Tag Archives: Saqib-Nisar

ڈی پی اوپاکپتن معاملہ؛ چیف جسٹس نے واقعے کا نوٹس لے لیا

اسلام آباد(ویب ڈیسک ) چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے ڈی پی او پاکپتن اور خاور مانیکا کے واقعے کا نوٹس لے لیا۔تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے ڈی پی او پاکپتن اور خاور مانیکا کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی پنجاب، ایڈیشنل آئی جی پنجاب ابوبکر خدابخش، آر پی او ساہیوال اور ڈی پی اوپاک پتن کو نوٹسز جاری کردیے ہیں جب کہ کیس کل سماعت کے لئے مقرر کردیا گیا ہے۔واضح رہے کہ چند روز قبل ڈی پی او پاکپتن کی جانب سے خاتون اول بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا کو ناکے پر روکنے کا معاملے سامنے ا?یا تھا جس کے بعد آئی جی پنجاب نے ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کا تبادلہ کردیا تھا۔خاور مانیکا کو 23 اگست کو گارڈز سمیت پولیس نے ناکے پر روکا لیکن خاور مانیکا نے گاڑی نہ روکی اور آگے نکل گئے، جس پر پولیس اہلکاروں نے پیچھا کرکے ان کی گاڑی روکی تو پولیس اہلکاروں اور خاور مانیکا کے گارڈز کے درمیان تلخ کلامی ہوئی تھی۔واقعے کے منظر عام پر آنے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے نوٹس لیتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے واقعے کی رپورٹ طلب کرلی تھی، رپورٹ ملنے کے بعد وزیراعظم نے واقعہ کو محکمانہ معاملہ قراردیتے ہوئے معاملے سے لا تعلق رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔

چیف جسٹس کے ریمارکس نے سب کی آنکھیں کھول دیں

اسلام آباد(ویب ڈیسک) چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے مارگلہ ہلزاسٹون کرشنگ ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ ہمیں اپنے اختیارات کاعلم ہے،ہم ان سے باہر نہیں جائیں گے، فرائض میں کوتاہی پر ایکشن لیں گے،افسران معاملات کو نظرانداز نہ کریں تو سرکاری زمین کی ایک انچ پر قبضہ نہیں ہوسکتا۔ تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے مارگلہ ہلزاسٹون کرشنگ ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی، عدالت نے اسٹون کرشنگ سے متعلق سی ڈی اے کے قواعد و ضوابط نہ ہونے پر وزیرکیڈ کو آئندہ سماعت پر طلب کرلیا۔ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے عدالت کے روبروعذر پیش کیا کہ پنجاب اوراسلام آباد کے درمیان کچھ حدود کاتنازع ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 1960 سے آج تک سی ڈی اے کے قوانین کیوں نہیں بنائے گئے، ہم نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں، ہمیں جوڈیشل ایکٹوزم کا بالکل شوق نہیں، ہمیں اپنے اختیارات کاعلم ہے اور ہم ان سے باہر نہیں جائیں گے لیکن فرائض میں کوتاہی پر ایکشن لیں گے۔ افسران معاملات کو نظرانداز نہ کریں تو ایک انچ سرکاری زمین پر قبضہ نہیں ہوسکتا، پنجاب اور اسلام آباد کی حکومتیں توبھائی بھائی ہیں، دونوں بھائی بیٹھ کرمسئلہ کو حل کریں۔ عدالتی احکامات سرد خانے میں نہیں جانے چاہئیں، ہم جو معاملہ اٹھائیں گےاسے منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔

چیف ایڈیٹر خبریں ضیا شاہد کی چیف جسٹس سے ملاقات، بھارت کی جانب سے پانی کی بندش کی طرف توجہ دلائی

لاہور (خصوصی رپورٹر) جمعہ کی صبح سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار سے روزنامہ خبریں کے چیف ایڈیٹر ضیا شاہد نے ان کے دفتر میں ملاقات کی۔ انہوں نے چیف جسٹس صاحب سے بھارت کی طرف سے پاکستان کے اہم ترین مسئلے یعنی مشرقی دریاﺅں ستلج اور راوی میں پانی کی سو فیصد بندش کی طرف ان کی توجہ دلائی اور کہا کہ پاکستان اور بھارت میں انڈس واٹر ٹریٹی 1960ءکے باوجود بھارت سال بھر ہمارا سارا پانی بند نہیں کر سکتا کیونکہ یہ معاہدہ زرعی پانی کا ہے اور انٹرنیشنل واٹر کنونشن 1970ءکے مطابق پانی کے دیگر تین استعمال یعنی گھریلو پانی، آبی حیات اور ماحولیات کیلئے مخصوص پانی کو بند نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کی حکومت اور متاثرہ عوام اس ضمن میں انٹرنیشنل کورٹ میں جا سکتے ہیں۔ چیف جسٹس جناب ثاقب نثار نے بڑی توجہ سے ان کی معروضات سنیں اور کہا کہ اس وقت دنیا بھر میں ماحولیات پر بہت زور دیا جارہا ہے۔ میں نے خود کئی برس پہلے نوائے وقت میں محترم مجید نظامی مرحوم کا تفصیلی بیان پڑھا تھا جس میں سیلاب کے زمانے کے سوا بھارت کی طرف سے ہمارے دو دریاﺅں کے پانی کی مکمل بندش پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔ میں پانی کی کمی کے مسئلے سے بخوبی واقف ہوں اور پاکستان کو اس امر کاجائزہ لینا ہو گا کہ کیا ٹریٹی 1960ءکے اندر ایسی کوئی قانونی گنجائش ہے کہ ہم اس کی رو سے ستلج اور راوی کیلئے بھی کچھ پانی کا مطالبہ کر سکیں۔ اس مسئلے کا قانونی پہلو سے جائزہ لینا ہو گا۔ تاکہ کوئی راستہ نکالا جا سکے۔ انہوں نے چیف ایڈیٹر خبریں کی کاوشوں کو سراہا جن کی تفصیل ان کے سامنے بیان کی گئی تھی اور کہا کہ آپ اس ایشو پر ضروری مواد جمع کریں میں بھی ایک پاکستانی کی حیثیت سے اس پر غور کروں گا۔ انہوں نے جناب ضیا شاہد کو دعوت دی کہ اس مسئلے پر آپ بھی تیاری کریں، قانون کے ماہرین اور آبی ماہرین سے مشورے مکمل کریں اور دو ہفتے بعد ہم ایک بار پھر ملیں گے۔ خدا کرے کوئی قانونی شکل نکل آئے تاکہ مستقبل میں پانی کی بڑھتی ہوئی کمی کے پیش نظر ہماری آنے والی نسلوں کو تکلیف دہ مسائل سے دوچار نہ ہونا پڑے۔

 

تاریخی فیصلہ سے قبل ،چیف جسٹس آف پاکستان کی معذرت ۔۔۔

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)عمران خان اور جہانگیر نااہلی کیس کا اہم فیصلہ سنانے کے لئے چیف جسٹس کمرہ عدالت میں پہنچ گئے اور انہوں نے فیصلہ سنانا شروع کردیا، فیصلہ سنانے سے پہلے چیف جسٹس نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ایک صفحے پر غلطی ہوگئی تھی جس کو ٹھیک کرنے کی وجہ سے 250صفحات پڑھنے پڑھ گئے اس لئے تاخیر سے آنے پر معذرت خواہ ہیں۔

کراچی:مرادعلی شاہ صاحب سن لیں ،اگر آلودہ پانی کا مسئلہ حل نہ ہوا تو ۔۔۔

 کراچی(ویب ڈیسک) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ پانی کی صورتحال سمیت سندھ کی حالت دیکھ کر دکھ ہوتا ہے۔سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں صاف پانی اور نکاسی سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی، سماعت کے دوران وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور سابق سٹی ناظم سید مصطفیٰ کمال عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ پانی کی صورتحال میرے لیے بہت تکلیف دہ ہے۔ چیف جسٹس نے وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ سے استفسارکیا کہ ہم دانستہ طور پر پینے کے پانی میں انسانی فضلہ شامل کر رہے ہیں، ہم لوگوں کو صاف پانی بھی مہیا نہیں کررہے، یہ سندھ حکومت کی بنیادی ذمے داری ہے، آپ جہاں کہیں، وہاں جا کر اس پانی کی ایک ایک بوتل پی لیتے ہیں، کیا آپ تیار ہیں۔سماعت کے دوران واٹر کمیشن کی ویڈیو میں ٹریٹمنٹ پلانٹس کی تباہی دکھائی گئی جس پروزیراعلی سندھ نے کہا کہ جو ویڈیو دکھائی گئی وہ درخواست گزار کی بنائی ہوئی ہے جب کہ صورتحال اتنی سنگین نہیں، موقع ملا تو بہت جلد سپریم کورٹ میں ویڈیو پیش کروں گا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ شاہ صاحب، آپ اس ویڈیو کو چھوڑیں مگر کمیشن کی رپورٹ ہی دیکھ لیں اور اس کی سنگینی کا جائزہ لیں، ہم نے بڑے عزت، وقار اوراحترام سے آپ کو بلایا ہے، اس کیس کو مخاصمانہ نہ لیجئے گا، ہماری مدد کی ضرورت ہے تو ہم سے مدد لیں، ہم آپ کی پوری مدد کریں گے، ہمارا مقصد صرف یہ ہے کہ لوگوں کو اس آلودہ پانی سے نجات دلائی جائے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ خواہش تھی کہ چئیرمین بلاول بھٹو بھی یہاں ہوتے اور صورتحال دیکھتے، بلاول بھٹو کو بھی معلوم ہوتا کہ لاڑکانہ کی کیا صورتحال ہے۔ جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو مسائل حل کرنے کے لیے منتخب کیا گیا، پیپلزپارٹی کی پچھلی حکومت میں کوئی معاملہ عدالت تک نہیں آیا، انتظامیہ کی ناکامی کے بعد لوگ عدالتوں کا رخ کرتے ہیں، ہم یہاں مسائل کے حل کے لیے آئے ہیں۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جو ویڈیو کورٹ روم میں دکھائی گئی ہے میڈیا کے نمائندے اپنے اپنے چینلز پر دکھائیں تاکہ عوام کو پتا چلے، سپریم کورٹ اپنے کندھے آپ کو دینے کے لئے تیار ہے، لیکن شاہ صاحب آپ کو بھی کام مکمل کرنے کی ضمانت دینا ہوگی، آپ اس قوم کے منتخب لیڈر ہیں، علم، لیڈر شپ اور قانون پر عمل کرنے والی قومیں ہی سرخروہوتی ہیں، ماضی میں جو ہوا ہم دوسرے مرحلے میں ذمہ داروں کا تعین بھی کریں گے، پینے کا پانی صوبائی معاملہ ہے، آپ ہی حل کریں گے، شاہ صاحب سن لیں یہ مسئلہ اب حل ہونا ہے، اگرآلودہ پانی سے نجات نہ دلائی تو اپنے بچوں کو کیا مستقبل دیں گے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ ہمیں حل بتا دیں کہ مسئلے کا حل ایک ہفتے میں ہوگا یا 10 دن میں، پھر اس پر ہم سب مل کر کام کریں گے اور انشاء اللہ 6 ماہ میں یہ مسئلہ حل ہوجائے گا، ہمیں جواب دینا ہے یہ ہماری ذمہ داری ہے جس پر مراد علی شاہ نے کہا کہ 6 ماہ میں یہ کام مکمل نہیں ہوسکتا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ  آپ مہلت مانگیں گے تو ہم وقت بڑھا دیں گے، آپ کی کچھ ذمہ داریاں بھی ہیں، کیا ہمیں نہیں پتہ رشتہ داروں کو ٹھیکے دیے جاتے ہیں، مگر ہم ان چکروں میں نہیں پڑنا چاہتے، ہمیں پلان بتائیں، عدالت پورا تعاون کرے گی۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ منتخب ہونے کے بعد طے کیا تھا کچھ مثالیں قائم کروں گا، سمت درست کرنے کی کوشش کررہا ہوں، یقین دلاتا ہوں آپ کو کام نظر آئے گا پرعدالت سے کچھ وقت دینے کی استدعا ہے۔چیف جسٹس نے وزیراعلی سندھ سے کہا کہ یہ طے ہے کہ یہ مسئلہ حل ہونا ہے، ہم نہیں چاہتے کہ اختیارات ہوں تو حکومت پرچڑھائی کردیں، غیرجانبداری کے ساتھ عوامی مفادات کے لیے آئینی کردارادا کریں گے، جب بھی خلا ہوگا، اسے عدلیہ پُر کرتیں ہیں، سندھ میں کون کون ذمہ داریوں پر رہا یہ سب ہم ابھی نہیں دیکھ رہے لیکن جو بھی ذمہ دار رہا، اسے چھوڑیں گے نہیں، عدالت کو لکھ کر دیں یہ مسائل کب، کیسے حل کریں گے۔

وزیر اعلی سندھ نے کہا کہ ہم حکمت عملی، طریقے، مالیات اور وسائل سے متعلق عدالت کو ٹائم فریم دے دیں گے، جس پرچیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ لائٹ موڈ سمجھیں یا سنجیدہ، یہ طے ہے کہ کام ہونا ہے اور ہونا بھی جلدی ہے، یہ آپ ہی کا کام ہے، آپ ہی کو کرنا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عہدے انجوائے کرنے کے لیے نہیں، خدمت کے لیے دیے جاتے ہیں، کمیٹی بناکر ان پر مت چھوڑا کریں، میں کچھ مزید کہنا نہیں چاہتا جس پر وزیر اعلی سندھ نے کہا کہ  آپ سب کچھ کہہ بھی رہے ہیں اور یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ کہنا نہیں چاہتا، 6 ماہ کی مدت میں یہ مسائل حل نہیں ہوسکتے، دیگر صوبوں میں بھی ایسے ہی مسائل ہیں، کہیں تو بیان کروں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے بھی نہ کہتے ہوئے، سب کہہ دیا کہ سب اچھا ہے۔

چیف جسٹس نے وزیر اعلی سندھ سے استفسار کیا کہ سال میں دریائے سندھ کا کتنا پانی سمندر میں جاتا ہے، آپ اس پانی کو کراچی کے لوگوں کی ضروریات کیلئے کیوں استعمال نہیں کرتے۔  وزیراعلی سندھ  نے کہا کہ دریائے سندھ میں پانی بہت کم ہوتا ہے، جب سیلاب آتا ہے تو ہم سوچتے ہیں اور جب پانی کم ہوتا ہے تو ہم سوکھتے ہیں، پانی کی قلت کے باعث بدین اور ٹھٹہ تباہ ہورہے ہیں، دریا کا پانی کم ہونے کے باعث سمندر بڑھتا جارہا ہے، سمندر کو روکنے کیلئے جتنے پانی کی ضرورت ہے وہ ہمارے پاس نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں پتہ ہے کہ جو کمیٹیاں بنتی ہیں ان کے اراکین اورسربراہ کس کس کے رشتہ دارہوتے ہیں ، ہم کسی کا نام نہیں لیں گے، جس پر وزیر اعلی نے کہا کہ تھر میں 5 سو میں سے 410 آر او پلانٹس فعال ہیں، ان پلانٹس کو اب سولرانرجی پر منتقل کیا جارہا ہے،  دوسرے مرحلے میں 650 آراو پلانٹس لگائے جارہے ہیں، سیشن جج تھرپارکر کی رپورٹ کے مطابق بھی پلانٹس فعال ہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ  ہمارا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو صاف پانی ملے اور سمندر کو غلاظت سے بچایا جائے، ہم اپنا فوکس نہیں چھوڑسکتے ہمیں بتائیں کمیشن کی رپورٹ میں کوئی غلطی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پانی صاف ملنا شروع ہوجائے لوگ اس پانی سے وضو کرسکیں تو ہمارا مقصد پورا ہوجائے گا، یہاں یقین دہانی کرا کے جائیں کہ مسئلہ حل ہوجائے گا، آپ کی پارٹی کی کوششوں سے اٹھارہویں ترمیم آئی ہے اور اختیارات صوبوں کو مل گئے ہیں، تعلیم اورصحت آپ کے پاس ہے مسئلہ بھی حل کریں، ہم ایک ماہ نہیں ایک سال دینے کو تیار ہیں مگر بتائیں کب ہوگا، ہمیں ٹائم فریم دیں گے اس کے سوا کچھ نہیں اور ہم دوسرے صوبوں کو بھی کہتے ہیں صاف پانی دیں۔

چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کا اہم اعلان

کراچی (ویب ڈیسک) چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس میاںثاقب نثار نے کہا ہے کہ عدلیہ کسی دباﺅ کے بغیر فیصلہ کرنے کی پابند ہے۔ہماری بنیادی ذمہ داری ہے جلد اور فوری انصاف فراہم کریں۔ ہر سائل کا حق ہے کہ اسے انصاف ملے ، بنیادی حقوق پر عملدرآمد کرانا بھی عدلیہ کا فرض ہے۔ آئین نے عدلیہ کو اختیار دیا ہے کہ انتظامیہ کو اختیارات کے تجاوز سے روکے۔ تفصیلات کے مطابق کراچی میںسارک ممالک کی لاءکانفرنس کی 25ویںسالگرہ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان میاںثاقب نثارنے کہاہے کہ سارک ممالک کوایک جیسے مسائل کاسامنا ہے جنوبی ایشیاءکے ممالک کامستقبل انصاف کی فراہمی سے ہی ممکن ہے ہم ہمسائے ممالک کے ساتھ پرامن طورپررہناچاہتے ہیں سارک ممالک کی تاریخ ہزاروںسال پرانی اورشاندار ہے، سارک ممالک کوکئی ایک جیسے مسائل کاسامنہ ہے خطے میںغربت سے جنم لینے والے مسائل نے بری طرح جکڑاہواہے جنوبی ایشیاءکے ممالک کامستقبل انصاف کی فراہمی سے ہی ممکن ہے ہمیںانصاف کی فراہمی کے لیے ضروری اقدامات کرنے چاہیئے عدلیہ کوآئین نے حق دیاہے کہ وہ انتظامیہ کواختیارات کے ناجائزاستعمال سے روکے انصاف ہرسائل کابنیادی حق ہے ،عدلیہ کوبغیرکسی دباﺅکے تحت فیصلے کرنے چاہیئے فیصلہ ایساہوناچاہیئے کہ کسی بھی فریق کی جانب جھکاﺅنظرنہ آئے انہوںنے کہا کہ بنیادی حقوق پرعمل درآمدکروانابھی عدلیہ کی ذمہ داری ہے انہوںنے کہا کہ مقدمات کاغیرضروری التواروکنے کے لیے بھی اقدامات کرنے چاہیئے۔چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس ثاقب نثار کا مزید کہنا تھا کہ حال ہی میں سپریم کورٹ نے معصوم طیبہ پر تشدد کا نوٹس لیا ہے جس پر ہونے والی ناانصافی کو میڈیا نے نمایاں کیا تھا۔ ہماری بنیادی ذمہ داری ہے جلد اور فوری انصاف فراہم کریں اور مقدمات کے غیر ضروری التوائ سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئیے۔انہوں نے کہا کہ انصاف کی فراہمی کیلئے بھی ٹیکنالوجی کا سہارا لینا ضروری ہو گیا ہے اور انصاف کا ہونا نظر بھی آنا چاہئیے۔فیصلے ایسے ہونے چاہئیں کہ کسی فریق کی جانب سے جھکاﺅ نظر نہ آئے، چیف جسٹس نے کہا کہ میڈیانے معاشرے میںہونے والی نہ انصافیوںکے بہتراندازمیںنمایا ں کیا ہے جس کی وجہ سے عدالت نے کئی مقدمات میںازخودنوٹس لیاچیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سانحہ کوئٹہ اوردیگرواقعات سے ظاہرہوتاہے کہ عدالتوںپردباﺅڈالنے کی کوشش کی گئی ہے انہوںنے کہا کہ سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ مرحوم نے کسی دباﺅمیںآئے بغیرعدلیہ کی تاریخ میںکئی اہم فیصلے کئے تھے ۔انہوںنے تقریب میںمدعوکرنے پرشکریہ اداکرتے ہوئے سارک ممالک سے شرکت کرنے والے ججوںوکلاءاوردیگرکوخش آمدیدکہتے ہوئے کہا کہ قائد اعظم نے فرمایاتھاکہ ہم پرامن لوگ ہیںاسی لیے ہم تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ پرامن رہناچاہتے ہیںتقریب سے سارک ممالک سے آئے ہوئے دیگرمہمانوںنے بھی خطاب کیا۔کانفرنس کاانعقادجسٹس نسیم حسن شاہ مرحوم کی یاد میںلیکچرسے ہوا۔اس موقع پرسارک لاءکے صدرمحمودمانڈی والے نے سارک لاءکی کامیابیوںکواجاگرکرتے ہوئے بتایاکہ کس طرح 25سالوںسے خطے کی وکلاءبرادری سارک لاءکے تحت ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کررہی ہے ۔سارک لاءکے صدرنے مزیدکہا کہ سارک کے ناقدین عام طورپرسارک کانفرنس کوغیرموثربات چیت کامرکزقراردیتے ہیںاورعام طورپرتعطل کیلئے پاکستان اوربھارت کے تنازع کوذمہ دارٹھہراتے ہیں۔سارک لوگوںکے درمیان باہمی تعاون کے حوالے نہایت کامیاب تنظیم ہے اورسارک لاءکانفرنس اس بات کی عکاسی ہے جہاںججز،وکلاء،قانونی ماہرین تعلیم اورقانون کے طلباءایک ہی پلیٹ پراپنی قابلیت اورتجربات شیئرکرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں،تقریب میںجسٹس آصف سعیدخان کھوسہ اورچیف جسٹس آف سری لنکا،کے سری پوون نے بھی خطاب کیاجبکہ کلیدی مقرربھارتی سپریم کورٹ کے ایڈوکیٹ کے کے وینوگوپال نے غربت انسانی حقوق کی ایک سنگین خلاف خلاف ورزی ،کے موضوع پردستاویزپیش کیں۔