تازہ تر ین

احتساب کے شکنجے سے ڈر کر ن لیگ ، پیپلز پارٹی نے اتحاد کر لیا : معروف صحافی ضیا شاہد کی چینل ۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ عدالت نے حمزہ شہباز کے بارے میں جو مناسب سمجھا حکم جاری کیا۔ یہ اچھی بات ہے کہ ان کو ریلیف مل گیا۔ جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے ان کے خلاف جو کیس تھے وہ اس کی بنا پر ان کا نام بلیک لسٹ میں آیا تھا۔ میرا خیال ہے کہ اگر وہ اس وعدے پر باہر جا رہے ہیں کہ میں واپس آ جاﺅں گا تو پھر یقین کر لینا چاہئے جب سے یہ خبر سنی ہے۔ دو چار لوگوں سے فون پر بات ہوئی ہے تو اکثر لوگوں کے پیسے باہر ہوتے ہیں وہ وقتاً فوقتاً باہر جاتے رہتے ہیں اور اپنے معاملات کو مینج کرتے ہیں۔ حمزہ شہباز کے بھی اسی قسم کے مالی معاملات ہوں گے ان کا ساری دنیا میں کاروبار پھیلا ہوا ہے اور ان کے کزنز کا تو اس لئے وہ ظاہر ہے جو آدمی جب تک خود موجود نہ ہو اور بینکوں میں کبھی کبھار جانا پڑتا ہے اور چیک کرنا پڑتا ہے کہ میرے پیسے پہنچ گئے ہیں کہ نہیں۔ انہوں نے پیسوں کے علاوہ یہ باہر جا کر کیا کرنا ہے۔ اس کے علاوہ کون سی ان کی ضرورت ہے جو یہاں پوری نہیں ہوتی۔ اثاثہ جات کی تفصیل جمع نہ کرانے پر الیکشن کمیشن نے سینکڑوں ارکان پارلیمنٹ کی رکنیت معطل کئے جانے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہ ضیا شاہد نے کہا ہے کہ میں تو یہ محسوس کرتا ہوں کہ قومی اسمبلی یا سینٹ کے ارکان اسمبلی کو نوٹس بھی بھیجے گئے ہوں گے اور ان کو کوئی مہلت بھی دی گئی ہو گی بار بار شاید خط بھی لکھے جاتے ہیں لیکن لگتا ہے پارلیمنٹ میں آنے کے بعد انسان میں اتنا گھمنڈ پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ چھوٹے موٹے کامو ںکو وہ کوئی اہمیت ہی نہیں دیتا۔ اب الیکشن کمیشن کو ہر سال یہ درست ہے کہ جب یہ لوگ اثاثہ جات کی تفصیل جمع کروا دیں گے تو ان کی رکنیت بحال ہو جائے گی۔ دو دن کا یہ مسئلہ لیکن یہ چیز ظاہر کرتی ہے کہ ہمارے ارکان پارلیمنٹ کتنے سیریس ہیں اپنے ہی بنائے الیکشن کمیشن کو کتنی سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ 332 ارکان کی رکنیت معطل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ صرف اس مقصد کے لے اسمبلیوں میں جاتے ہیں کہ اپنے اپنے کام کاج کی دیکھ بھال کر سکیں یا سیاست سیاست کھیل سکیں جس طرح کہ اب لگتا ہے کہ جتنے بھی لوگ سیاست میں تھے وہ سیاست کھیل رہے تھے نہ۔ اس کھیل ہی کھیل میں انہوں نے توجہ نہیں دی اب یہ ظاہر ہے کہ جس ملک کے ارکان پارلیمنٹ اپنے ملک کے الیکشن کمیشن کی بات نہ مانیں ان کے بارے میں کیا رائے قائم کی جا سکتی ہے جس میں میں حیران ہوں فواد چودھری، قاسم سوری سمیت اس میں 332 لوگ شامل ہیں۔ جب یہ لوگ جوان کو وقت دیا گیا ہے کل یہ فارم پر کر کے اسے دیں تو پرسوں ان کی رکنیت بحال ہو جائے گی۔ لیکن لگتا ہے کہ ایسے کاموں میں ان لوگوں کی دلچسپی کم ہے ذرا کچھ باہر اس سے زیادہ کام ہیں تو ہمارے جو ارکان اسمبلی انجام دیتے ہیں۔ قومی اسمبلی کے کل کے اجلاس میں شہد خاقان عباسی کا بلاول بھٹو کے حق میں ایک بیان سامنے آنے پر کیا قیامت آ جاتی اگر بلاول بھٹو کا نام ای سی ایل سے نکال دیا جاتا۔ ضیا شاہد نے کہا کہ ایک دوسرے کا خیال رکھنا اچھی بات ہے اور مسلم لیگ کے لوگ تو آج کل بہت خیال رکھتے ہیں پیپلزپارٹی کا حتیٰ کہ کافی برسوں سے ”آج میری واری کل تیری واری“ کا کھیل کھیل رہے تھے لیکن ایک دوسرے کو کھلی چھٹی دی ہوئی تھی انہوں نے کہ اس ملک کا جو چاہیں حشر کریں اس کے بعد اب جونہی موقع ملا ہے کہ جب ایک بڑے مخالف کے مقابلے میں یہ اکٹھے ہو گئے ہیں آصف زرداری جن کے بارے خود شہباز شریف یہ کہتے تھے کہ میں ان کو بھاٹی گیٹ چوک میں جو جلسہ ہوا تھا مجھے اچھی طرح سے یاد ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ میں آصف زرداری کو لاہور کی سڑکوں پر نہ گھسیٹا تو میرا نام شہباز شریف نہیں۔ اب دونوں احتساب کے شکنجے میں کسے جانے کی جب سے خبریں عام ہوئی ہیں اس وقت سے اچانک ان کے دلوں میں ہمدردی جاگ گئی ہے چنانچہ آج کا اپوزیشن کا اتحاد کس کے خلاف اتحاد ہے۔ یہ اصل اتحاد اس بات کے خلاف ہے کہ پہلے تو ہم باری باری کھیلتے تھے اب تیسرا آ کر ہم دونوں کو پکڑ کر احتساب کی طرف کیوں دھکیل رہا ہے چنانچہ دیکھتے ہی چار چار پانچ پانچ سال باریاں لیتے تھے آپس میں۔ پھر ایک دوسرے کی باری میں فرینڈلی اپوزیشن کہا جاتا تھا خورشید شاہ کو اور جب اثاثہ جات ان کے کھلے تو آپ دنگ رہ جائیں گے کیونکہ ظاہر میں وہ اپوزیشن لیڈر تھے لیکن ساتھ ساتھ مشکل سے مشکل کام ان کے لئے آسان تھا کیونکہ ان کی فرینڈلی اپوزیشن کی وجہ سے ان کے کام بہت ہوتے تھے۔ چنانچہ سکھر کا جو ان کا حلقہ انتخاب ہے اس کا نہیں بلکہ کراچی سے لے کر پشاور تک جس کو نوازنا چاہتے تھے وہ نوازتے تھے اور ملازمتیں اور مختلف قسم کے ٹھیکے اور پوسٹنگ ٹرانسفارز خورشید شاہ کی عملاً حکومت تھی یعنی نوازشریف وزیراعظم تھے باقی ڈپٹی وزیراعظم تو خورشید شاہ صاحب تھے۔ حکومت کو ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے حوالے سے اتحاد پر گفتگو کرتے ہوئے ضیا شاہد نے مزید کہا کہ جب ان دونوں نے برداشت کر لیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب نوازشریف ہیلی پیڈ پر اپنی گاڑی لے کر گئے تھے اور زرداری صاحب پہلے لاہور ایرئپورٹ پر اترے وہاں سہ ہیلی کاپٹر پر سوار ہو کر وہ اپنی رہائش گاہ ہے جاتی امراءمیں اس میں پہنچے تھے خود ہیلی پیڈ سے ریسیو کرنے گئے آصف زرداری کو ریسیو کرنے گئے اس وقت بھی چھوٹے بھائی جو تھے نے جو اپنی نام نہاد لڑائی تھی برقرار رکھی چنانچہ اس دن فیملی کے سارے لوگ موجود تھے اور حتیٰ کہ ان کے اہل خاندان بھی موجود تھے اور زبردست کھانے کا اہتمام کیا گیا تھا لیکن شہباز شریف صاحب اس وقت تک اپنی تقریر نہیں بھولے تھے۔ بھاٹی گیٹ میں ان کو گھسیٹنے والی۔ لہٰذا وہ اس میں شامل نہیں تھے لیکن اب چونکہ صورت ایسی آن پڑی ہے کہ اب یہ سارے کے ساتھ جو ہیں بلی اور چوہے والا کھیل کھیل رہے ہیں۔ ایک دوسرے سے کلے مل رہے ہیں وار ناچ کود رہے ہیں اور بڑے اپنے آپ کو سمجھ رہے ہیں کہ ہم نے زندگی بھر کا اثاثہ ہمیں مل گیا ہے۔
سندھ میں دونوں اطراف سے داﺅ پیچ جاری ہیں، زرداری نواز گروپ وفاقی حکومت کا تختہ الٹنے کی خواہش رکھتے ہیں، عمران خان سمجھتے ہیں کہ سندھ ان کا آخری قلعہ ہے اس لئے سندھ حکومت ختم کر دینی چاہئے۔ عمران خان کو سندھ سے پی پی کے 30 ارکان کی حمایت بھی مل گئی تو سندھ حکومت ختم ہو سکتی ہے۔ یہ سارا گنتی کا کھیل ہے جس کی گنتی پوری ہو گئی دوسرے کو گرا دے گا۔ ابھی کھیل کی شروعات ہوئی ہے۔ جمہوریت میں یہ کھیل چلتا ہے۔ اگلے ایک سے دو ماہ میں صورتحال واضح ہو جائے گی بلی تھیلے سے باہر آ جائے گی زرداری شہباز یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس آخری موقع ہے اگر وفاقی حکومت کو گرا دیتے ہیں تو احتساب سے بچ جائیں گے اور پرانا کھیل شروع ہو جائے گا۔ سندھ پیپلزپارٹی کا آخری قلعہ ہے اس لئے سندھ کارڈ کھیلنے پر آ چکے ہیں۔ آصف زرداری کے خلاف منی لانڈرنگ کی بات ہوئی، اومنی گروپ سامنے آیا تو بلاول کو فوراً سندھ کے حقوق یاد آ گئے ہیں۔ سندھ کے وزراءنے تو یہاں تک کہہ دیا کہ وفاقی وزیروں کی سندھ داخل نہیں ہونے دیں گے۔ عمران خان نے بھی ایم کیو ایم سے بات چیت شروع کر دی ہے کیونکہ اس کا سندھ میں ایک خاص کردار ہے تاہم خدشہ ہے کہ متحدہ والے مطالبات پیش کریں گے کہ ہمارے دفاتر کھولے جائیں یہ کھیلیں گے کہ بھتہ لینے کی بھی اجازت دی جائے، پیسے اکٹھے کرنے کی کھلی چھٹی دی جائے۔ اگلے دو ماہ میں سیاسی میلہ لگا رہے گا۔ 18 ویں ترمیم کر کے صوبوں کو اتنے اختیارات دے دیئے گئے کہ وفاق ان کے آگے بے بس نظر آتا ہے۔ شیخ رشید سمیت کئی سیاستدان اسے چیلنج کرنے کا کہہ چکے ہیں اس معاملہ کو سپریم کورٹ لے جانے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے کیونکہ آئین کے مطابق کوئی ایسا قانون نہیں بنایا جا سکتا کہ جس سے ملک کی سالمیت خطرے میں پڑے۔ سپریم کورٹ میں آخری فیصلہ کرے گی کہ یہ ترمیم آئین کے تحت ہے یا خلاف ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے مینگل پارٹی سے جو معاہدہ کیا ہے اس کا پاس کرنا چاہئے کہ سیاسی معاہدے توڑنے کے لئے نہیں جوڑنے کے لئے ہوتے ہیں وفاقی حکومت کو چاہئے کہ سنجیدگی سے ان کے مطالبات پر غور کرے اور ان پر کام شروعکرے۔ کیونکہ ایک جانب سندھ کا معاملہ چل رہا ہے ایسے میں وفاقی حکومت بلوچستان حکومت بھی ہاتھ سے کھونے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ عمران خان اس وقت ایک اتحادی کو کھونا برداشت نہیں کر سکتے جب انہیں ایک ایک ووٹ کی سخت ضرورت ہے۔ عمران خان پوری کوشش کریں گے کہ مینگل گروپ سے کئے معاہدے کو پورا کریں۔
گوجرانوالہ میں ایک بار پھر حوا کی بیٹی تیزاب گردی کا شکار ہوئی جو افسوسناک ہے۔ معاشرے کو اس حوالے سے خود آگے بڑھنا ہو گا۔ اگر کسی گھر میں جھگڑا فساد ہوتا ہے تو یقینی طور پر محلے داروں، عزیزواقارب کو پتہ تو چل جاتا ہے انہیں خاموش رہنے کی بجائے مصالحت کیلئے کردار ادا کرنا چاہئے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain