تازہ تر ین

نئے چیف جسٹس اصول پسند ،منصف مزاج مشہور ہیں

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا دور یاد رکھا جائے گا اس لئے کہ بہت سارے معاملات میں سو موٹو اتنے لئے کہ وہ تاریخ میں سب سے زیادہ ازخود نوٹس والے چیف جسٹس کے طور پر یاد رکھے جائیں ے، ہسپتالوں میں، سرکاری دفاتر میں تعلیم سمیت کسی شعبے کو نہیں چھوڑا وار اس طرح سے انہوں نے ازخود نوٹس کے تحت اتنے معاملات چھوڑ دیئے کہ وہ اتنے زیادہ تھے کہ وہ انجام تک نہیں پہنچا سکے۔ ایک ان کے دور کی قابل ذکر بات یہ ہے کہ بہت سے کیس کھول تو لئے لیکن وہ کسی کو انجام تک نہیں پہنچا سکے بہت کم ہی کیسز ایسے ہیں کہ جس میں انہوں نے فائنل فیصلہ لکھا ہو ابھی پہلے بہت سارے زیر التوا بہت سارے واقعات ہیں کہ انہوں نے پچھلے کو انہوں نے وہی چھوڑ جتنی پیشیاں ہوئیں اور نئے معاملات پکڑ لئے اس اعتبار سے ان کا دور زبردست رہا کہ سنسنی خیزی رہی اور واقعات اور حالات میں پورے ملک میں ہر طرف خوفزدگی کی فضا رہی کہ کب سپریم کورٹ کا چیف جسٹس نوٹس لے گا اور اس معاملے میں ہاتھ ڈال دے گا۔ ڈیمز کے حوالہ سے ان کی کارکردگی کا ذکر کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ وہ یاد رہے گا۔ نئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اصول پسند اور متوازن شخصیت کے طور پر شہرت رکھتے ہیں۔ اور سخت منصف مزاج جج ہیں مگر وہ اصولوں کے مطابق چلنے والے۔ چنانچہ سب سے پہلے تو ان کا اعلان سامنے آ گیا ہے کہ وہ سوموٹو کو پسند نہیں کرتے اس لئے زیادہ ازخود نوٹس لے لے کر اپنے ذمے کام بڑھانا اس کے وہ حق میں نہیں ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ میں جتنے کیس کھل چکے ہیں وہ کوئی ہنگامی اور ڈرامائی طور پر بہت سے سارے معاملات کو ظاہر ہے اس وقت تک نہیں سمیٹا جا سکتا ہے جب تک وہ کوئی فیصلہ نہ کر لیں اور وہ شہرت رکھتے ہیں کہ ان کے پاس پچاس ہزار کیسز بھی آئیں تو وہ پچاس ہزار کو مقررہ مدت میں نمٹا سکتے ہیں۔ ان کے لئے سب سے زیادہ بڑا چیلنج یہ ہو گا کہ مقدمات کی تعداد کو کم کریں جن مقدمات کو لیتے ہیں ان کو کسی فیصلہ کن مرحلے تکپہنچائیں۔
کیا آصف زرداری کا کہنا ہے کہ عمران خان 5 سال نہیں نکال سکیں گے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ یہ تو اندازہ ہی ہوتا ہے۔ جہاں تک عمران خان کے 5 سال نکالنے کا تعلق ہے وہ شاید خود بھی نکالانا نہیں چاہتے۔ میرا اندازہ ان کے بارے میں یہ ہے کہ وہ تین سال کے بعد مڈ ٹرم الیکشن چاہیں گے اور اس طرف اشارہ بھی کر چکے ہیں کہ دوبارہ عوام کے پاس جائیں گے کیونکہ ان کو مینڈیٹ ملا ہوا ہے وہ بکھرا ہوا ہے۔ اس وقت ملک میں جس پارٹی کی حکومت ہے تحریک انصاف خاص طور پر دو تہائی اکثریت نہیں ہے وہ آئین میں ترمیم کا اختیار نہیں ہے نہ وہ کوئی بڑی تبدیلی لانے کی پوزیشن میں ہیں یہ ضرور ہے کہ عمران خان اس وقت جبکہ لوگوں کی بڑی تعداد مطمئن نہیں ہے اور مالی مشکلات کا شکار ہے اس وقت تو وہ الیکشن ڈکلیئر نہیں کر سکتے اور نہ کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ کسی ایسے مرحلے پر جب باہر سے امداد آ رہی ہے اور قرصے آ رہے ہیں اور سرمایہ کاری آ رہی ہے اور دوسرے ملکوں سے منصوبے سامنے آ رہے ہیں اور کم از کم ایک سال میں بہت ساری چیزیں جو ہیں ایسی تشکیل پا سکتی ہیں جس سے لوگوں کی بڑی تعداد کو روزگار ملے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عمران خان 50 لاکھ گھروں کا جو منصوبہ ہے اس کھوج میں ہیں وہ کس طرح اپنے وعدے کو پورا کر سکیں۔ جب تک وہ کوئی مثبت اقدام نہیں اٹھا لیتے وہ فی الحال الیکشن میں جانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں لیکن وہ حکومت سے جاتے ہوئے بھی دور دراز تک نظر نہیں آتے۔ اس وقت ملک کا بہت سارا پیسہ باہر جا چکا ہے جب تک وہ پیسہ واپس نہ لایا جائے اور اس کے مرتکب افراد سزائیں نہ دی جائیں اور انہیں دباﺅ ڈال کر ملک کی لوٹی دولتتوہ واپس لا کر اس ملک کی مین سٹریم کی جو ادائیگیوں کا سرکل ٹوٹا ہوا ہے وہ دوبارہ شروع نہیں ہو جاتا اس وقت تک وہ کبھی الیکشن میں نہیں جائیں گے۔ لیکن یہ جو صورت نظر ااتی ہے مجھے یہ کم از کمدو اڑھائی سال کا عرصہ تک تو یہی حکومت چلے گی البتہ بہت تیزی کے ساتھ ایسے منصوبوں میں جائے گی عوامی مقبولیت حاصل کر سکے اور لوگوں کی بہت سی امیدیں پوری ہوں اور لوگ یہ سمجھیں کہ یہ حکومت اچھا کام کر رہی ہے اس وقت ہمیشہ جو حکومت ہوتی ہے اس وقت مڈ ٹرم الیکشن میں جاتی ہے جب وہ محسوس کرتی ہے کہ لوگ خوش ہیں اور لوگ تیار ہوں کہ دوبارہ وہی حکومت آ جائے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ بنیادی طور پر اٹھارہویں ترمیم سے مراد یہ ہے کہ صوبے کو کچھ نہ کو وہاں اس کی حکومت ہے وہ چلتی رہے آج صبح ہی اخبار میں پڑھ رہا تھا کہ فاطمہ بھٹو کو سندھ کا گورنر بنایا جا رہا ہے اگر اس کا نمائشی عہدہ بھی فاطمہ بھٹو کو دیا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے پیپلزپارٹی کے ساتھ جو لوگ ہیں جو بھٹو کے نواسے کی طرف دیکھ رہے ہیں وہ اور جذباتی طور پر اس کی طرف کھینچا ہوا محسوس کرتے ہیں وہ بڑی آسانی سے فاطمہ بھٹو کی شکل میں وہ بھٹو کی پوتی کو زیادہ اہمیت دیں گے۔ پیپلزپارٹی کا جو سندھ میں بنیادی ووٹر ہے سندھ کا اس کے لئے آسانی پیدا ہو جائے گی کہ اگر وہ بے نظیر بھٹو کے بیٹے بلاول بھٹو کو اور بے نظیر کے شوہر زرداری صاحب سے مطمئن نہیں ہیں تو وہ پیپلزپارٹی کو نہ چھوڑیں البتہ اس پیپلزپارٹی میں چلے جائیں جس کو فاطمہ بھٹو لیڈ کر رہی ہیں۔ اگر یہ صحیح ہے تو اس بات کا بڑا امکان ہے کہ پیپلزپارٹی اپنے اندر سے بھی ٹوٹ سکتی ہے۔ وہ آصف زرداری کے خلاف ہیں ان کے خاندانی معاملات بھی بگڑ چکے ہیں زرداری صاحب کے قبضے ہیں مجھے بہت سے لوگوں نے بتایا کہ ان کی اپنی آبائی زمین کا بھی ان کے ساتھ تنازعہ چل رہا ہے۔ اگر فاطمہ کو گورنر بنا دیا جاتا ہے تو کم از کم وہ اپنا حق تو لے ہی لیں گی۔ جب وہ اپنا حق لیں گے تو وہ آصف زرداری سے بھٹو کی وراثت بھی چھین سکتی ہیں۔ وہ تو ایک متوازی پیپلزپارٹی بنے گی۔ جس میں لوگوں کے لئے آسانی ہو جائے گی کیونکہ لوگوں کے ابھی پیپلزپارٹی کو چھوڑنا مشکل ہے جن کی ذوالفقار علی بھٹو سے گہری وابستگی ہے اور ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو سے جو پاکستان کی دوبار وزیراعظم بھی رہیں۔ ویسے ایک زمانے میں خود کہا کرتے تھے کہ اسمبلی کے اندر جانا چاہئے ان کی بڑی مصروفیات ہوں گی اس کے باوجود انہیں اسمبلی میں جانا چاہئے روزانہ نہیں تو کم از کم جب وہ اسلام آباد میں ہوتے ہیں انہیں اسمبلی میں ایک ڈیڑھ گھنٹہ ضرور دینا چاہئے۔یہ تاثر نہ دیں کہ اب حکومت تو بن گئی اور وہ اسمبلی میں کوئی دلچسپی نہ لیں۔ وہ اسمبلی جس میں بلاول بھٹو، زرداری، خورشید شاہ بھی ہے اور جس میں بے تحاشا بڑے بڑے نام ہیں شہباز شریف بھی پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کے چیئرمین بن کے بیٹھے ہوئے ہیں پارلیمنٹ کا زیادہ وزن تو اپوزیشن کے پاس چلا جائے گا۔
وزیراعظم عمران خان قومی اسمبلی اور سینٹ کو لازمی وقت دیں اگر وہ ایسا نہ کریں گے تو ایوان سے کٹ جائیں گے جو بہتر نہ ہو گا۔ پارلیمنٹ میں حکومت کی اکثریت نظر آنی چاہئے نہ کہ اپوزیشن والے ہی چھائے رہیں وزیراعظم کو افغانستان سمیت کسیبھی ملک سے دعوت آئے تو دورہ کرنا چاہئے۔ افغان حکومت سے اچھے تعلقات بنانے چاہئیں تاہم افغان طالبان کو بیچ میں سے نکال کر نہیں۔ تحریک انصاف حکومتاگر امریکہ اور طالبان کے مذاکرات جہاں سے ٹوٹے تھے وہیں سے دوبارہ شروع کرا دیتی ہے تو یہ ایک تاریخی کامیابی ہو گی۔ افغانستان میں امن کی چابی امریکہ طالبان مذاکرات میں مضمر ہے مذاکرات دوبارہ شروع ہونے اور فیصلہ کن نتیجہ تک پہنچنے تک دیرپا امن ممکن نہیں ہے۔ وزیراعظم عمران خان اگر افغانستان کے دورے پر جاتے ہیں تو وہ انہی ٹوٹے ہوئے سلسلوں کو جوڑنے جائیں گے۔ جب تک افغانستان میں 60 سے 70 فیصدعلاقہ طالبان کے کنٹرول میں ہے افغان حکومت اپنے طور پر کوئی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں آ سکتی ماضی میں بھی عمران خان نے ہمیشہ افعان طالبان ہوں یا پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات کی بات کو سپورٹ کیا۔
اپوزیشن کی جانب سے یونہی سنسنی پھیلائی جاتی ہے کہ اتحاد ہو گیا جب دل ہی نہ ملتے ہوں تو اتحاد کیسے ہو، اسی لئے پرسوں ہونے والا اتحاد آج ٹوٹ رہا ہے۔اپوزیشن اتحاد کا سارا ڈرامہ صرف ای سی ایل سے نام نکالنے کیلئے تھا کابینہ نے ای سی ایل سے نام نکالنے کی بات مان لی ہے۔ 18 ویں ترمیم پر نظرثانی کی بات سندھ حکومت کو خصوصاً اس لئے بری لگتی ہے کہ انہیں اپنی بادشاہت خطرے میں نظر ااتی ہے۔ فی الوقت تو 18 ویں ترمیم میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی کیونکہ اس کیلئے دو تہائی اکثریت چاہئے جو حکومت تو کیا اپوزیشن کے پاس بھی نہیں ہے۔ کسی انسان کو زبردستی تیزاب پلا دینا انسانیت سوز جرم ہے جس کی سزا یہاں دو یا تین سال ہے۔ کم سزا کے باعث ہی مجرم یہ جرم کرتے ذرا نہیں گھبراتے۔ اس انسانیت سوز جرم کی سزا کم از کم سزائے موت ہونی چاہئے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو سخت سزا کے حوالے سے رائے عامہ ہموار کرنی چاہئے اور ان مقدمات کا فیصلہ بھی 6 ماہ کے اندر کرنا چاہئے پھر ہی یہ واقعات کنٹرول ہو سکتے ہیں۔


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain