تازہ تر ین

نواز شریف کو تنہائی میں سوچنا چاہیے کہ ان سے کونسی غلطیاں ہوئیں : معروف صحافی ضیا شاہد کی چینل ۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ ہمارے ہاں عام طور پر ایک بار ایک آدمی جس پوزیشن میں پہنچ جائے وہ نیچے کی طرف دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ ہر بندے کا خیال ہوتا ہے کہ میں جس جگہ کھڑا تھا اسی جگہ پر کھڑا ہوں۔ مگر یہ نہیں سوچتے کہ اردگرد جو چیزیں ہوتی ہیں وہ بہت اوپر نکل چکی ہوتی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ بظاہر یہ بات بڑی مذاق لگتی تھی۔ میں نے اپنی زندگی میں مشاہدہ کیا ہے کہ سب سے زیادہ غلط فہمی انسان کو یہ ہوتی ہے کہ میں وہیں کھڑا ہوں جہاں پہلے کھڑا تھا۔ اور یہی بات ایاز صادق کے ساتھ بھی ہے۔ ایاز صادق کو سمجھ لینا چاہئے تھا کہ وہ جاتے تو انہیں چاہئے تھا کہ جب وہ گئے تو انہیں جان بوجھ کر تیسرے چوتھے نمبر پر جانا چاہئے تھا اور اگر آپ کو زور سے کوئی کہے کہ آپ اوپر کھڑے ہوں ادھر نہ کھڑے ہوں تو غصہ نہ کرتے خاموشی سے ادھر کھڑے ہو جاتے۔ اگر ان کی اڈیالہ جیل کے باہر ان کی گاڑی کی تلاشی ہو بھی گئی تو کوئی بات نہیں۔ میں پچاس60 سال سے یہی دیکھا ہے کہ جتنے میں نے ریٹائرڈ بڑے بڑے افسر دیکھے ہیں پتہ وہ کیا لکھتے ہیں۔ یوں لکھا ہوتا ہے چیف سیکرٹری، پیڈ پرانا چھپا ہوتا ہے وہ چھوٹا سا آگے لکھ دیتے ہیں ایکس چیف سیکرٹری، اگر لکھا ہوتا ہے آئی جی ااخر میں بریکٹ ڈال کر ایکس لکھ دیتے ہیں۔ ان کے دماغ سے یہ خناس باہر آتا ہی نہیں نکلتا اب ہم انسان کے بچے ہیں۔ اب جو پھنے خانی کا کن ٹوپ لگا ہوا تھا وہ نکال دیں۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر وقت آدمی ہر جگہ پر اس پھنے خانی کے مقام پر رہے۔ ہمارا نہ سابق وزیراعظم یہ سوچنے کو تیار ہے میں اب وزیراعظم نہیں رہا ہوں۔ نہ ہمارا سابق سفیر، نہ چیف سیکرٹری نہیں رہے۔ ہمارا تو اے ایس آئی ماننے کو تیار نہیں کہ وہ اے ایس آئی نہیں رہا۔ یہ اچھی بات ہے کہ میں جس نوازشریف کو جانتا ہوں ان کو اللہ تعالیٰ نے عزت مقام اور مرتبہ دیا۔ وہ اس ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ رہے اور وہ دو مرتبہ وزیراعلیٰ اور تین مرتبہ وزیراعظم رہے۔ اور لوگوں کو ان کی عزت کرتے دیکھا ہے۔ نوازشریف کو ان کی عزت مقام اور پوزیشن مدنظر رکھتے ہوئے ان کی عزت بھی ہونی چاہئے۔ پرویز رشید کا بھی میاں نوازشریف کو بگاڑنے میں بڑا ہاتھ ہے۔ کاش پرویز رشید میاں نوازشریف کو یہ کہیں کہ وہ سوچیں کہ کس کس مقام پر زندگی میں ان سے غلطیاں سرزند ہوئیں۔ ایک دفعہ پھر قدرت ان کو ہر موقع دے گی حکومتیں ختم ہونے سے سیاسی لیڈر ختم نہیں ہوا کرتے۔ اگر ان سے ہوئیں کہ آج اگر الگ بیٹھ کر سوچیں۔ ٹھیک ہے آپ نے دس کام اچھے کئے ایک کام یا 4 کام آپ سے غلط بھی ہوئے ہوں گے ان پر غور کریں اور آئندہ ان غلطیوں سے اجتناب کریں تو مجھے یقین ہے کہ نوازشریف میں اتنی خوبیاں ہیں اللہ نے دی ہیں کہ وہ اپنے آپ کو اس سے بڑے مقام پر لے جا سکتے ہیں۔ پرویز رشید نے کہا ہے کہ سب انسانوں سے غلطیاں ہوتی ہیں لیکن غلطیوں کا اس مقدمے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بہت سے لوگ آپ کے گرد ہوں جو آپ کی ہاں میں ہاں ملا دیتے ہوں گے۔ اس طرح نوازشریف کے گرد بھی ہر قسم کے لوگ تھے لیکن سیاست میں غلطیوں کا ہونا اور ان کا اعتراف کرنا، ہم نے اپنی غلطیوں کا اعتراف نہیں کیا ہو گا ہم نے کبھی دعویٰ ہی نہیں کیا کہ ہم سے غلطی نہیں ہوئی ہے لیکن ہم یہ کہہ رہے ہیں جو مقدمہ چلایا گیا ہے اور جو سزا سنائی گئی ہے اس میں ناانصافی صاف نظر آ رہی ہے کتنی ناانصافی ہے جج صاحب خود اعتراف کرتے ہیں کہ نوازشریف صاحب آپ نے کوئی کرپشن نہیں کی آپ نے کوئی بدعنوانی نہیں کی اس کے باوجود انہیں سزا دے دی جاتی ہے اقامہ ایک سفری سہولت ہے اس کی بنیاد پر ایک سزا سنا دی گئی ہے دونوں چیزوں کی مثالیں پاکستان میں پہلے نہیں ملتیں لہٰذا بجائے اس کے کہ ہم نواز شریف صاحب سے کہیں کہ آپ اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں میں تو ان سے کہوں گا جو سزائیں سنا رہے ہیں کہ وہ اپنی غلطیوں کو سمجھیں اور پاکستانی عوام کو مطمئن کریں کہ وہ یہ غلطیاں کیوں سرزد کر رہے ہیں اور ہر ایک سیاسی جماعت کو اس کے قائد کو جیل میں بند کر دیتے ہیں لوگوں کو اس کی قیادت سے محروم کر دیتے ہیں۔ لوگوں کو اس کی آواز سے محروم کر دیتے ہیں صرف سیاسی قائدین انتخابی مہم چلاتے ہیں خود ہی اصول بناتے ہیں کہ انتخاب کے بعد مقدموں کے فیصلے ہوں گے یہ سہولت عمران خان کو دیتے ہیں، یہ سہولت آصف زرداری کو دیتے ہیں یہ سہولت فریال تالپور کو دیتے ہیں لیکن یہ سہولت آپ مریم نواز کو نہیں دیتے، یہ سہولت قمر الاسلام راجہ کو نہیں دیتے۔ کیپٹن صفدر کو نہیں دیتے۔ کیا غلط وہ کر رہے ہیں۔ سہولتیں ایک فریق کو دے رہے ہیں دوسرے فریق کو نہیں دے رہے۔ یہ غلطی نوازشریف تو نہیں کر رہے یہ غلطی کون کر رہا ہے اور جو غلطی کر رہا ہے۔ ضیا شاہد اپنے الفاظ کا رخ اس کی طرف کیجئے اور اسے کہیں کہ وہ یہ غلطیاں نہ دہرائے۔ ایسی غلطیوں کی پاکستان کو بڑی سزائیں مل چکی ہیں۔ پاکستان کو دوبارہ سزا کی طرف نہ دھکیلیں۔ بجائے اس کے آپ ہمیں نیک چال چلنی کا بھاشن دیں۔ آپ ان سے کہیں جنہوں نے پاکستان میں یہ صورت حال پیدا کی ہے کہ پاکستان کے لوگ اسی سے دکھی بھی ہیں رنجیدہ بھی ہیں فکر مند بھی ہیں۔
ضیا شاہد نے کہا کہ پرویزرشید صاحب کی یہ بات صحیح ہے کہ الیکشن میں جو سہولتیں باقی سیاستدانوں کو ملی ہوئی ہیں وہی سہولتیں جناب نوازشریف کو بھی ملنی چاہئیں اس سے ہم سب کو اتفاق کرنا چاہئے۔ آپ مجھے یہ بتائیں کہ جب تک ایاز صادق صاحب اگلے الیکشن نہیں ہو جاتے اور جو نیا سپیکر نہیں بن جائے گا وہ سپیکر ہیں۔ اور وہ سابق سپیکر بھی رہیں گے۔ کیا اگلے80 سال تک سابق سپیکر ہی رہیں گے۔ضیا شاہد نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ سیاست اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ باہمی احترام اور رواداری کا راستہ اختیار کیا جائے۔ رسول پاک کے پاس صحابہ کرامؓ تشریف فرما تھے کہ ان کے پاس کچھ باہر کے لوگ آئے انہوں نے اپنے عمائدین کے بارے میں کچھ الفاظ کہے جو ایک صحابی نے ان کے سخت الفاظ کہے۔ آپ نے منع کیا کہ اگر آپ ان کے سربراہ کی عزت نہیں کریں گے تو وہ آپ کے سربراہ کی عزت نہیں کریں گے۔ مخالفوں کے بارے میں ناشائستہ زبان استعمال نہیں کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ار سیاستدانوں نے الیکشن میں اپنی زبان کو تہذیب کے دائرے میں نہ رکھا، دوسروں کو گالی دی تو جواب میں اس سے بڑی گالی آئے گی۔ کیا یہ لوگوں کے درمیان لڑائی جھگڑا کرانا چاہتے ہیں۔ الیکشن کا مطلب ہوتا ہے کہ لوگ جس کو پسند کرتے ہیں خاموشی سے اس کو ووٹ ڈال آئیں۔ مخالف کو بُرا نہیں کہنا چاہئے۔ دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا۔ عمران خان سمیت سب سے باقاعدہ درخواست کرتا ہوں کہ الیکشن میں چند روز باقی ہیں، ناشائستہ زبان استعمال نہ کریں۔ دوسروں کی عزت کریں گے تو آپ کی عزت ہو گی۔

 


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain