تازہ تر ین

ن لیگ بارے خطرے کی گھنٹی،استعفوں بارے بڑی خبر آگئی

اسلام آباد (نیا اخبار رپورٹ) مسلم لیگ (ن) کیخلاف اپوزیشن کے گٹھ جوڑ کے معاملات میں تیزی آنے کے بعد اب اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ علامہ طاہر القادری سے عمران خان، شیخ رشید، آصف علی زرداری اور چودھر شجاعت کی جانب سے اعلان یکجہتی کے بعد تمام اپوزیشن جماعتیں عملی اقدامات پر غور کر ہی ہیں۔ اس حوالے سے اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے کے آپشن پر بھی غور کیا جا رہا ہے تا ہم ابتدائی طور پر یہ جمارعتیں مرکزی حکومت کے بجائے پنجاب حکومت پر دباﺅ بڑھانے کیلئے استعفوں کا اعلان کر سکتی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا موقف ہے کہ وہ جمہوریت کو ڈی ریل نہ کرنے کے موقف کے تحت قومی اسمبلی یا سینیٹ سے استعفیٰ نہیں دے سکتے بلکہ اگر پاکستان عوامی تحریک کو انصاف نہ ملنے کے معاملے پر عملی قدم لینا پڑا تو اس کیلئے کسی مرحلے پر وہ پنجاب اسمبلی سے مستعفی ہونے کا اعلان کر سکتے ہیں، تا ہم کوشش یہ کی جا رہی ہے کہ پنجاب اسمبلی سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ ہو تو اس میں پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کو ساتھ رکھا جائے۔ پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کی 30، پیپلز پارٹی کی 8 اور جماعت اسلامی کی ایک نشست ہے۔ آزاد ایم پی اے کے ساتھ رابطے کئے جا رہے ہیں، تا ہم ان میں سے ابھی صرف ایک نے آمادگی ظاہر کی ہے اور باقی چار کے ساتھ رابطے جاری ہیں۔ اسی طرح سے ختم نبوت اور رانا ثنااﷲ کے استعفیٰ کے معاملے پر خود مسلم لیگ (ن) کے اندر بھی انتشار ہے اور اس حوالے سے گزشتہ روز فیصل آباد کے جلسے میں 3 ایم پی ایز نے اپنی نشستیں چھوڑنے کا اعلان کر دیا ہے۔ دوسری جانب مرکز میں قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بھی غیر اعلانیہ اور غیر تحریری طور پر کچھ باتیں طے ہوگئی ہیں جن کے تحت اب حکومت کو کسی بھی بل یا قانون سازی کیلئے کوئی تعاون فراہم نہیں کیا جائیگا اور حکومتی بینچوں کیلئے بزنس چلانے کو مشکل تر بنایا جائیگا۔ ذرائع کے مطابق جب تک مقرہ وقت پر عام انتخابات کیی کوئی ضمانت نہیں ملتی سینیٹ سے استعفےٰ نہیں دیئے جائیں گے تا ہم کسی اتفاق رائے کی صورت میں قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا آپش آخری ہو گا۔ حکمت عملی یہی ہے کہ حکومت کیلئے اتنی مشکلات پیدا کر دی جائیں کہ وہ خود حکومت اور اسمبلی توڑنے پر مجبور ہو جائیں۔دریں اثنا مسلم لیگ (ن) میں بھی قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ زور پکڑنے لگا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے بعد حکومتی حلقوں نے بھی اس پر سوچ بچار شروع کر دی ہے کہ قبل از وقت انتخابات سے ن لیگ کو فائدہ ہو سکتا ہے یا نقصان‘ اس حوالے سے سول حساس اداروں سے اہم ن لیگی رہنما رپورٹس بھی منگوا چکے ہیں۔ مصدقہ ذرائع کے مطابق وقت سے پہلے انتخابات کے حوالے سے حکومتی حلقوں کے اندر یہ بات بھی زور پکڑ رہی ہے کہ اپوزیشن کے اس مطالبہ پر ن لیگ کو نقصان ہوتا ہے یا سیاسی فائدہ‘ اس پر غور کر کے فیصلہ کر لینا چاہئے۔ مصدقہ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے سول خفیہ اداروں کی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ اگر فوری طور پر انتخابات ہوتے ہیں تو ن لیگ کا کم نقصان ہوگا۔ مخالف سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی توجہ انتخابی مہم پر لگ جائے گی اور ن لیگ پر پریشر کم ہو جائے گا۔ رپورٹس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جوں جوں وقت گزرتا جائے گا مذہبی حلقے بھی حکومت کی مخالفت میں مزید سرگرم ہوں گے اور آئندہ آنے والے دو ماہ میں ن لیگ کے خلاف احتجاجی تحریک بھی چل سکتی ہے جس سے ووٹ بینک میں کمی کے ساتھ ساتھ کئی ن لیگی ارکان اسمبلی بھی ساتھ چھوڑ سکتے ہیں۔ یہ ن لیگ کیلئے سیاسی طور پر انتہائی نقصان دہ ہو گا۔ باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ اہم حکومتی ذمہ داروں کا ایک گروپ بھی اسی بات پر زور دے رہا ہے کہ جلد سے جلد انتخابات میں جایا جائے تاکہ جو سیاسی ساکھ بچی ہوئی ہے اس سے فائدہ اٹھا کر انتخابات جیتے جا سکیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نوازشریف‘ شہبازشریف اور ایک بڑا حکومتی حلقہ تمام رپورٹس سامنے آنے کے باوجود بضد ہے کہ الیکشن وقت پر ہی کرائے جائیں اور اس وقت تک حکومت میں رہ کر کیسز سمیت دیگر معاملات میں فائدہ اٹھایا جائے۔ شریف خاندان کے اندر اور نجی محفلوں میں اس حوالے سے جب گفتگو ہوئی تو دو اہم لیگی ذمہ داروں نے یہ کہا کہ اگر نوازشریف کو ہماری ہی حکومت کے ہوتے ہوئے کیسز میں سزا ہو گئی تو ہم بھرپور انداز میں عوامی عدالت میں نہیں جا سکیں گے۔ اگر نوازشریف کو سزا ہو جاتی ہے اور ہماری ہی حکومت ہوتی ہے تو پھر ہم کس کے خلاف احتجاج کریں گے۔

 


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain