تازہ تر ین

پلوامہ ڈرامہ:ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھارت کو سائنٹفک اور مدلل جواب دیا ، معروف صحافی ضیا شاہد کی چینل ۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی بریفنگ اتنے دنوں سے جو انڈیا الزاماتلگا رہا ہے اس کا تفصیلی جواب تھا۔ بڑا مدلل جواب تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ پلوامہ میں جو کچھ ہوا اس کو اس طرح سے بیان کرنا کہ یہ پاکستان نے کروایا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ دیکھئے لائن آف کنٹرول سے پلوامہ اتنی دور ہے کہ یہ توقع کرنا کہ لائن آف کنٹرول کو کراس کیا اور وہاں کوئی بارود لے کر چلا گیا اور پھر اس نے یہ کارروائی کر دی یہ انتہائی نامعقول بات ہے اس لئے کہ لائن آف کنٹرول سے یہ بے انتہا فاصلہ ہے۔ انہوں نے یہ بھی پوچھا کہ 70 سال سے وہاں جو فوج موجود ہے اگر وہ طویل مسافت کو طے کر کے کسی آنے والے سے اگر وہ پاکستان سے تھا اور اس واقعہ کا ارتکاب کرنے والا تھا اس کو نہیں پکڑ سکی تو پھر اور کیا کر سکتی ہے۔ تیسری اور آخری بات یہ تھی کہ اس پروگرام میں یہ بتایا کہ جو اصل عزائم انڈیا کے ہیں وہ کیا ہیں اور کس طریقے سے وہ پاکستان کے سرالزام لگا کر اپنے عزائم پورے کر رہا ہے اس لئے اس کو پلوامہ ڈرامہ کہا جاتا ہے کہ یہ ایک ڈرامہ ہے جو انہوں نے اپنے ہی لوگوں کے خلاف تیار کیا صرف اس لئے کہ الزام پاکستان پر لگا سکے۔ بھارت اقوام متحدہ میں کوشش کرنے کے باوجود یہ تھیوری بھی اسٹیبلش نہیں کر سکا کہ یہ پاکستان نے کروایا ہے اور انڈیا کی یہ کوشش ناکام گئی کہ جس طرح سے اس کو انڈیا نے رنگ دیا تھا کہ یہ پاکستان نے کرایا ہے یہ سرے سے غلط تھا لہٰذا سلامتی کونسل میں جہاں بھارت کلیم کرتا ہے کہ ہماری بہت سنی جاتی ہے اور بڑی ہم نے لابی کی ہوئی ہے کسی ایک بڑے ملک نے، کسی نے درمیان ملک نے بھی بلکہ کسی ایک چھوٹے ملک نے بھی یہ کھل کر نہیں کہا کہ انڈیا ٹھیک کہتا ہے اور پاکستان اس میں قصور وار ہے۔
بھارت کا رویہ اس قدر انتہا پسندانہ ہوتا ہے۔ ابھی مجھے نیچے سے دو ٹیلی فون آئے۔ ایک انڈین ٹی وی سے کہا گیا کہ ہم آپ نقطہ نظر لینا چاہتے ہیں۔ ہم آپ کو لائن پر لانا چاہتے ہیں کہ یہ جو پاکستان نے ڈرامہ رچایا اور جس طرح ہمارے ملک میں فتور مچا رہا ہے اس کو ہم بتانا چاہتے ہیں کہ آپ اس کا پردہ کھولیں میں نے کہا کہ آپ کس سے بات کر رہے ہیں تو میرا نام لیا انہوں نے۔ میں نے کہا میں تو واقعی پردہ کھولوں گا۔ پردہ تو انڈیا کا کھلے گا جو وہ سارا الزام پاکستان پر لگا رہا ہے ایک اور ٹیلی فون آیا وہ بھی کسی ٹی وی چینل سے تھا دونوں کے میرے پاس ٹیلی فون نمبر اور ٹائمنگ محفوظ ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ جس طرح سے انڈیا پروپیگنڈا کرتا ہے اس کا جواب دینا چاہئے لیکن جواب ایسے شخص کو دینا چاہئے جو بات سننے کو تیار ہو۔ اگر کوئی انڈین چینل والا دلیل سے بات کرے اور سنے تو ہمارے پاس دلائل کی کمی نہیں لیکن اگر میں بات کرنے سے پہلے ہی کہنا شروع کر دے کہ آپ نے یہ کیا فراڈ مچا رکھا ہے۔ یہ جو آپ نے یہاں کیا فتور مچا رکھا ہے تواس کا مطلب ہے کہ آپ کے ذہن میں پہلے سے طے کر رکھا ہے کہ ہم جھوٹ بول رہے ہیں۔ ہر بات کرنے کا فائدہ کیا؟
بعض اوقات ایک واقعہ ہوتا ہے۔ اتنے عرصے سے بھارتی فوج کشمیر میں مظالم ڈھا رہی ہے اس کا کسی نہ کسی سے تو ردعمل آئے گا۔ بے شک اس قسم کا رویہ درست نہیں ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم وہاں آزادی کی جنگ لڑنے والے کشمیری جو اپنے طور پر جو جدوجہد کر رہے ہیں وہ سیاسی جدوجہد کر رہے ہیں۔ وہ دھماکے نہیں کر رہے وہ گلیوں میں جان کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔ جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ سکولوں میں پڑھنے والے بچے اس وقت جیلوں میں ہیں۔ وہ پوری قوم ہے جو کھڑی ہو گئی ہے بھارت کے ظلم کے خلاف۔
ضیا شاہد نے جنرل اسد درانی کی کتاب کا ذکر میں نے سنا تھا تو میں اس وقت سمجھ گیا تھا کہ ایک نہ ایک وقت آئے گا پاکستان کی آرمی کو اس کا نوٹس لینا پڑے گا اس لئے کہ اگر ان سیٹوں پر جہاں ذمہ دار بیٹھے ہیں اور ان پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے جب وہ ریٹائر ہو جائیں تو پھر چھم چھم کرتے ہوئے انڈیا چلے جائیں اور پھر وہاں اپنے ہم منصب سے مل کر کتابیں لکھیں۔ یہ مذاق جو ہے برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ آپ آئی ایسآئی کے انڈین ہم منصب یعنی ”را“ کے سربراہ کے ساتھ مل کر کتابیں لکھتے ہیں اور دونوں مل کر کس کو برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ ظاہر ہے پاکستان کو کہہ رہے ہیں۔ آپ کو کوئی حق حاصل نہیں ہے کہ کھاتے پاکستان کا رہے ہیں، پیتے پاکستان کا رہے ہیں۔ تنخواہیں پاکستان سے لیتے رہے، عزت آپ کو پاکستان نے دی، سٹیٹس آپ کو پاکستان نے دیا۔ حتیٰ کہ جس بنیاد پر آپ سے کتاب لکھنے کا معاہدہ ہوا وہ بنیادیں بھی پاکستان ہی کی فارہم کردہ ہے آپ یہ گدھا گاڑی نہیں چلاتے تھے۔ یا تتانگہ نہیں چلاتے تھے۔ آپ یہاں آئی ایس آئی کے سربراہ تھے اور آپ کو کوئی حق حاصل نہیں ہے کہ قومی رازوں کا جو قانون یہ کہتا ہے کہ آپ جب اپنی سیٹ پر نہ رہیں تو بھی آپ ان باتوں کو جو سرکاری طور پر آپ کے علم میں آئی ہیں اس کو طشت ازبام نہیں کر سکتے وہ امانت ہے ایک سٹیٹ کی۔ لہٰذا کجا یہ کہ آپ دشمن کے کاﺅنٹر پارٹ سے مل کر کتابیں لکھیں۔ یہ آپ نے کب سے یہ مصنفوں کا دھندہ شروع کر رکھا ہے۔ مصنف بھی وہ جو جاسوس مصنف ہوتے ہیں۔
نوازشریف 3 بار ملک کے وزیراعظم رہے اتنے اہم عہدے پر رہنے والے کو غیر ذمہ داری کی باتیں قطعاً زیب نہیں دیتی، دو قومی نظریے کو ہی جھٹلا دیا جس کی بنیاد پر پاکستان وجود میں آیا تھا۔ یہ سبق انہیں نجم سیٹھی، امتیاز عالم یا پاکستان میں موجود بھارتی لابی کے لوگ ہی پڑھا سکتے ہیں جو بھارت کے خلاف کچھ سننا پسند نہیں کرتے۔ یہ لابی اہم لوگوں کو گھیرے میں لے آتی ہے اور انہیں بھارتی ایجنٹ نہیں تو تھرڈ ایٹ حمایتی ضرور بنا دیتی ہے۔ اور یہی کچھ نوازشریفکے ساتھ بھی ہوا ہے۔ نوازشریف اتنا سادہ آدمی ہے کہ اسے پتہ ہی نہ چل سکا کہ کیا بات کر رہا ہے۔ ہیلتھ کارڈ حکومت کا انقلابی اقدام ہے اس کا اجرا زیادہ سے زیادہ اضلاع سے ہونا چاہئے۔ وزیراعلیٰ نے اپنے ضلع سے اجرا شروع کیا ہے یقینا ان کا علاقہ بھی پسماندہ ہے تاہم اس سے بھی زیادہ پسماندہ علاقے پنجاب میں موجود ہیں زیادہ بہتر ہوتا کہ ان علاقوں میں پہلے ہیلتھ کارڈ تقسیم کئے جاتے کیوں کہ اپنے علاقے سے کام شروع کرنا ہی اقربا پروری کی ہی ایک شکل ہے۔
فہمیدہ مرزا کی حیثیت ایک آزاد امیدوار کی سی ہے انہوں نے پارٹی تبدیل نہیں کی بلکہ پی پی کے ایک آزاد گروپ میں شامل ہوئی ہیں۔ فہمیدہ مرزا کے خاندان کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا اس کا ردعمل تو آنا ہی ہے۔ ذوالفقار مرزا آصف زرداری کے یار غار رہے ہیں بڑی پرانی اور گہری دوستی تھی یہی باعث فہمیدہ مرزا سپیکر اور ذوالفقار مرزا وزیر داخلہ سندھ رہے تاہم دیکھتے ہی دیکھتے یہ دوستی ختم ہو گئی جب اومنی گروپ نے ذوالفقار مرزا کی شوگر ملز پر بھی قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ اومنی گروپ تو پورے سندھ کے کاروبار اور سرکاری وسائل پر زرداری کا قبضہ چاہتا تھا۔ اگلے الیکشن میں پتہ چلے گا کہ سندھ میں زرداری گروپ کی پوزیشن برقرار رہتی ہے یا نہیں۔ میرے نزدیک آصف زرداری کی مقبولیت پر فرق پڑے گا۔ سندھ میں تبدیلی آئے گی۔
ملاوٹ زدہ اشیا اور غیر معیاری خوراک پر بہت معمولی سزائیں ہیں جن کی وجہ سے ان کاموں میں ملوث طبقہ ذرا نہیں گھبراتا اور ان کی وجہ سے بہت سی جانیں جاتی ہیں مہلک بیماریاں پھیلتی ہیں۔ پاکستان میں یہ دوسرے ہوٹل پر غیر معیاری کھانے دیئے جاتے ہیں۔ بریانی کھانے کیلئے جانے والے خاندان کے 5 بچے اس بے حسی کی نذر ہو گئے پورا خاندان برباد ہو گیا ملاوٹ کی سزا صرف اور صرف موت ہونی چاہئے۔


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain