تازہ تر ین

عمران خان کی سعودی عرب موجودگی ، نواز شریف کی رہائی ، سوال اٹھنے لگے : ضیا شاہد ، نیب نے کمزوری دکھائی ، اپیل میں بھی فیصلہ نواز کے حق میں آ سکتا ہے : خالد رانجھا ، احتساب عدالت کے جج کے فیصلے میں ابہام تھا جس کا فائدہ نواز شریف کو ملا : کنور دلشاد کی چینل ۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے عام طور پر سپریم کورٹ سے بالکل مختلف ہوتے ہیں اس میں کوئی بری بات نہیں ہے اگر قانون ان کو رعایت دینا چاہتا ہے یا دیتا ہے تو اس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ کیوں رعایت ملی البتہ یہ بات ضرور ثابت ہوتی ہے کہ نیب کی جو گرفت ہے معاملات میں شائد کوئی زیادہ مضبوط نہیں رہی ہے۔ میں نے کل ہی کہا تھا میری رائے یہی تھی کہ مریم نواز اور کیپٹن صفدر ونوں رہا ہو جائیں گے میری رائے یہ تھی کہ شاید نوازشریف کو ریلیف نہ ملے۔ اچھی بات ہے وہ آرام سے آ کر اپنے گھر پر رہیں گے۔خالد رانجھا صاحب یہ جواب رہائی ہوئی ہے کیپٹن صفدر اور محترمہ مریم نواز صاحبہ کی بھی۔ اس سے ایک نئی بحث شروع ہو گئی ہے کہ شاید نیب والے کوئی محنت نہیں کر رہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ نوازشریف کو ہمیشہ عدالتوں سے ریلیف ملتے رہے ہیں۔ تیسری رائے یہ ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی ہمیشہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کے خلاف رائے رہی ہے۔ یہ جو فیصلہ آیا ہے اس کی رو میں کیا آپ سمجھتے ہیں کہ نیب کی طف سے کوئی کسر رہ گئی ہے انہوں نے پوری محنت نہیں کی چونکہ پہلے ایک آدمی کو گرفتار کرنا اور پھر اس کی بیٹی کو بھی اس کے داماد کو بھی اور اب اچانک رہا کر دینا یہ تو کوئی مذاق سا لگتا ہے۔ معروف قانون دان خالد رانجھا نے کہا ہے کہ میں سمجھتا ہو ںکہ جہاں تک اس فیصلے کا تعلق ہے ایک چیز تو اس سے مترشح ہوتی ہے کہ عدالت کی نگاہ میں شواہد کافی نہیں ہے۔ اگر یہ رائے قائم نہ ہو تو آپ سزا معطل نہیں کر سکتے۔ میرا خیال ہے کہ نیب کی ناکامی ہے اور خدشہ ہے کہ اپیل میں اڑ جائے گی۔ضیا شاہد نے کہا ہے کہ نوازشریف کے لئے اگر شہباز شریف کوشش نہیں کریں گے تو اور کون کرے گا البتہ اگر فائنل فیصلے میں اب نواز شریف صاحب رہا ہو جاتے ہیں تو پھر ساری عمارت جو نیب نے کھڑی کی تھی یہ دھڑام سے گر پڑی تھی۔ دیکھا گیا ہےکہ شریف فیملی کو جب بھی کوئی پرابلم آیا ہمیشہ سے سعودی عرب سامنے رہا ہے۔ آج میاں نوازشریف کی رہائی ہوئی ہے۔ نیب کے کمزور دلائل سامنے آئے ہیں۔ نیب وفاقی حکومت کے انڈر ہوتی اور دوسری طرف سعودی عرب میں عمران خان سعودی فرمانروا سے ملاقات کر رہے ہوتے ہیں۔ اقتصادی حوالے سے، فنڈز کے حوالے، ریلیف کے حوالے سے بھی بات کرتے ہیں ادھر میاں نوازشریف کی رہائی ہو جاتی ہے اور میاں صاحب اپنے گھر کی طرف رواں دواں ہو جاتے ہیں اور کچھ کرتا ہے کہ سعودی عرب ہمارے ساتھ دوبارہ این آر او کرنے میں کردار ادا کر رہا ہے؟ اس سوال کے جواب میں ضیا شاہد نے کہا کہ میں نے گزشتہ روز یہ سوال چودھری پرویز الٰہی سے کیا تھا تو ان کا خیال تھا کہ جو پچھلی ٹیم تھی وہ شاہی ٹیم تبدیل ہو چکی ہے اب تو بالکل نئے لوگ ہیں۔ عمران خان کو سعودی عرب موجودگی ادھر نوازشریف کی رہائی یہ واقعات تو اس طرف رخ کر رہے ہیں کہ شاید یہ فیصلہ بھی کسی این آر او کے نتیجے میں آیا ہے اور کہا جاتا ہے ک ہمیں اس وقت فنانشل ہائیک کی ضرورت ہے۔ اگر سعودی عرن نے ذرا سا بھی اشارہ دے دیا ہم آپ کی فنانشل ہائیک کرنے کو تیار ہیں تو بشرطیکہ ان کے پرانے ممدوحین جو ہیں ان کے ساتھ ہولا رکھیں تو ہاتھ ہولا بھی رکھا جا سکتا ہے۔ ضیا شاہد نے سابق سیکرٹری الیکشن کمشن کنور دلشاد سے سوال کیا کہ آج جو فیصلہ آیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے ابھی ہم خالد رانجھا سے بھی پوچھ رہے تھے ان کا بھی یہ خیال ہے کہ جس قسم کے حالات نظر آ رہے ہیں لگتا ہے کہ شاید نوازشریف صاحب کے خلاف فائنل فیصلہ بھی ان کے حق میں آئے گا شاید جو عمارت ان کے خلاف کھڑی کی گئی تھی وہ دھڑام سے نیچے گرتی نظر آ رہی ہے۔کنور دلشاد نے کہا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ احتساب کورٹ کے جسٹس بشیر صاحب کے فیصلے میں بڑی کمزوری تھی، ابہام تھا۔ ہم شروع سے آپ کے پروگرام میں بھی کہہ چکے ہیں کہ ان کی جو انگریزی ڈرافٹنگ جو تھی اس میں بہت سا ابہام بھی تھا۔ مفروضوں کی بنیاد کہہ رہا ہوں مجھے ثبوت نہیں ملا جج بشیر صاحب نے کوئی دانشمندی سے فیصلہ نہیں لکھا اس کی کمزوری سے چیف جسٹس نے فائدہ اٹھایا۔ اس کا جو ضمنی الیکشن ہو رہے ہیں اب تک عمران خان صرف 4 ارکان کے بل بوتے پر وزیراعظم ہیں۔ اگر یہ قومی اسمبلی کی ضمنی الیکشن میں سیٹیں حاصل نہ کر سکے تو ان کی حکومت غیر مستحکم رہے گی جہاں تک ہماری قانون پر رائے ہے قانونی طور پر اب ان کی نااہلی کے بارے میں اب جو معطل کر دی ہے ساری پروسیڈنگ تو جسٹس ااصف سعید کھوسہ نے جو نااہل قرار دیا تھا وہ مشروط تھا احتساب کورٹ کے فیصلے سے۔ احتساب کورٹ نے سزا سنائی دس سال، آج اسلام آباد ہائی کورٹ نے معطل کر دی اب ان کی نااہلیت کے بارے میں سپریم کورٹ کا فل کورٹ فیصلہ کرے کہ ان کی نااہلیت بھی معطل ہوتی ہے یا نہیں۔ اب ہم ایک آئینی بحران کی طرف چلے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک اور نظر آ رہا ہے کہ یہ جو صوبائی اسمبلی پنجاب بھی خطرہ میں پڑ گئی ہے اس فیصلے سے جو لوگ پی ٹی آئی کے ساتھ ان کی واپسی کے امکانات بھی پیدا ہو جائیں گے۔ چند مہینوں میں یہ ہو سکتا ہے کیونکہ عمران خان نے جو بجٹ پیش کیا ہے وہ ایک ایک عام آدمی کی حمایت سے محروم ہو گئے ہیں۔ بے شک اسد عمر نے مجبوری میں کیا لیکن نہیں کرنا چاہئے تھا۔ ان کے وزراءجو ہیں وہ آپس میں آزادانہ ماحول میں کام کر رہے ہیں انہیں پتہ ہی نہیں ہمارا وزیراعظم کون ہے۔ ہر آدمی اپنی اپنی رائے دے رہا ہے۔ وزیراعظم کی رائے کو اہمیت ہی نہیں دی جا رہی عمران خان کی بڑی بصیرت بھی ہے اور ان کی بیگم صاحبہ جو بزرگ بھی ہیں۔ مدینہ منورہ میں بھی گئے ہیں۔ لیکن اب نوازشریف کے باہر آنے سے ایک بہت بڑی اپوزیشن آ گئی فارورڈ بلاک بن رہا تھا مسلم لیگ ن میں وہ بھی ختم ہو گیا۔ مجھے لگ رہا ہے کہ پنجاب میں ن لیگ نے نقب زنی کرنی ہے اور جو لوگ پی ٹی آئی کے ساتھ گئے ہیں ان کے واپسی کے لئے راستہ ہموار کریں گے۔ فیڈرل گورنمنٹ میں تو فی الحال خطرہ نہیں۔ لیکن پنجاب حکومت میں خطرہ بھی ہے اور ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کا جیتنا مشکل ہے وہ نشستیں حاصل نہیں کر سکے گی۔ کلثوم نواز صاحبہ کا انتقال ہوا 14 اکتوبر کو الیکشن ہونے جا رہے ہیں یہ سارے معاملات نوازشریف کے حق میں چلا گیا ہے۔ عمران خان کو چاہئے کہ دوست نوازی کو چھوڑیں۔ زلفی بخاری کے پاس پاکستان کی شہریت نہیں، وہ قانونی طور پر ایڈوائزر نہیں بن سکتے۔ سپریم کورٹ میں اپیل جائے گی ممکن ہے جسٹس ثاقب نثار اس بنچ میں نہ بیٹھیں۔ حالاتت بدلتے جا رہے تھے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ اس سے تو یہی لگتا ہے اس کے چانسز موجود ہیں۔ بہرحال اس کا جواب تو عمران خان صاحب ہی دے سکتے ہیں لیکن لگتا یہی ہے کہ جس رفتار سے معاملات ان کے خلاف جا رہے ہیں وہ کافی مشکل میں ہیں۔ضیا شاہد نے کہا کہ اس وقت ہم مالی بحران کا شکار ہیں، ایسے میں سعودی عرب ہماری مدد کرے گا؟ اگر وہ کوئی مدد دیتا ہے تو پھر ان کی بھی کچھ نہ کچھ باتیں ماننا پڑیں گی۔ اب اس کو این آر او کا نام دیں یا کچھ اور کہہ ہیں۔ بہرحال 24 گھنٹے بہت اہم ہیں، کافی باتوں پر فیصلہ ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ نیب نے شریف خاندان کے خلاف مقدمے کی پیروی ٹھیک طرح سے نہیں کی۔ جس بنیاد پر نااہل کیا گیا تھا وہ بنیاد ہی ہلا دی گئی تو پھر اب کیا ہو گا؟ نوازشریف کو بہت بڑا ریلیف مل گیا ہے۔ عمران خان کو واپسی پر بہت بڑے بڑے فیصلے کرنے پڑیں گے۔ اگر اس طرح حکومت چلاتے رہے تو ان کے پاس سیاسی دبدبہ نہیں رہے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ طاہر القادری کے بیان سے متفق ہوں، انہوں نے بڑی دیر عمران خان کا ساتھ دیا تھا، کنٹینر پر رہے تھے اب عمران خان کا بھی کچھ فرض بنتا ہے جب سے ان کی حکومت بنی ہے انہوں نے سانحہ ماڈل ٹاﺅن پر توجہ نہیں دی۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب سے ملاقات ہوئی تھی ان کا کہنا تھا کہ ان کے بارے میں جو سمجھا جا رہا ہے ویسا بالکل نہیں ہے، 4,3 دنوں میں بہت سارے اہم کام منظر عام پر آ جائیں گے۔ گورنر پنجاب بھلے اچھے آدمی ہیں، گورنری میں آج کل کچھ نہیں رکھا ہوا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک کی تاریخ میں آنے والا ایک ہفتہ بہت اہم ہے اس دوران بڑے بڑے فیصلے ہوں گے۔ ضمنی لیکشن آ رہے ہیں، دیکھنا ہے کہ حالات کس رُخ چلتے ہیں۔ نوازشریف کی رہائی کا انتخابات پر گہرا اثر پڑے گا۔ ضیا شاہد نے کہا کہ وزیراطلاعات پنجاب 4 دن سے ایک ایک دن کہہ کر ٹال رہے ہیں۔ اب کہا ہے کہ آج وہ انفارمیشن پالیسی کے حوالے سے فائنل سفارشات پیش کر دیں گے۔ تحریک انصاف والے بھی درمیان میں پھنسے ہوئے ہیں، ان پر شدید دباﺅ ہے کہ اخبارات کو اشتہارات کی کوئی ضرورت نہیں اس وجہ سے اخبار مالی بحران کا شکار ہو رہے ہیں اور تنخواہوں کے مسائل بھی پیش آ رہے ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات سے بھی ملاقات ہوئی ان کا بھی کہنا تھا کہ 3,2 دن میں انفارمیشن پالیسی فائنل ہو جائے گی۔ اُمید ہے کہ پالیسی سامنے آ جائے گی۔ حکومت کو مل کر کوئی درمیانی راستہ اختیار کرنا پڑے گا، اشتہار بھی ضروری ہوتے ہیں جیسے آج کل محرم الحرام کے حوالے سے ہیں، اس سے پہلے ڈینگی اور ٹیکس کی آخری تاریخ کے تھے۔ یہ کہنا کہ اشتہارات کے بغیر گزارہ ممکن ہے میں اس سے متفق نہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کو حکومت بنائے اتنا عرصہ ہو گیا لیکن حیرت ہوئی کہ اسحاق ڈار کو یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور کی چیئرمین شپ سے اب معطل کا گیا۔ دعا ہے کہ حکومتی لوگ اہل ثابت ہوں۔ حکومت کے کام کرنے کی رفتار کافی سست ہے، پتہ نہیں اس طرح یہ کوئی کام کر بھی سکیں گے یا نہیں؟تجزیہ کار لندن شمع جونیجو نے کہا کہ جب سے پانامہ کیس شروع ہوا، قانون کی طالبہ ہونے کے ناطے پہلے دن سے کہہ رہی تھی کہ مجھے انصاف ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ شریف خاندان کے خلاف مقدمے میں نیب پراسیکیوشن بری طرح ناکام ہوئی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں جب سوال پوچھے گئے تو بیانات میں تضاد تھا، ایسا شروع سے ہی نظر آ رہا تھا جس کی قلعی کھل گئی۔ نیب اب سپریم کورٹ جا رہی ہے، دیکھتے ہیں کہ وہاں کس طرح کیس لڑتے ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ نوازشریف کے حق میں جو فیصلہ آیا ہے یہ اس جج نے دیا ہے جس نے پی سی او پر کبھی حلف نہیں اٹھایا۔ عدلیہ پر اب بہت زیادہ دباﺅ ہو گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ برطانیہ میں فرمان جونیجو کی گرفتاری کا سبب یہ تھا کہ وہ حریدی ہوئی جائیداد پر اداروں کو قانونی طور پر مطمئن نہیں کر سکے، یہ معاملہ کافی سالوں سے چل رہا تھا اور اس پر برطانیہ پاکستانی حکومت سے بھی مکمل رابطے میں رہا جو ابھی ختم نہیں ہوا، اگر ایون فیلڈ میں بھی ایسا ہوا تو برطانیہ کا قانون بھی حرکت میں آئے گا۔ برطانیہ میں سفارت کار اور انٹرنیشنل میڈیا سمجھتا ہے کہ نوازشریف کے خلاف متنازعہ کیس چلایا گیا، انہیں آﺅٹ کیا گیا جس کے نتیجے میں من پسند انتخابی نتائج حاصل کئے گئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ابھی نوازشریف کو عارضی ریلیف ملا ہے اب دیکھتے ہیں کہ آگے چل کر نیب کیا کرتی ہے؟ نیب وفاقی حکومت کا ادارہ ہے اس میں حکومت کا کیسے کوئی کردار نہیں؟ شریف خاندان کے خلاف کیس میں حکومت ایک فریق ہے۔


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain