کراچی (خصوصی رپورٹ) پاکستان کے سب سے بڑے شہر کے انتہائی متنازع کردار ایس ایس پی راو¿ انوار پہلی بار کسی انکوائری کا سامنا نہیں کر رہے، 35 سالہ کریئر میں انہیں ہر انکوائری سے کلین چٹ ہی ملی ہے۔ اب یہ ان کی قسمت ہے یا تعلقات جو ان پر آنچ آنے نہیں دیتے یہ حقیقت کبھی کھل کر سامنے نہیں آسکی ہے۔ نوجوان نقیب اللہ محسود کی مبینہ ماورائے عدالت ہلاکت پر ایس ایس پی ملیر راو¿ انوار کو سپریم کورٹ اور پولیس کی محکمہ جاتی تحقیقات کا سامنا ہے، کاو¿نٹر ٹیررازم محکمے کے چیف ثنا اللہ عباسی کی سربراہی میں بنائی گئی کمیٹی کے روبرو وہ بیان ریکارڈ کراچکے ہیں، میڈیا سے بات کرتے ہوئے انھوں نے نقیب اللہ کو مطلوب ملزم قرار دیا ہے۔کراچی پولیس کے راو¿ انوار شاید واحد رینکر افسر ہیں جو کسی ضلعے کی سربراہی کر رہے ہیں۔ راو¿ انوار 1980 کی دہائی میں پولیس میں بطور اے ایس آئی بھرتی ہوئے، بطور سب انسپیکٹر ترقی پاتے ہی ایس ایچ او کے منصب پر پہنچ گئے، اس عرصے میں وہ زیادہ تر گڈاپ تھانے پر تعینات رہے۔ 1992 میں جب ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن شروع ہوا تو راو¿ انوار اس میں بھی پیش پیش تھے، جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں جب ایم کیو ایم کو قومی دہارے میں شامل کیا گیا تو راو¿ انوار نے ایکس پاکستان لیو پر چلے گئے اور یہ عرصہ انھوں نے دبئی میں گذارا بعد میں انھوں نے بلوچستان کو جوائن کیا۔ 2008 میں جب پاکستان پیپلز پارٹی نے سندھ میں اقتدار سنبھالا تو راو¿ انوار نے دوبارہ کراچی کا رخ کیا، گذشتہ دس سالوں میں وہ زیادہ تر ایس پی ملیر کے عہدے پر ہی فائز رہے ہیں۔ ملیر ضلع کی حدود ساحل سمندر پر واقع مچھیروں کی بستی سے لے کر سپر ہائی وے پر موجود افغان بستی تک پھیلی ہوئی ہیں، بحریہ ٹاو¿ن سے لے کر متعدد رہائشی منصوبے بھی اسی حدود میں زیر تعمیر ہیں جبکہ ریتی بجری بھی ملیر ندی سے یہاں سے ہی نکالی جاتی ہے جو کروڑوں کا کاروبار ہے۔ اس علاقے میں زیادہ تر آبادی سندھی اور پشتون ہے۔ سپر ہائی وے پر بڑے تعمیراتی منصوبے کے بعد سہراب گوٹھ کے آس پاس میں مبینہ پولیس مقابلوں کا آغاز ہوا، جن میں ایس ایس پی راو¿ انوار کی قیادت میں درجنوں مبینہ شدت پسندوں کو ہلاک کیا گیا تاہم اس مقابلوں میں پولیس کو کوئی جانی نقصان نہیں پہنچا۔ راو¿ انوار نے 2016 میں دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ 150 سے زائد مقابلہ کرچکے ہیں اگر انہیں ہٹایا نہیں گیا تو وہ اس میں اضافہ کریں گے، اپنے مقابلوں کی تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے بتایا تھا کہ ان کا پہلا مقابلہ ایم کیو ایم کے فہیم کمانڈو کے ساتھ ہوا تھا جس میں وہ مارا گیا۔ کراچی میں گذشتہ دس برسوں میں پولیس اہلکار بھی شدت پسندوں کا نشانہ بنے ہیں، حملہ آور ذمہ داری قبول کرنے ساتھ پمفلیٹ میں اس کی وجہ اپنے ساتھیوں کی مبینہ جعلی مقابلوں میں ہلاکت کو بھی قرار دیتے رہیں کہ ایک سابقہ ایس پی تحقیقات نے حملوں کی ایک وجہ راو¿ انوار کے مقابلوں کو قرار دیا تھا۔ ایم کیو ایم کے اقتدار سے علیحدہ ہونے کے بعد راو¿ انوار ایم کیو ایم پر وار کرتے رہے، 2015 میں انھوں نے متحدہ قومی موومنٹ پر بھارتی خفیہ ادارے را سے روابط رکھنے کا الزام عائد کیا، انھوں نے یہ الزامات دو ملزمان طاہر لمبا اور جنید کے بیانات کی بنیاد پر عائد کیے تھے اور وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ ایم کیو ایم پر پابندی عائد کی جائے۔ اس وقت کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے ان الزامات پر ناراضی کا اظہار کیا جس کے بعد راو¿ انوار کو عہدے سے ہٹادیا گیا لیکن یہ معطلی عارضی رہی۔ 2016 میں راو¿ انوار کو آخری بار اس وقت معطل کیا گیا تھا جب انھوں نے ایم کیو ایم کے پارلیمانی رہنما خواجہ اظہار الحسن کو گرفتار کیا، جس پر وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے انہیں معطل کرنے کے احکامات جاری کیے تاہم چند ماہ بعد وہ دوبارہ اسی منصب پر بحال ہوئے۔ کراچی کے میئر وسیم اختر کو بھی راو¿ انوار نے ہی گرفتار کیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ وہ متعدد مقدمات میں مطلوب ہیں، ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار انہیں پیپلز پارٹی کی قیادت کا خاص الخاص قرار دے چکے ہیں، جبکہ مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق سینیٹر نہال ہاشمی نے بلدیاتی انتخابات میں الزام عائد کیا تھا کہ راو¿ انوار نے ان کے لوگوں کو منحرف کرکے پیپلز پارٹی کے ضلعی چیئرمین کو ووٹ کرائے۔ سیاسی رہنماو¿ں کے الزامات میں صداقت ہے یا نہیں یہ ثابت کرنا مشکل ہے تاہم 2015 کی عیدالضحیٰ پر ایک خبر نشر کی جس میں بتایا گیا کہ راو¿ انوار نے زرداری ہاو¿س میں سابق صدر آصف علی زرداری کے ساتھ عید نماز ادا کی، بعض تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ راو¿ پاکستان ریاست کے طاقتور حلقوں کے بھی نور نظر ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ اور پولیس محکمے میں راو¿ انوار کے خلاف لوگوں کو ہراساں کرکے زمینوں پر قبضے کرنے کی شکایات سامنے آتی رہی ہیں، عدالت میں پیش نہ ہونے پر ان کے کئی بار وارنٹ بھی جاری ہوچکے ہیں، اس صورتحال میں وہ عدالت میں پیش ہوکر یہ موقف اختیار کرتے ہیں کہ ان کی زندگی کو خطرہ ہے لہٰذا انہیں حاضری سے استثنیٰ دیا جائے۔ ایک سابق ایس پی نیاز کھوسو نے راو¿ انوار کے خلاف ناجائز طریقے سے اثاثے بنانے اور بیرون ملک ملکیت منتقل کرنے کے الزام میں درخواست دائر کر رکھی ہے، جس کی سماعت نوٹس تک ہی محدود رہی ہے۔