تازہ تر ین

افواہ ہے زرداری سندھ کارڈ کھیلنے والے ہیں

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے ہ میں اس بات سے حیران ہوں کہ سماعت کے دوران نوازشریف کہیں کل یہ نہ کہہ دیں کہ میرا نام نوازشریف نہیں ہے اور جتنے بھی کیسز محمد نوازشریف کے خلاف میرا ان سے کوئی تعلئق نہیں۔ جب سارے اخبارات ٹی وی چینلز چلا رہے تھے جب قطری خط آیا، یہاں ان کے وکیل نے وہ پیش کیا اور اتنا اس پر مباحثہ ہوا عدالت نے اس پر تنقید کی اور کہا کہ ان کو خود پیش ہونا چاہئے انہوں نے خود پیش ہونے سے انکار کیا پھر انہوں نے کہا کہ اچھا وہاں کوئی بندہ بھیج دیں تو وہ وہاں جا کر ان سے جواب لے سکتا ہے لیکن وہ یہاں نہیں آئیں گے اب کمال کی بات ہے کہ اتنے ماہ گزرنے کے بعد اب وہ کہتے ہیں میرا قطری خط سے تعلق ہی نہیں ہے اگر قطری خط سے ان کا تعلق نہیں ہے تو مجھے یقین ہے کہ ان کا نام نوازشریف سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ یہ ایک سٹیج آئی ہے صفائی دینے کے موقع پر کہ جب ملزم کو کوئی اپنی صفائی دینی پڑتی ہے تو وہ سرے سے اپنے نام سے ہی مکر جاتے ہیں۔
ان کے خلاف ایکشن نہیں ہوتا لیکن وہ اپنے بیان سے انکار نہیں کر سکتے، یہ بھاگنا چاہتے ہیں کل کہہ دیں گے کہ نوازشریف کسی چوکیدار کا نام ہے، میں تو 3 بار وزیراعظم رہ چکا ہوں۔ نوازشریف مختلف قسم کے دفاع لینے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اس سے ان کو کوئی قانونی فائدہ نہیں ہو گا بلکہ جگ ہنسائی ہو گی۔ چھوٹے انسان ثابت ہوں گے۔ اپنے بیان سے پیچھے ہٹنے والے کی عدالت کے سامنے ساکھ زیرو ہو جاتی ہے۔
ضیا شاہد نے کہا کہ وزیر مملکت برائے داخلہ نے ایس پی طاہر داوڑ کے قتل کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ چوتھے روز افغانستان کے ناظم الامور کو بلا کر احتجاج کیا گیا۔ جس دن یہ واقعہ پیش آیا تھا اسی دن بڑے پیمانے پر افغان حکومت سے احتجاج کرنا چاہئے تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ کسی بھی جمہوریت میں آج تک ایسا نہیں ہوا کہ کامیاب ہونے والے لوگوں کو کہا جائے کہ آپ کو وزارت کا تجربہ نہیں۔ عمران خان پہلے کچھ بھی نہیں رہے لیکن یہ چیز ان کے راستے میں رکاوٹ نہیں کہ وہ وزیراعظم نہیں بن سکتے۔ آصف زرداری کے قریبی لوگ دھڑا دھڑ گرفتار ہو رہے ہیں۔ جس سندھ بینک سے چینی کی بوریاں اٹھا کر بیچ دی گئیں اس بینک کا سارا عمل دخل زرداری کے ہاتھ میں تھا۔ آصف زرداری کے علاوہ اسفند یار ولی اور اچکزئی یہ دونوں بھی ہار جانے کے باوجود شدت سے مخالفت کر رہے ہیں کہ 18 ویں ترمیم کو نہ چھیڑا جائے۔ سندھ میں افواہ ہے کہ اگر زرداری کے کسی قریبی عزیز کو پکڑا گیا تو وہ سندھ کارڈ کھیلیں گے، یہ ایک پرانی اصطلاح ہے جب آدمی دیکھتا ہے کہ وہ پکڑا جا رہا ہے اور چاروں طرف سے گھیرا تنگ ہو رہا ہے تو وہ صوبائیت کا نعرہ لگاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دریافت ہونے والے معدنی ذخائر کے حوالے سے حکومت کے پاس 2 ایسی وزارتیں ہیں جو اس سلسلے میں فوری طور پر مداخلت کر سکتی ہیں۔ عمران خان کو چاہئے کہ اس کو فوری تحقیقات کا حکم دیں کیونکہ یہ پراجیکٹ شریف برادران کی ذاتی نگرانی میں شروع ہوا تھا، اس پر کس وقت اور کن شرائط کی وجہ سے چینی اپنا کام چھوڑ کر چلے گئے پھر یہ کام ترکی کی کمپنی کو سونپ دیا گیا، چینی کس نہج پر کام چھوڑ کر گئے اور ترکی کمپنی نے اب تک کیا کام کیا ہے یہ ساری تفصیلات عوام کے سامنے پیش کی جانی چاہئیں، حکومت کا فرض بنتا ہے۔ انہوں نے کہا جس طرح جڑا نوالہ میں گھریلو تنازع پر خاتون کا سر مونڈ دیا گیا، اس پر وفاقی وزیر ہیومن رائٹس شیریں مزاری کو ایکشن لینا چاہئے۔ وفاقی وزیر کو چاہئے ایسے معاملات صوبوں پر نہ چھوڑیں خود فوری رپورٹ طلب کریں۔ آئے روز ایسے ظلم ہوتے ہیں، خواتین کے سر کے بال مونڈ دیئے جاتے ہیں، ان کو سڑکوں پر ذلیل کیا جاتا ہے، یہ انتہائی ظلم ہے اس چیز کو ختم ہونا چاہئے۔
تحریک انصاف کے رہنما ذوالفقار کھوسہ نے کہا ہے کہ نوازشریف تو مزاحیہ باتیں کر رہے ہیں دیکھئے انہوں نے پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا میں کہا کہ قطری شہزادے کے لین دین بارے میں اب اگر الٹ بات کہیں گے تو یہ قوم کے ساتھ مذاق کہا جا رہا ہے۔ دوسشری بات جو انہوں نے کہا کہ جب ان کی انڈسٹری قومیائی گئی تو حکومت ریکارڈ ساتھ لے گئی تھی انہوں نے ان کی جو سٹیل مل تھی گورنمنٹ نے ٹیک اوور کر لیا تھا ریکارڈ تو ان کے پاس ہوتا ہے ریکارڈ انہوں نے ان کو کہاں دیا تھا۔ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں اس وقت یہ ان کا اتنا بڑا ایمپائر نہیں ہوتا تھا۔ اتنے بڑے کاروبار کا یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں پتہ ہی نہیں تھا کہ ہمارے پاس کیا تھا۔ یہ قوم کے ساتھ مذاق کیا جا رہا ہے۔
ضیا شاہد نے کہا کل انہوں نے اسش سے بڑی بات کی تھی اور جناب نوازشریف صاحب نے یہ کہا کہ نہ مجھے کوئی جائیداد کا علم ہے جو لندن میں ہے اور نہ ہی میرا اس سے کوئی تعلق ہے اگر میرے بیٹے کا تعلق ہے تو ان سے پوچھیں اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ انہوں نے پیسے کہاں سے لئے تو دادا نے اپنے پوتوں کو پیسے دیئے تھے لہٰذا ان سے انہوں نے پراپرٹی خرید لی میں اس میں کہاں سے آتا ہوں۔ اس پر آپ کیا کہتے ہیں۔ اور تیسری بڑی بات اس سے بڑی بات انہوں نے کہی کہ قومی اسمبلی میں بڑی تفصیل کے ساتھ انہوں نے ایک نہیں ایک سے زیادہ مرتبہ تفصیل بیان کی تھی کہ ان کے پاس کیا پراپرٹتی تھی اور کیا کیا کارخانے تھے۔ میں نے خود تفصیل کے ساتھ ان کیت قریر سنی تھی اس میں انہوں نے کہا تھا کہ دبئی میں ہماری جتنی پراپرٹی تھی اور اتنے میں بکی اس کے بعد وہ پیسے جو تھے سعودی عرب منتقل ہوئے اور وہاں ان سے نیا کارخانہ لگایا گیا۔ آپ یہ فرمایئے کہ ایک پاکستان کے وزیراعظم رہے ہیں 3 مرتبہ ایک مرتبہ پنجاب کے وزیراعلیٰ رہے ہیں دوسری مرتبہ پنجاب کے منتخب وزیراعلیٰ رہے کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ اس عہدے پر اس معیار پر بیٹھا ہوا ایک آدمی اپنی ہر چیز سے سراسر انکار کرتے چلا جا رہا ہے۔
ذوالفقار کھوسہ نے کہا کہ ان کے بڑے قریبی دوست اور فیملی ممبر کی طرح تصور کئے جاتے تھے چودھری نثار علی خان نے ٹیلی ویژن پر کہا تھا کہ میں 1996ئ، 1997ءمیں گیا تھا اورانہی اپارٹمنٹس میں گیا تھا۔ یہ اپارٹمنٹس انہی کے ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا۔ ٹی وی پر انہوں نے یہ بیان دیا تھا۔ ہم بھی جب 97,96 میں گئے تھے تو مجھے پتہ چلا کہ ان کی مائنر سی سرجری ہوئی تھی تو مسلم لیگ کے لندن اور یو کے کے عہدیداران تھے انہوں نے مجھے کہا کہ آپ ان کے مزاج پرسی کے لئے نہیں ااتے تو میں نے ان سے کہا کہ میں نے ان کا گھر نہیں دیکھا ہوا۔ انہی اپارٹمنٹس میں ان سے جا کر ملے تھے۔ تقریریں انہوں نے کی ہیں وہ ساری قوم نے سنی ہیں اسمبلی کے اندر جو تقریر ہو رہی تھی وہ چینلز پر چل رہی تھی۔ اور اخبارات کے صفحات میں یہ بیانات موجود ہیں اس کے علاوہ ان کی صاحبزادی ہیں انہوں نے اپنی زبان سے ایک مرتبہ نہیں کئی مرتبہ کہا کہ میڈیا پر آ کر کہا کہ میرا تو کچھ بھی نہیں ہے کچھ بھی جائیداد نہیں ہے نہ باہر نہ ملک سے باہر میں تو اپنے والد صاحب پر پورا انحصار کرتی ہوں۔ اب وہ بھی ثابت ہو گیا بھائی کہہ رہے ہیں الحمد اللہ یہ ہماری چیز، الحمد اللہ یہ فلاں چیز ہے۔ اور الحمد لللہ ہماری ہمشیرہ اس میں میجر بینی فشری ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ان کو ایک جھوٹ چھپانے کے لئے سو اور جھوٹ بولنے پڑ رہے ہیں۔ اب یہ ساری چیزیں آن ریکارڈ آ چکی ہیں ان کی ساری تقریریں وغیرہ۔
ضیا شاہد نے پوچھا کہ یہ جو ان کی دلیل ہے کہ قومی اسمبلی میں میں نے جو کچھ کہا اس کو استثنیٰ حاصل ہے قومی اسمبلی میں کی جانے والی تقریر کو قومی اسمبلی والی تقریر وہی ہے اس کی لیگل پوزیشن وہی بنتی ہے جو سینٹ میں کی جانے والی تقریر کی ہے اور جو صوبائی اسمبلی میں کی جانے والی تقریر کی ہے اور آپ تو ان اسمبلیوں کے ممبر بھی رہے ہیں۔ آپ یہ بتائیں کیا کوئی شخص قومی اسمبلی میں یا صوبائی اسمبلی یا سینٹ میں تقریر کرنے کے بعد یہ کہہ سکتا ہے کہ اس تقریر پر کوئی پکڑ نہیں ہو سکتی لہٰذا جو میں نے کہا وہ ضروری نہیں ہے وہ صحیح ہو اس کو کوٹ نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس کو عدالت میں اس کا حوالہ دیا جا سکتا ہے۔ اس قانون کے بارے میں جو انہوں نے خود ساختہ گھڑا ہے اس پر آپ کیا کہتے ہیں اور دوسری بات جب خواجہ حارث صاحب نے جو نوازشریف کے وکیل تھے انہوں نے خود قطری خط کو عدالت میں پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ خط جناب نوازشریف کے موقف کی تائید کرتا ہے تو اب وہ اس سے بھی منکر ہو گئے ہیں۔ کس طرح سے معاملہ آگے چلے گا۔
ذوالفقار کھوسہ نے کہا کہ جب یہ کہتے ہیں کہ میری اسمبلی میں تقریر کو شہادت میں نہ پیش کیا جائے اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ استثنیٰ حاصل ہے وغیرہ وعیرہ۔ تو پھر میڈیا کو کیوں اجازت دی گئی کہ اسمبلی کے اندر جو تقریر ہوئی اس کو کوریج دیں اور وہ لائیو ٹیلی ویژن پر دکھائی گئی۔ جہاں تک قطری شہزادے کے خط پر خواجہ حارث کے بیانات کا ہاں یہ ساری قوم سن چکی ہے اور یہ عدالتوں میں کہا گیا ہے جی وہ آ نہیں سکتے خط بھیج دیا وغیرہ وغیرہ تھوڑا سا پیچھے چلے جائیں جب انہوں نے کہا تھا کہ میرا کوئی معاہدہ نہیں ہوا میں نے کبھی کوئی معاہدہ نہیں کیا۔ پھر وہ سعودی عرب سے ایک شہزادہ یہاں آیا تھا بلکہ ساتھ لے کر آیا تھا جس میں ان کے دستخط موجود تھے۔ 10 سال کا معاہدہ کیا تھا کہ میں پاکستان نہیں آﺅں گا۔
ضیا شاہد نے پوچھا کہ نوازشریف اتنی حقیقتوں سے انحراف کر رہے ہیں اور اپنی کہی باتوں اور وکلاءکی کہی ہوئی باتوں سے یکسر انکار کر رہے ہیں۔ فرمایئے کہ وہ کیا سمجھتے ہیں آپ ان کو بڑا پرانا جانتے ہیں۔ وہ جو فرما رہے ہیں کیا پاکستان کے عوام، دنیا کو جو چینلز پر جو کچھ نشر ہوا ان کی تردید کر دینا ان کو تسلیم نہ کرنا کیا وہ سمجھتے ہیں کہ لوگوں کی یادداشت ختم ہو چکی ہے۔
ذوالفقار کھوسہ نے کہا کہ آپ کو یاد ہو گا کہ ان کے معتمد وزیر توانائی بھی رہے ہیں انہوں نے کہا کہ میں نے میاں صاحب سے کہا تھا کہ آپ چھوڑیں یہ باتیں نہ کریں عوام کو باتیں بھول جاتی ہیں غالباً وہ سمجھتے ہیں کہ 6 ماہ پرانی باتیں قوم بھول جاتی ہے، قوم نہیں بھولتی سب کو یاد ہے۔ میڈیا اور عدالت کے ریکارڈ میں ساری باتیں آ چکی ہیں۔ اس سے کون انکار کر سکتا ہے ان کے مشیر ان کو اور خطرات میں دھکیل رہے ہیں۔ یہ تو ان کے لئے بری بات ثابت ہو جائے گی۔
ضیا شاہد نے کہا کہ عدالتیں جو ہیں ایک آدمی کے بدلنے سے یا اپنے کہے ہوئے بیانات سے روگردانی کرنے سے عدالتوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ عدالتیں فیصلہ میرٹ پر کریں گی۔
معروف قانون دان احمد رضا قصوری نے کہا کہ نوازشریف نے ایک بار یہ بھی کہا ہے کہ میں نے جو بیان دیا تھا کہ یہ ہیں وہ ذرائع جن سے ہم نے جائیداد بنائی وہ میرا سٹیٹ منٹ ہے قومی اسمبلی کے فلور پر اور ونڈر آرٹیکل 66 کے تحت اس کو پڑھا نہیں جا سکتا وہ اس کی غلط تشریح کر رہے ہیں آرٹیکل 66 میں مثال کے طور پر اگر آپ نے کچھ ایسی گوہر افشانی کی ہے اس سے عدالت کی کنڈکٹ آف کورٹ کے زمرے میں آتا ہے یا آپ نے جنگ ہنسائی کی ہے جس سے کہ افواج پاکستان بارے کوئی ایسے فقرے بولے ہیں جن سے آئین منع کرتا ہے۔ تو اس پر مواخذہ نہیں ہو سکتا لیکن شہادت کے طور پر اس کو لیا جائے گا بطور شہادت کو بھی پڑھا جائے گا۔
دفاعی تجزیہ کار عبداللہ گل نے کہا ہے کہ ایس پی طاہر داوڑ کو اسلام آباد سے لے جانا، 300 کلو میٹر دور لے کر جانا، 2 دن پاکستان میں رکھنا، اس کے علاوہ پھر 26 تاریخ کو وہ اغوا ہوئے کوئی پوچھنے والا نہیں، وزیراعظم کے ترجمان یہ بیان دیتے ہیں کہ جناب ٹیلی فون بند ہو گیا ہو گا، لوگوں نے ایشو بنا لیا، میڈیا غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کر رہا ہے۔ اب وہ جواب دیں انہوں نے یہ بیان کس بنیاد پر دیا تھا۔ اب حکومت نے کہا کہ ایس پی کے قتل کے خلاف وری طور پر کارروائی ہو گی۔ مولانا سمیع الحق کے متعلق بھی یہی باتیں کی گئیں لیکن آج تک کچھ نہیں پتہ چل سکا، آج تک سکیورٹی کیمروں سے ہی کچھ نہیں نکلا، وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی نے بتا ہی دیا۔ گزشتہ حکومت کے دور میں جب وزیر خارجہ کا عہدہ خالی تھا تو نوازشریف پر بڑی تنقید کی جاتی تھی لیکن آج وزارت داخلہ وزیراعظم نے اپنے پاس رکھی ہوئی ہے، شہر یار آفرید تو وزیر مملکت برائے داخلہ ہیں۔ وزارت خارجہ سے وزارت داخلہ کی ذمہ داریاں زیادہ ہوتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ افغان حکومت اور ان کی انٹیلی جنس ایجنسی (این ڈی ایس) ایس پی طاہر داوڑ کے قتل میں ملوث نہ ہوتی تو پھر ان کا جسد خاکی دینے پر اعتراض کیا تھا۔ واقعہ سے پولیس فورس کا مورال گرا ہے کہ ہم میں سے جو بھی پاکستان کے لئے کام کرے گا اس کو نشانہ بنا دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کے اندر ایک ایسی جنگ چھڑ چکی ہے جو اپنے اختتام کے اندر پہنچنے والی ہے لیکن یہ معاملات امریکہ کے ساتھ طے ہوئے ہیں۔ امریکہ و طالبان آپس میں محو گفتگو ہیں۔ کابل حکومت کو مذاکرات سے نکال دا گیا ہے کیونکہ طالبان نے اس کے ساتھ بیٹھنا پسند نہیں کیا۔ دوسری طرف بھارت نے کابل حکومت کے ساتھ افغانستان میں کھربوں ڈالر انویسٹ کر لئے ہیں۔ اب بھارت کو سمجھ نہیں آ رہی کہ اگر امریکہ و طالبان میں کوئی سمجھوتہ ہو گیا تو پھر ان کا کیا مستقبل ہے؟ اس لئے اب یہ ایک اینڈ گیم ہے۔ 1988ءمیں جب روس افغانستان جا رہا تھا تو روسی اس حد تک پاگل ہو گئے تھے کہ وہ اپنے کمانڈر بھیجتے تھے اور 3750 ہلاکتیں پاکستان نے دیکھی ہیں۔ لنڈا بازار، کشمیری بازار سمیت مختلف مقامات پر ایک ایک وقت میں جب دھماکے ہوئے، 3,3 سو لوگ مارے لقمہ اجل بن گئے۔ افغانستان کے اندر اب دشمن بوکھلاہٹ کا شکار ہے، داعش سرگرم ہے کیونکہ اس کو امریکہ کی پشت پناہی حاصل ہے۔ داعش بنائی ہی اس لئے گئی ہے کہ پاکستان کو غیر مستحکم کیا جائے، مقصد یہ ہے کہ پاکستان کو ایسا غیر مستحکم قرار دے دیا جائے جس کے اپنے لوگ کہیں کہ پاکستان کو افغانستان میں امن کے قیام کے حوالے سے کوئی کردار ادا نہیں کرنا چاہئے۔
نمائندہ جڑانوالہ بلال احمد نے کہا ہے کہ افسوسناک واقعہ تھانہ سٹی کی حدود میں 3 بچوں کی ماں کے ساتھ پیش آیا۔ ایک وٹہ سٹہ کی شادی تھی جس کے انجام میں متاثرہ خاتون کے بھائی نے اس کی نند کو طلاق دے دی تھی، جس پر سسرالیوں نے روبینہ بی بی کو بچوں کے سامنے تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر 5 دن گھر میں محصور کیسے رکھا، خاتون کے سر کے بال کاٹ دیئے جس کے بعد متاثرہ خاتون انصاف کے لئے تھانہ سٹی پہنچ گئے، پولیس نے مقدمہ درج کر کے 3 ملزمان کو حراست میں لے لیا ہے۔
نمائندہ چنیوٹ طاہر سیال نے کہا کہ پاکستان کی تقدیر بدلنے اور معاشی بدحالی سے چھٹکارا حاصل کرنے کا خواب ادھورا رہ گیا ہے۔ ضلع چنیوٹ سے ملنے والے معدنی ذخائر کی دریافت کا معاملہ مکمل طور پر کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔ اس منصوبے پر کام نہ ہونے کے برابر ہو چکا ہے۔ سابق وزیراعظم نوازشریف اور سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ چنیوٹ سے ملنے والے اربوں روپے کے ذخائر سے ملک و قوم کی تقدیر بدل جائے گی لیکن اب تک اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔
تجزیہ کار میاں طارق نے کہا ہے کہ آصف زرداری نے سندھ کارڈ کھیلنے کا پروگرام نہیں بنایا وہ کھیل چکے ہیں۔ ماضی قریب کی ان کی تقاریر کا جائزہ لیں تو ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سندھ کارڈ کھیل چکے ہیں۔ ایشو یہی ہے کہ جو ان کے قریبی ساتھی انور مجید اور پھر ان کے بیٹے گرفتار ہو رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب نیب سندھ نے ہائیکورٹ میں ایک رپورٹ جمع کرائی ہے جس میں سابق صوبائی وزیر ضیا جو 2011ءتک پی ٹی وی کے ملازم تھے۔ ان کے ایک ارب سے زائد اثاثے نکل آئے ہیں، ان کے خلاف بھی نیب نے تفتیش میں عدم تعاون کا کہا ہے، ایان علی کے بارے بھی اطلاعات ہیں کہ انہو ںنے حساس اداروں کو وعدہ معاف گواہ بننے کی پیش کش کر دی ہے بلکہ بن چکی ہے۔ یہ ایشوز ہیں جن کی وجہ سے آصف زرداری کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے۔ فریال تالپور سابقہ دو ادوار میں سندھ کی سیاہ و سفید کی مالک تھیں، ان کے خلاف جو گھیرے تنگ کئے جا رہے ہیں اس کے لئے زرداری یقیناً سندھ کارڈ کھیل چکے ہیں۔ گزشتہ روز آصف زرداری نے اپنی تقریر میں جس طرح بدین کی اتنے لاکھ ایکڑ زمین کے حوالے سے بات کی۔ حالانکہ وہ زمین جو سمندر برد ہوئی ہے وہ پانی کی وجہ سے نہیں بلکہ ٹمبر مافیا جسش نے ٹمبر کے جنگلات کا صفایا کر کے بیچ کھایا تھا اس مافیا کی وجہ سے زمین ضائع ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ کرپشن کی تحقیقات پر آصف زرداری کے خلاف جو گھیرا تنگ ہو رہا ہے اسی کو بنیاد بنا کر زرداری سندھ کارڈ کھیل چکے ہیں۔ اسفند یار ولی اور اچکزئی جس طرح کی گفتگو کر رہے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے قیام پاکستان کے وقت ان کے آباﺅ اجداد پاکستان کو مانا ہی نہیں تھا۔ پاکستان کو غلط قرار دیتے ہوئے اس کے قیام کی مخالفت کی تھی، جن کے آباﺅ اجداد نے ایسے کام کئے ان سے کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ جہاں تک ڈیورڈ لائن کو تسلیم نہ کرنے کا معاملہ ہے، اس پر آرٹیکل 6 لگنا چاہئے تھا۔ پتہ نہیں اس وقت کی فوج کی کیا مجبوری تھی؟ بہت سارے سیاستدان ہیں جو اپنے ذاتی مفاد کی خاطر ملکی مفاد کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ ملک اور قومی مفاد کو نقصان پہنچاتے ہیں جو سیاستدان اس طرح کی لسانیت پر مبنی سیاست کرتے ہیں، ان سب کے خلاف آرٹیکل 6 لگتنا چاہئے اور قرار واقعی سزا دینی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ زرداری صاحب کا یہ بھی کہنا ہے کہ تکلیف مجھ سے ہے لیکن تنگ میرے دوستوں کو کیا جا رہا ہے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain