تازہ تر ین

افسوس ہے آج تک قائداعظم پر کوئی مستند اور مثالی کتاب نہیں لکھی گئی : ضیا شاہد ، نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے پاس اتنی بڑی جگہ ہے مگر وہاں سے قائد کی زندگی پر کوئی کتاب لکھی گئی نہ کوئی دستاویزی فلم بنی ، میں نے ”جناح“ فلم پر کیس کیا، مجھے اس کے کچھ حصوں پر اعتراض تھا جج نے مجھ سے سوال کیا کہ کیا کوئی ججوں سے بھی جھگڑتا ہے ، میں اپنی بات پرقائم رہا کہ قوم کے عظیم رہنما پر بننے والی فلم کے کم از کم 6 سین حقائق کے منافی ہیں ، پاکستان کیخلاف سازش، میرا دوست نوازشریف، گاندھی کے چیلے، قلم چہرے سمیت 12 کتابیں میرے صحافتی تجربے کا نچوڑ ہیں ، قائداعظم جیسے بڑے لوگوں کو آئیڈیل بنائیں، ورنہ ہم راکھ کے ڈھیرپر کھڑے ہیں اس میں سے کچھ نہیں نکلے گا

لاہور (رپورٹنگ ٹیم) چیف ایڈیٹر خبریں ضیا شاہد نے اپنی 12کتابوں کے حوالے سے ایک خصوصی نشست سے خطاب کرتے ہوئے کہا ایک زمانے میں سمجھا جاتا تھا کہ پیسے والے اخبار نہیں نکال سکتے۔ مجھے اتفاق سے ایک موقع مل گیا یہ اخبار روزنامہ پاکستان نکالنے سے پہلے ہے پتہ چل گیا تھا کہ یہ اخبار نکلے گا۔ کامیاب ہوگا اور اس اخبار کی اشاعت ایک لاکھ سے اوپر جائے گی لیکن مجھے یہ بھی اندازہ ہوگیا تھا میں اس ادارے میں نہیں رہوں گا اور پھرا یسا ہی ہوا۔ لیکن اس کے باوجود میں نے بیڑا اٹھایا۔ اپنی کتابوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ آج تک کسی نے قائداعظم ؒ پر کوئی مکمل تفصیلی اور ضخیم کتاب نہیں لکھی۔ کاش کوئی ایک کتاب بھی لکھ دیتا جس کی مثال دی جاسکتی۔ میں نے ”جناح“ فلم پر ایک کیس کیا اور اس کی پیروی بھی کی مجھے اس فلم کے 6سینوں پر اعتراض تھا۔ جج صاحب نے مجھ سے استفسار کیا کہ کبھی کوئی ججوں سے بھی لڑتا ہے۔ لیکن میں بضد تھا کہ مجھے اپنی قوم کے قائد کی زندگی پر مبنی فلم کے بعض سینوں پر اعتراض ہے اور یہ اعتراض بالکل درست ہے۔ انہوں نے کہا کہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کو اتنی جگہ ملی ہوئی ہے یہاں کوئی تعمیری کام نہیں ہوا نہ کبھی قائداعظم محمد علی جناحؒ پر ایک کتاب تک نہیں لکھی گئی۔اس بات کا ذکر کرتے ہوئے ضیا شاہد آبدیدہ ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ فاﺅنڈیشن قائد اور ان کے معاونین کی زندگی اور اعلیٰ خدمات کو شایان شان طریقے سے سامنے لائے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں جو تقریبات ہوتی ہیں اس میں چند بابے تقریریں کرتے ہیں اور بچے بیٹھے انتظار کرتے رہے کہ کب تقریریں ختم ہوں اور ہم مزے مزے کی پیسٹریاں کھائیں اور گھر جائیں۔ انہوں نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ قائد کی زندگی اور جدوجہد پر مبنی ایک کتاب تو ہو جو 8سے 10جلدوں پر مشتمل ہو۔ انہوں نے کہا وہ لوگ خوش قسمت تھے جو قائداعظم ؒ کے دور میں ان سے مستفید ہوتے رہے۔ فرانسس ایس لوبو کو اردو نہیں پڑھنی آتی تھی۔ چنانچہ کے ایچ خورشید سے قائداعظم ؒ نے سفارش کی کہ میرے ساتھ چلو پاکستان بننے کے بعد لنکن میں تعلیم دلواﺅں گا۔ چنانچہ 4سال کے لیے کے ایچ خورشید ان کے ساتھ رہے۔ دوسری طرف نور محمد بھٹو صاحب کا ذاتی خدمت گزار تھا صرف قصور میں ہی کتنے مربع زمین ملی۔ بھٹو صاحب نے اسے بھرپور طریقے سے نوازا لیکن قائداعظم ؒ کے سیکرٹری کے ایچ خورشید نے کوئی جائیداد نہیں بنائی۔ چند سو روپے کے کرائے کے گھر میں رہے آزادکشمیر سے لاہور سفر کرتے ہوئے ویگن میں حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے انتقال ہوا تو ان کی جیب سے نکلنے والے کاغذات سے پتہ چلا کہ قائداعظم ؒ کے سیکرٹری ویگن میں سفر کررہے تھے۔ رعنالیاقت علی خان کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ محترمہ نے ہالینڈ کی ملکہ سے شرط میں جیتا ہوا محل پاکستان کے نام کروادیا جہاں پاکستانی سفارت خانہ بنا میں معذرت چاہتا ہوں کہ ہم نے بہت بہت بڑے بندوں کے بارے میں کچھ نہیں لکھا۔ مجھے افراد سے نہیں ملک سے مطلب ہے ہر فرد کی اتنی ہی ذمہ داری ہے جتنی میں سمجھتا ہوں میں اکیلا کوئی ٹھیکیدار نہیں سب کا فرض بنتا ہے کہ حقائق سب کے سامنے لائے جائیں۔ میں سب سے درخواست و منت کرتا ہوں کہ آئیڈیلز کو سامنے لائیں تاکہ ملک مضبوط ہو‘ تب ہی سنبھلے گا ورنہ بدمعاش‘ لچے بہروپئے اسے برباد کردیں گے۔ ہم راکھ کے ڈھیر پر بیٹھے ہوئے ہیں اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے ہمیں سنبھلنا ہوگا۔ میں نے 2 تین سال میں جو تصانیف لکھی ہیں وہ روانی اور اپنی تحریروں اور تجربے کی بنا پر لکھی ہیں۔ بھارتی آبی دہشتگردی کی وجہ سے پن بجلی ہاﺅس ہولڈ‘ انوائرمنٹ سبزہ گھاس کا پانی اور سب سے ضروری آبی حیات کے لئے پانی چونکہ میرا تعلق بھی اسی علاقہ سے ہے جہاں جگہ جگہ ستلج کے کنارے مچھلی پکڑنے والے مچھیرے ستلج خشک ہونے کی وجہ سے 1964ءسے مقیم 72 ہزار لوگ اجڑ گئے جو اپر ستلج میں تھے اور ایک لاکھ سے اوپر لوگ بے کار ہوگئے تھے۔ اس زمانے میں پونے دو لاکھ کے قریب لوگوں کا بے گھر اور بے کار ہوجانا ایک بہت بڑی بات تھی۔ میری کتاب قلم چہرے نے بھولے ہوئے چہروں کو سامنے لاکر ماضی کی یادیں تازہ کردیں جو چہرے قلم چہرے میں تحریر ہیں وہ ایسی اہمیت کے حامل ہیں جن پر خود ایک ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ جب کبھی پاکستان کی تاریخ میں جب بھی دیکھیں اس میں جو درج ہے وہ کوئی بدل نہیں سکتا۔ نوازشریف کی مثال سب کے سامنے ہے کہ کیسے مارشل لا کی گود میں پلنے والا نوازشریف کیسے 35 سال ملک کا مضبوط اور پسندیدہ لیڈر رہا اور پھر انڈین لابی پالنے کی پاداش میں فوج مخالف تقاریر سب نے دیکھا کہ کیسے احتساب اور اقتدار میں فرق ختم ہوگیا۔ جو حقائق تاریخ میں ملتے ہیں بدقسمتی سے کتابوں میں نہیں ملتے۔ میری چند کتابیں تاریخ میں ہوئے واقعات کی عکاس ہیں۔


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain