تازہ تر ین

جتنی مرضی تقریریں کر لیں ، نواز شریف کی کہانی ختم ہو گئی

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) معروف قانون دان اور پانامہ کیس میں عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے کہا ہے کہ بڑے جلسوں میں تقریروں سے کچھ نہیں ہو گا۔ نوازشریف کی کہانی ختم ہو چکی ہے اور سزا سے نہیں بچ سکتے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے چینل ۵ کے پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں کہنہ مشق صحافی، معروف تجزیہ کار ضیا شاہد کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ شکریہ ضیا بھائی آپ نے مجھے بولنے کا موقع دیا۔ میں آپ کا مداح ہوں میں نے وکالت 1969ءمیں کی۔ تقریباً 50 سال ہونے کو آئے۔ میں خواجہ سلطان کے ساتھ، خلیل الرحمن خلیل، ایس ایم ظفر کے ساتھ رہا۔ جسٹس کورنیلس کے ساتھ رہا۔ 10 سال بعد اپنا دفتر کھولا۔ کچھ لوگ عدلیہ کے بارے بات کرتے تھے۔ عدلیہ اس پر ردعمل دیتی تھی۔ لیکن موجودہ روش آج تک ماضی میں نہیں دیکھی۔ اس کا ذمہ دار افتخار چودھری کو سمجھتا ہوں۔ جنہوں نے سپریم کورٹ کے باہر کیمرے لگا دیئے۔ ہم کالے کوٹ والے ڈیڑھ منٹ جو اندر بات کرتے تھے۔ ہم چالیس منٹ باہر آ کر بات کرتے تھے۔ افتخار چودھری کے دور میں دوسرا فرق یہ تھا۔ کیونکہ شفیع الرحمن صاحب کو بھی دیکھا ہوا ہے۔ سعد سفیان صاحب کو بھی دیکھا ہوا ہے۔ جج بہت کم بولتے تھے۔ افتخار چودھری اپنی بننچ نمبر1 میں 22 سیٹیں مقرر کر دیں۔ ہ یہ ضروری ہیں۔ مجھے شک ہوا جو بعد میں یقین میں بدل گیا کہ یہ کل اپنے بارے میں اخبار میں پڑھنا چاہتے ہیں۔ یہ میری ناقص رائے ہے کہ افتخار چودھری نے یہ سب سے بڑی نقب جو عدلیہ پر لگائی۔ یہ عدالت عظمیٰ ہے۔ اس کا احترام ہے۔ حمود الرحمن صاحب کے دور میں مجھے یاد ہے جب ظفر صاحب بول کر ختم کرتے تھے تو اس پین کی آواز بھی آتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ میں نے عمران خان کے کیس لئے نہیں بلکہ ٹھونسے گئے۔ اگر یہ ٹھونسے نہ جاتے تو میں اس کا ممبر بھی نہ بنتا۔ میں نے طے کیا عدالت جس بارے سن رہی ہے۔ اس کے بارے بات بھی نہیں کرتی۔ نواز شریف صاحب کے کیس کا جب سے فیصلہ ہوا تب سے یہ روش قائم ہوئی ہے کہ ہم عدالت کے فیصلوں کو نہیں مانتے سپریم کورٹ نے میاں نوازشریف پر ہلکا ہاتھ رکھا ہے انہوں نے ”ٹپ آف آفس برگ“ پر نوازشریف کو موقع دیا کہ دفاع کر سکیں۔ جولائی 2016ءکو میں نے کاغذ پڑھ کر کہہ دیا تھا کہ میاں صاحب آپ تاریخ کا حصہ ہو چکے۔ وہ گئے۔ بچ نہیں سکتے انہوں نے نظرثانی بھی کر دی۔ سپریم کورٹ نے بتایا یا نہیں بھی کھول کر رکھ دیں۔ آپ کیا ہیں۔ وہ کس وقت کا تقدس مانگتے ہیں۔ ایم این اے بن کر پیسہ لوٹنا، وزیر بن کر دلہن کے بھائی کو ٹھیکے دے دوں یہ ووٹ کا تقدس ہے۔ آپ کہتے ہیں ملک سے کیوںنکالا گیا۔آپ رو رو کر یہاں سے گئے ہیں۔ حریری، سعودیہ کس نے مدد نہیں کی آپ 32 سوٹ کیس لے کر گئے۔ غلام اسحاق خان آپ کو رخصت کر دیں۔ عدالت بحال کر دے تو ٹھیک ہے۔ آپ رو رو کر زمین گیلی کر دیتے ہیں۔ اب ایسے جج صاحبان آ جائیں جو آپ کا کہنا نہ مانیں۔ سعد رفیق کہتا ہے یہ کینگروکورٹس ہیں۔ کیا آپ کو موقع نہیں ملا۔ سپریم کورٹ میں آپ کے خلاف CO29 دائر ہوئی۔ آپ نے صفائی نہیں دی۔ دبئی کی تفصیل نہیں دی۔ ہم نے ثابت کیا ایون فیلڈ مریم نواز کا فناسر ہے۔ وہ کہتی ہیں اس کی ملک میں اور باہر کوئی جائیداد نہیں۔ میں نے چھ مہینے پہلے کہا تھا۔ بھاگ جاﺅ۔ نہیں بچو گے۔ میرے پاس صرف عدلیہ اور فوج رہ گئی ہے۔ مجھے ایف آئی اے ایف بی آئی پر یقین نہیں۔ 1937ءمیں الیکشن ہوا۔ مسلم لیگ کی قیادت قائداعظم نے کی۔ 1946ءکی الیکشن ہوئی۔ پنجاب میں یونینسٹ پارٹی جیتی۔ میاں صاحب چاہتے ہیں کچھ ہزار لوگ آ کر عدالت سے کہیں ہم فیصلے نہیں مانتے۔ کچھ فیصلے عدالت نے کرنے ہیں کچھ فیصلے ہم نے کرنے ہیں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ہجوم اکٹھا کر کے پریشر ڈال دیں گے۔ میں امیر مقام کو کہنے گیا کہ آپ پارٹی نہ بنائیں۔ میاں صاحب ”انورڈیٹ شیڈوز“ میں رہ رہے ہیں آپ کو سزا ہو گی۔ آپ کے پاس ڈیفنس نہیں ہے۔ ”باﺅ مک گئی اے کہانی!“ ذوالفقار علی بھٹو جیسے آپ نہیں۔ وہ پھانسی لگ گیا تو آپ کیا چیز ہیں۔ میاں صاحب تاریخ کی روش آپ کے خلاف ہے۔ آپ زور لگا رہے ہیں۔ فوج ٹیک اوور کرے۔ عدلیہ کے پاس فوج کے سوا کوئی آپشن نہیں ہو گی۔ پارلیمنٹ قرآن و سنت کے تابع ہے۔ یہ بنیادی حقوق کے تابع ہے۔ بدقسمتی سے جو ووٹوں کے ذریعے کامیاب ہو کر آتا ہے۔ وہ ڈکٹیٹر بن جاتا ہے۔ کسی کی بات نہیں سنتا۔ پرویز مشرف کا دور اس سے بہتر جمہوری دور تھا۔ افتخار چودھری جسے میں پسند نہیں کرتا۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک میں پارلیمانی نظام سوٹ نہیں کرتا۔ ہمیں صدارتی نظام کی ضرورت ہے۔ بھٹو نے آئین میں ترامیم کیں۔ 66 ترامیم ضیاءالحق نے کیں۔ 18 ویں ترمیم نے اس کا بیڑہ غرق کر دیا۔ 19 ویں ترمیم سپریم کورٹ کے بورڈ سے ہوئی۔ آرمی کورٹ آیا تو چیئرمین سینٹ کہتا ہے۔ میں نے آنسوﺅں سے اسے سائن کیا۔ بابا یہ ”آن ورک ایبل ڈاکومنٹیشن“ ہیں۔ پنجاب بہت بڑا ہے۔ بلوچستان بھی بڑا ہے۔ کے پی کے پی کے بھی بڑا ہے۔ تمام کی تقسیم ہونی چاہئے۔ بہاولپور اسٹیٹ تھی تو اسے اسٹیٹ ہی رہنا چاہئے۔ ہمیں اور صوبوں کی ضرورت ہے سرائیکی صوبہ بنتا ہے تو بننا چاہئے۔ ہمیں نئے سوشل کنٹریکٹ کی صرورت ہے جس سے بلوچستان بھی خوش ہو کے پی کے خوش ہو۔ ہزارہ صوبہ بننا چاہئے فاٹا اگر ضم نہیں ہونا چاہتا تو اسے صوبہ بنائیں۔ اگر ہندوستان نئے صوبے بنا سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں بنا سکتا۔ آپ کہتے ہیں دہشت گردی ختم کریں آپ نے ”کریلا“ دہشت گردی ختم کر دی آرمی پبلک سکول کا واقعہ نہ ہوتا آپ الیکشن ہی نہ ہونے دیتے جتنے فوجی شہید ہوئے۔ تین جنگوں میں شہید نہیں ہوئے۔ میاں صاحب آپ نے کیا کیا۔ ہمیں بے و قوف نہ بنائیں۔ افواج پاکستان علی کلی خان والی نہیں رہی۔ نہ نوابوں والی رہی۔ یہ مڈل، لوئرءمڈل اور غریبوں کی ہے۔ آپ پسند کریں یا نہ کریں۔ سپریم کورٹ عظیم ہے۔ اگر اسے احساس ہو گیا کہ ملک جا رہا ہے آپ کی وجہ سے۔ وہ آرمی کو بلائیں گے۔ اسے ملک بچانے کے لئے۔ میں نہیں جانتا آپ کے بچے ارب پتی کیسے بن گئے۔ کوئی وکیل اس پر یقین نہیں کر سکتا۔ فرسودہ آئین بچانا ہوگا۔ میں شیخ رشید کی طرح ایک مہینے کا نہیں کہتا۔ لیکن بطور وکیل کہتا ہوں کہ عدلیہ کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ ماسوائے کہ ”کانسٹی ٹیوشن کمیشن“ بنائے جس کا سربراہ سپریم کورٹ کا چیف جسٹس ہو، 5 اور ججز ہوں۔ یہ ”فرسودہ آئین چل نہیں رہا“ ضرور اس کاغذات کو تبدیل کرنا چاہیے۔ الیکٹرول ریفارم سے پہلے اگلا الیکشن بے معنی ہے۔ مسلم لیگ ن نے خود کو پرفیکٹ کر لیا ہے۔ الیکشن کو لوٹنے کا۔ میر صاحب نے اپنے فیصلے میں بہت سی بے ضابطگیاں بیان کیں ہیں۔ اگر کل الیکشن پنجاب میں ہو تو میاں صاحب جیت جائیں گے۔ اسی نظام کے تحت۔ میں آصف زرداری سے بالکل متاثر نہیں ہوں۔ ایک کرپٹ سیاستدان، سرے محل کوٹیکنکا کا کیس، فرانس کے محل کا کیس ہو یا سندھ کی 18 ملوں کا کیس ہو میرے دل میں رتی بھی ان کے لیے عزت نہیں ہے۔ ان کے پیچھے بھی لوگ لگے ہوئے ہیں۔ میں حیران ہوں۔ جب سنیٹر اعتزاز احسن جیسا ذہین آدمی بھی ان کے پیچھے کھڑا ہے۔ اگر اس سسٹم کے تحت الیکشن ہوئے 2008ءکا الیکشن پی ٹی آئی نے بائیکاٹ کیا تھا۔ دور دراز کے پولنگ اسٹیشنوں پر پریذائیڈنگ افسران غائب ہو گے۔ پنجاب میں شہباز شریف کے بندے بیٹھے ہوئے ہیں۔ میرا سیاست سے تعلق کتابی ہے۔ صرف عمران خان کو پسند کرتا ہوں۔ اگر اسی وزیراعظم اور خورشید شاہ نے کیئر ٹیکر گورنمنٹ بنا کر الیکشن کروانے ہیں تو کیا فائدہ۔ کم از کم دو سالوں کےلئے آر ایس ٹیسٹ کر کے انتخاب کے نظام کو شفاف بنایا جائے۔ ورنہ تو121 ووٹ بھی نہیں پڑ سکتے۔ ہر پولنگ اسٹیشن میں کیمرے لگے ہوں۔ ڈبل شاہ کے بھی بڑے فین تھے۔ ریاض بسرا کے بھی بڑے چاہنے والے ہیں۔ اسامہ بن لادن کے بھی بڑے فین ہیں۔ قائداعظم کو کچھ لوگوں نے شیطان اعظم نہیں کہا؟ پاکستان کے بارے میں کچھ لوگوں نے وہ ا لفاظ نہیں کہے۔ وقت کا دھارا ہے۔ نواز شریف چالیس ہزار لوگ دیکھ کر چوڑے ہو گئے ہیں۔ نواز شریف فارغ ہو چکے ہیں۔ میں مریم سے کہتا ہوں ایک کتاب بتا دو جو میاں صاحب نے مکمل پڑھی ہو۔ ٹھاکرے اور کئی اچکے الیکشن تو جیت جاتے ہیں کریمنل جیت جاتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے انکی پوجا شروع کردیں۔ اصغر خان لاہور بار آئے کسی نے کہا آپ فیل سیاستدان ہیں۔ اس نے کہا صرف اس لیے کہ میں الیکشن جیت نہیں سکا۔ پنجاب شریف خاندان کے عشق میں گرفتار ہے تو میں پنجاب کا ماما لگتا ہوں یہ پھر آکر لوٹیں گے۔ ہم چین کے آگے پاکستان کو رہن رکھ رہے ہیں۔ ایسٹ انڈیا تو سنی تھی۔ اب چینی کمپنی ہے۔ روس گرم پانیوں تک نہیں پہنچ سکا۔ چین کو رسائی دینے جا رہے ہیں۔ اگلا الیکشن ٹف ٹائم ہوگا۔ ڈیڑھ سو احتساب عدالتیں بنائیں۔ 5000 کا نوٹ ختم کریں۔ آج رات کو سب پرائز بانڈ ختم کریں۔ یہ حساب دیں گے پیسے دیں گے۔ صرف یہ بتا دیں آئے کہاں سے ہیں بغیر کنٹرول کے الیکشن ضائع کرنے کے مترادف ہونگے۔

 

 


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain