تازہ تر ین

57 فیصد پاکستانی عمران خان کی کارکردگی سے خوش

اسلام آباد (اے پی پی) رائے عامہ کے ایک جائزہ میں 57فیصد پاکستانی شہریوں نے وزیراعظم عمران خان کی کارگردگی پراطمینان کا اظہار کیا ہے، اس جائزہ میں 83فیصد پاکستانی شہریوں نے گزشتہ سال جولائی میں ہونے والے انتخابات کے آزادانہ اورغیرجانبدارانہ انعقاد پراپنے اطمینان کا اظہار کیا۔ یہ بات انٹرنیشنل ری پبلکن انسٹی ٹیوٹ (آئی آر آئی) سینٹر برائے انسائیٹ نے جمعرات کو سروے کے نتائج جاری کرتے ہوئے کہی ہے۔ اس سروے میں 57فیصد پاکستانی شہریوں نے کہاہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان بہت اچھا کام کررہے ہیں، سروے میں مجموعی طورپر56فیصد شہریوں نے حکومت کی کارگردگی پراطمینان کا اظہار کیا ہے۔ اس سروے میں مجموعی طورپر 66فیصد شہریوں نے حکومت کو انتخابی مہم میں کئے گئے وعدوںکو عملی شکل دینے کیلئے ایک سال سے لیکر دوسال تک کا وقت دینے کی حمایت کی ہے۔ اس سروے میں 39فیصد شہریوں نے مہنگائی، 18فیصد نے غربت اور15فیصد نے بے روزگاری کو ملک کا سب سے اہم مسئلہ قرار دیاہے18سال سے لیکر 35سال تک کے عمر کے 77فیصد رائے دہندگان نے رائے دی ہے کہ روزگارکے مواقع نہ ہونا پاکستانی نوجوانوں کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ آئی آر آئی کی علاقائی ڈائریکٹر برائے ایشیا جوہانا کا نے بتایا کہ سروے کے نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کی کارگردگی حکومت کی جانب سے اقتصادی مسائل کے حل کیلئے اقدامات سے جانچی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ کمزور اقتصادی حالات بیشتر پاکستانیوں کیلئے باعث تشویش ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کودرپیش اقتصادی مشکلات کے باوجود پاکستان کی نئی حکومت اور وزیراعظم پرلوگوں کے اعتماد کی سطح بلند ہے۔ انہوں نے کہا کہ سروے سے معلوم ہوتاہے کہ پاکستانی انتخابات میں کئے گئے وعدوں پر عمل درآمد کیلئے حکومت کو وقت دینے کیلئے تیار ہیں۔ سروے میں 84فیصد پاکستانیوں نے گزشتہ سال جولائی میں ہونے والے عام انتخابات پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہے جبکہ 83 فیصد شہریوں نے رائے دی کہ انتخابات آزادانہ ومنصفانہ ہوئے ہیں۔ سروے کے دوران یکم نومبر سے لیکر 22نومبر 2018کے درمیان 18سال یا اس سے زیادہ عمر کے 3ہزار991 پاکستانی شہریوں کی رائے لی گئی جبکہ اس میں غلطی کی گنجائش 1.6فیصد رکھی گئی۔ اس سروے میں صوبائی حکومتوں کی کارکردگی پر مجموعی طور پر 51 فیصد شہریوں نے اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ پنجاب کی حکومت پر 58فیصد، سندھ کی حکومت پر 30فیصد، خیبرپختونخوا کی حکومت پر 58اور بلوچستان کی حکومت کی کارکردگی کو 54 فیصد رائے دہندگان نے اچھا قرار دیا ہے۔ سروے میں 46فیصد رائے دہندگان نے روزگار کی فراہمی، 39فیصد نے مہنگائی پر قابو پانے اور 33فیصد نے بدعنوانی کے خلاف جنگ کو تحریک انصاف کا اہم انتخابی نعرے قرار دیا جبکہ 21فیصد نے 5ملین گھروں کی تعمیر اور 11 فیصد نے غربت کے خاتمے کو پاکستان تحریک انصاف کے اہم انتخابی نعرہ قرار دیا ہے۔ آئی آر آئی کے سروے میں قومی اسمبلی کے ارکان پر 53فیصد جبکہ صوبائی اسمبلی کے ارکان کی کارکردگی پر 54فیصد رائے دہندگان نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔ سروے میں 38 فیصد رائے دہندگان نے پاکستان تحریک انصاف کو پسند کرنے، 29 فیصد نے کسی حد تک پسند کرنے کی رائے دی ہے۔ مجموعی طور پر 67فیصد رائے دہندگان نے پاکستان تحریک انصاف کے لئے پسندیدگی کا اظہار کیا۔ 19فیصد نے پاکستان مسلم لیگ (ن)کو زیادہ پسند کرنے، 22فیصد نے کسی حد تک پسند کرنے جبکہ 28فیصد رائے دہندگان نے اس کے لئے ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ 16فیصد نے پاکستان پیپلزپارٹی کے لئے زیادہ پسندیدگی جبکہ 21فیصد نے ایک حد تک پسندیدگی کا اظہار کیا۔ 23فیصد رائے دہندگان نے پیپلزپارٹی کے لئے ناپسندیدگی اور 38فیصد نے زیادہ ناپسندیدگی کی رائے دی ہے۔ سروے میں سوال کیا گیا تھا کہ آئندہ ہفتے قومی اسمبلی کے لئے انتخابات منعقد ہو رہے ہوں تو آپ کس کو ووٹ دیں گے۔ اس سوال کے جواب میں 34فیصد نے پی ٹی آئی، 21فیصد نے پاکستان مسلم لیگ (ن) اور 12فیصد نے پاکستان پیپلزپارٹی کو ووٹ دینے کی رائے دی۔ تحریک لبیک، عوامی نیشنل پارٹی، جے یو آئی(ف)، بی این پی، بلوچستان عوامی پارٹی اور ایم کیو ایم کے لئے یہ شرح ایک فیصد رہی ہے۔ سروے میں 56فیصد رائے دہندگان نے مستقبل کے انتخابات کے لئے موجودہ سیاسی جماعتوں پر اطمینان کا اظہار کیا جبکہ 24فیصد نے رائے دی ہے کہ وہ نئی جماعتوں کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں ووٹوں کی گنتی اور نتائج کی رپورٹنگ کے حوالے سے شفافیت پر 83فیصد شہریوں نے اطمینان کا اظہار کیا، 48فیصد نے اس کو بہت شفاف جبکہ 35فیصد نے کسی حد تک شفاف قرار دیا۔ 50 فیصد نے انتخابات کو مکمل طور پر آزادانہ و منصفانہ جبکہ 33فیصد نے زیادہ تر آزادانہ و منصفانہ قرار دیا۔ اس سروے میں 33فیصد رائے دہندگان نے مکمل طور پر نئے صوبوں کے قیام اور 13 فیصد نے کسی حد تک نئے صوبوں کے قیام کی حمایت کی ہے تاہم 21فیصد رائے دہندگان نے اس کی شدید مخالفت کی ہے۔ 29 فیصد رائے دہندگان نے مضبوطی جبکہ 10 فیصد نے ایک حد تک جنوبی پنجاب صوبہ کی حمایت کی ہے تاہم 28 فیصد نے اس کی مکمل مخالفت کی ہے۔ سروے میں 59 فیصد رائے دہندگان نے سابق قبائلی علاقہ جات کے خیبرپختونخوا میں انضمام کی حمایت کی ہے، 38 فیصد نے مضبوط حمایت جبکہ 21 فیصد نے ایک حد تک اس کی حمایت کی، 7 فیصد رائے دہندگان نے اس کی مکمل طور پر مخالفت کی ہے۔ سروے میں بعض دلچسپ سوالات بھی کئے گئے۔ رائے دہندگان سے سوال کیا گیا تھا کہ اگر ایک عہدے کے لئے ایک ہی قابلیت کے مرد اور خاتون امیدوار ہوں تو آپ کس کی حمایت کریں گے اس کے جواب میں 57 فیصد نے مرد کا انتخاب کیا ہے جبکہ 28 فیصد نے کہا ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، 12 فیصد نے خاتون امیدوار کے حق میں رائے دی ہے۔ 21 فیصد رائے دہندگان نے گھریلو ذمہ داریوں کو سیاست میں خواتین کی شرکت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا ہے جبکہ 18 فیصد کا خیال ہے کہ سیاسی سٹرکچر پر مردوں کی اجارہ داری ہے جس کی وجہ سے خواتین کی سیاسی عمل میں شرکت کی راہ میں رکاوٹیں پیش آ رہی ہیں۔ سروے میں 85 رائے دہندگان نے کہا ہے کہ وہ خبریں ٹیلی ویژن سے حاصل کرتے ہیں، 3 فیصد نے سوشل میڈیا اور 3 فیصد نے ریڈیو سے خبروں کے حصول کی رائے دی ہے۔ 81 فیصد رائے دہندگان نے کہا ہے کہ ٹی وی کی خبریں قابل اعتماد ہوتی ہیں، سوشل میڈیا، اخبارات اور ریڈیو کے لئے یہ شرح بالترتیب 3، 3 فیصد رہی ہے۔ سروے میں 34 فیصد رائے دہندگان نے کہا ہے کہ ان کی انٹرنیٹ تک رسائی ہے جبکہ 65 فیصد نے کہا ہے کہ ان کی انٹرنیٹ تک رسائی نہیں ہے۔ سروے میں شامل ہونے والے افراد کا تناسب پنجاب سے 55 فیصد، سندھ سے 24، خیبرپختونخوا سے 15 اور بلوچستان سے 6 فیصد تھا۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain