Tag Archives: help-me-scandal

ملکی تاریخ کا سب سے بڑا قبضہ سکینڈل پکڑا گیا

لاہور (خصوصی رپورٹ) ملکی تاریخ کا سب سے بڑا اراضی سکینڈل بے نقاب‘ فرضی عدالتوں کے جعلی فیصلوں کے ذریعے زمینوں کی خریدوفروخت میں اربوں روپے کا فراڈ کیا گیا۔ جعلساز گروہ صوبائی دارالحکومت میں کئی شہریوں کی لاکھوں کنال اراضی ہڑپ کر چکا۔ معلوم ہوا ہے کہ شہر کے علاقہ سمن آباد کا رہائشی ارشد چودھری اس گروہ کا سرغنہ ہے۔ وہ اور اس کا گروہ عدالتوں کے جعلی فیصلے تیار کرنے میں مہارت رکھتا ہے۔ اس مافیا نے کئی شہریوں کی لاکھوں کنال اراضی کے کاغذات میں ردوبدل کر کے انہیں جائیدادوں کی ملکیت سے محروم کر دیا۔ ایسا ہی ایک شہری سعیدباری ہے جس کی 3800کنال اراضی کی ملکیت اس گروہ نے جعلسازی سے تبدیل کر دی۔ اسے حقیقت کا علم تب ہوا جب اراضی فروخت کرنے کیلئے متعلقہ پٹواری سے رجوع کیا تو بتایا گیا کہ اس کی اراضی دہائیوں پہلے دوسروں کے نام منتقل ہو چکی ہے جبکہ اس سلسلہ میں کئی عدالتی فیصلے بھی موجود ہیں‘ چنانچہ جب تصدیق کیلئے عدالت سے رجوع کیا گیا تو ماجرا کچھ اور ہی نکلا۔ سامنے یہ آیا کہ اس ساری جعلسازی کے پیچھے ارشد چودھری اور اس کا گروہ کام کر رہا ہے جبکہ انہوں نے عدالتوں کے کم از کم 50سال پہلے کے جعلی فیصلے تیار کر رکھے ہیں۔ اکثر فیصلوں میں ارشد مدعی اور اس کا ساتھی ولی محمد مخالف فریق ہوتا جبکہ بعض فیصلوں میں ولی محمد مدعی اور ارشد مخالف فریق ہوتا تھا‘ نیز ہر جعلی فیصلے میں فریقین کے رہائشی پتے کویت کے درج تھے۔ جعلی فیصلے تیار کرتے ہوئے اس گروہ سے ایسی غلطی سرزد ہو گئی جس کی وجہ سے وہ منظرعام پر آ گیا۔ گروہ نے 1962ءکا ایک ایسا جعلی فیصلہ تیار کیا جس میں عدالت کی جانب سے مدعی کو ہدایت کی گئی کہ وہ داد رسی کیلئے ایل ڈی اے سے رجوع کرے حالانکہ ایل ڈی اے کا قیام ہی اس فیصلے کے 13سال 1975ءمیں عمل میں آیا تھا۔ذرائع کے مطابق اس نے جعلسازی کیخلاف مقدمہ درج کرانے کی کوشش بھی کی مگر کہیں بھی شنوائی نہ ہوسکی اور اب اپنی ہی جائیداد کی ملکیت ثابت کرنے کیلئے 4سال سے عدالتوں کے چکر لگانا پڑ رہے ہیں۔علاوہ ازیں ارشد چودھری کا ایک جھوٹ ایسے بھی پکڑا گیا کہا اس نے ایک سول جج سلمان نبی کے جج بننے سے 2ماہ پہلے ہی کا کا دستخط شدہ فیصلہ بھی تیار کرلیا، ملزم نے یہ دھندہ 14سال پہلے شروع کیا جبکہ اب تک ایک لاکھ 93ہزار کنال زمین کی ملکیت سے متعلق فیصلوں کا انکشاف ہوچکا،تاہم نجانے ایسے کتنے فیصلے اس گروہ کے پاس اب تھی موجود ہیں۔ مزید برآں ایک اور شہری میاں آفتاب بھی اسی گروہ کا نشانہ بنے، ان کی والدہ کی 200کنال زمین جعلی فیصلوں کے ذریعے ہڑپ کرنے کی کوشش ہوئی، 2000ءمیں انہیں جعلسازی کا علم ہوا تو مشکلات کا ایک لمبا سلسلہ چل نکلا ،میاں آفتاب نے سول عدالت سے رجوع کیا مگر 16سال گزر گئے فیصلہ ابھی تک نہیں ہوا اور زمین کی مالکن بھی انتقال کرچکی ہیں۔جعلی عدالتی فیصلوں سے کمائی کا گورکھ دھندہ ایسا کہ نقل پر اصل کا گمان گزرتا ہے۔سارے فراڈ میں اہم کردار اراضی سے متعلقہ علاقے کا پٹواری بھی ادا کرتا تھا، چنانچہ جب اپراٹی کا اصل مالک اسے فروخت کرنے کی کوشش کرتا تو ملزم ارشد اور اس کا گروہ جعلی عدالتی فیصلہ لیکر اس اس پٹواری کے پاس جاپہنچتا، یوں سودا کھٹائی میں پڑجاتا، کیونکہ جعلساز عدالتی فیصلہ کے ذریعے یہ دعویٰ کرتے کہ اصل مالک وہی ہیں اور اگران کی مرضی کیخلاف پراپرٹی فروخت کی گئی تو وہ سب کو عدالت لے جائیگا، ایسے میں اصل مالک کے پاس منہ مانگی قیمت دیکر جعلی دستاویزات خریدنے کے سوا کوئی چارہ ہی نہ رہتا۔