Tag Archives: Imtinan Shahid

نواز شریف کو پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی منتقل کرنے کا فیصلہ

لاہور(ویب ڈیسک )محکمہ داخلہ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو سروسز اسپتال سے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق محکمہ داخلہ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو سروسز اسپتال سے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے، فیصلہ میڈیکل بورڈ کی اس رپورٹ کو مدنظر رکھ کر کیا جارہا ہے جس میں نواز شریف کو دل کے اسپتال منتقل کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی آئی سی میں نواز شریف کے کمرے کو سب جیل قرار دیا جائے گا۔
واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف مختلف امراض میں مبتلا ہیں۔ ان کے طبی معائنے کے لیے پنجاب حکومت کی جانب سے امراض قلب کے ماہرین پر مشتمل خصوصی میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا تھا۔ جس کے بعد سابق وزیراعظم کو سروسز اسپتال منتقل کیا گیا۔
سروسز اسپتال لاہور میں نواز شریف کا علاج کرنے والے میڈیکل بورڈ کے سربراہ پروفیسر محمود ایاز کے مطابق نواز شریف کو بلڈ پریشر، شوگر، گردوں اور خون کی شریانوں کا مسئلہ ہے جب کہ نواز شریف کا علاج پاکستان میں ممکن ہے اور انہیں شفٹ کرنے کا حتمی فیصلہ محکمہ داخلہ کرے گا۔
0پروفیسر محمود ایاز کے مطابق میڈیکل بورڈ نے تجاویز محکمہ داخلہ پنجاب کو بھیج دی ہیں جس میں سفارش کی گئی ہے کہ نواز شریف کا عارضہ قلب کے لئے اسپیشلائزڈ طبی معائنہ کیا جائے۔

مریم نواز نے ایک اور بڑا فیصلہ کر لیا

اسلام آباد(ویب ڈیسک) مریم نواز نے اپنی میڈیا ٹیم کو متحرک کرنے کا فیصلہ کر لیا، نواز دور میں وزیراعظم ہاو¿س میں قائم میڈیا سٹریٹجی اینڈ کیمونیکشن سیل کودوبارہ فعال کیا جائے گا۔ اس سلسلہ میں مریم نواز رواں ہفتہ اپنی سابق میڈیا ٹیم سے ملاقات کریں گی اور موجودہ صورتحال کے پیش نظر میڈیا حکمت عملی طے کی جائے گی۔رپورٹ کے مطابق مریم نواز نے ابتدائی مرحلہ پر خود آگے آنے کے بجائے اپنی ٹیم کو از سر نومنظم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، قوی امکان ہے کہ رواں ہفتہ کے آخر میں مریم نواز اپنی میڈیا ٹیم کے اعزاز میں ظہرانہ دیں گی ، اس تناظر میں ماڈل ٹاﺅن لاہور کے پارٹی آفس میں مریم نوازکے لئے آفس قائم کیا جارہا ہے جہاں وہ باقاعدگی کے ساتھ بیٹھا کریں گی۔یاد رہے کہ ان کی میڈیا ٹیم میں مریم اورنگزیب، دانیال عزیز، ڈاکٹر طارق فضل، محمد زبیر، مصدق ملک، محسن شاہنواز رانجھا، طلال چودھری، بیرسٹر دانیال، مائزہ حمید نمایاں ہیں، ٹیم کاجلد مشاورتی اجلاس ہوگا۔

وزیراعظم کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس

اسلام آباد (ویب ڈیسک) وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت نیشنل سکیورٹی کمیٹی کا اجلاس جاری ہے۔وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس جاری ہے جس میں وزیر دفاع پرویز خٹک، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر خزانہ اسد عمر، وزیر مملک برائے داخلہ امور شہر یار آفریدی اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات سمیت تینوں مسلح افواج کے سربراہان بھی موجود ہیں۔اجلاس میں ملکی اور خطے کی سیکیورٹی صورت حال سمیت چین، روس اور امریکا کے ساتھ تعلقات کی صورتحال بھی زیر غور ہے، اس کے علاوہ اجلاس میں احتجاج کے دوران توڑ پھوڑ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا بھی جائزہ لیا گیا۔

بلوچستان میں فورسز کی گاڑی کو حادثہ ، 4 اہلکار شہید

خضدار(ویب ڈیسک) ضلع واشک کے قریب سیکیورٹی فورسز کی گاڑی کو حادثہ پیش آگیا جس کے نتیجے میں 4 اہلکار شہید اور 6 زخمی ہوگئے۔سیکیورٹی ذرائع کے مطابق پاک ایران سرحد کے قریب بلوچستان کے علاقے واشک میں فورسز کی گاڑی کو حادثہ پیش آیا جس کے نتیجے میں 4 اہلکار موقع پر ہی شہید ہوگئے جبکہ 6 افراد زخمی بھی ہوئے۔سیکورٹی اہلکاروں نے فوری امدادی کارروائی کرتے ہوئے زخمیوں اور لاشوں کو سی ایم ایچ خضدار منتقل کردیا۔ زخمیوں کو طبی امداد فراہم کی جارہی ہے جبکہ بعض کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے۔ اطلاعات کے مطابق ایف سی کا دو گاڑیوں پر مشتمل قافلہ جارہا تھا کہ ایک گاڑی ڈرائیور کے قابو سے باہر ہوکر الٹ گئی۔

کامن ویلتھ گیمز, ویٹ لفٹر طلحہ طالب نے پاکستان کیلیے پہلا میڈل جیت لیا

آسٹریلیا(ویب ڈیسک ) کامن ویلتھ گیمز میں ویٹ لفٹر طلحہ طالب نے پاکستان کے لیے پہلا میڈل جیت لیا۔گولڈ کوسٹ میں جاری 21 ویں دولت مشترکہ گیمز میں طلحہ طالب نے ویٹ لفٹنگ کی 62 کے جی کیٹگری کے سنیچ ایونٹ میں حریف ویٹ لفٹرز سے 5 کلو زائد ریکارڈ 132 کلو وزن اٹھایا جب کہ کلین اینڈ جرک میں 151 کلوگرام سمیت مجموعی طور پر 283 کلوگرام وزن اٹھاتے ہوئے برانز میڈل کے حقدار قرار پائے۔ واضح رہے کہ یہ کامن ویلتھ گیمز 2018 میں پاکستان کا پہلا میڈ ل ہے۔

یہ کیسا دھرنا تھا ۔۔۔علامہ خادم حسین رضوی کے دھرنے میں شرکا ءکی ہارڈیز ،گلوریا جینز کے برگروں سے تواضع، مریم اورنگزیب کی ضیا شاہد اور امتنان شاہد کے ساتھ ملاقات میں سنسنی خیز انکشافات

اسلام آباد (خصو صی رپورٹر)وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہاہے کہ خدا کا شکر ہے اسلام آباد اور لاہور کے دھرنے ختم ہو گئے اور یہ طے پایا کہ متنازعہ امور پر بھی متتبردانہ رویہ اختیار کرنے کے بجائے مفاہمت اور مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کیے جائینگے ۔

انہوں نے یہ بات اتوار کے روز اپنی رہائشگاہ پر چیف ایڈیٹر خبریں گروپ ضیا شاہد ایڈیٹر خبریں گروپ و چیف ایگزیکٹو چینل ۵ امتنان شاہد سے ملاقات میں کہی ۔
مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ موجودہ دھرنوں نے سوچ میں انتہا پسندی کو جنم دیا اور یوں لگتا ہے کہ ان کے اثرات زائل ہونے میں کافی وقت لگے گا ۔اگر یہ کہا جائے کہ ان دھرنوں نے پاکستان کو ئی دہائیاں پیچھے دھکیل دیا ہے تو بے جا نہ ہو گا اس دھرنے کے باعث پید ا ہونے والے حالات کے بعد بہت سارے پاکستانیوں نے فیصلہ کیا کہوہ ملک چھوڑ جائینگے اور میں خود ایسے بہت سارے خاندانوں کو جانتی ہوں جنہوں نے اس کشیدگی کے بعد طے کیا کہ اب ان کے بچے یہاں نہیں رہینگے ۔

انہوں نے کہا کہ اسلام دین رحمت ہے اور معاشرے کے سبھی طبقوں میں باہمی محبت اور رواداری کے جذبات کو فروغ دینا ہے ۔ایک دوسرے کی بات کو صبر و تحمل سے سننا ضروری ہے انہوں نے کہا کہ افسو س کی بات ہے کہ اسلام کا نام لیکر انتہا پسندی کی گفتگو کی گئی ۔بالخصوص غیر محتاط اور غیر سنجیدہ ،غیر پارلیمانی انداز گفتگو کو فروغ ملا جبکہ کسی بھی مسلمان معاشرے میں شائستگی اور باہمی عزت و احترام کے تقاضوں کو پورا کرنا ضروری ہو تا ہے ۔انہوں نے دانشوروں ،علمائے کرام ،اساتذہ کے علاوہ میڈیا سے تعلق رکھنے والے ماہرین ابلاغیات کی توجہ اس جانب دلائی کہ ہم مستقبل میںپاکستانی معاشرے کو کن خطوط پر استوار کرنا چاہتے ہیں ۔میڈیا کی بندش کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بعض میڈیا چینلز نے آپریشن کے آغاز پر بھی ایسے مناظردکھائے جو شدید تناﺅ کا باعث بنے ۔ہمارے پاس دو راستے تھے ،پہلا یہ کہ چینلز کو سمجھا یا جائے اور ان سے بات کی جائے اور دوسرا یہ کہ تمام چینلز کو وقتی طور پر آف ائیر کر دیا جائے ،ہم نے چینلز کی بندش سے پہلے یہ بات میڈیا ہا ﺅسز کے علم میں لائی لیکن کسی قسم کا مثبت جواب نہ ملنے پر پاکستان کو مزید انتشار سے بچانے کیلئے چینلز بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ عام طور پر دھرنوں،جلسوں میں روایتی کھانے فراہم کیے جاتے ہیں لیکن اسلام آباد کے حالیہ دھرنے میں بین الاقوامی ریسٹو رانوں ،گلو ریا جینز ،ہارڈیز اور پیزا ہٹ سے کھانے منگواکر شرکاءکو کھلائے جاتے رہے ۔یہ کیسا دھرنا تھا جہاں چاولوں اور قورمہ کی دیگوں کے بجائے ہارڈیز ،گلو ریا جینز اور پیز ا ہٹ کے کھانے اور کافیاں چلتی رہیں ۔اتنا مہنگا اور غیر ملکی ساختہ کھانا کھا یا جا تا رہا ۔انہوں نے پاکستانی قوم سے کہا کہ وہ اسلامی اخوت اور رواداری پر مبنی معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرے ۔

خبریں کی سلور جوبلی پر صدر پاکستان کا چیف ایڈیٹر ضیا شاہد ، ایڈیٹر امتنان شاہد کو خط، ضیا شاہد اور امتنان شاہد کی کارکردگی قابل تقلید ہے

صدرمملکت ممنون حسین نے چیف ایڈیٹر خبریں ضیا شاہد اور ایڈیٹر امتنان شاہد کے نام خط لکھا ہے کہ ضیا شاہد نے ایک عام صحافی کے طور پر اپنے کیرئیر کا آغاز کیا لیکن دنوں ہی میں ملک گیر شہرت حاصل کر لی،،ضیا شاہد اور امتنان شاہد کی شبانہ روز محنت نے خبریں کو ایک منفرد اخبار بنا دیا جسے ہر شخص پڑھتا اور اس کی خبر پر یقینا کرتا ہے،،ضیا شاہد اور امتنان شاہد کی کارکردگی کسی بھی صورت ،،مولانا محمد علی جوہر ،،مولانا ظفر علی خان اور ان جیسے دیگر بڑے صحافیوں سے کم نہیں اور وہ امید کرتے ہیں کہ مستقبل میں بھی خبریں اخبار ان کا ادارہ ایسے ہی صحافتی میدان میں ترقی کی منازل طے کرتا رہے گا۔

امریکی عوام خاتون کو بطور صدر دیکھنے کو تیار نہیں تھے….تجزیہ :امتنان شاہد

میں بطور پاکستانی ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی پر بالکل حیران یا پریشان نہیں ہوں، ڈونلڈ ٹرمپ نے ہیلری کلنٹن کو تھوڑے مارجن سے نہیں بلکہ بڑے مارجن سے شکست دی ہے۔ تقریباً ایک سال قبل جب دونوں امیدواروں نے اپنی انتخابی مہم شروع کی تھی تو میں نے عالمی ذرائع ابلاغ سے معلومات حاصل کیں اور امریکہ میں میرے ذرائع نے بھی تصدیق کی تھی یہی میرا ذاتی مشاہدہ بھی تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے بڑی سمجھداری کے ساتھ اپنی انتخابی مہم شروع کی ہے اور انہوں نے امریکہ کی سفید فام آبادی کو فوکس کیا اور وہی ان کا ہدف رہے۔ جن لوگوں نے امریکہ دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ امریکی گوروں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ دنیا ان کے بارے میں کیا سوچتی ہے ان کو صرف دو وقت کی روٹی، صحت کی سہولیات اور تعلیم چاہیے ان کا اپنی صحت کی سہولیات سے مطلب ہوتا ہے یا انہیں اپنی نوکریوں کی فکر ہوتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی پوری انتخابی مہم کی یہی خاص بات رہی کہ انہوں نے اسی آبادی کو فوکس کیا، ہیلری کلنٹن کی شکست کی دوسری سب سے بڑی وجہ جو سامنے آئی وہ ان کا خاتون ہونا تھا، ہمیں اس بات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ یہ ایک بہت بڑا فیکٹر ہے جس نے ہیلری کے ہارنے میں اہم کردار ادا کیا۔ امریکی ذہنی طور پر کسی خاتون کو بطور صدر دیکھنے کیلئے اپنے آپ کو تیار ہی نہیں کر پائے، اگر آپ پولنگ کے اعدادو شمار پر نظر دوڑائیں تو اس میں ایک اور دلچسپ بات سامنے آتی ہے کہ نقل مکانی کرکے آٓنے والے امریکیوں جن کی کل تعداد امریکی آبادی کا 35 فیصد ہے جس میں سے 19 فیصد ایشیائی ہیں جبکہ اس 19فیصد میں سے 4 فیصد صرف پاکستانی نژاد امریکن ہیں، ہم یہ بھی بڑی خوشی سے کہتے ہیں کہ ہیلری پاکستان کی بڑی دوست ہیں اور پاکستان آتی جاتی بھی رہی ہیں اور پاکستانی مسائل سے بہت اچھی طرح آگاہ ہیں اور وہ ٹرمپ کے مقابلے میں پاکستان سے بڑا اچھا سلوک کرینگی، یہ پاکستانیوں کی غلط فہمی تھی، ہے اور رہے گی، ان کی سوچ میں پاکستانی سٹیبلشمنٹ ہمیشہ اس وقت سہولت میں ہوتی ہے جس وقت امریکہ میں ری پبلکن پارٹی کا صدر ہوتا ہے۔ یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ تمام پاکستانی نژاد امریکیوں نے یہ سوچا شاید ڈیموکریٹ ان کے لیے بہتر ثابت ہوں اور انہوں نے یہی سوچ پر ہیلری کو ووٹ دیا لیکن اگر ہم الیکشن کے نتائج پر نظر ڈالتے ہیں تو کاسٹ کیے گے ووٹوں میں سے کالے امریکیوں میں سے 90 فیصد نے ٹرمپ کوووٹ دیا اور صرف10فیصد ووٹ ہیلری کے حصے میں آئے۔ امریکی بطور قوم بری طرح ایکسپوز ہوئے ہیں وہ ابھی تک اپنے آپ کو اس بات کے لیے تیار نہیں کر پائے کہ وہ کسی خاتون کو بطور صدر قبول کریں۔ امریکی پوری دنیا میں این جی اوز کے ذریعے یا اپنی تعلیمات اور تبلیغ کے لیے یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ مرد اور خاتون میں برابری ہونی چاہیے، خواتین کو مردوں کے برابر حقوق ملنے چاہئیں لیکن اس الیکشن کا نتیجہ ظاہر کرتا ہے کہ امریکی قوم خواتین کوحقوق دینے کے لیے بالکل تیار نہیں ہے۔ ان کی برابری کے دعوے ایک ڈھکونسلہ ہیں امریکی صرف این جی اوز کو پیسے دیکر انسانی حقوق کی آوازیں اٹھا کر یا ملالہ یوسفزئی جیسی خواتین کو اپنے مطلب کے لیے استعمال ضرور کرتے ہیں۔ ملالہ پر حملہ ہوا جو ایک بری بات ہے، اللہ تعالی نے ان کی جان بچائی اور بطور پاکستانی خوشی ہے کہ وہ صحت یاب ہوئیں لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ امریکی اپنے مطلب کے لیے استعمال بھی ضرور کرتے ہیں۔ اگر امریکی اتنے ہی سنجیدہ ہوتے تو بطور قوم اور سٹیبلشمنٹ ہیلری کو صدر بنانے میں ان کے مددگار ضرور ثابت ہوتے جو کہ نہیں ہوا۔ ڈیڑھ سال سے جب لوگ ڈونلڈ ٹرمپ پر نسل پرستی کا الزام لگا رہے تھے تو سب سے بڑی بات یہی ہے کہ انہوں نے امریکیوں میں موجود ڈر کو ایڈریس کیا اور ٹارگٹ بنایا۔ امریکی ایک ڈرپوک سی قوم ہے جو زیادہ پڑھی لکھی بھی نہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ پوری دنیا ان کے خلاف ہے اور جو بھی اس بات کو پن پوائنٹ کرے گا تو وہ اس کے ساتھ کھڑے ہو جائیں گے، ٹرمپ نے اسی بات کا فائدہ اٹھایا اور اپنی پوری انتخابی مہم میں امریکی عوام میں موجود اسی خوف کو ہلکی سے آگ لگانے کی کوشش کی۔ شروع میں سب سمجھتے رہے کہ وہ ان کا منفی پوائنٹ ہے لیکن آخر کار یہی ان کا مثبت پوائنٹ ثابت ہوا۔ ٹرمپ نے اس سے پہلے کسی سرکاری دفتر میں کام نہیں کیا وہ واشنگٹن میں بھی مشیر نہیں رہے وہ ایک عام آدمی کے طور پر سامنے آئے لیکن ان کے مقابلے میں ایک کہنہ مشق سیاستدان تھی جو دو دفعہ وزیر خارجہ رہ چکی تھیں، نتیجہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ امریکی عوام نے جہاں ایک خاتون کو ووٹ نہیں کیا وہیں انہوں نے روایتی سیاست کو بھی مسترد کیا ہے۔ امریکی عوام ایک ایسے شخص کو اقتدار میں لائے ہیں جو بظاہر ڈبلیو ڈبلیو ایف کے رنگ میں بیٹھ کر لوگوں سے کشتیاں بھی کرتا ہے، وہ لوگوں کی حجامت بھی بناتا ہے اوراپنے چہرے پر رنگ ڈال کر ٹی وی پروگرامز میں بھی آتا ہے اور وہ جو کہہ رہا ہے اسے صحیح سمجھتا ہے۔ یہی وہ بات ہے جس پر لوگوں نے اسے ووٹ کیا ہے چاہے اس سے کوئی اتفاق کرے یا نہ کرے، ٹرمپ کی آٓئندہ پالیسیوں کے حوالے سے میری ذاتی رائے ہے کہ اگلے دو سے اڑھائی سال کے اندر دنیا کے کسی نہ کسی خطے میں ایک بڑی جنگ ہوگی، جس میں براہ راست امریکہ کی مداخلت ہوگی۔ جنگ جنوبی چین میں سمندری حدود کے تنازع پر بھی ہوسکتی ہے اور کوریا اورشمالی کوریا کی جنگ بھی ہو سکتی ہے۔ جنوبی ایشیا میں پاکستان اور افغانستان کے ساتھ پرابلمز بھی ہو سکتی ہیں پاکستان کے مقابلے میں ٹرمپ کی طرف سے بھارت کی کھلم کھلا حمایت کا اعلان بھی مسئلہ بن سکتا ہے۔ پھر ترکی یا شام کے اندر داعش کا معاملہ جنگ کا باعث بن سکتا ہے اگر ہم یہ سب ملا کر دیکھیں تو ٹرمپ کے ہوتے ہوئے دنیا پر ایک بڑا سوالیہ نشان نظر آتا ہے۔ ٹرمپ کے اپنی پالیسیوں پر یوٹرن لینے کے امکان یا خود ٹرمپ کی طرف سے کوئی پالیسیاں بنانے کے حوالے سے میں یہ نہیں سمجھتا کہ ایسا ہوگا، امریکہ کی 70فیصد پالیسیاں سٹیبلشمنٹ، پینٹاگون اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ بناتا ہے لیکن یہ بات بھی ظاہر ہے کہ جب بھی ری پبلکن اقتدار میں آئے چاہے وہ بش سینئر کا دور ہو یا بش جونیئر کا ان کے دورِ اقتدار میں جنگیں ہوئیں، عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کے نام پر جنگ ہوئی، افغانستان میں نائن الیون کے نام پر جنگ مسلط کی گئی، جب کچھ نہ نکلا تو امریکی سٹیبلشمنٹ نے بڑی خوبصورتی سے کہہ دیا کہ ہمیں تو پتہ نہیں تھا ہمارے ایک صدر صاحب آئے تھے جو بڑے بے وقوف تھے انہوں نے 70سے80 ہزار افراد قتل کیے جس کے بعد کچھ نہ نکلا، چلیں اب کمیٹی بنا دیں تو انہوں نے کمیٹی بنا دی جس کی انکوائری تاحال چل رہی ہے۔ اگر ہم یہ دیکھیں جب بھی ایسے صدور آتے ہیں جن کا کوئی بیک گراﺅنڈ نہیں ہوتا تو سٹیبلشمنٹ ان کو اپنے فیصلوں کے لیے استعمال کرتی ہے امریکی سٹیبلشمنٹ اور قومی سلامتی کے ادارے بھی بالکل اسی طرح سوچتے ہیں جس طرح باقی دنیا کے ادارے اپنے اپنے قومی مفاد کے لیے سوچتے ہیں۔ بھارت اور امریکہ کے نئے یو پوائنٹ پر جب کوئی ملک، معاشرہ ، ادارہ یا شخص بہت طاقتور ہوتا ہے تو اسے اپنی امیج کی کوئی فکر نہیں ہوتی وہ صرف اپنا مفاد دیکھتا ہے کوئی شک نہیں کہ امریکہ اس وقت ایک سپرپاور ہے وہ بھارت کو صرف اس لیے سپورٹ کرتا ہے کیونکہ بھارت ان کے بہت سے مسائل حل کرتا ہے۔ آپ دونوں ممالک کے معاشی تعلقات پر نظر ڈالیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ صرف کمپیوٹر انڈسٹری یا انٹرنیٹ، سافٹ ویئر کی تجارت دیکھ لیں تو اس کا حجم پاکستان جیسے کئی ملکوں کی معیشت سے بھی زیادہ ہوگا، انٹرنیٹ اور سافٹ ویئر کی تجارت کے ساتھ ان کا فوکس ہے کہ چائنہ کے مقابلے میں کمپیوٹر کی ہائیکنگ کو کیسے روکنا ہے یہ دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کی ایک مثال ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ اگلے دو سالوں کے اندر پاکستان، چائنہ، روس ایک طرف کھڑے ہونگے جبکہ ان کے ساتھ ترکی اور تین چار خلیجی ممالک بھی شامل ہوسکتے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب آپ کو بھارت امریکہ، افغانستان اور بنگلہ دیش کھڑے نظر آئینگے انہیں بھی تین چار عرب ممالک کی حمایت حاصل ہوسکتی ہے، جو کہ شیعہ سنی وکٹ پر کھیلیں گے لہٰذا یہ کہہ دینا کہ صرف پاکستان کے لیے یا باقی دُنیا کے لیے یہ پیغام دیا ہے we dont care، امریکی عوام اور سٹیبلشمنٹ کو کوئی پروا نہیں کہ دنیا ان کے بارے میں کیا سوچتی اور کیا کہتی ہے کیونکہ وہ مالی طور پر مستحکم ہیں، ان کی جیب میں پیسے ہیں، ان کے خزانے بھرے ہوئے ہیں اس لیے انہوں نے صرف اپنے لوگوں کے بارے میں سوچا ہے ان کو باقی دنیا کی سوچ سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔