تازہ تر ین

این ایچ کے غیر قانونی ٹول پلازوں کی تعداد 14 ہو گئی

ملتان (نمائندہ خصوصی) نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی طرف سے ملک بھر کی مختلف شاہرات پر بنائے گئے غیرقانونی ٹال پلازوں کی تعداد 10سے بڑھ کر 14ہوگئی ہے اور مزید انکشافات بھی سامنے آرہے ہیں۔نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی ویب سائیٹ سے ہٹ کر جن چار مزید ٹال پلازوں کے غیرقانونی طور پر کام کرنے کی تصدیق ہوئی ہے ان میں فاضل پور ضلع راجن پور، گھوٹکی سندھ، ہیڈ محمد والا، کنڈو یارو شامل ہیں۔ چیئرمین نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے فوری حکم پر ملتان میں این ایچ اے کے ریجنل آفس میں سکیورٹی سخت کرتے ہوئے تمام صحافیوں کا داخلہ بند کردیاگیاہے اور سختی سے عملے کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ کسی بھی اخبار نویس یا میڈیا پرسن سے کسی بھی قسم کا رابطہ نہ رکھیں۔گزشتہ روز روٹین میں ملتان کے بعض رپورٹرز ہفتہ وار بریفنگ لینے پہنچے تو گیٹ سے انہیں اندر ہی داخل نہ ہونے دیاگیا اور بتایا گیا کہ چیئرمین نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے حکم پربریفنگ کا سلسلہ روک دیاگیاہے۔روزنامہ خبریں کو بتایا گیا ہے کہ غیر قانونی ٹال پلازوں کا انکشاف 6اپریل 2015ءمیں اتھارٹی کو ہوا تو چیئرمین نے فوری طور پر افسران سمیت عملے کے 11ارکان کو معطل کردیا جبکہ 8کو ٹرانسفر کردیا مگر حیران کن طور پر ان غیرقانونی ٹال پلازوں میں سے کسی کو نہ تو بند کیا اور نہ ہی ان کو قانونی شکل دینے کے لیے اجلاس سے منظوری لی گئی۔روز نامہ خبریں کو رحیم یارخان کے ایک گڈز ٹرانسپورٹ کے مالک ملک ارشد نے بتایا کہ ان ٹول پلازوں کے عملے نے اپنے کیبن میں جعلی کرنسی بھی رکھی ہوئی ہے۔انہوں نے بتایا کہ قطب پور ، جہانیاں کے ٹال پلازہ پر جب ان کو ڈرائیور نے ایک ہزار روپے کا نوٹ دیا جو پرانا نوٹ تھا تو وہاں بیٹھے عملے کے رکن نے نوٹ جان بوجھ کر کیبن کے اندر زمین پر پھینک دیا اور پھر زمین پر سے ایک ہزار روپے کا نیا نوٹ اٹھاکر کہاکہ تم نے جعلی نوٹ دیا ہے پھر ڈرائیور کو تشدد کا نشانہ بنایا اور ایک ہزار کا نوٹ بھی رکھ لیا جبکہ 240روپے بھی اضافی وصول کرلیے۔انہوں نے بتایا کہ ہائی وے پولیس بھی ٹول پلازے کے عملے کے ساتھ ہوتی ہے اور ظلم میں شریک ہوجاتی ہے۔روزنامہ خبریں کو معلوم ہوا کہ ان غیرقانونی ٹال پلازوں میں سے ایک رانی پور کے پیروں کے خاص مریدین کے پاس جوکہ علاقے میں خوف و ہراس پھیلائے رکھتے ہیں۔اس طرح بستی ملوک والا بھی ایک رکن قومی اسمبلی کے قریبی لوگ ایک سال تک چلاتے رہے۔بعد میں اس پر ٹھیکہ کسی اور نے لے لیا اور ان غیرقانونی ٹھیکیداروں کا بھی نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے ریکارڈ میں کوئی ذکر نہیں۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی ہی کے ایک سابق آفیسر نے روزنامہ خبریں کو بتایا کہ اگر کبھی کوئی ادارہ یا نیب ملک بھر میں ان کے تشہیری بورڈ کی تعداد اور ان کا تمام ریکارڈ قبضے میں لیکر تحقیقات کرے تو ایک اور پانامہ سامنے آجائے گا۔بتایا گیا کہ سیکرٹری این ایچ اے کا عہدہ بھی ڈیڑھ سال تک چیئرمین کے پاس رہا اور اس دوران اربوں روپے کی گرانٹس جاری کی گئیں۔اسی سلسلہ میں بستی ملوک کے غیرقانونی ٹال پلازہ پر احتجاج کیاگیا کہ اربوں روپے کھانے والے افسران کےخلاف فوری کارروائی کی جائے۔

 


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain