تازہ تر ین

پی ٹی آئی کی حکومت کا اگر زوال ہوا تووجہ بیوروکریسی ہو گی چیئرمین نیب نیک نیتی سے کرپشن کو جڑ سے پکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں امتنان شاہد کی مبشر لقمان کے پروگرام ”کھرا سچ“ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) ایڈیٹر خبریں گروپ و سی ای او چینل ۵ امتنان شاہد نے مبشر لقمان کے پروگرام ”کھرا سچ“ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے پچھلے 30 سالہ سیاسی دور میں تو کسی طاقتور کے احتساب کا تصور ہی نہیں تھا، پہلی بار احتساب کا نعرہ لگا کہ ایک تیسری قوت ابھری عوام نے اسے منتخب کیا تو احتساب ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اس سے قبل تو پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے اقتدار میں آنے کی باریاں لگا رکھی تھیں۔ احتساب ان سیاسی جماعتوںکا ہو رہا ہے جو پچھلی کئی دہائیوں سے کسی نہ کسی صورت اقتدار میں رہیں اور انہی کا احتساب ہونا بھی چاہئے اس وقت ساری اپوزیشن ایک پیج پر ہے ان کا موقف ہے کہ حکومت اور نیب مل کر ان کے خلاف یکطرفہ کارروائیاں کر رہے ہیں۔ میرے نزدیک حکومت ابھی تک ان کے خلاف ناکام نظر آتی ہے حالانکہ دونوں پارٹیوں پی پی ن لیگ کے خلاف تمام کسیز انہی کے اپنے ادوار میں بنائے گئے وکلا گردی آنے والے دنوں میں مزید بڑھے گی۔ پاکستان لیگل پریکٹیشنرز اینڈ بار کونسلز کے 73 کے ضابطہ اخلاق میں واضح لکھا ہے کہ وکلا کسی عدالت میں مجمع لگا کر پیش نہیں ہوں گے جبکہ ہمارے یہاں روایت بن چکی ہے کہ ملزم اپنے ساتھ بار کونسل کے صدر اور آٹھ دس ارکان لے کر پیش ہوتا ہے جس کا مقصد صرف عدالت پر دباﺅ اور مرضی کا فیصلہ لینا ہوتا ہے۔ فیصل آباد میں وکلا گردی تو صرف ایک ٹریلر ہے ایک بڑی سیاسی جماعت کا وکلا گروپ متحرک ہو چکا ہے۔ یہ گروپ عدالتوں میں اس طرح اکٹھا ہو کر جائے گا خدشہ ہے کہ فیصل آباد واقعہ سے بھی کوئی بڑا واقعہ پیش آ سکتا ہے۔ چیف جسٹس لاہوہر برانچ میں آئے تو باہر وکلا اکٹھے ہو گئے جس پر چیف جسٹس کو خود باہر آنا پڑا۔ ہمارے وکیل حضرات تو مختلف ٹی وی چینلز پر اینکر پرسن بنے نظر آتے اور اخلاقیات پر بھاشن دیتے بھی سنائی دیتے ہیں۔ بڑے لوگ جیل جائیں تو کمر درد، کینسر و دیگر موذی امراض فوری نکل آتے ہیں۔ جیلوں میں ان کو غیر معمولی سہولتیں حاصل ہوتی ہیں۔ ڈی جی نیب لاہور کو تو خوامخوا ہی تل دیا گیا۔ ورنہ نیب کا ترجمان کسی کیس میں وضاحت یا دفاع تو کر سکتا ہے۔ ڈی جی نیب نے بتایا کہ جس گواہ کو دوبارہ بلاتے ہیں وہ غائب ہو جاتا ہے جس کا مطلب ہے کہ کوئی طاقت تو ہے جو اثر انداز ہو رہی ہے۔ حکومت سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اس سے غلطیاں بھی ہو رہی ہیں تاہم ہمیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ تمام اداروں میں پچھلے 30 سال میں بھرتیاں کس نے کیں اور جن لوگوں کو میرٹ سے ہٹ کر بھرتی کیا گیا وہ کسی ایسی حکومتکا ساتھ کیوں دیں گے جو سٹیٹس کو توڑنا چاہتی ہے۔ بیورو کریسی اس وقت حکومت کے بالکل الٹ کام کر رہی ہے اور یہی چیز حکومت کے زوال کا باعث بھی بن سکتی ہے حکومت کو بیورو کریسی پر گرفت مضبوط کرنا ہو گی۔ موجودہ وقت میں صرف چیئرمین نیب واحد شخصیت ہیں جو تندہی سے اپنے کام میں مصروف ہیں اور بوسیدہ نظام کو اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حکومت کو کریڈٹ دینا چاہئے کی پہلی بار وزراءبھی نیب اور جے آئی ٹیز کے سامنے پیش ہو رہے ہیں۔ ماضی میں تو ایک ایم این اے کا بھی اس طرح پیش ہونے کا تصور نہ تھا۔ علیم خان پیش ہوئے، بابر اعوان مستعفی ہو گئے، اعظم سواری پیش ہو رہے ہیں۔ بیورو کریسی میں سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈاکٹر اعجاز منیر نے سپریم کورٹ میں کھڑے ہو کر کہہ دیا کہ وزیراعظم کے زبانی حکم پر آئی جی کو تبدیل کیا گیا ایسا تصور کیا جا سکتا تھا۔ اگر اس معاملہ کی ہی تحقیق ہوتی تو وزیراعظم کو اتھارٹی کے غلط استعمال پر نااہل قرار دیا جا سکتا تھا۔ حکومت کی بیورو کریسی پر گرفت خاصی کمزور ہے جسے مضبوط ہونا چاہئے نیب ترجمان کو مختلف بڑے کیسز بارے عوام کو بریفنگ کی اجازت ہونی چاہئے کہ یہ عوام کا حق ہے وہ جانے کہ نیب کیا کر رہا ہے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain