تازہ تر ین

جو لوگ عدلیہ اور پارلیمنٹ کی لڑائی بڑھا رہے ہیں وہ پاکستان کے دوست نہیں

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کارضیا شاہد نے کہا ہے کہ میں کل اسلام آباد میں تھا۔ سی پی این ای کا سیمینار تھا۔ جس میں سینئر لوگ شامل تھے۔ جیسے مریم اورنگزیب، مولانا فضل الرحمن، تحریک انصاف کے لوگ، شیری رحمن صاحبہ تھیں۔ اور دیگر پارٹیوں کے نمائندے بھی موجود تھے۔ کل نظر آ رہا تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔ جو لوگ عدلیہ اور پارلیمنٹ کے درمیان لڑائی بڑھا رہے ہیں۔ نہیں سمجھتا کہ وہ پاکستان کے دوست ہیں۔ کچھ لوگوں کو آگ آنا چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ جو جہاں جہاں کھڑا ہے وہیں رکھ جائے۔ اداروں کے درمیان لڑائی روکی جائے۔ پارلیمنٹ اور عدلیہ کے درمیان محاذ آرائی درست نہیں یہ جو بھی کرنے جائیں گے پارلیمنٹ آئین میں ترمیم کرتی جائے گی۔ بہت سی غلط فہمیاں لوگوں کے ذہن میں ہیں یہ اسی طرح کی پارلیمنٹ نہیں۔ جس طرح برطانیہ اور جرمنی وغیرہ کی تھی۔ دوسرے ملکوں میں مرد کی مرد سے شادی، پارلیمنٹ کے قانون میں جائز قرار دی گئی۔ لیکن آپ یہ کام یہاں نہیں کر سکتے۔ 1973ءکا آئین جب پاس ہو رہا تھا۔ تو میں پریس گیلری میں موجود تھا۔ اس آئین کی ابتداءقرارداد مقصد سے ہوتی ہے۔ علماءنے یہ کہا تھا کہ کوئی قانون پاکستان میں اسلام کے اور قرآن سنت کے خلاف نہیں بنایا جا سکتا۔ لہٰذا اس سے متصادم جو بھی قانون بنے گا وہ عدالتوں میں چیلنج ہو گا اور واپس ہو جائے گا۔ ملکوں کے نظام اس طرح چلتے ہیں کہ عدلیہ فیصلے دیتی ہے۔ اور پارلیمنٹ قانون سازی کرتی ہے اور ترامیم بھی کر سکتی ہے لیکن آئین سے متصادم بالخصوص قرآن سنت کے برخلاف کوئی ترامیم نہیں کی جا سکتیں۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ ترامیم سے آئیں گے تو ایسا ممکن نہیں۔ آج صحیح سمت میں کچھ کام ہوا ہے۔ میاں نوازشریف ایک فرد کے طور پر نااہل قرار پائے۔ ان کی یہ کوشش کہ وہ خود کو پارلیمنٹ سے بحال کروا لیں گے اس کو بھی کورٹ نے مسترد کر دیا۔ آج وقتی طور پر یعقوب صاحب کو پارٹی کا صدر بنایا گیا۔ شہباز شریف کا نام تجویز ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہوش کے ناخن لے۔ انہوں نے پہلے بھی حقائق کو دبایا یعنی یہ نہیں ہے کہ کچھ بھی نہیں ہے تاریخ میں اس طرح نہیں ہوتا۔ اگر انہیں ہٹا بھی دیا گیا ہے تو وہ ان کی پارٹی ہے ان کے چھوٹے بھائی کا نام لیا جا رہا ہے۔ انہیں آگے بڑھانا چاہئے کہ سیاست جو ایک مقام پر آ کر رک گئی ہے اسے آگے لے کر چلنا چاہئے مثلاً آپ لاہور سے اسلام آباد تک مارچ کریں فرض کریں 5 لاکھ لوگ نوازشریف کے حامی اسلام آباد پہنچ جاتے ہیں کیا وہ ججوں کو اٹھا کر زمین پر پٹخ دیں گے۔ کیا وہ سپریم کورٹ کی عمارت کو تہہ بالا کر دیں گے؟ کیا وہ اس کو نذر آتش کر دیں گے۔ بالغ نظری کا تقاضا یہ ہے کہ قبول کر لیں میاں نوازشریف پر ایک افتاد آئی ہے جب تک وہ عمل ”اَن ڈو“ نہیں ہو جاتا وہ اپنے چھوٹے بھائی کو سامنے لے آئیں پارٹی کو بھی بچانے کی کوشش کریں۔ سیاستدانوں کو ایسا اسٹینڈ نہیں لینا چاہئے جسے وہ ثابت نہ کر سکیں۔ اس معاملے پر سب کا ٹریک ریکارڈ خراب ہے۔ ایک بندہ بھی باہر نہیں ہے خاص طور پر تینوں بڑی پارٹیاں 62/63 پر تحریک انصاف، آصف زرداری پورا اترتے ہیں؟ کیا ن لیگ پورا اترتی ہے؟ آہستہ آہستہ راز کھلنے لگے ہیں۔ آپ اس پر جتنا مرضی تلملائیں اس سے کچھ نہیں ہو گا۔ عابد شیر علی جتنا مرضی بولل لیں اس سے کیا ہو گا۔ میں نے انہیں کل بھی کہا آپ اپنی پارٹی سنبھالیں اگلے الیکشن میں آپ کی کامیابی کے چانسز ہیں الیکشن میں جائیں۔ یہ پارٹی مشرف کے آٹھ سال نکال دیں تو 35 سالوں سے حکومت میں ہے اس کا فرض بنتا ہے کہ تاش کے پتوں کی طرح یوں پھینٹیں اور چال کھیلیں جن لوگوں پر الزامات ہیں انہیں چھور دیں اور نئے لوگ آگے لے آئیں۔ تاریخ کا دھارا یہاں رک جائے گا کہ پی سی او کے ”ججز نے نوازشریف کے ساتھ بڑی زیادتی کی ہے!“ یہی پی سی او کے ججز جب آپ کے حق میں فیصلہ دے دیتے ہیں تو کوئی نہیں کہتا کہ یہ پی سی او کے ججز ہیں جب خلاف فیصلہ دیتے ہیں تو یاد آ جاتا ہے کہ یہ غلط فیصلے دے رہے ہیں۔ میری معلومات کے مطابق سینئر عہدوں پر رہنے والے 60 یا 70 لوگ اب عدالت میں پیش ہونے والے ہیں ہر دن دو یا تین نئے چہرے سامنے آئیں گے۔ اس کا طریقہ یہ ہے جو لوگ پکڑے جائیںوہ خود کو الزامات سے بچانے کی کوشش کریں یہ کہنا کہ نام بدل دیں۔ عجیب ہے۔ تاریخ کے حقائق کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے خود کو ”ڈیفنڈ“ کریں۔ شہباز شریف کو چاہئے ایم پی اے تین سیٹیں۔ ایم این اے اور سنیٹرز چار سیٹیں۔ یہ گریڈ 4 کے یہ ضلعے ہیں۔ فراڈ اور چیٹنگ ہو رہی ہے لوگ 27 اور 70 لوگ 5 دنوں تک انٹرویو دے رہے ہیں جبکہ طے ہو چکا کہ چیف منسٹر کے حکم سے یہ سیٹیں تقسیم کر دی گئیں ہیں۔ یہ وہ ایم پی اے اور ایم این اے میں جو ان کی پارٹی کے وفادار ہیں۔ شہباز شریف نے کئی دفعہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ شفاف نظام چاہتے ہیں یہ کون سا کرپشن سے صاف نظام ہے کیوں اسے اوپن نہیں چھوڑ دیتے میں نے آپ کو تین ضلعوں کی بات بتائی، رحیم یار خان، خانیوال، بہاولپور ان میں شامل ہیں۔ اس شخص کی ذہنی صلاحیت کا اندازہ کریں۔ میں ایک دفعہ ہوم ڈیپارٹمنٹ کی اجازت لے کر لاہور سے چند میل دور گیا ایک نوجوان پکڑا گیا۔ جو دہشت گردی کرواتا تھا۔ وہ بسوں میں گھس کر دہشت گردی کرواتا تھا۔ پتا چلا کہ انڈین ایجنسی کے کچھ لوگ اتنی معمولی رقم تھی۔ 10 ہزار روپیہ 15 ہزار روپیہ اس نے پوری بس اڑا دی۔ میں نے وعدہ کیا کہ انٹرویو نہیں کروں گا چھاپوں گا بھی نہیں۔ جب میں اس شخص سے ملا تو پتا چلا کہ 10 ہزار بھی فضول دیئے جا رہے تھے۔ وہ پاکستان کے اداروں کے اتنا خلاف تھا کہ بغیر معاوصے کے ہی اس سے کچھ کروایا جا سکتا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا اور مارنے چاہیں۔ مجھے اگر اور بم مل جائیں تو پورے شہر کو تباہ کر دوں۔ اس کے دماغ میں اتنا غصہ تھا۔ اوپر سے ”را“ والوں نے اسے 10 ہزار دینے شروع کر دیئے۔ میں نے تمام ہسٹری لی۔ وہ بڑے آدمیوں کی زیادتیوں سے، پولیس کی زیادتی سے تنگ تھا اس کی بہن کو انصاف نہیں ملا کیونکہ فلاں فلاں طاقتور شخص نے اس کی بہن کے ساتھ زیادتی کروائی تھی۔ اور وہ کھولتا رہا۔ اس کی عمر 16 سال تھی وہ کہتا کہ اس وقت بھی مار ڈالتا۔ ماہر قانون دان ایس ایم ظفر نے کہا ہے کہ انصاف ہر شخص کا حق ہے۔ انصاف تنازع کو حل کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ تنازع معلوم کرنے کے لئے حقائق جاننا ضروری ہووتے ہیں۔ کون مظلوم ہے کون ظالم، قدرت تو فوری انصاف کر سکتی ہے لیکن انسان نہیں۔ انسان کے لئے کچھ مراحل بنا لئے جاتے ہیں جس سے گزر کر وہ انصاف تک پہنچتا ہے۔ انصاف کو سستا ہونا چاہئے اور سب کے لئے ہونا چاہئے۔ ہمارے ہاں الفاظ تو ہوتے ہیں لیکن ہم اس کی گہرائی میں نہیں جاتے۔ گواہ کا سچا اور جھوٹا معلوم کرنا ہی اصل سمجھداری ہے۔ وہ وقت گزر گیا جبکہ لوگ خدا کے خوف سے جھوٹ نہیں بولا کرتے تھے۔ اب تو سائنٹفک طریقے آ گئے ہیں جس کے ذریعے معاملے کی حقائق تک پہنچا جا رہا ہے۔ ہمیں جلد اور فوری انصاف حاصل کرنے کے لئے محنت کرنی چاہئے۔ پاکستان میں عدلیہ اور مقننہ کے درمیان جب کوئی تنازع ایسا پیدا ہو جائے جس سے معاملہ پیچیدہ ہو جائے تو ریاست کی چولیں ہل جاتی ہیں ریاست کمزور ہو جاتی ہے۔ دوسرے ملک اندازہ لگانا شروع ہو جاتے ہیں کہ اب یہ عمارت کب گرے گی۔ تا کہ ہم اپنا اپنا حصہ نکال سکیں۔

 


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain