تازہ تر ین

یوٹرن نہ لینے والا کون ؟ ہٹلر ، نپولین نے کیوں شکست کھائی ؟ وزیراعظم کا اہم بیان

اسلام آباد (صباح نیوز، اے این این) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ وہ لیڈر ہی نہیں، جو یو ٹرن لینا نہیں جانتا ،، جو یوٹرن لینا نہیں جانتا اس سے بڑا بے وقوف لیڈر نہیں ہوسکتا، نپولین اور ہٹلر نے یوٹرن نہ لیکر تاریخی شکست کھائی، نواز شریف نے عدالت میں یوٹرن نہیں لیا، جھوٹ بولا۔اسلام آباد میںکالم نویسوں پر مبنی وفد سے گفتگو عمرا ن خان کا کہنا تھا کہ ہم میاں شہباز شریف کو جو نیب کی تحویل میں ہیں اور کرپشن کے کیسز کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہم کیسے ان کو ایک ایسی باڈی کا چیئرمین بنا سکتے ہیں جس کا کام ہی کرپشن کے خلاف کام کرنا ہے۔ لہٰذا ہم کسی صورت شہباز شریف کوپی اے سی کا چیئرمین نہیں بنائیں گے۔ چاہے اپوزیشن اس پر جتنا مرضی شور کر لے یہ دنیا کے سامنے اپنے آپ کو مذاق بنانے والی بات ہوگی۔ عمران خان سے پوچھا گیا کہ اس وجہ سے پوری قومی اسمبلی اور سینیٹ یرغمال بنی ہوئی ہے اور باقی قائمہ کمیٹیاں نہیں بننے جا رہیں۔ اس پر عمران خان کا کہنا تھا کہ جو مرضی ہو جائے کسی صورت ہماری حکومت شہبازشریف کو پی اے سی کا چیئرمین نہیں بنائے گی۔ نیب کے حوالے سے عمران خان کا کہنا تھا کہ نیب کو چھوٹے چھوٹے مقدمات کے پیچھے جانے کی بجائے ان کو بڑے بڑے مگرمچھوں کے پیچھے جانا چاہئے۔ 15، 20 کیسز کو سامنے رکھا جائے اور ان کو ایسی مثال بنایا جائے تاکہ ان کو دیکھتے ہوئے چھوٹے چھوٹے لوگ کرپشن اور خوردبرد سے پیچھے ہٹ جائیں گے۔ نیب میں ریفارمز کے حوالے سے عمران خان کا کہنا تھا کہ نیب ایک خودمختار ادارہ ہے۔ حکومت اس حوالے سے کچھ زیادہ نہیں کر سکتی۔ تاہم حکومت کے دائرہ میں نیب کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لئے جو بھی کام آئے ہیں ہم اس کو ضرور نبھائیں گے اور مخصوص سطح پر نیب کے ساتھ قانونی دائرہ کار کے اندر رہ کر رابطہ ہو سکتا ہے اور وہ رابطہ ہے اور ہم آنے والے دنوں میں کوشش کریں گے کہ نیب کی کارکردگی اور بہتر ہو۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ جو لیڈر یوٹرن نہ لے وہ لیڈر ہی نہیں۔ حالات کے مطابق یوٹرن نہ لینے والا کبھی کامیاب لیڈر نہیں ہوتا جو یوٹرن لینا نہیں جانتا اس سے بڑا بے وقوف لیڈر نہیں ہو سکتا۔ نپولین اور ہٹلر نے یوٹرن نہ لے کر تاریخی شکست کھائی۔ نوازشریف نے عدالت میں یوٹرن نہیں لیا بلکہ جھوٹ بولا۔ وزیراعظم سے پوچھا گیا کہ آپ نے پہلے کہا تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس بھیک مانگنے نہیں جائیں گے۔ اب آپ آئی ایم ایف کے پاس جا رہے ہیں۔ اس پر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے جب اقتدار کی باگ دوڑ سنبھالی تو اس وقت مالیاتی خسارے اور کرنٹ اکاونٹ خسارے کا سامنا تھا۔ حکومت کی یہ کوشش تھی کہ فوری طورپران دو مسائل سے نمٹنے کے لئے اقدامات کیے جائیں۔ اس سلسلے میں دوست ملکوں سے مدد لینے کا فیصلہ کیا اور شکر ہے کہ دوست ملکوں کی مدد سے وقتی طور پر اس مسئلے پر قابو پا لیا گیا ہے۔ ۔ ہم سعودی عرب گئے اور چین گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں چین سے بہت کچھ ملا ہے لیکن ہماری مجبوری ہے کہ چین سے ہمارا معاہدہ یہ ہے کہ جو کچھ بھی ہمیں ملا ہے۔ اس کو ہم پبلک نہیں کر سکتے لہٰذا ہم وہ پبلک نہیں کرینگے۔ اس سے ادائیگیوں کے توازن کا مسئلہ بہت حد تک حل ہو چکا ہے۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ان کا دورئہ چین توقعات سے زیادہ کامیاب رہا ماضی میں کسی وزیراعظم کا دورئہ چین اتنا کامیاب نہیں رہا۔ حالیہ دورئہ چین کے مثبت نتائج مرتب ہونگے۔ چین کے ساتھ معاہدوں کی تفصیل عام نہیں کر سکتے۔ چین سے ہر طرح کی امداد مل رہی ہے اس پر مطمئن ہیں۔ تجارت اور سرمایہ کاری بڑھے گی، وزیراعظم کا کہنا تھا کہ۔ ہمیں احساس ہے کہ یہ وقتی اقدامات ہیں، ہمیں اپنی معیشت کی مستقل بہتری کے لئے چار چیزوں پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی، برآمدات بڑھانی ہیں۔دوئم سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہے، بیرون ملک سے ترسیلات کو بڑھانا ہے۔ اس وقت پندرہ سے بیس ارب قانونی طریقوں سے بیرون ملک سے آ رہا ہے اور اتنا ہی پیسہ حوالہ ہنڈی کے ذریعے بھیجا جا رہا ہے۔ ہم بیرون ملک پاکستانیوں کو سہولیات دے رہے ہیں تاکہ وہ بینکوں کے ذریعے اپنا پیسہ ملک بھیجیں۔اس وقت ملک میں سرمایہ کاری کے بے شمار مواقع موجود ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ سرمایہ کاری میں ٹیکنالوجی ٹرانسفر ہو جس سے ملک ترقی کرے گا ۔ سب سے اہم منی لانڈرنگ پر قابو پانا ہے۔ اس وقت ایک اندازے کے مطابق تقریبا دس ارب کی منی لانڈرنگ ہوتی ہے۔ منی لانڈرنگ پر قابو پانے کے لئے ہم بیرونی ممالک سے معاہدے کر رہے ہیں، اب تک بیرون ممالک میں جمع کی گئی دولت کی جو معلومات ملی ہیں اس سے اندازہ ہو رہا ہے کہ کیوں اقامے کی ضرورت پیش آتی تھی۔ معلومات کے سلسلے میں سوئٹزرلینڈ، برطانیہ اور امریکہ سے معاہدہ ہوا ہے۔ دبئی سے معلومات آئی ہیں۔ ۔ ان کا کہنا تھا کہ آنے والے دنوں میں ملک سے چوری کر کے باہر لے جائے گئے پیسے کو واپس لانے میں کافی مدد ملے گی۔ ۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر من و عن عمل کریں گے۔ سیرت النبی کانفرنس بھرپور طریقہ سے منعقد کی جائے گی جبکہ کانفرنس کے افتتاحی سیشن میں وہ خود شریک ہونگے۔ کانفرنس میں اسلامی سکالرز اور علماءبھی شرکت کرینگے،وزیر اعظم نے کہا کہ موجودہ حکومت اپنے سو دن کی تکمیل پر تعلیم،صحت، غربت کے خاتمے اور دیگر کئی حوالوں سے مفصل اور جامع پروگرام قوم کے سامنے پیش کرے گی۔ کسی بھی حکومت میں پہلے سو دن حکومت کی آئندہ سمت کا تعین کرتے ہیں۔ان سو دنوں کی اہمیت اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس میں عوام کو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ حکومت کی سمت کیا ہے اور مستقبل میں کیا پالیسیاں اختیار کی جائیں گی۔ وزیرِ اعظم نے کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں کبھی جمہوریت کے لئے کوشش نہیں کی گئی۔ جمہوریت کی بجائے کلپٹو کریسی (kleptocracy) کا رواج رہا ہے جہاں حکومت کرنے والے اقتدار کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ایک ٹریلین ڈالر غریب ملکوں سے امیر ملکوں میں ٹرانسفر کیا جاتا ہے۔ پاکستان کا شمار بھی ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں کی دولت حکمران اشرافیہ منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ممالک بھیجتی ہے۔ملک کی تاریخ میں اب تک تمام بیرونی امداد کے باوجود بھی ہمارا شمار تیسری دنیا کے ملکوں میں کیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمیں اب تک پتہ ہی نہیں چل سکا کہ اس ملک میں کتنے وسائل موجودہیں۔ ہم نے حکومت میں آکر یہ دیکھا کہ اب تک صرف تیل اور گیس کے شعبے میں ملک کا صرف چھ فیصد حصہ ہی استعمال ہوا ہے۔ تیل اور گیس کے علاوہ یہاں کیا کیا وسائل ہیں ان کی دریافت کے لئے اب تک کسی حکومت نے توجہ نہیں دی۔ جس ملک میں قانون کی حکمرانی نہیں ہوتی وہاں اداروں کو جان بوجھ کر کمزور کیا جاتا ہے تاکہ حکمران اشرافیہ کی چوری ممکن بنائی جا سکے۔ میرٹ کو نظر انداز کرکے اداروں پر اپنے من پسند افراد کو تعینات کیا جاتا ہے تاکہ وہ حکمران اشرفیہ کی چوری میں رکاوٹ نہ ڈالیں۔ اس طرح وائٹ کالر کرائمز کا راستہ ہموار کیا جاتا ہے اور وائٹ کالر کرائم کو پکڑنا مشکل ہوتا ہے۔ ہماری جنگ ڈیموکریٹس کے خلاف نہیں بلکہ ان لوگوں کے خلاف ہے جو ملک کو تباہ کرتے ہیں۔ ملک اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتاجب تک حقیقی معنوں میں جمہوریت نہ آئے۔ 2018کے الیکشن کی شفافیت پر بات کرتے ہوئے وزیرِ اعظم نے کہا کہ 2018 کے الیکشن میں پی ٹی آئی لگ بھگ پچپن نشستوں پر محض تین چار ہزار کے مارجن سے ہار ی۔ ان میں چودہ سیٹیں قومی اسمبلی جبکہ چالیس نشستیں صوبائی اسمبلی کی تھیں۔ ہم نے اپوزیشن کو واضح کہا کہ اپوزیشن کو جن جن نشستوں پر اعتراض ہے وہ حلقے کھلواسکتے ہیں۔لیکن اپوزیشن کامقصد یہ نہیں تھا۔ بعض لوگوں کو پتہ ہے کہ جو چیزیں ہمارے سامنے آ رہی ہیں اور جب سب حقیقت سامنے آئے گی تو ان کا کیا مستقبل ہوگا۔خیبرپختونخواہ میں آزاد ووٹ ہے۔ وہاں کی روایت ہے کہ وہ کسی پارٹی کو ایک دفعہ منتخب کرنے کے بعد اس کو دوبارہ چانس نہیں دیتے لیکن اسی خیبر پختونخواکے صوبے کی عوام نے پی ٹی آئی کو دو تہائی اکثریت سے دوبارہ کامیاب کیااور اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم نے وہاں کام کیا۔ مولانا فضل الرحمن اور دیگر سیاستدان اس لئے شور مچا رہے ہیں کیونکہ ان کو پتہ ہے کہ خیبر پختونخوا سے ان کا صفایا ہونے کے بعد دیگر جگہوں سے بھی ان کا صفایا ہونے والا ہے۔ ملکی معاشی صورتحال اور بڑے بڑے اداروں کے نقصانات پر بات کرتے ہوئے وزیرِ اعظم نے کہا کہ پاور سیکٹر میں 2013میں گردشی قرضہ چار سو ارب تھا 2018میں یہ 1200ارب تک پہنچ گیا ہے، گیس کے شعبے میں خسارہ 150ارب کا ہے، پی آئی اے 400ارب کے خسارے میں ہے، پاکستان سٹیل مل کا خسارہ 350سے 400ارب ہے، یوٹیلٹی سٹورز چودہ ارب کے نقصان جبکہ پوسٹل میں نو ارب کا خسارہ ہے۔ ان مشکلات پر آہستہ آہستہ قابو پائیں گے۔ ایک سوال پر وزیرِ اعظم نے کہا کہ ایف آئی اے میں اصلاحات کا عمل جاری ہے۔ ۔وزیرِ اعظم نے کہا کہ بعض حلقوں کے دعوں کے برعکس ملک میں کوئی افراتفری کی صورتحال نہیں۔ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا لیڈر حالات و واقعات کو مدنظر رکھ کر اپنے لائحہ عمل اور سٹریٹیجی میں تبدیلی لاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قومیں محض وسائل سے نہیں بلکہ احساس سے بنتی ہیں ہمیں ملک میں موجود غریب طبقے کا احساس ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا ہم آئندہ چند روز میں تعلیم، صحت اور غربت کے خاتمے کے لئے جامع اور مفصل پروگرام پیش کر رہے ہیں۔ وزیرِ اعظم نے کہا کہ موجودہ دور میں مشکل حالات کا سامنا ہے لیکن آئندہ چند ماہ میں واضح تبدیلی نظر آئے گی۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain