تازہ تر ین

6 نئے سول ، فوجداری قوانین پارلیمنٹ میں پیش کرینگے : عمران خان

اسلام آباد (آئی این پی) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ جمہوریت اور قانون کی حکمرانی لازم و ملزوم ہیں،رول آف لاءسے پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہو چکا ہے، چیف جسٹس نے پاناما لیکس کا غیر جانبدارانہ فیصلہ کرے نئے پاکستان کی بنیاد رکھ دی ہے،جو کام چیف جسٹس نے کئے وہ جمہوری حکومت کو کرنے چاہیے تھے، پاکستان کو مدینہ کی ریاست بنانے کےلئے کوششیں کرتے رہیں گے، ڈکٹیٹر ہمیشہ ڈیموکریٹ اور ڈیمو کریٹ ہمیشہ ڈکٹیٹر بننے کی کوشش میں لگا رہتا تھا،ڈیم منصوبہ 5سال میں کبھی نہیں بنتا، ہم نے قانون میں تبدیلی کے لیے 6 نئی تجاویز تیار کی ہیں، پوری کوشش کر رہے ہیں کہ قانون سازی کے ذریعے پرانا نظام عدل تبدیل کریں۔بدھ کو اسلام آباد میں بڑھتی آبادی پر فوری توجہ کے موضوع پر منعقدہ سمپوزیم سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ چیف جسٹس ثاقب نثار کا شکرگزار ہوں جنہوں نے پہلے وزیراعظم کو یہاں دعوت دی، نئے پاکستان کی بنیاد ہم نے رکھ دی ہے،وہ معاشرہ ترقی کرتا ہے جہاں قانون کی پاسداری ہو، کیوں کہ کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے جمہوریت اور قانون کی حکمرانی لازم و ملزوم ہے، چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے پاناما لیکس کا غیر جانبدارانہ فیصلہ کرے نئے پاکستان کی بنیاد رکھ دی ہے،جو چیف جسٹس نے کام کئے وہ جمہوری حکومت کو کرنے چاہیے تھے، پاکستان کو مدینہ کی ریاست بنانے کےلئے کوششیں کرتے رہیں گے، ڈکٹیٹر ہمیشہ ڈیموکریٹ بننے کی کوشش میں لگا رہا اور ڈیمو کریٹ ہمیشہ ڈکٹیٹر بننے کی کوشش میں لگا رہتا تھا، موجودہ حالات میں نئے پاکستان کے دور کا آغاز ہوا ہے، چیف جسٹس نے وہ کام کئے جو جمہوری حکومت کو کرنے تھے، پانی کے مسئلے کو چیف جسٹس نے اجاگر کیا، ہمیشہ ہر حکومت نے اپنے 5سال کا ہی سوچا، ڈیم منصوبہ 5سال میں کبھی نہیں بنتا، ماضی میں جن ڈیمز اور پانی کے مسائل کے بارے میں سوچا گیا اس میں صرف پاکستان کی ترقی کےلئے ہی سوچا گیاتھا، اس وقت قوم کا احساس کیا جاتا تھا نہ کہ اپنے پانچ سالوں کا، بنگلہ دیش ہم سے آگے نکل چکا ہے، رول آف لاءسے پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہو چکا ہے، سی ڈی اے وزیراعظم کے ماتحت ہوتا ہے، لیکن پھر بھی سی ڈی اے نے بنی گالہ کے حوالے سے تمام رپورٹ چیف جسٹس کو پیش کی، ماضی کی حکومت میں تمام ادارے حکومت کے مفلوج تھے، اب کے دور میں تمام ادارے آزاد ہیں اور ان کو کسی سے کوئی ڈر نہیں ہے، اب ادارے با اختیاراور اپنے دائرے میں رہ کر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے 6نئے قوانین تیار کرلئے ہیں اور جلد پارلیمنٹ میں لے کر آئیں گے، پاکستان کے اوپر ابھی قرضے کا بوجھ ہے، جلد پاکستان سے یہ بوجھ بھی اتر جائے گا، چین نے سرمایہ کاری کے ذریعے ہی ترقی کی ہے، پاکستان میں باہر سے لوگ سرمایہ کاری کرنے کےلئے ابھی بھی تیار ہیں، سب سرمایہ کاروںکی پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی خواہش ہے،بڑے قبضہ گروپ صرف اس لئے بنتے ہیں کیونکہ سول مقدمات کا فیصلہ ہی نہیں ہوتا، اب کوئی اقتدار میں آ کر قانون کو پامال کرنے کا نہیں سوچ سکتا، لاہور میں راوی نہر کا میٹھا پانی پیا جاتا ہے، آج کا راوی سیوریج کا ڈمپ بن گیا ہے، آج کا لاہور کنکریٹ کا جنگل بن گیا ہے، گورنر ہاﺅس کی دیوار توڑنے کا مقصد ہے کہ لوگوں کو بھی اس کا سبزہ نظر آئے، ملک میں جنگلات کو بے دردی سے ختم کیا گیا ہے، ہمیں اپنے بچوں کو بڑھتی آبادی کے حوالے سے بتانا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کو سکول میں پاپولیشن پلاننگ اور ماحولیات پڑھنا ہو گی، شہر جس طرح سے بڑھتے جا رہے ہیں ملک میں مزید مسائل بڑھ رہے ہیں، ہم شارٹ ٹرم سوچ کی وجہ سے مشکلات کا سکار ہوئے ہیں، بڑھتی آبادی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جس کو چیف جسٹس نے اجاگر کیا، اس حوالے سے اب ہم نے ٹاسک فورس بنا دی ہے، اب اس مہم میں علماءکرام کو بھی اقدامات اٹھانے ہوں گے، اب آبادی کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے اور ملک میں درخت کم ہوتے جا رہے ہیں، بڑھتی آبادی کو کنٹرول کرنے کےلئے اس مہم میں گھر گھر تک لوگوں کو آگاہی دینا ہو گی، بڑھتی آبادی نے ماحول کو خراب کر دیا ہے، لوگوں میں جب شعور آ جائے گا تو اس مسئلے پر ہم جلد قابو پالیں گے، چیف جسٹس کو قوم کی جانب سے خراج تحسین پیش کرتا ہوں،رطانیہ میں میگنا کارٹا بادشاہ کو قانون کے نیچے لانا چاہتا تھا، بادشاہ کو قانون کے نیچے لانےکی سوچ سے برطانیہ میں قانون کی جدوجہد شروع ہوئی۔جمہوری حکومتیں صرف 5 سال کا سوچتی تھیں کہ اگلا الیکشن کیسے جیتیں، جب منگلا اور تربیلا ڈیم بنے تب پاکستان میں آگے کا سوچا جاتا تھا۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ میرےکانوں نے یہ بھی سنا کہ اچھا ہوا بنگلہ دیش الگ ہوگیا وہ بوجھ تھا لیکن آج وہی بنگلہ دیش آگے کی طرف جارہا ہے۔اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ آبادی کنٹرول کےلئے تشکیل گئی ٹاسک فورس کی تجاویز پر وزیر اعظم عملدر آمد کراسکتے ہیں ¾ سپریم کورٹ نے جو کردار ادا کرنا تھا اس کےلئے حصہ ڈال دیا، کسی بھی ترقی یافتہ ملک یا معاشرے کے لیے تعلیم، قانون کی بالادستی، ایمانداری اور مخلص حکومت ضروری ہے ¾ہم قانون سازی نہیں کرسکتے یہ کام پارلیمنٹ کا ہے ¾ ہمیشہ کہا آئین کے بعد اگر کوئی سپریم ادارہ ہے تو وہ پارلیمنٹ ہے، امید ہے نیک نیتی سے چند سالوں میں خوابوں کی تعبیر پالیں گے ¾40 سالوں میں کوئی ڈیم نہیں بنایا گیا اس لیے آنے والے دنوں میں پانی کی کمی کے تباہ کن اثرات ہوں گے۔ بدھ کو بڑھتی ہوئی آبادی پر فوری توجہ کے موضوع پر منعقدہ سمپوزیم سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان جسٹس میں ثاقب نثار نے کہا کہ آبادی پر کنٹرول کےلئے ٹاسک فورس تشکیل دی گئی ہے جس نے بہت اچھی تجاویز پیش کیں، عدلیہ کے پاس ان تجاویز پر عملدرآمد کا کوئی میکنزم نہیں، اگر کوئی اس پر عملدرآمد کراسکتا ہے تو وہ وزیراعظم ہیں۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جو کردار ادا کرنا تھا اس کے لیے حصہ ڈال دیا اور ایگزیکٹو کی ذمہ داری ہے، کسی بھی ترقی یافتہ ملک یا معاشرے کے لیے تعلیم، قانون کی بالادستی، ایمانداری اور مخلص حکومت ضروری ہے۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ ہر کام کرنے کےلئے ٹول ہوتے ہیں، ہمارا کنٹریکٹ لاء1872 کا قانون ہے، اس ٹول کو لے کر ہم 2018 میں اپلائی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم قانون سازی نہیں کرسکتے یہ کام پارلیمنٹ کا ہے اور پارلیمنٹ نے ہمیں ٹول دینے ہیں، اتنا وقت گزر چکا اور پرانے قوانین کو وقت کے تقاضوں کے مطابق ہم آہنگ نہیں کیا گیا، آپ ہمیں ٹولز دے دیں، آج کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے۔چیف جسٹس نے کہاکہ ہمیشہ کہا آئین کے بعد اگر کوئی سپریم ادارہ ہے تو وہ پارلیمنٹ ہے، امید ہے نیک نیتی سے چند سالوں میں خوابوں کی تعبیر پالیں گے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ وسائل محدود اور ضرورت لامحدود ہیں، گزشتہ 60 سال میں بڑھتی ہوئی آبادی کنٹرول کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی، بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے ہمارے وسائل مسلسل دباو¿ کا شکار رہے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ آبادی ایسے ہی بڑھتی رہی تو 30سال بعد پاکستان کی آبادی45کروڑ ہوگی۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ اب ہمیں آبادی پر قابو پانے کےلئے آگاہی پھیلانی ہے اور اس حوالے سے عملی کام کرنے کا وقت ہے کیونکہ پاکستان کی بقا کیلئے ہم نے آبادی کو کنٹرول کرنا ہے۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ پانی زندگی ہے ہر سال 7 ارب گیلن پانی زمین سے نکالا جاتا ہے، 4 لیٹر پانی میں ایک لیٹر پانی قابل استعمال ہوتا ہے اور باقی تین چوتھائی حصہ ضائع کردیا جاتا ہے جبکہ گزشتہ 40 سالوں میں کوئی ڈیم نہیں بنایا گیا اس لیے آنے والے دنوں میں پانی کی کمی کے تباہ کن اثرات ہوں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعظم اور پارلیمنٹ کی معاونت بہت ضرورت ہے اب وقت آگیا ہے کہ پارلیمنٹ کی کارروائی کا بائیکاٹ کرنا چھوڑ دیا جائے، آج ملک میں بچہ ایک لاکھ سے زائد کا مقروض پیدا ہوتا ہے، ہم آنے والی نسلوں کو کچھ دے کر جانا چاہتے ہیں جبکہ وزیراعظم مدینہ کی ریاست قائم کرنے کی بات کرتے ہیں اس خواب اور تصور میں عدلیہ شانہ بشانہ ہے اور نیک نیتی سے وزیراعظم کے اس خواب کی تعبیر کو پانے کی کوشش کریں گے،عدلیہ کو وہ ٹولز دئیے جائیں کہ وہ آج کے تقاضوں کو پورا کرسکے،عدلیہ اب اس بوجھ کو اٹھانے کی متحمل نہیں ہوسکتی کہ برسہابرس کیس چلتا رہے۔انہوں نے ماضی کی یاد دلاتے ہوئے کہا کہ پہلے شہروں میں بھی سبزہ ہوا کرتا تھالیکن اب لاہور جیسے بڑے شہر تعمیرات سے بھر چکے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی سے وسائل شدید دباو¿ کا شکار ہورہے ہیں، اور وسائل ویسے ہی تیزی سے کم ہورہے ہیں۔پاکستان میں عدالتی نظام کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس نظام میں گزشتہ 4 سے 5 سال کا بوجھ نہیں ہے بلکہ اس پر پاکستان بننے سے نہیں بلکہ صدیوں سے یہ بوجھ ہے۔انہوں نے وزیر اعظم پاکستان سے درخواست کی کہ پاکستان کے پرانے عدالت نظام اور قوانین میں تبدیلی کروائیںاور میں امید کرتا ہوں کہ آپ کو بہترین عدالتی نظام فراہم کیا جائے گا۔بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی چیئرپرسن ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے اپنے خطاب کے دوران بتایا کہ 70 کی دہائی میں پاکستان کے پاس بہبود آبادی اور افزائش آبادی سے متعلق دنیا کا سب سے بہترین پروگرام تھا، اور اس سیکٹر میں پاکستان میں فقدان نظر آتا ہے۔سمپوزیم میں سپریم کورٹ کے جسٹسز، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، وفاقی وزراءدیگر ممالک کے سفارتکار اور علماءبھی شریک ہوئے۔اسلام آباد (این این آئی)مذہبی سکالر مولانا طارق جمیل نے کہا ہے کہ مدینہ کی ریاست کا تصور پیش کرنے پر عمران خان کو سلام پیش کرتا ہوں حکمرانوں کی نیت کے اچھے یا برا ہونے سے ملک پر اثر پڑتاہے، جب بنیادیں بہتر ہوں گی تو ذیلی مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے ¾ پاکستان میں بڑھتی آبادی کا مسئلہ علم کی کمی کی وجہ سے ہے ¾معزز ججز سے ہی سنا ہے ہمارا قانون بہت کمزور ہے  ایک کیس کا فیصلہ کرنے میں کئی سال لگ جاتے ہیں، بہتری کس طرح لائی جائے اس حوالے سے یہاں بیٹھے ججز بہتر بتا سکتے ہیںپولیس مضبوط اور سیاسی لوگوں کے تسلط سے آزاد ہونی چاہیے، پولیس پر سیاسی لوگوں کا تسلط ہوگا تو انصاف نہیں ملے گا۔ بدھ کو بڑھتی ہوئی آبادی پر فوری توجہ کے موضوع پر منعقدہ سمپوزیم سے خطاب مذہبی اسکالر مولانا طارق جمیل نے کہا کہ پاکستان میں بڑھتی آبادی کا مسئلہ علم کی کمی کی وجہ سے ہے، دیہات میں کہا جاتا ہے 5 بیٹے ہوگئے تو مجھے کچھ کمانا نہیں پڑےگا، جتنے بچے پیدا ہوجائیں اتنے مزدور ہوں گے، یہ بچے کے پیدا کرنے کے لیے بہت بڑا ظلم ہے۔مولانا طارق جمیل نے کہا کہ معاشرتی دباو¿ اور غربت بھی آبادی میں اضافے کی وجہ ہے، یہاں بچہ اس لیے پیدا کیا جاتا ہے میری ساس کیا کہے گی، لڑکا کہتا ہے کہ اولاد نہ ہوئی تو دوست کیا کہیں گے، یہ بچے کےلئے بہت بڑا ظلم ہے۔مولانا طارق جمیل نے کہا کہ مدینہ کی ریاست بنانے والا اللہ ہے حکمران کی نیت سے بڑا فرق پڑتا ہے، یہاں مدینہ کی ریاست کا تصور پیش کرنے پر عمران خان کو سلام پیش کرتا ہوں اور وہ پہلے وزیراعظم ہیں جنھوں نے مدینہ کی فلاحی ریاست بنانے کا اعلان کیا۔ مولانا طارق جمیل نے کہا کہ حکمرانوں کی نیت کے اچھے یا برا ہونے سے ملک پر اثر پڑتاہے، جب بنیادیں بہتر ہوں گی تو ذیلی مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے۔انہوں نے کہا کہ فلاحی ریاست کی بنیاد عدل، امن اور مضبوط معیشت اور علم ان تینوں کی ماں ہے، فلاحی ریاست کے بنیادی اجزاءعدل، امن اور بہتر معیشت ہے، فلاحی ریاست کا پہلا تصور ابراہیم علیہ السلام نے پیش کیا، امن والی ریاست اس وقت بنتی ہے جب نظام عدل مضبوط ہو۔مولانا طارق جمیل نے کہا کہ معزز ججز سے ہی سنا کہ ہمارا قانون بہت کمزور ہے اور ایک کیس کا فیصلہ کرنے میں کئی سال لگ جاتے ہیں، اس میں بہتری کس طرح لائی جائے اس حوالے سے یہاں بیٹھے ججز بہتر بتا سکتے ہیں۔مولانا طارق جمیل نے کہا کہ پولیس مضبوط اور سیاسی لوگوں کے تسلط سے آزاد ہونی چاہیے، پولیس پر سیاسی لوگوں کا تسلط ہوگا تو انصاف نہیں ملے گا، تاجر سچ بولیں، صحیح تولیں، ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی نہ کریں۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain