تازہ تر ین

سعودیہ نے صحافی کے قتل کا اعتراف کر لیا ، نائب انٹیلی جنس چیف اورولی عہد کا سینئر مشیر برطرف

ریاض/واشنگٹن/انقرہ (اے این این‘مانیٹرنگ ڈیسک ) سعودی عرب نے استنبول قونصل خانے میں صحافی جمال خشوگی کے قتل کا عتراف کرتے ہوئے وضاحت پیش کی ہے کہ صحافی کی موت قونصل خانے میں لڑائی کے دوران ہوئی واقعہ میں ملوث نائب انٹیلی جنس چیف احمد العسیری اور ولی عہد محمد بن سلمان کے سینیئر مشیر سعود القحطانی کو برطرف کر دیا گیا ہے جبکہ 18سعودی شہریوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے ،امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وضاحت قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی عرب ہمارا قریبی اتحادی ہے جو کچھ ہوا افسوسناک ہے ،اقوام متحدہ نے واقعہ کو نا قابل قبول قرار دیتے ہوئے کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔سعودی عرب کے سرکاری ٹی وی پر چلنے والی خبر میں کہا گیا ہے کہ ابتدائی سرکاری تحقیقات کے مطابق سعودی صحافی جمال خاشقجی کی موت دو اکتوبر کو استنبول میں سعودی قونصل خانے میں ہونے والی ایک ‘لڑائی’ کے بعد ہوئی۔سرکاری ٹی وی کے مطابق ان تحقیقات کے بعد نائب انٹیلی جنس چیف احمد العسیری اور ولی عہد محمد بن سلمان کے سینیئر مشیر سعود القحطانی کو بھی برطرف کر دیا گیا ہے اور 18 سعودی شہریوں کو بھی حراست میں لے کر شامل تفتیش کیا گیا ہے۔یہ پہلا موقع ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے جمال خاشقجی کی موت کی تصدیق کی گئی ہے۔مقامی میڈیا کے مطابق خاشقجی سے لڑائی کاسبب نہیں بتایا گیا اور یہ بھی واضح نہیں کیاگیاکہ خاشقجی کی میت کہاں ہے۔سعودی مملکت کی جانب سے صحافی کی موت پر افسوس کااظہار کیا گیا ہے جب کہ پراسیکیوٹر کا کہنا ہےکہ واقعہ کی تحقیقات جاری ہیں۔سعودی حکام کی جانب سے سامنے آنے والی رپورٹ کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ جو ہوا ہے وہ ‘بالکل ناقابل برداشت’ ہے لیکن ساتھ ساتھ انھوں نے مزید کہا کہ سعودی عرب ان کے ملک کا بہت اہم اتحادی ہے۔اس لئے وضاحت قابل قبول ہے ۔امریکی صدر نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سعودی حکومت کی جانب سے 18 افراد کو حراست میں لینا ‘پہلا قدم’ ہے۔ صدر ٹرمپ نے سعودی حکومت کی تعریف کرتے ہوئے کہا انھوں نے تیزی سے اقدامات لیے۔ ساتھ ساتھ ان کا کہنا تھا کہ پابندیاں عائد کرنے کے بارے میں ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے لیکن ایسا کرنا امریکی معشیت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔اس سوال پر کہ کیا وہ سعودی حکومت کی جانب سے دی گئی تفتیشی رپورٹ کو قابل یقین سمجھتے ہیں، اس پر صدر ٹرمپ نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ ‘جی ہاں’۔واضح رہے کہ جمال خاشقجی کے لاپتہ ہونے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ اگر یہ ثابت ہوا کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی موت میں سعودی عرب کا ہاتھ ہے تو وہ اسے ‘سخت سزا’ دیں گے۔سعودی عرب کے پبلک پراسیکیوٹر کے جانب سے ایک بیان میں کہا ہے کہ قونصل خانے میں جمال خاشقجی اور ان کے لوگوں کے درمیان جھگڑا شروع ہوگیا جن سے وہ ملے تھے جس کا اختتام ان کی موت پر ہوا۔بیان کے مطابق ‘تحقیقات تاحال جاری ہیں اور 18 سعودی باشدوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔’رپورٹس میں دو سینیئر اہلکاروں کو برطرف کرنے کے بارے میں بھی بتایا گیا۔سعودی رائل کورٹ کے اہم رکن اور ولی عہد محمد بن سلمان کے مشیر سعود القحطانی کو برطرف کیا گیا ہے۔سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق ‘جنرل انٹیلی جنس کے نائب صدر احمد العسیری کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا ہے۔’میجر جنرل احمد العسیری نے یمن کی جنگ میں سعودی عرب کے ترجمان کے طور پر فرائض سرانجام دیے تھے۔سعودی عرب کے سرکاری ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں شاہ سلمان کے ترک صدر رجب طیب اردوغان کی اسی معاملے پر ٹیلی فونک گفتگو کے بعد سامنے آئی ہیں۔ترک صدارتی ذرائع کے مطابق دونوں رہنماو¿ں کے درمیان معلومات کا تبادلہ ہوا اور انھوں نے تحقیقات میں تعاون جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔اس سے قبل ترکی میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے مبینہ قتل کی تحقیقات کرنے والی پولیس نے تلاش کا دائرہ بڑھا دیا تھا۔ ترک حکام کا کہنا تھا کہ ایسا ہوسکتا ہے کہ ان کی لاش کو قریبی جنگل یا کھیتوں میں ٹھکانے لگایا گیا ہو۔ترکی کا الزام ہے کہ جمال خاشقجی کو ایک سعودی ہٹ سکواڈ نے قونصل خانے میں قتل کیا ہے۔ترکی کا اس سے پہلے کہنا تھا کہ اس کے پاس جمال خاشقجی کے قتل کے آڈیو اور ویڈیو ثبوت موجود ہیں تاہم تاحال یہ سامنے نہیں لائے گئے۔ترک ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے انھوں نے مشتبہ سعودی ایجنٹس کی اس 15 رکنی ٹیم کی شناخت کر لی ہے جو جمال خاشقجی کی گمشدگی کے روز استنبول آئے اور واپس گئے تھے۔ترک حکام کا کہنا تھا کہ یہ گروپ اپنے ساتھ ایک ہڈیاں کاٹنے والی آرا مشین لائے تھے اور اس گروپ میں پوسٹ مارٹم کرنے والا ڈاکٹر بھی شامل تھا۔سعودی عرب کی جانب سے صحافی کے قتل کے اعتراف کے بعد امریکا نے اپنے ردعمل میں افسوس کا اظہار کیا لیکن اپنے قریبی اتحادی کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کے حوالے سے کچھ نہیں کہا۔وائٹ ہاوس کی ترجمان سارا سینڈرز کا کہنا تھا کہ امریکا، سعودی عرب کی جانب سے معاملے کی تفتیش اور مشتبہ افراد کے خلاف کی گئی کارروائی کے اعلان کو تسلیم کرتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم اس اندوہناک واقعے کی عالمی تفتیش کو قریب سے دیکھیں گے اور وقت پر شفاف اور ضابطے کے مطابق انصاف کی حمایت کریں گے۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اپنے بیان میں گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ذمہ داروں کے خلاف بھرپور کارروائی کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب اقوام متحدہ: سربراہ اقوام متحدہ انتونیو گوتریس نے سعودی صحافی جمال خشوگی کی موت کی تصدیق کو پریشان کن قرار دیے دیا۔انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ سعودی صحافی جمال خشوگی کی موت کی خبر پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ جمال خشوگی کی موت کی تصدیق پریشان کن ہے، جمال کی موت پر شفاف تحقیقات ہونی چاہئیں۔سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ نے کہا کہ موت کے ذمہ داروں کے مکمل احتساب کی ضرورت ہے۔ ترکی کے میڈیا نے ان 15 سعودی باشندوں کے نام اور تصاویر جاری کر دیے ہیں جن کے بارے میں ترک حکام کو شبہ ہے کہ وہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے مبینہ قتل میں ملوث ہیں۔حالیہ کچھ عرصے سے ملک کی قیادت پر تنقید کرنے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی اکتوبر کی دو تاریخ کو استنبول میں سعودی قونصل خانے گئے جس کے بعد سے وہ دوبارہ نظر نہیں آئے ہیں۔سعودی عرب سے وہ افراد نجی طیارے میں استنبول جمال خاشقجی کے قونصل خانے جانے سے چند گھنٹے پہلے پہنچے تھے اور اسی روز رات کو واپس چلے گئے تھے۔ترک حکام کا کہنا ہے کہ یہ لوگ سعودی حکومت کے اہلکار اور ان کی خفیہ ایجنسی کے رکن تھے اور انٹرنیٹ پر دستیاب معلومات سے یہ الزامات بظاہر درست نظر آتے ہیں۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ جمال خشوگی کی ہلاکت سے متعلق سعودی وضاحت معتبر ہے، سعودیہ قریبی اتحادی ہے لیکن جو کچھ ہوا وہ ناقابل قبول ہے ،صورتحال آسان نہیں لیکن حل نکال ہی لیں گے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain