتے۔ضیا شاہد نے اپنی کتاب میں جن کرداروں کا ذکر کیا، یہ کردار مختلف اشکال میں اور کرداروں میں آج بھی ہم میں موجود ہیں ۔پہلے یہ لوگ روس سے مدد لیتے ہیں، آج یہ امریکہ کے گن گاتے ہیں اور انڈیا سے مدد لیتے ہیں۔ یہ سازشی عناصر اپنا کام پہلے دن دن سے کررہے ہیں۔ دیگر صوبوں کی طرح پنجاب میں بھی ایسے عناصر موجود ہیں کہ جو پاکستا ن کی بجائے اپنا مفاد عزیز رکھے ہوئے ہیں۔ جس شخص کو چند ہفتے قبل وزارت عظمیٰ سے ہٹایا، اس کا کیا کردار ہے؟ انہوں نے کہا کہ افسوس ہے کہ پاکستان کے درون خانہ معاملات ہمیں مغرب میں لکھی گئی کتابوں کے ذریعے پتہ چلتے ہیں، پاکستان کے دانشوروں کی اکثریت کو بہت کچھ معلوم ہوتا ہے لیکن وہ لکھتے نہیں ہیں کیونکہ وہاں بدقسمتی سے ہم گروہوں میں بٹ گئے ہیں اور اپنے اپنے مفادات کے لئے کام کررہے ہیں ،اپنی اپنی ضرورتوں کے لئے کام کررہے ہیں۔ سردار نصر اللہ نے کہا کہ میں ضیا شاہد کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ یہ کتاب میرے دل اور سوچ و فکر کے عین مطابق ہے۔ ان کےلئے دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہیں صحت و تندرستی دے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دانشوروںکے قلم کو تلوار بنا دے جو کہ ملک و قوم کے خلاف سازش کرنے والوں کے سر اڑا دے۔کشمیر کونسل کے سابق رکن سردار سوار خان نے کہا کہ ضیا شاہد نے بہت اہم موضوع پر کتاب لکھی ہے۔ انہوں نے پاکستان کے خلاف سازش کے حوالے سے جو جذبات تحریر کئے ہیں، ہم ان کے ساتھ ہیں۔ 1940ءکی قرار داد منٹو پارک میں منظور کی گئی۔ مولونا جنڈالوی نے وہاں کشمیر کی نمائندگی کی۔ انہوں نے دو قومی نظریہ کی بنیاد پر کشمیرکو پاکستان سے جو تعلق بنتا ہے، اس کو بیان کیا، آج بھی ہم اس پر قائم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب پاکستان بنا تو پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو قتل کر دیا گیا۔ اس وقت قو م، دانشوروں کو سبق سیکھنا چاہئے تھا کہ آخر وزیراعظم کو کیوں قتل کیا گیا۔ میںنے ضیا شاہد کی بات سے متفق ہوں کہ مشرقی پاکستان والوں کو زبان کی بنیاد پر یہ حق ملنا چاہئیے تھا۔ پاکستان میں اگر بنگالی کو دوسری قومی زبان کا درجہ دے دیا جاتا تو کوئی حرج نہیں تھا۔ اس سلسلے میں ضیا شاہد نے صحیح لکھا۔ صوبہ سرحد میں سرحدی گاندھی نے ریفرنڈم کروایا۔ اس وقت خان عبدالقیوم خان نے ریفرنڈم جیت کر پاکستان بنایا۔ ان کا تعلق کشمیر سے تھا، گلگت بلتستان سے تھا۔ پیپلزپارٹی کے سابق دورہ میں ولی خان کی قیادت میں صوبہ سرحد کا نام خیبر پختونخوا رکھ دیا گیا لیکن ہزارہ جس کی بنیاد پر پاکستان والوں نے ریفرنڈم جیتا تھا، وہ بھی صوبے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں لیکن کسی صحافی نے ان کو زیادہ توجہ نہیں دی۔ میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ جب لیاقت علی خان قتل ہوئے تو غور کرنا چاہئے تھا کہ اس قتل میں کہیں وہ لوگ تو شامل نہیں کہ جو دو قومی نظریہ کے خلاف ہیں ،کیا اس کا تعلق بھارت سے تو نہیں ہے لیکن وہاں کیا ہوا کہ لیاقت علی خان کے قتل کے بیورو کریسی نے اقتدار کا کھیل شروع کر دیا، ان کو دیکھکر فوجیوں نے دیکھا کہ یہ چند بیورو کریٹس ہیں کہ جو اقتدار پر قبضہ کرتے ہیں، ہماری تو تعداد زیاد ہ ہے، ہم خود کیوں نہ اقتدار سنبھال لیا کریں۔یوں فیلڈ مارشل ایوب خان نے قبضہ کرکے حکومت شروع کر دی۔ اہل صحافت ذہن میں رکھیں کہ علمی بحث اپنی جگہ لیکن قوموں کی منزلیں لیڈر طے کرتے ہیں۔ پاکستان میں قومی سطح کی قیادت کی کمی کا تدارک ہونا چاہئے۔ پاکستان میں اس وقت بڑی جماعتیں صوبوں اور علاقوں تک محدود ہو گئی ہیں۔ سب مسائل قومی قیادت کی کمی کی وجہ سے پیدا ہو رہے ہیں۔ دفاعی تجزیہ نگار کرنل (ر) مقبول ملک نے خطاب کرتے ہوئے ضیا شاہد کو کتاب لکھنے پر مبارکباد دی۔ انہوں نے کہا کہ کتاب کے سرورق میں جو تصویریں ہیں، ان میں تنازعات بھی ہیں، سچ بھی ہیں، جھوٹ بھی ہے۔ جب تک لوگ ایسے کتابیں لوگ لکھتے رہیں گے ، جھوٹ اور سچ میں تفریق واضح ہوتی جائے گی۔ ضیا شاہد کی کتاب سے ہمیں بہت فائدہ ہوگا۔ ہم اس کو پڑھیں گے۔ پڑھنے کے بعد علم کو اپنے پاس محدود نہیں رکھنا چاہئے بلکہ اس کو دوسروں تک پھیلانا چاہئے۔ سینئر صحافی و کمیونٹی کے سماجی رہنما شفیق صدیقی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایک انٹرویو میں مجھے اسفند یار ولی نے کہا کہ میں چار ہزار سال پرانا پشتون ہوں، 14سو سال پرانا مسلمان ہوں اور 65سال پرانا پاکستانی ہوں۔ مجھے خود بتائیں کہ میں کیا کہوں شفیق صدیقی نے کہا کہ قوموں کو بنانے کے لئے بہت قربانی دینا پڑتی ہے۔ انہی قربانیوں کی بدولت پاکستان بنا تھا ۔انہوں نے مزید کہا کہ جو قوم کو خدا نے یہ دور اندیشی دی ہو کہ وہ دشمن کو پہچان سکے اور پھر بھی وہ اس سے نہ بچے تو اس کے بارے میں کیا کہیں؟ کیا وجہ ہے کہ جب ہمارے لیڈر وزیر اعظم ہاو¿س منتقل ہو جاتے ہیں تو ان کی ترجیحات بدل جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ضیا شاہد اپنی کتاب کے سرورق پر کچھ تصویریں مس کر گئے ہیں، وہ تصویریں بھی آنی چاہئے تھی۔ سینئر صحافی معوذ صدیقی نے کہا کہ ضیا شاہد کی کتاب کے دیباچے سے ہی اندازہ ہو اکہ لکھنے والے کے دل میں پاکستان کا درد موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب بھی ہم مسائل کا جائزہ لیں تو جڑ تک جا کر مسلہ کا جائزہ لینا چاہئے تبھی جا کر مسئلہ کا ادراک ہوتا ہے اور اس کا صحیح اور دیرپا حل تلاش ہوتا ہے۔ میں ضیا شاہد کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ اگر کوئی شکایت ہے کہ گھر الگ بنانے کی بجائے گھر کے اندر ہی شکایت دور کی جانی چاہئے۔ گھر کے مسائل گھر میں حل نہ ہوں تو اس کا فائدہ دشمن اٹھاتا ہے۔ معوذ صدیقی نے کہا کہ ہمیں پاکستان کا نام لیکر ہر جدوجہد کرنی چاہئے۔ کراچی والوں کو صرف اور صرف پاکستان ہی مسائل سے نجات دلا سکتا ہے۔ کراچی کے عوام کی شکایات کو بھی کسی خاص عینک سے نہ دیکھا جائے بلکہ ان کی جائز شکایات کو فوری نوٹس بلکہ از خود نوٹس لیتے ہوئے تدارک کیا جانا چاہئے۔ ایسے اقدام نہیں کئے جانے چاہئے کہ جن کو بنیاد بنا کر لسانیت اور قومیت کی سیاست کرنے والے اپنے سیاسی مفادات حاصل کرنے میں کامیاب ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اگر کسی طبقے میں کوئی نفرت پیدا ہو جائے تو ہر سفید و سیاہ پر یقین کرنے لگ جاتا ہے۔ نفرت کی بنیاد کہیں سے بھی شروع ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے منہ سے کیوں نہیں نکلتا کہ انڈیا کراچی اور بلوچستان میں سازش کررہا ہے، وہ پاکستان کے خلاف سازش کررہا ہے۔ ہمیں اپنے لیڈروں سے یہ بات پوچھنی چاہئے۔صحافی فاروق مرزا نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک و قوم کے خلاف کسی بھی سازش کی سرکوبی میں اہل صحافت کا کردار بہت اہم ہے۔ ضیا شاہد نے کتاب لکھ کر یہ کتاب بطریق احسن ادا کیا ہے۔ میں انہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ میرے ان سے خبریںکے زمانے سے تعلق ہے اور وہ بیباکی سے جہاں حقائق بیان کرتے ہیں۔ ضیا شاہد سابق ادوار میں جیل گئے، ماریں بھی کھائیں۔ میں انہیں جرا¿تمندی سے کتا لکھنے پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ صحافی ارشد چوہدری نے کہا کہ ہمارے کچھ کردار پاکستان کے اندر ہیں جن کے بارے میں کتاب میں لکھا گیا لیکن میں پوچھتا ہوں کہ معین قریشی اور شوکت عزیز جیسے باہر سے پاکستان بھجوائے جانے والے عناصر کا کیا کردار تھا، ہمارے سیاسی قائدین بیرون ممالک میں جا کر جو معاملات طے کرتے ہیں، ان کے بارے میں وہ قوم کو کیوں اعتماد نہیں لیتے، ان سے پوچھ گچھ کیوں نہیں کی جاتی؟ بہت سے کردار ہیں اور کون سا کردار کیا کررہا ہے، ہر ایک پر نظر رکھنی چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ معاملے کو جڑ سے کیسے درست کیا جائے۔ سوہنی وطن گلگت بلتستان امریکہ کے پریذیڈنٹ نسیم گلگتی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے دشمن کےلئے جہاں موقع ملا اس نے قوم کو لسانی، قومیت اور فرقے کی بنناد پر تقسیم کرنے اور فساد کھڑے کرنے میں مدد کی اور ان تمام شرپسند کارروائیوں میں اپنے اپنے پٹھو بھی تلاش کئے۔ ہمیں ان پٹھوو¿ں، ان کی کارروائیوں اور ان کے پس پردہ عناصر کی سرکوبی کرنا ہے۔ ضیا شاہد ایک بیباک صحافی ہیں۔ صحافت بیباکی اور بے لوث انداز میں اپنا کردار ادا کرے تو بہت سے مسائل از خود حل ہو جائیں۔ پاکستان مادر وطن ہے، جو کوئی ماں کے خلاف سازش کرے تو خواہ وہ کوئی بھی ہو، ہمیں ملکر اس کو ناکام بنانا ہوگا۔ صحافی و کمیونٹی کے مقامی رہنما خواجہ فاروق نے کہا کہ ہم خواہ پنجابی ہیں، بلوچی، سندھی، پشتون، اردو سپیکنگ یا کشمیری ہیں، جو کچھ بھی ہیں، ہم میں ایک اصول ہونا چاہئے کہ عوام کی رائے کا احترام ہونا چاہئے۔ جمہوریت بھی اسی کا نام ہے۔ اختلاف رائے کا بھی لوگوں کو حق ہے لیکن جب مادر وطن کا کردار ہو تو اختلاف رائے کی بھی کچھ حدود ہوتی ہیں۔ حدود کا تعین ہو جائے اور ان میں رہا جائے تو معاملات کنٹرول میں رہتے ہیں اور جو معاملات میں بگاڑ پیدا کرنے کی سازش کرنا چاہتے ہیں، وہ از خود بے نقاب ہو جاتے ہیں۔ یہی وہ کام ہے کہ جو ہمیں کرنا چاہئے۔ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہئے۔ ضیا شاہد نے بہت اچھی کتاب لکھی ہے ۔ میں قرار داد پیش کرتا ہوں کہ پاکستان کے خلاف سازش کرنے والے عناصر کے خلاف ہم سب کو پرعزم ہو کر اپنا اجتماعی کردار ادا کرنا چاہئے۔ الائس فار پاکستان اینڈ اردو سٹڈیز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر شاہد حمید نے کہا کہ میں نے ایک عرصے انسانی حقوق کےلئے کام کیا، انسانی حقوق کے ساتھ ساتھ زبان کی بھی بہت اہمیت ہے۔ ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ دشمن بہت چالاک ہے، بہت گہری چالیں چلتا ہے۔ یہ باتیں ہم سنتے آئے لیکن ہمیں وقت گذر گیا اور ان باتوں کا جواب نہیں ملا۔ شاید اسی طرح کی باتیں ممکن ہے کہ اس کتاب میں لکھی ہوں۔ جب بھی کبھی ملک و قوم کے حوالے سے کوئی سوال کھڑا کیا جائے ہمیں یقینی بنانا ہوگا کہ اس کا جواب بھی فوراً آئے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain