تازہ تر ین

پنجاب میں پولیس ظالم کیوں؟….(2)

ازھر منیر….فرینکلی سپیکنگ
بغاوت کے خطرے سے نمٹنے کے لئے ہی دیس پنجاب پر قبضے کے بعد کے برسوں کے دوران برطانوی سرکار نے صوبہ پنجاب کی حکومت کو کسی قاعدے قانون اور ضابطے کے تحت نہ رکھا۔ مقصود اس سے یہاں ہونے والی ایک کے بعد دوسری شورش کو دبانا اور تابروں (باغیوں) کی اس سرزمین پر ہر قیمت پر انگریز راج کو قائم رکھنا تھا۔ یہ قوانین…. اگر انہیں قوانین کہا جاسکتا ہو تو اس قدر سخت اور ظالمانہ تھے کہ جب دہلی کو انتظامی طور پر صوبہ پنجاب میں شامل کیا گیا اور وہاں بھی انہی ظالمانہ قوانین کا نفاذ کیا گیا تو مولانا حالی کے مطابق سرسید احمد خاں اپنا آبائی شہر دہلی چھوڑ کر علی گڑھ چلے گئے جہاں ان قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا تھا۔ اس لئے کہ مولانا حالی کے مطابق جہاں ڈسپاٹک گورنمنٹ ہو‘ سرسید وہاں رہنا پسند نہیں کرتے تھے۔ (حیات جاوید)
ان دنوں پورے برصغیر میں انگریزوں کی بارہ ڈویژن فوج تھی جس میں سے آٹھ ڈویژن برصغیر کے باقی تمام علاقوں میں جبکہ چار ڈویژن صرف ایک صوبہ پنجاب میں متعین کئے گئے تھے۔ یہ اور دیگر اقدامات پنجابی حریت پسندوں کی طرف سے کی جانے والی بغاوتوں کے سدباب کے لئے تھے جو وقفے وقفے سے پھوٹ پڑی تھیں۔
اسی طور انگریزوں‘ حاکموں نے پنجاب میں اسلحہ سازی کا کوئی کارخانہ نہیں لگایا‘ نہ ہی یہاں فوجی سازوسامان کے کوئی خاص ذخائر رکھے۔ حالانکہ فوج میں اکثریت پنجابی جوانوں کی تھی۔ (پنجابی فوجیوں میں اکثریت پوٹھوہار کے علاقے کے لوگوں کی تھی۔ آج بھی فوج میں پنجابی جوانوں میں اکثریت پوٹھوہار ہی کے علاقے کے رہنے والوں کی ہے) لیکن فوج میں دیس پنجاب کے لوگوں کی اکثریت ہونے کے باوجود بلکہ اس بنا پر انگریز سامراج یہ خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا کہ پنجابی فوج یا (غیرفوجی) پنجابی حریت پسندوں کے ہاتھ اسلحہ کے ذخائر لگ جائیں اور ان کے علاقے میں اسلحہ سازی کا کوئی کارخانہ ہو جہاں سے بغاوت کے دوران انہیں اسلحہ کی فراہمی جاری رہے۔ اس لئے کہ پنجابی حریت پسندوں کی طرف سے مسلح بغاوت کا خطرہ انگریزوں کے دیس پنجاب پر غاصبانہ قبضے کے آخری لمحے تک موجود رہا۔
بغاوت ہی کے خطرے سے نمٹنے کی خاطر پنجاب میں آبادی کے تناسب سے پولیس کی تعداد باقی صوبوں سے ہمیشہ زیادہ رکھی گئی اور اسی بنا پہ یہاں پولیس کو دیگر صوبوں کی پولیس کے مقابلے میں عملاً بہت زیادہ اختیارات دے دیئے گئے اور اس کا مائنڈسیٹ یہ بنا دیا گیا کہ زور‘ زبردستی غرض ہر حربہ استعمال کر کے اسے بہرصورت بغاوت کو روکنا ہے۔ اگرچہ انگریز سرکار اس کے باوجود اپنے مقصد میں پوری طرح کامیاب نہ ہو پائی۔ اس لئے کہ ان تمام اقدامات کے باوجود پنجابی حریت پسندوں کی طرف سے برطانوی حکومت کے خلاف باغیانہ کارروائیاں ہوتی رہیں۔ برصغیر کے کسی بھی دوسرے علاقے کے مقابلے میں بہت زیادہ۔ چنانچہ جنگ آزادی جو دہلی میں ستمبر 1857ءمیں ختم ہو گئی تھی‘ پنجاب میں یہ اپریل 1858ءتک جاری رہی۔ غدر پارٹی کی تشکیل پنجابی حریت پسندوں نے کی۔ آزاد ہند فوج کی تشکیل جن 3افراد نے کی ان میں سے ایک…. سبھاش چندر بوس بنگالی جبکہ 2…. جنرل شاہ نواز اور جنرل موہن سنگھ پنجابی تھے۔ جبکہ اس میں 80فیصد سے زائد تعداد پنجابی لڑکوں کی تھی۔ کیرتی کسان پارٹی‘ نوجوان سبھا‘ مجلس احرار‘ خاکسار تحریک اور کتنی ہی دیگر انگریز دشمن تنظیموں کا قیام پنجاب میں عمل میں آیا۔ اس دوران اگر کچھ وطن فروش زبردستی فوج میں بھرتیاں کرا رہے تھے تو پنجابی حریت پسند اس کے مقابلے میں ”بھرتی بند تحریک“ بھی چلا رہے تھے۔ ریشمی رومال تحریک کے روح رواں ڈسکہ ضلع سیالکوٹ کے مولانا عبیداللہ سندھی تھے۔ (سندھی کے لقب سے انہیں ان کے آبائی شہر ڈسکہ کے لوگ یاد کرتے تھے۔ اس لئے کہ وہ ایک عرصہ صوبہ سندھ میں قیام پذیر رہے تھے۔ رفتہ رفتہ یہ لفظ ان کے نام کا حصہ بن گیا ورنہ وہ پنجابی تھے)۔
رولٹ ایکٹ کے خلاف تحریک کا آغاز پنجاب سے ہوا جو اس قدر شدید تھی کہ 10سے لے کر 13اپریل 1919ءتک…. 3دن میں انگریز سرکار کی رٹ (WRIT) ہی قائم نہ رہی۔ حالات پر قابو پانے کیلئے حکومت کو پنجاب میں مارشل لاءلگانا پڑا۔ برصغیر کے کسی بھی علاقے میں تاج برطانیہ کی طرف سے یہ پہلا مارشل لاءتھا جو پنجاب میں لگا۔ جلیانوالہ باغ کا واقعہ پنجاب میں پیش آیا۔ گوجرانوالہ میں بغاوت کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کیلئے رائل ایئرفورس کے طیاروں نے شہری آبادی پر بم گرائے۔ جی ہاں شہری آبادی پر اور انگریز فوج نے نہتے شہریوں پر مشین گنوں سے گولیاں برسائیں۔ انگریز حکومت کے خلاف کاشتکاروں کی باغیانہ تحریک ”پگڑی سنبھال جٹا!“ پنجاب میں چلی۔ پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی تو پنجاب میں ہونے والی گڑبڑ پر قابو پانے کیلئے 28پنجابی باغیوں کو جان سے مار دیا گیا جبکہ 100حریت پسندوں کو کالے پانی بھیج دیا گیا۔ تحریک خلافت ہو‘ ریشمی رومال تحریک‘ رولٹ ایکٹ کے خلاف تحریک یا کوئی اور برطانیہ مخالف تحریک‘ پنجابی حریت پسند ان میں پیش پیش رہے۔ احمد خان کھرل‘ سارنگ‘ مراد فتیانہ‘ نظام لوہار‘ بھگت سنگھ‘ اودھم سنگھ‘ مولانا ظفر علی خان‘ مولانا عبیداللہ سندھی‘ جنرل شاہ نواز‘ جنرل موہن سنگھ‘ کرنل احسان قادر اور ان جیسے دیگر آزادی کے متوالے پنجابی یہیں سے اٹھتے رہے اور خوشی خوشی قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے اور مسکرا کر پھانسی کے پھندے گلے میں ڈالتے رہے۔
پنجابی حریت پسندوں کی ان مسلسل باغیانہ کارروائیوں کی بنا پر پنجاب پولیس انگریز حکمرانوں کی طرف سے ہمیشہ دباﺅ میں رہی اور امن و امان قائم رکھنے کی خاطر برصغیر کے باقی صوبوں کی پولیس کے مقابلے میں زیادہ سے زیادہ تشدد پسند ہوتی چلی گئی اور اس کا یہ مائنڈسیٹ تشکیل پاتا گیا۔ اس میں قصور اس کا نہیں۔ اس لئے کہ پولیس تو حاکموں کے ہاتھ میں ہتھیار کی مانند ہوتی ہے جو وہ کہیں‘ اسے ماننا پڑتا ہے۔
سوال کیا جاسکتا ہے کہ کیا پنجابی انگریز سرکار کی ملازمت میں نہیں گئے؟ یقینا گئے۔اس لیے کہ جب کہیں کوئی حکومت قائم ہوجاتی ہے ۔ چاہے اپنوں کی، چاہے غیروں کی تو لوگ اپنا کام کاج چھوڑ نہیں دیتے۔ وہ زمینیں بھی کاشت کرتے رہتے ہیں، تجارت اور دست کاری بھی کرتے ہیں۔بہت سے سرکاری ملازمت بھی اختیار کرلیتے ہیں اور فوج ، پولیس اور سول سروس میں چلے جاتے ہیں۔ انہی میں غدار بھی موجود ہوتے ہیں جیسے میر جعفر اور میر صادق ہوئے جو اپنی دھرتی کی عزت کا سودا کرتے ہیں اور بدلے میں جاگیریں لیتے اور فوائد حاصل کرتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ کیا ساری قوم مردہ رہی یا اس میں سے آزادی کے متوالے بھی اٹھے؟ اور پنجابیوں میں یہی نہیں کہ آزادی کے متوالے پیدا ہوئے جنہوں نے نہ صرف یہ کہ جیلیں کاٹیں اور ہنس کر گلے میں پھانسی کے پھندے بھی ڈالے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ یہاں یہ کام برصغیر کے باقی تمام علاقوں سے بڑھ کر ہوئے اور پنجابی حریت پسندوں نے اپنی باغیانہ کارروائیوں اور حکومت مخالف تحریکوں کے ذریعے انگریز سرکار کا ناک میں دم کیے رکھا۔
پنجابیوں کی انہی حریت پسندانہ کارروائیوں کا انتقام لینے کی خاطر برطانوی سامراج نے قائداعظمؒ کے تمام تر اصرار اور دلائل کو رد کرتے ہوئے آزادی دیتے وقت پنجاب کو تقسیم کردیا جس کے نتیجے میں پنجابیوں کو تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کے عذاب سے گزرنا پڑا۔ یہ لوگ اپنی جانیں بچا کر بھاگ رہے تھے۔ 1950ءاور 1960ءکی دہائیوں میں آرام سکون سے جہازوں میں بیٹھ کر نہیں آئے تھے، نہ ہی انہوں نے ”پودینے کے باغات“ کے بدلے میں یہاں آکر مربعے اور جائیدادیں لی تھیں۔ مشرقی پنجاب یا ان سے متعلقہ علاقوں سے آنے والے مہاجرین نے یہاں آکر جو جائیدادیں لیں وہ بھی مقامیوں کی نہیں بلکہ پنجابی ہندوﺅں ، سکھوں کی تھیں جو سرحد کے اس پار چلے گئے تھے اور جنہوں نے بدلے میں وہاں جاکر ان لوگوں کی چھوڑی ہوئی جائیدادیں حاصل کی تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مہاجر صرف وہ تھے جو واہگہ بارڈر کے ذریعے آئے تھے ، جانیں بچاکر اور اپنا سب کچھ وہاں لٹا کر، وہ نہیں جنہوں نے آج مہاجر کے لفظ پر قبضہ جمالیا ہے حالانکہ حقیقتاً وہ مہاجر نہیں، تارکین وطن ہیں۔
پنجاب میں ہونے والے اس قتل عام میں بیس لاکھ سے زائد پنجابی مارے گئے، ان کے گھر جلائے گئے، حاملہ پنجابی ماﺅں کے پیٹوں سے بلموں کے ساتھ بچے نکال کر قتل کیے گئے۔ تقسیم کے وقت ننانوے فیصد سے زائد فسادات پنجاب میں ہوئے جبکہ ایک فیصد سے بھی کم دیگر علاقوں میں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ حقیقتاً خونی فسادات فقط پنجاب میں ہوئے، باقی مقامات پر ایک فیصد سے بھی کم اور صرف علامتی طور پر ہوئے۔ یہ انگریز سامراج کا پنجابیوں سے دیس پنجاب پر قبضے کے خلاف ان کی شدید مزاحمت اور پنجاب پر انگریزوں کے غاصبانہ قبضے کے بعد پنجابی حریت پسندوں کی طرف سے ہونے والی مسلسل اور نہ ختم ہونے والی بغاوتوں کا انتقام تھا۔
مختصراً پنجاب پولیس اگر سخت، ظالم اور وحشی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انگریزوں نے اس کا ڈھانچہ ایک حددرجہ باغی قوم…. پنجابیوں کو قابو میں رکھنے کی خاطر تشکیل دیا تھا اور عملاً اسے برصغیر کے باقی تمام صوبوں کی پولیس سے زیادہ اختیارات دئیے تاکہ یہاں ہونے والی پنجابی حریت پسندوں کی مسلسل بغاوتوں سے نمٹا جاسکے۔ جس کے نتیجے میں اس کا یہ مائنڈ سیٹ بن گیا ۔ آزادی کے بعد اس مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنے کی ضرورت تھی لیکن جس طرح انگریز دور کی دیگر بہت سی برائیاں ان کے جانے کے بعد بھی موجود ہیں اسی طرح پنجاب پولیس کا یہ رویہ اور مائنڈ سیٹ آج بھی قائم ہے۔(ختم شد)
(کالم نگار سینئر صحافی، شاعر اور ادیب ہیں)
٭….٭….٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain