تازہ تر ین

شاہد آفریدی کون ہوتا ہے کہنے والا کہ کشمیر کو اپنے حال پر چھوڑ دو : ضیا شاہد ،نواز شریف نے بیان ریکارڈ کرایا شہادت نہیں ، بیگناہی کیلئے شہادت ضروری : خالد رانجھا ،چینل۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ شاہد خان آفریدی کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک شخص بہت اچھی کرکٹ کھیلتا ہے اور اس کا بڑا نام ہے بلاشبہ وہ عوام اس کے نام سے واقف ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ ایک اس کا فیلڈ ہے کیا وہ کشمیر کا فریڈم فائٹر ہے کیا اس کو معلوم ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں کشمیری کس مشکل میں وقت گزار رہے ہیں وہ کب سے سیاستدان بھی نہیں بلکہ جیو پالیٹکس اس کو کہتے ہیں جغرافیائی سیاست کیا ہوتی ہے کیا وہ اس کا ماہر ہے بدقسمتی سے اس ملک میں ہر وہ شخص جو مجمع لگا سکتا ہے جس کے نام سے لوگ واقف ہیں وہ کوئی بھی دعویٰ کر دیتا ہے اب شاہد آفریدی صاحب نے یہ دعویٰ کر دیا، کل کوئی ہاکی کا کھلاڑی وہ یہ کہہ دے کہ ہمارے خیال میں یہ سندھ طاق کا معاہدہ جو ہے اس میں جو ہم نے دستخط کھے ہیں غلط ہیں یہ باقی دو دریا بھی ہمارے بھارت کو دے دینے چاہئیں۔ یہ تو ایسا کام ہے کہ جس کو اُردو مں محاورہ ہوتا ہے ”جس کا کام اسی کو ساجھے“ جو شخص سیاست نہیں جانتا جو شخص جغرافیہ نہیں جانتا۔ شاہد آفریدی کے سر پر قرآن رکھ دیں مجھے یقین ہے کہ جھوٹ نہیں بولے گا اسے پتہ ہے کہ کشمیر کا معاملہ جب پنڈت نہرو اقوام متحدہ میں لے کر گئے تھے تو اس وقت وہاں کیا فیصلہ ہوا تھا۔ کیا اس کو پتہ ہے کہ کشمیر کے سلسلے میں بین الاقوامی فورم اور ہے یو این او کا اس کی سب سے بڑی پارٹی سلامتی کونسل تھی اس نے قرارداد منظور کی تھی کہ وہاں لوگوں سے پوچھا جائے ان لوگوں سے تو پوچھیں جو رہنا چاہتے ہیں۔ اگر وہ پاکستان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تو ٹھیک ہے اگر وہ ہمارے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو پھر شاہد آفریدی کرنا ہوتا ہے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ شاہد آفریدی کے بیان پر۔ اگر وہ اچھی کرکٹ کھیلتے تھے تو ان کو کشمیریوں کے حق خودارادیت کے بارے میں رائے دینا اور یہ کہنا کہ اب کشمیر کو چھوڑ اس کے حال پر آزاد رہے یا نہ رہے اب پاکستان کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ اچھے پاکستانی ہیں کہتے ہیں ہم سے 4 صوبے تو چلتے نہیں ہم اس کو لے کر کیا کریں گے۔
ضیا شاہد نے کہا ہے کہ قیصر امین بٹ جو گرفتار ہوئے ہیں یہ سعد رفیق کے پیراگون سٹی میں پارٹنر تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اب یہ گرفتار بھی پیپلزپارٹی کے لیڈر کے گھر سے کیونکہ اوپر کے لیول پر کوئی پارٹی نہیں ہوتی یہ سب چور ٹھگ آپس میں ملے ہوتے ہیں ایک ایم پی اے جو سعد رفیق کا پارٹنر تھا اس کو پناہ کس نے دی ہے وہ یہاں سے بھاگ کر خیرپور سندھ میں ہے اس کو پناہ دی ہوئی ہے پیپلزپارٹی کے ایک رہنما نے ظاہر ہے وہ آصف زرداری کی مرضی کے بغیر ایسا تو نہیں کر سکتے تھے۔ یہ سو فیصد صحیح بات ہے کہ سارے کریمینل مجرم اندر سے ایک ہوتے ہیں اور وہ ایک دوسرے کو تحفظ دیتے ہیں۔ ایک چور دوسرے کا حامی ہوتا ہے اور ایک چور دوسرے کو پناہ گاہ مہیا کرتا ہے۔ابھی اور بہت انکشافات سامنے آئیں گے۔ ہو سکتا ہے قیصر امین بٹ بھی وعدہ معاف گواہ بن جائے۔ ضیا شاہد نے مزید کہا کہ نوازشریف نے بڑی معصومیت سے کہہ دیا کہ میرا کوئی تعلق ہی نہیں، جہاں تک قومی اسمبلی کی تقریر کا سوال ہے وہ میرا قانونی حق ہے، سب کچھ میرے والد کا تھا انہوں نے آگے پوتوں کو دے دیا، خود بری الذمہ ہو گئے۔ شریف خاندان کو جواب دینا پڑے گا کہ پیسہ باہر کیسے گیا۔ ابھی گیم چل رہی ہے، ایک دوسرے کو بچانے کی کوشش ہو رہی ہے لیکن اگر پاکستان کو برقرار رہنا ہے اور کرپشن سے نجات دلانی ہے تو پھر جو بھی زد میں آتا ہے اس کو پکڑنا پڑے گا۔ مالدار لوگوں کا سارہ گروہ کیسے کیسے بہانے لگا کر خود کو بری الذمہ قرار دے دیتا ہے۔ جو کیس نوازشریف پر چل رہا ہے مجھے نہیں لتا کہ وہ بچ سکیں گے۔ اب معاملہ سپریم کورٹ میں ہے شاید ضمانتت کینسل کر دی جائے، دوبارہ گرفتار کر لیا جائے۔ الٹی میٹلی ایک دن آنا ہوتا ہے جب ساری دلیلیں ختم ہو جاتی ہیں۔ مجھے یقین ہے ہمارے ملک میں دیر ہو سکتی ہے اندھیر نہیں، بالآخر ہر مجرم کو سزا ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ اسحاق ڈار سے غلطی ہوئی اگر وہ برطانوی شہریت حاصل کر لیتے تو محفوظ ہو جاتے۔ پاکستان و برطانیہ کے درمیان اب تو قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ بھی ہو چکا ہے۔ اسحاق ڈار کیلئے مشکل دور شروع ہو گیا ہے، جتنی مرضی کوش کر لیں اب صاف بچ نکلنا ممکن نہیں ہو گا۔ پاکستان جب برطانوی حکومت سے اسحاق ڈار کی واپسی کا مطالبہ کرے گا تو معاہدے کے بعد اب برطانیہ کے پاس واپس نہ کرنے کا کوئی جواز نہیں ہو گا۔ اسحاق ڈار کے پاس صرف ایک چیز دولت ہے، دبئی و برطانیہ میں عمارتیں و کاروبار ہے۔ میرٹ ہوتی ہے کہ پاکستان میں لوگ حکوموں میں بھی رہے اور بیرون ممالک اپنا بزنس بھی چلاتے رہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر پاکستان میں کسی کے پاس پیسہ ہے تو وہ ہر الزام سے بچ کر نکل سکتا ہے۔ اسحاق ڈار نے اگر برطانوی شہریت یا وہاں سیاسی پناہ حاصل نہ کر لی تو لگتا ہے واپسی ممکن ہو جائے گی۔ فیصل آباد میں وکلاءگردی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں وکالت نہایت مہذب پیشہ ہے، آئین کے ماہر ہی اس کو توڑتے ہیں تو دکھ ہوتا ہے۔ مجھے ٹریفک پولیس والوں نے بتایا کہ ہم ہیلمنٹ کے بغیر ہر کسی کو پکڑ سکتے ہیں لیکن وکیل کو پکڑنے کی کسی مائی کے لال میں جرا¿ت نہیں۔
لندن سے تجزیہ کار شمع جونیجو نے کہا ہے کہ اسحاق ڈار کی برطانیہ میں پوزیشن مضبوط ہے کیونکہ پاکستان نے ان کا پاسپورٹ منسوخ کر دیا ہے۔ انٹرنیشنل قوانین کے مطابق جب کوئی حکومت اپنے شہری کا پاسپورٹ منسوخ کردیتی ہے تو وہ سٹیٹ لیس شخصیت ہو جاتا ہے، ایسی صورت میںوہ شخص اس وقت جس بھی ملک میں ہو تو پھر اس ریاست کی ذمہ داری ہے کہ فوری متعلقہ شحص کو پاسپورٹ اور سفری دستاویزات دے۔ میری اسحاق ڈار سے بات ہوئی تو پوچھا کہ آپ نے کیا اسائلم کلیم کیا ہے یا سٹیٹ لیس شحصیت کے طور پر دعویٰ کر رہا ہے، انہوں نے سٹیٹ لیس موضوع پر زیادہ بات کی تھی۔ جب ایک آدمی سٹیٹ لیس ہو جاتا ہے اور اس کو پھر فوری پراسکیوشن کا بھی خطرہ ہوتا ہے تو ایسے میں حکومت پاکستان کی قیدیوں کے تبادلے کے معاہدہ پر آسانی سے عملدرآمد نہیں ہو سکے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سٹیٹ لیس شخصیت کے حوالے سے عالمی قانون موجود ہے جس پر برطانیہ و پاکستان سمیت تمام ممالک کے دستخط ہیں۔ نوازشریف پر جتنے کیسز چل رہے ہیں ان کو عالمی ہمدردی حاصل ہے، پاکستان کی عدالتیں قانونی وضاحت دینے میں ناکام رہی ہیں۔ ایک فیئر ٹرائل نہیں کیا۔ رولز کو فالو نہیں کیا۔ اب تو اسحاق ڈار کا پاسپورٹ ہی کینسل ہو گیا ہے وہ سٹیٹ لیس کیس ہے۔ پاکستان تو پاسپورٹ منسوخ کر کے انکار کر چکا ہے کہ یہ ہمارا شہری ہی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان اگر قائل کرے کہ اسحاق ڈار بہت بڑا دہشتگرد یا بڑا مجرم ہے، ثبوت فراہم کریں تو ڈار کی واپسی ممکن ہو سکتی ہے۔ فرمان جونیجو جو برطانیہ میں پکڑا گیا تھا، ان کے پاس اپنی جائیداد و پیسوں کا کوئی ثبوت نہیں تھا۔ حکومت پاکستان اگر برطانوی حکومت کو قائل کرے کہ اسحاق ڈار واقعی اس جرم میں یہاں مطلوب ہیں اس کے بعد ہی واپسی یا تبادلہ ممکن ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ برطانوی حکومت کے کچھ لوگوں نے بتایا کہ پاکستان کے ساتھ جو قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ ہوا ہے وہ ان کے بارے میں ہوا ہے جو برطانیہ کی شہریت رکھتے ہوں اور یہاں یا پاکستان میں کوئی قتل کر آتے ہیں تو ان کے تبادلے کے حوالے سے معاہدہ ہوا ہے۔ مجھے ان کی باتوں سے نہیں لگا کہ ان کا زیادہ فوکس کرپشن یا سیاسی پراسیکیوشن کے کیسز پر تھا۔ انہوں نے ممید کہا کہ جب نوازشریف کو نااہل کیا گیا اور پھر جیل بھیجا گیا تو عدالت کے فیصلے میں تھا کہ کرپشن ثابت نہیں ہوئی۔ برطانیہ میں نوازشریف کی سو فیصد قانونی ٹرانزیکشن ہیں، یہاں اگر مشکوک ٹرانزیکشن ہو تو اس پر بڑے سخت قوانین ہیں۔ اگر نوازشریف کی ٹرانزیکشن پر کوئی برطانیہ میں شک ہوتا تو اب تک ان کے فلیٹس ضبط ہو چکے ہوتے جو نہیں ہوئے۔ ایسا صرف پاکستان میں ہی ہوتا ہے کہ فیصلے میں ایک لائن میں لکھا ہے کہ کرپشن ثابت نہیں ہوئی اور دوسری لائن میں لکھا ہے اثاثوں کی وضاحت نہیں ہوئی، پھر 10 سال کیلئے جیل بھیج دیا جاتا ہے، برطانیہ میں اس طرح نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ شاہد آفریدی کا بیان انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے، سوشل میڈیا پر میں نے تبصرہ دیا ہے کہ ”کرکٹر کو کرکٹر ہی رہنا چاہئے اگر وہ سیاست پر اپنی افلاطونی دکھائے گا تو اس سے اس کا آئی کیو بڑھ نہیں جائے گا۔“ مجھ سمیت تمام پاکستانی کمیونٹی کا ایک ہی نعرہ ہے ”کشمیر بنے گا پاکستان“ کشمیر میں آزادی کے لئے لوگ اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں، لڑ جھگڑ اور مر رہے ہیں لیکن پاکستان کا جپنڈا ہاتھ میں اٹھائے ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ میں جو قرارداد آئی تھی کہ کشمیریوں کی رائے شماری کر لی جائے تو انڈیا کو اگر 10 فیصد بھی یقین ہوتا کہ کشمیری آزادی ریاست کے لئے کریں گے تو وہ کروا دیتا، بھارت نے رائے شماری اس لئے نہیں ہونے دی کیونکہ وہ جانتا ہے کہ کشمیریوں کی اکثریت پاکستان کے ساتھ ہے۔ اگر پاکستان اپنے چار صوبے نہیں سنبھال سکتا تو یہ کرکٹرز کا کام نہیں بلکہ سیاستدانوں کا ہے۔ کرکٹر کو چاہئے کہ اپنے کام سے کام رکھیں یہاں کوئی بھی اٹھ کر افلاطون بن جاتا ہے، ہر کوئی جب سیاست میں اپنی ٹانگ اڑاتا ہےت و پھر ایسے ہی بیانات سننے میں آتے ہیں۔ اس بیان کو اتنی اہمیت دینی ہی نہیں چاہئے، شاہد آفریدی کی قابلیت کیا ہے؟ اس نے پڑھا کتنا ہے؟ چار صوبے نہ سنبھالے جانے کے شاہد آفریدی شواہد پیش کر سکتا ہے؟ وہ کون ہوتا ہے کہ کشمیریوں کے بارے ایسی بات کہے، کیا کشمیریوں نے اس کو کوئی پلیٹ فارم دیا، کیا وہ اس کو مانتے ہیں؟ عجیب قسم کا بیان دیکھا ہے پھر اس کی تردید بھی آ گئی ہے کہ میرا یہ مقصد نہیں تھا تو پھر اس کا مقصد کیا تھا؟
سینئر ایڈووکیٹ اظہر صدیق نے کہا ہے کہ ہیلمٹ، سائلین اور سیف سٹی جو پچھلے 4 سال سے کام نہیں کر رہا تھا وہ اب شروع ہو گیا، یہ پٹیشن ہم نے ہی دائر کروائی تھی اور خود ہی اس کو دیکھ رہے ہیں۔ قانون سب کے لئے برابر ہے۔ کسی وکیل، سیاستدان، بیورو کریٹ یا جج کو بھی کوئی رعایت حاصل نہیں۔ اگر کوئی وکیل بھی قانون توڑتا ہے تو وہ بھی ذمہ دار ہے۔ ہیلمٹ کیس کی سماعت کل ہے، اس میں وکلا کے ہیلمٹ نہ پہننے کی بات بھی عدالت کے سامنے رکھیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ فیصل آباد میں وکلا کا ڈپٹی کمشنر دفتر پر دھاوا، اس میں سمجھتا ہوں کہ علاقائی بنچوں والا معاملہ سنجیدہ ایشو بن گیا ہے، ہمارے پارلیمنٹیرینز یا باقی لوگ سمجھا نہیں پا رہے کہ وہ ہائیکورٹس ہیں جو صوبے کی عدالت ہوتی ہے۔
سینئر قانون دان خالد رانجھا نے کہا ہے کہ نوازشریف نے 342 کا بیان دیا ہے، یہ شہادت نہیں ہوتی۔ وضاحت کرنے کیلئے ان کو باقاعدہ شہادت دینا پڑے گی، اس بیان سے کوئی بات اخذ نہیں کی جا سکتی۔ اس بیان سے کیس آگے نہیں چلنا۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain