تازہ تر ین

جمہوریت اور آزادی صحافت کےلئے نواز شریف کا ساتھ دیا جب دیکھا کہ کرپٹ لوگوں میں گھرے ہوئے ہیں تو الگ ہوگیا , معروف صحافی ضیا شاہدکی چینل ۵ کے لائیو پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں دبنگ گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) معروف اینکرپرسن، کالم نگار، دانشور، تجزیہ کار حسن نثار نے کہا ہے کہ 12اکتوبر 1999ءکو جب پرویز مشرف نے نواز شریف کو نکالا تھا تو ایک پتہ بھی نہیں ہلا تھا۔ جب سعودی عرب سے واپس آئے استقبال کرنے والے سو سے زیادہ افراد نہ تھے اب پھر ان کو نکالا گیا اب بھی کچھ نہیں ہوگا۔ نواز فیملی تضاد بیانی کا شکار ہے۔ خود نواز شریف قومی اسمبلی میں کچھ بیان دیتے ہیں عدالتوں میں کچھ، بیٹی کچھکہتی ہے بیٹے کا کچھ اور بیان ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے چینل ۵ کے پروگرام ”ضیاشاہد کے ساتھ“ خصوصی مکالمہ میں کیا۔ ان کی گفتگو سوالاً جواباً نذر قارئین ہے۔ضیاشاہد: نواز شریف 2روز سے کہہ رہے ہیں کہ میرا لندن کے فلیٹس کے معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے میرے بیٹے جانیں اور ان کے کام جانیں۔ اس طرح انہوں نے کہہ دیا کہ قطری صاحب بیان دینے کو تیار تھے عدالت کا قصور ہے کہ اس کا بیان نہیں لیا اور تمام ٹی وی چینلز دکھا رہے ہیں کہ جناب نواز شریف صاحب نے اس مسئلے پر مختلف خیالات کا اظہار کیا ہے یعنی قومی اسمبلی میں کوئی بات کی، پریس کانفرنس میں کوئی دوسری بات کی۔ ایک ڈیڑھ سال پہلے کچھ اور بات کہی۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ پاکستان میں 3مرتبہ وزیراعظم اور ایک مرتبہ وزیراعلیٰ والا اور یہ کلیم کرنے والا میں سب سے بڑی سیاسی جماعت کا سربراہ رہا ہوں اور آج بھی اس کا قائد شمار ہوتا ہے حسن صاحب کیا آپ سمجھتے ہیں ہمارے عام لوگوں کا، لکھنے پڑھنے والوں، ٹی وی دیکھنے والوں کا اب تو اس کے لیے تعلیم کی بھی شرط نہیں رہی۔ صورت اور آواز دونوں کو دیکھ کر سمجھ سکتا ہے کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہمارے لیڈران کرام وہ سمجھتے ہیں کہ عوام کا حافظہ بہت کمزور ہے جو ان کے جی میں آتا ہے وہ کہتے ہیں اور بڑی ڈھٹائی کے اس بات پر اڑ جاتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ نواز شریف مختلف وقتوں میں کیا کہتے رہے ہیں۔ مگر وہ بڑے زور شور سے فرما رہے ہیں کہ میرا کوئی تعلق نہیں ہے اور میرا دبئی کے کارخانوں سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے حالانکہ انہوں نے قومی اسمبلی میں کہا تھا کہ اس کے سب کاغذات میرے پاس موجود ہیں اور ہم نے وہاں مل جو تھی اسے بیچ کر اپنا سرمایہ باہر منتقل کیا تھا۔ حسن صاحب مسئلہ کیا ہے۔حسن نثار: ابھی چند روز پہلے آپ کی کتاب کی رونمائی تھی۔ اتفاق ہے کہ وہ اس وقت بھی میرے سامنے پڑی ہے ”سچا اور کھرا لیڈر“۔ بہت شکریہ اس پر اظہار خیال کی مجھے بھی دعوت دی گئی تو میں نے حاضرین کو گزارش کی تھی کہ ضیاشاہد کی لکھی ہوئی یہ ا نتہائی خوبصورت کتاب پڑھنے سے گریز کریں کیونکہ بابائے قوم کے بارے میں یہ کتاب پڑھنے کے بعد انسان کو پاکستانی سیاست اور سیاست دانوں سے نفرت ہو جاتی ہے، گھن آنے لگتی ہے، کراہت محسوس ہوتی ہے۔ بالکل وہی بات آپ نے اور طریقے سے کی ہے۔ یہ پورے کا پورا خاندان بھیانک تضادات کا شکار ہے۔ ابھی 15,10 دن پہلے کی بات ہے کہ میں نے اپنے بیٹے کو دیکھا کہ وہ ایک قیمتی گھڑی پہنے ہوئے تھا۔ تو میں نے فوراً آپ کی بھابی سے بات کی کہ یہ گھڑی کہاں سے آئی ہے خیر لڑکے نے وضاحت کر دی بات آئی گئی ہو گئی۔ یعنی ہم جیسے لوگ، پرہیز گار نہیں گنہگار لوگ ہیں پابند صوم و صلوٰة شاید نہ ہوں۔ ایک گھڑی برداشت نہیں ہوئی، اس آدمی کی اولاد کے پاس جو نیو ایوریج ہے کھربوں کی جائیداد ہے جس کی وضاحت نہیں دے سکتا۔ اصل کہانی یہ ہے یہ منی ٹریل کا سادہ سوال ہے۔ آپ اختیار نہیں رکھتے کہ مجھ سے پوچھیں کہ حسن نثار تمہارے پاس یہ اثاثے کہاں سے آئے لیکن آپ مجھ سے پوچھیں گے ایک سنیٹر ہونے کے ناطے، تعلق کے ناطے تو میں پوری طرح ایکسپلین کروں گا آپ کو۔ احسن اقبال نے ایک بار مجھے طعنہ دیا تھا کہ جی لائف سٹائل دیکھیں ایف بی آر میں جا کر دیکھو میں ٹیکس کتنا دیتا ہوں۔ ایک طرف ہم کہانیاں سنتے ہیں سناتے ہیں کہ ایک عام بدھ کھڑا ہو کر امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب جیسے جو بنیادی طور پر بڑے ایگریسو مزاج کے انسان تھے۔ سرعام پوچھتا ہے کہ آپ کا کرتہ کیسے بن گیا چونکہ جو کپڑا ملا تھا وہ آپ کے قدو قامت کے بندے کے کرتے کے لیے ناکافی تھا۔ امیرالمومنین ماتھے پر بل ڈالے بغیر جواب دیتے ہیں میرا بیٹا جواب دے گا اور وہ کھڑا ہو کر بتاتا ہے کہ میں نے اپنے حصے کا کپڑا اپنے والد کو پیش کر دیا تھا تاکہ ان کا کرتہ بن سکے۔ ضیاشاہد یا تو آپ یہ کہانیاں اپنے نصابوں سے نکال دیں یا ان کو گریبانوں سے پکڑ کر گھسیٹیں جو کرتہ نہیںکھربوں روپے کی جائیداد کا حساب دینے سے انکاری ہیں اور وہ بھی کس کو، کسی بدو کو نہیں ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کو۔ اتنی زیادہ تضاد بیانی (کنٹراڈکشنز)۔ بیٹی کچھ کہہ رہی ہے، دوسرا کچھ کہہ رہا ہے، بیگم کچھ فرما رہی ہیں، خود کچھ کہہ رہے ہیں۔ کہانی کیا ہے۔ آپ مجھ سے پوچھ رہے ہیں گھڑی کہاں سے آئی ختم۔ضیاشاہد: حسن نثار! یہ بتائیں کہ نواز شریف نے نیا بیانیہ یہ دینا شروع کیا ہے کہ میرا کوئی تعلق نہیں ان معاملات سے جائیں اور میرے بیٹوں سے پوچھیں جبکہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب یہ پراپرٹیز خریدی گئیں اس وقت یہ دونوں بیٹے نابالغ تھے اٹھارہ سال ان کی عمر نہیں تھی۔ آپ یہ سمجھتے ہیں کہ نابالغ بیٹوں کے حوالے سے اتنی بڑی اور اتنی بیش قیمت پراپرٹی جو ہے ان کا والد کہتا ہے جائیں ان سے پوچھیں تو یہ درست بات ہے۔حسن نثار: ضیاشاہد اس کا تو سادہ جواب ہے کہ اگر تم دیانتدار ہو تو تم سمیت تمہاری اولاد بھی چور نہیں ہے تو وہ مفرور کیوں ہیں۔ انہیں بلاﺅ، یہ حضرت عمر بن خطاب کے بیٹے کی طرح وہ آئیں اور اپنے باپ کی عزت بحال کرائیں وہ بتائیں ہماری لاٹری نکلی تھی، وہ بتائیں فلاں کیسینو میں ہم نے جواءکھیلا تھا یا ہمارے باپ نے موٹر وے لوٹی ہے۔ میں نے خبریں میں کالم لکھا تھا کہ میں جب گھر سے اختلاف کر کے لاہور آیا تو میں نے ماڈل ٹاﺅن میں ریڑھی لگائی تھی اور ماڈل ٹاﺅن میں ابرار بھٹی سے لیکر مولانا عبدالقادر روپڑی صاحب کے بیٹے سے عارف روپڑی سے دوستیاں اس زمانے کی ہیں ورنہ میں تو لائلپور سے آیا تھا ہاسٹل نمبر ون میں رہتا تھا 5سال وہاں رہتا رہا۔ کوئی 20,19 کا فرق ہوگا۔ تمہارے تو جواب ہی کوئی نہیں جھوٹ در جھوٹ۔ضیاشاہد: ان کا تضاد بھی سامنے آ گیا۔ ان کی وضاحت بھی کوئی نہیں دے سکے۔ منی ٹریل بھی کوئی نہیں دے سکے۔ لیکن جب بھی کوئی جلسہ ہوتا ہے یہی کلیم کرتے ہیں کہ دیکھو انسانوں کا سمندر۔ کیا پاکستان کے بے شمار عوام جو جمع ہو جاتے ہیں۔ حسن نثار بزنس میں کسی کا دوست نہیں۔ وہ لوگوں کو استعمال کرتا ہے دائیں یا بائیں پھینک کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ بات یہ ہے کہ اتنے بے شمار لوگ جلسوں میں ہاتھ کھڑا کر کے کہتے ہیں۔ مریم بی بی کے جواب میں کہ ہاں ٹھیک ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ کیا تم نے 2013ءمیں ووٹ دئیے تھے وہ کہتے ہیں دئیے ہیں وہ کہتی ہیں پھر یہ کون ہوتی ہے عدلیہ، یہ جج کون ہوتے ہیں کہ تمہارے ووٹ کی توہین کریں۔ کیا کسی کے اسمبلی کے رکن منتخب ہونے سے اس کی باقی ساری زندگی شبنم میں نہائی ہوتی ہے کہ اب وہ کوئی جرم نہیں کرے گا جناب۔ وہ قتل کرے، چوری کرے، دغا کرے، فریب کرے، لوگوں کا مال لوٹے لیکن چونکہ وہ 2013ءمیں منتخب ہو گیا تھا اس لیے وہ بیانیہ یہ کہتا ہے کہ اب اسے کوئی نہیں پوچھ سکتا۔ دوسری بات یہ ہے۔ یہ اتنے سارے لوگ کیا قرآن حکیم کی ایک آیت ہے صمµ بکمµ یعنی اندھے، گونگے ہیں بہرے ہیں اور کچھ پہچانتے نہیں کہ کیا ہو رہا ہے کیا آپ سمجھتے ہیں کہ جو لوگ ان جلسوں میں جاتے ہیں ہاتھ اٹھا کر کہتے ہیں کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ججوں کو کوئی اختیار نہیں کیونکہ 5سال پہلے آپ نے منتخب جو کر لیا تھا۔ ہمیں لگتا ہے اس پر میں نے بہت پروگرام کیے ہیں ہماری تحریریں پتہ نہیں کہاں چلی جاتی ہیں اس کے باوجود مجمع لگتا ہے کوئی کہتا ہے پٹواریوں سے بھرا، کوئی کہتا ہے پولیس والوں سے بھرا بندے تو جمع ہو جاتے ہیں کہاں سے آتے ہیں یہ لوگ۔ کیا یہ اندھے، گونگے ہیں۔ بہرے ہیں ان کا دماغ کام نہیں کرتا۔ یہ نہیں جانتے ایک دفعہ منتخب ہونے سے ساری عمر کے گناہ دھل نہیں جاتے اور آئندہ گناہ کریں گے وہ بھی دھل نہیں جائیں گے۔حسن نثار: اس کی بہت ساری سمتیں ہیں یہ اتنا بھاری سوال ہے جس کا دس پروگراموں میں بھی جواب دینا مشکل ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ کی اجازت سے میں آپ پر ایک الزام لگاتا ہوں۔ اس آدمی کو یہاں تک پہچانے کے جرم میں آپ بھی شریک ہیں۔ اچھا یہ تو منی ٹریل کی طرح آپ پہلے منی ٹریل دیں، اعتراف کریں۔ پھر آگے چلتے ہیں مجھے آپ کی کنٹری بیوشن کا بہت اندازہ ہے۔ضیاشاہد: میں اس کا اعتراف کرتا ہوں کہ بہت مدت تک حسن نثار صاحب ان کی مدد کرتا رہا لیکن یقین جانیں کہ تحریک نجات میں میں یہ سمجھتا تھا کہ اس وقت کی حکومت جو ہے وہ جمہوریت کے خلاف جاری ہے آزادی صحافت کے خلاف جا رہی ہے لہٰذا میں نیک نیتی سے یہ سمجھتا تھا کہ ان کو کوئی سپورٹ ہونی چاہیے لیکن ان کو سپورٹ ملی تو میں یہ بتاتا چلوں میں اس کی باتیں کرتا نہیں آپ بھی میرے مزاج سے واقف ہیں کہ میرے ہی گھر پر آخری ملاقات نواز شریف صاحب سے ہوئی 1½ گھنٹہ تک ہماری بحث ہوئی کہ آپ ہر اچھے آدمی کو، اس وقت انہوں نے میاں اظہر کو کان سے پکڑ نکال دیا تھا۔ میں نے کہا وہ اچھا آدمی ہے شریف آدمی ہے۔ مجھے یہ کہا گیا اور بہت سینئر بندہ ان کے ساتھ تھا یعنی احتساب ادارے کا سربراہ سیف الرحمان اور میاں صاحب میرے گھر پر آئے تھے۔ 1½ گھنٹہ بحث مباحثہ ہوتا رہا جب مجھ سے انہوں نے کہا میں ان کو یہ کہنے کی کوشش کر رہا تھا کہ جب تک صاف شفاف لوگ نہیں ہونگے میاں صاحب! انہوں نے کہا کہ گوجرانوالہ کا جلسہ ہے کنّے پیسے دیں گا۔ میں نے کہا میں کس لیے دوں گا، کہنے لگے 3 کروڑ لگنا اے جلسے تے۔ اس کے بعد سرگودھے کا بھی جلسہ ہے۔ اس کا 4کروڑ خرچہ ہے کتنے پیسے دو گے میں نے کہا میں کس لیے پیسے دونگا۔ کہنے لگے جب میں حکومت میں آﺅں گا دو ماہ بعد الیکشن ہے پہلے دس بندے جنہوں نے حلف اٹھانا ہے اللہ شاہد ہے ساتواں بندہ چھٹا بندہ ہے جس نے حلف اٹھانا ہے میں نے کہا جی لعنت بھجتا ہوں میں تو کبھی بھی آپ کی نوکری نہ کروں۔ میں اخبار نویس ہوں میں غیرجانبدار رہنا چاہتا ہوں۔ میرا سوال یہ ہے کہ آپ یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ سیاست کے لیے پیسہ چاہیے چاہے وہ لوٹ مار سے ہی کیوں نہ ہو۔ انہوںنے مجھے کہا کہ جس گھر میں تم رہتے ہو تمہیں چاہیے کہ بڑا گھر ہو، بڑی گاڑی ہو اگر سیاست میں آنا ہے۔ میں نے کہا میں نے بالکل نہیں آنا۔ 1½ گھنٹے انہوں نے کہا اٹھ کے کھڑے ہوئے۔ جپھی ڈالی۔ انہوں نے کہا آج سے آپ اپنا کام کریں گے میں اپنا کام کرتا ہوں کیونکہ سیاست کے لئے پیسہ چاہیے اور پیسہ جن کے پاس ہوتا ہے انہی کو ساتھ ملانا پڑتا ہے۔ میاں اظہر کے پاس اور تمہارے پاس کیا ہے۔ میں غلطی تسلیم کرتا ہوں یہ 16تا18 سال پہلے کی بات ہے۔ حسن نثار میں جب ان کے والد صاحب کے انتقال کی تعزیت کے لیے گیا لیکن میں ان سے کبھی ملا ہی نہیں۔ وہ مجھے نہیں ملتے وہ مجھے پسند نہیں کرتے میں انہیں پسند نہیں کرتا۔
حسن نثار: آپ نے اپنے سوال کا جواب خود دے دیا۔ آپ جیسا ذہین آدمی دو سبجیکٹ میں ماسٹر کرنے کے بعد اتنا بڑا ذہن رکھنے کے باوجود ان بددیانتوں کو نیک نیتی کی وجہ سے سپورٹ کرتا رہا۔ احد چیمہ ہزار گنا کیسے آگے ہے۔ یہ عطاءالحق اور احمد چیمہ میرے ہاتھ پرشکرے پالے ہیں کوئی پہرے میں کوئی چہرے میں۔ کیا ملک تیرے باپ کی جاگیر ہے۔ انہوں نے 30 سال میں بینی فشریز پیدا کئے ہیں۔ جرائم پیشہ بندے پولیس میں بھرتی، وہ جو بارہ اکتوبر کے بعد ایک پتہ بھی نہیں ہلا جب دوبارہ آنے کی کوشش کی سو بندہ نہیں تھا ائیرپورٹ پر، یہی دوبارہ ہونا ہے۔ ابھی کچھ معصومیت اور سادگی کی وجہ سے کچھ عوام، کچھ لوگ اپنی مجبوریوں کی وجہ سے کہتا ہوں۔ یہ ووٹ لیتے نہیں ہیں۔ وہ جناح صاحب والی کتاب میں آپ نے لکھا ہے کہ میں سیٹ جیتنا چاہتا ہوں خریدنا نہیں چاہتا۔ کیا آج مسلم لیگ کا وارث یہ ہے۔

 


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain