تازہ تر ین

نواز شریف ، حنیف عباسی کوجیل سپرنٹنڈنٹ کے کمرے میں بیٹھے دیکھ کر حیرت ہوئی : ضیا شاہد روبکار سے پہلے نواز شریف کو جیل سپرنٹنڈنٹ کے کمرے میں بٹھانا غیر قانونی : فیاض الحسن عمران سے پارلیمنٹ میں پوچھیں گے سعودیہ کا فوری انصا ف کا قانون پاکستان میں کیسے لائینگے : رحمن ملک کی چینل ۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ میں نے فواد چودھری کی پریس کانفرنس نہیں سنی۔ جہاں تک نوازشریف ڈیل کا تعلق ہے جس قسم کی افواہیں اڑی ہیں پچھلے 24 گھنٹے میں کہ دیکھیں جی سعودی عرب نے کہا کہ ہم سے کچھ امداد لینی ہے یا آپ چاہتے ہیں کہ ہم آپ کی مدد کریں تو اس کے لئے ضروری ہے کہ نوازشریف کو رہا کیا جائے تو میرا خیال ہے کہ جہاں تک نوازشریف کی رہائی کا تعلق ہے یہ فیصلہ عدالتوں نے پہلے کیا ہے اور عمران خان سعودی عرب بعد پہنچے ہیں۔ ان چیزوں کا اثر ضرور پڑتا ہے لیکن اسطرح کی کوئی ممکن نہیں ہوئی جس طرح سے کہا جا رہا ہے اور دوسری بات یہ کہ ساتھ ہی ساتھ افواہ شروع ہو گئی ہے کہ وہاں سے بھی ان کو رہائی دی جائے گی اور وہ عنقریب ملک چھوڑ کر چلے جائیں گے ہمارے ہاں 10 فیصد بات ہوتی ہے باقی 90 فیصد نتھی کر لی جاتی ہے۔ دوچار دن میں صورتحال کا اندازہ ہو جائے گا۔ ایک بات تو ظاہر ہے کہ وقتی طور پر پاکستان کو جو درپیش مسائل ہیں یقینی طور پر سعودی عرب کوئی نہ کوئی حل نکالے گا اگر انہوں نے نقد پیسے نہ دیئے تو ادھار تیل ضرور دے گا۔ اس بات کا جواب کہ فواد چودھری صرف نواز شریف کی جائیدادوں کا ذکر کیوں کرتے ہیں آصف زرداری کی جائیداد اور بیرون ملک پیسوں کا ذکر کیوں نہیں کرتے۔ اس سوال کے جواب میں ضیا شاہد نے کہا کہ فواد چودھری سے کسی وقت اس بارے میں پوچھیں گے۔ حکومتوں کی طرف سے جب کہا جاتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہیں یہ سب کہنے کی باتیں ہوتی ہیں لوگوں کے کوئی نہیں کھڑا ہوتا نہ لوگوں کے ساتھ لوگ کھڑے ہوتے ہیں لوگ اپنے اپنے کاموں پر لگے رہتے ہیں جو مصائب اور مشکلات ان کو آتی ہیں ان میں پھنسے رہتے ہیں۔ یہ جب کوئی ملک کسی کے ساتھ کھڑے ہونے کی بات کرتا ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ حکومت کے حکومت کھڑی ہو گی اس کو آپ تسلیم کریں یا نہ کریں اگلے ایک دو روز میں تفصیلات مل جائیں گی۔ ابھی یہ بات واضح نہیں ہے کہ مریم نواز صاحبہ کو اور نوازشریف کے کیس واپس نہیں ہوئے ہیں شور شرابا زیادہ مچ گیا ہے۔ فیصلہ یہ ہوا ہے کہ جب تک فائنل فیصلہ نہیں ہو جاتا ان کو گرفتار نہ کیا جائے۔ ابھی یہ بات بھی کلیئر نہیں ہے کہ انہیں سیاست میں حصہ لینے کی پوری اجازت ہو گی یا نہیں۔ مثال کے طور پر ابھی یہ کلیئر نہیں ہے کہ محترمہ مریم نواز صاحبہ الیکشن میں حصہ بھی لے سکتی ہیں یانہیں لے سکتی۔ البتہ کمپین میں مدد کر سکتی ہے میرا خیال ہے کہ فی الحال ان کو شاید خود الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں ہے۔ پاکستان کے جو مالی حالات ہیں۔ ایک شدید اور خوفناک قسم کا بحران ہے کہ آئی پی پیز کی کمپنیوں نے انکار کر دیا ہے کہ ہم بجلی نہیں دیں گے۔ اس کے لئے حکومت کو فوری طور پر5 ارب درکار ہیں۔ کرپشن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ سعودی عرب میں مختلف قوانین ہیں یہ چیز موجود ہے کہ اگر کوئی شخص کرپشن کرتا ہے تو موقع پر ہی بڑی خوفناک سزائیں دی جاتی ہیں۔ عمران خان کا اشارہ اس طرف ہے۔ عمران خان نے بہت پہلے بھی ایک کتاب ٹرائبل سسٹم کے حوالے سے لکھی تھی اس میں ان کا جھکاﺅ اس طرف تھا کہ وہ موقع پر فوری سزاﺅں کے حق میں ہیں اس پر پہلے بھی بڑی بحث ہوتی رہی ہے۔ اس پر بہت سے لوگ اس کے خلاف بھی ہیں لیکن بہت سے لوگ اس کے حق میں بھی ہیں۔ دینی سوچ رکھنے والے کہتے ہیں کہ سعودی عرب کی طرح سے اگر چٹ منگنی پٹ بیاہ کی طرح سے اگر فوراً سزائیں ملیں تو جرائم کی شرح میں کچھ کمی ہو سکتی ہے۔ بہر حال یہ کچھ ہو گا نہیں میں اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ یہ مجھے معلوم ہے کہ عمران خان کی جو پہلی کتاب 14,12 برس پہلے آئی تھی جو ٹرائبل ایریا کے حوالے سے انہوں نے لکھی تھی اور وہ پنچایت سسٹم کے حق میں تھی اس وقت بھی اس پر کافی شور مچا تھا۔ اس طرح میڈیا میں بھی دونوں قسم کے لوگ ہیں ایسے لوگ بھی ہیں جو ویسٹرن سٹائل سے سوچتے ہیں۔ ہر چیز کی خوبیاں اور خامیاں بھی ہوتی ہیں۔ پنچایت سسٹم اس لحاظ سے تو اچھا سسٹم ہے۔ پنچایت سسٹم بنیادی طور پر یورپ اور امریکہ میں استعمال ہوتا ہے۔ امریکہ میں جس کو جیوری کہتے ہیں وہ یہی ہے۔ جیوری ایک طرح سے پنچایت سسٹم ہے۔ جیوری فیصلہ کرتی ہے کہ بندے نے جرم کیا ہے یا نہیں۔ پاکستان میں بھی جو لوگ ایک زمانے میں مغربی سزاﺅں کے حق میں تھے۔ جب وزیرستان میں بہت شروع میں اسلامی سزاﺅں کے حق میں جن کو بعد میں لوگ دہشت گرد کہتے تھے ان کا پہلا نقطہ نظر یہی تھا کہ ہم اسلامی سزائیں دیتے ہیں جو فوری طور پر نافذ العمل ہوتی ہیں۔ عمران خان کی لوگوں کا مائنڈ سیٹ تبدیل کرنے سے مراد یہ ہے کہ جو سسٹم ہو جو عدل و انصاف کا سسٹم ہو ہمارے ہاں سوائے اس کے کہ جو حد ہے کون سا مقدمہ کتنی مدت میں پورا ہو جانا چاہئے وہ نہیں ہے باقی سسٹم تووہی ہے جو چل رہا ہے۔ اگر ہم طے کر لیں گے کہ اتنی مدت میں قتل کے مقدمے کا فیصلہ ہو جائے گا تو یہی سسٹم اپ ڈیٹ ہو جائے گا اس کے رزلٹ فوری طور پر ملنے لگیں۔ عمران خان کے کہنے کا مطلب ہے کہ کم جرائم ایسے ہیں کہ اس ملک میں جن کو فوراً سزا ہو تو فوراً نتیجہ نکل سکتا ہے۔ بڑے بحث مباحثے ہو چکے ہیں کہ فوری سزائیں ہونی چاہئیں یا نہیں۔ مغرب کا نقطہ نظر یہ ہے کہ یہ سزائیں فوری نہیں ہونی چاہئیں وہ ایک چیز کو لٹکا دیں۔ مغرب میں فلسفہ یہ ہے کہ کم از کم فوری سزا ہو اور زیادہ سے زیادہ عرصہ دیا جائے۔ کچھ لوگ مایوس ہو کر چھوڑ جاتے ہیں۔ کچھ گواہ بیٹھ جاتے ہیں بالکل فوری سزاﺅں کی تیزی میں کمی آ جاتی ہے۔
رحمن ملک نے کہا کہ فوری سزاﺅں کے بارے میں کہا کہ عمران خان نے خود ہی بات کر کے خود ہی اس کا جواب دے دیا۔ جس نظام کی بات وہ کر رہے ہیں وہ فوری انصاف کی بات کر رہے ہیں۔ اور جو کوئی فیصلہ ہوا تھا کہ دہشتگردی کی عدالتوں کو سپیشل پاورز کرنے کا اس میں عمران خان صاحب بھی تھے ہماری پارٹی اور ن بھی تھی جنہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ پاکستان آرمی ایکٹ میں ترمیم کر کے ان کو ان پاور کر دیا جائے کہ جتنے دہشتگردی کے کیسز ہیں وہ سپیڈی کورٹ یعنی خود ٹرائل کرے اور ٹرائل کے بعد ایپلٹ اتھارٹی بھی اس آرمی چیف یعنی جنرل جو بھی وقت کے ہوں گے کریں گے اور وہ جس چیز کی بات کر رہے ہیں سپیڈی کورٹ کی وہ اس وقت بھی ملک میں نافذ ہے اب اس کا دوسرا حصہ دیکھ لیں کہ وہ سسٹم جو کہ ایک غریب آدمی کو سپیڈی انصاف دے سکے۔ اس کے لئے پاکستان کا جو قانون ہے آئین نے وہ بالکل سعودی عرب سے محتلف ہے سعودی عرب میں بادشاہت ہے وہاں سے ڈگری ایشو ہوتی ہے کسی کام کو کرنے کی۔ یہاں پر ایسی چیز نہیں ہوتی۔ یہاں ٹرائل کا ایک طریقہ ہے اگر وہ یہ نظام لانا چاہتے ہیں ہو سکتا ہے کہ ان کے پاس کوئی ایسا نظام ذہن میں آیا ہو اس دورے کے دوران تو پھر ان کو آئین میں ترمیم کرنا ہو گی۔ پاکستان پینل کورٹ میں تبدیلی لانا ہو گی۔سپیشل قوانین میں تبدیلی لانا ہو گی۔آپ کی وطن واپسی پر عمران سے پوچھیں گے کہ آپ نے یہ سٹیٹ منٹ دی ہے ذرا پارلیمنٹ کو بتائیں کہ آپ کے ذہن میں کیا تھا کہ ہم سعودی عرب کا سپیڈی جسٹس پروگرام پاکستان میں لائیں گے۔ ہر کوئی سپیڈی جسٹس چاہتا ہے ہر کوئی چاہتا ہے انصاف سستا ہو مگر قانون سے بالاتر ہو کر نہ کوئی ٹرائل ہو سکتا ہے نہ کوئی سسٹم یا پروسس کو آگے لے جا سکتا ہے بہتر یہ ہو گا۔ آپ کے اپیل ہے کہ عمران خان واپس آ کر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیں کہ اگر انہوں نے اتنی بڑی سٹیٹ منٹ دی ہے تو ان میں وہ ویژن بتائیں جو کہ پاکستانی سسٹم جو آپ کریمنل جسٹس سسٹم ہے پاکستان کا وہ ٹرانسفارم کرتے ہوں گے سعودی عرب جیسا کیسے بنائیں۔ مفروضوں پر بات نہیں کرنی چاہئے۔ اصل بات یہ ہے کہ کیس میں کنوکشن ہوئی اور کنوکشن کے بعد ہائیکورٹ میں گیا ہائیکورٹ نے ایگزیمن کرنے کے بعد یہ مناسب سمجھا کہ یہ جو کنوکشن ہے کہ اس کی سپینشن کر دیں۔ اس کی سپینشن قانون کے مطابق ہے اور ججز کی نظر میں بھی ہے یہ کیس ابھی ختم نہیں ہوا اس کا موٹر سائیکل ہے وہ ہائی کورٹ کرے گا۔ بہر حال میں نوازشریف صاحب کو مبارکباد دیتا ہوں کوئی بھی اچھا کام کسی کی خوشی کے لئے ہوا تو خود اس خوشی میں شامل ہو جانا چاہئے۔ ہمیں مائنڈ سیٹ پاکستان میں یہ بھی کرنا چاہئے۔
رحمان ملک نے کہا کہ ہماری حکومت سمیت سابق حکومتوں نے بھارت سے مذاکرات کئے۔ انڈیا پہلے وعدہ کرتا ہے پھر بعد میں اس کا پاکستان کے خلاف مائنڈ سیٹ واضح ہو جاتا ہے۔ جب تک بھارت کا پاکستان کے خلاف مائنڈ سیٹ ختم نہیں ہو جاتا اس وقت تک بات آگے بڑھنا مشکل ہے۔ عمران خان نے اچھا کیا جو مذاکرات کی دعوت دینے میں پہل کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ وہی نریندر مودی ہے جس نے کہا تھا کہ بلوچستان کے ذریعے سبق سکھائیں گے اور پھر کلبھوشن پکڑ میں آ گیات ھا۔ انڈیا کشمیر میں نسل کشی کر رہا ہے، مذاکرات میں کشمیر اور پانی سمیت تمام مسائل زیر بحث آنے چاہئیں۔ کشمیر اور پانی کا مسئلہ ضرور مذاکرات کا حصہ بننا چاہئے۔ دیکھتے ہیں اس بار مذاکرات کا نتیجہ کیا آتا ہے؟
ضیا شاہد نے کہا کہ رحمان ملک بالکل ٹھیک کہتے ہیں پہلے تو بھارت مذاکرات پر آمادہ نہیں ہوتا اگر ہو جائے تو کوئی ایسی کڑی شرط رکھ دیتا ہے کہ بات وہیں ختم ہو جاتی ہے۔ یہ بات درست ہے عین وقت پر کشمیر پر بات کرتے ہوئے انڈیا بیک آﺅٹ کر جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب اگر پاک بھارت مذاکرات شروع ہوتے ہیں تو چھوٹی چھوٹی چیزوں سے شروعات کرتے ہوئے رفتہ رفتہ کشمیر کے مسئلے کی طرف جانا چاہئے۔ اگر بات کشمیر سے ہی شروع ہوئی تو پہلی ہی میٹنگ میں ختم ہو جائے گی، پانی کے مسئلے پر معاہدہ موجود ہے اس پر بات کرنے کی گنجائش ہے۔ کشمیر پر سلامتی کونسل کی قرارداد کےع لاوہ ہمارے پاس کچھ نہیں۔ قرارداد یہ تھی کہ دونوں ممالک اپنی فوج کو واپس لے جائیں اور یو این او کی فوج کی نگرانی میں کشمیریوں سے ان کی مرضی پوچھی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ میرے ایک جاننے والے پچھلے دنوں جیل میں نوازشریف سے ملنے گئے تے، انہوں نے جو بتایا اس کے مطابق جیل کے ایک کمرے میں ایک ٹیبل کرسی پڑی ہے اور چاروں اطراف اس طرح کرسیاں رکھی ہوئی ہیں جیسے گول میز کانفرنس ہو، وہاں حنیف عباسی، مریم نواز اور صفدر وغیرہ موجود رہتے تھے اور سارا دن بحث مباحثہ چلتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ نوازشریف اور حنیف عباسی کی جیل میں سپرنٹنڈنٹ کے کمرے میں بیٹھے تصاویر پر حیرت ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بیورو کریسی کی طرف سے سابق حکمرانوں سے کون پوچھ پڑتال نہیں۔ امید ہے کہ اس وقاعے کے بعد اب آئندہ حکومت قوانین پر سختی سے عملدرآمد کرائے گی۔
وزیراطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ نے قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ نوازشریف کی ابھی روبکار نہیں آئی تھی اور ان کو اپنے کمرے میں بٹھایا ہوا تھا۔ حنیف عباسی سیاسی نہیں منشیات کے مجرم ہیں وہ بھی موجود تھے۔ موبائل اندر کیسے گیا جس سے تصویریں اور ویڈیو بنی۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں نے خود جیلر کو فون کر کے سرزنش کی تو ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے ہوم ڈیپارٹمنٹ اور جیل خانہ جات کے ارکان پر مشتمل ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دیدی ہے، سوموار تک نتیجہ نظر آ جائے گا۔
سابق مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ پاک بھارت وزرائے خارجہ ملاقات اگلے ہفتے ہو گی لیکن یہ کہنا کہ بامقصد و بامعنی مذاکرات شروع ہو جائیں گے قبل از وقت ہے۔ بھارت نے تو صاف کہہ دیا ہے کہ یہ صرف ایک ملاقات ہے، مذاکرات کی شروعات نہیں ہے۔ اس کے لئے ابھی ایجنڈا طے نہیں ہوا۔ انہوں نے مزید کہا کہ نوازشریف نے 97ءکے الیکشن کے بعد سیکرٹری خارجہ کی سطح پر پاک بھارت مذاکرات کا سلسلہ شروع کروایا تھا، اس وقت سنجیدہ بات چیت شروع بھی ہوئی تھی۔ بھٹو دور میں بھی مذاکرات ہوئے۔ واجپائی سے سنجیدگی سے بات چیت ہو رہی تھی۔ کارگل کے باعث بات ختم ہو گئی۔ ہر 10 سال کے بعد ہماری پوزیشن مزید کمزور ہوتی گئی جبکہ انڈیا کشمیر پر اپنا کنٹرول مضبوط کر رہا ہے۔ شاید پاک بھارت وزرائے خارجہ کی ملاقات کامیاب ہو اور مذاکرات شروع ہو جائیں۔ کشمیر کے حوالے سے ہمارے پاس صرف ایک چیز ہے وہ ہے کشمیریوں کا جذبہ جو ہمارے حق میں جاتا ہے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain