Tag Archives: SOP

عدالت نے نواز شریف کے وکیل کا مطالبہ مان لیا

اسلام آباد(ویب ڈیسک) آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کی تشریح کے لیے 13 درخواستوں کی سماعت کے دوران سابق وزیراعظم نواز شریف کے وکیل نے تیاری کے لیے سپریم کورٹ سے مہلت طلب کرلی، جس پر عدالت عظمیٰ نے آئندہ ہفتے تک کا وقت دے دیا۔چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید شیخ، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل 5 رکنی لارجر بنچ درخواستوں پر سماعت کر رہا ہے۔سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ ‘نواز شریف کی طرف سے کون آیا ہے؟’ جس پر ایڈووکیٹ اعظم نذیر تارڑ کھڑے ہوئے اور عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ سابق وزیراعظم کی جانب سے وہ پیش ہوئے ہیں۔ایڈووکیٹ اعظم نذیر تارڑ نے عدالت عظمیٰ سے تیاری کے لیے تین دن کی مہلت طلب کی۔جس پر جسٹس ثاقب نثار نے ہدایت کی کہ آیندہ ہفتے تیاری کرکے آجائیں۔یاد رہے کہ گذشتہ روز مذکورہ کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے تھے کہ اگر کیس کے سلسلے میں نواز شریف پیش نہ ہوئے تو یکطرفہ فیصلہ دے دیں گے۔

 

 

فیصلہ آنے سے قبل اشارے آنا شروع، اھم شخصیت کا انکشاف، جان کر سب حیران

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)ن لیگ کے رہنماءمصدق ملک نے کہا کہ لگتا ہے دھرنا ضرور ہوگا عدالتی فیصلوں سے پہلے اشارے آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ نجی ٹی وی کے ساتھ گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ان کے خیال میں حدیبیہ کیس بھی جلد نمٹا دیا جائے گا۔ ہم کوئی تصادم نہیں چاہتے۔ ہم ریاست کی رٹ قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کر دیا جاتا ہے ایران کا کشمیر کی حمایت میں موقف خوش آئند ہے ایم کیو ایم کا جوڑ توڑ کا سفر عمل بہت طویل ہے۔

کس نے جھوٹا بیان حلفی جمع کرایا؟ سپریم کورٹ نے دودھ کا دودھ پانی کا پانی کر دیا

اسلام آباد (کرائم رپورٹر‘ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف انکے بچوں اور اسحاق ڈار کی جانب سے پانامہ فیصلہ کیخلاف دائر نظر ثانی درخواستوں پر تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے ،جس میں عدالت نے قرار دیا ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے کاغذات نامزدگی میں جعلی حلف نامہ جمع کروایا۔ ایف زیڈ ای کی تنخواہ انکا اثاثہ تھی، نواز شریف کی نااہلی سے متعلق شواہد غیر متنازعہ تھے اور بادی النظر میں مریم نواز لندن فلیٹس کی مالک ہیں، سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز افضل خان کی جانب سے تحریر کیے گئے 23 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نظر ثانی کی درخواستوں میں پانامہ فیصلہ میں کسی سقم یا غلطی کی نشاندہی نہیں کی گئی جس پر نظر ثانی کی جائے، احتساب عدالت کو چھ ماہ میں مقدمہ کا فیصلہ کرنے کی ہدایت سے ٹرائل متاثر نہیں ہو گا ، احتساب عدالت شواہد کی نوعیت پر اپنا فیصلہ کرنے میں آزاد ہے اور ضیعف شواہد کو رد کرنے کا فیصلہ کرنے کی بھی مجاز ہے ،عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف کی نااہلی کے لیے شواہد غیر متنازعہ تھے یہ نہیں کہا جا سکتا ہے فیصلہ سے نواز شریف کو حیران کر دیا گیا، عدالت نے قرار دیا ہے کہ پانامہ ما فیصلہ میں دی گئیں آبزرویشنز عارضی نوعیت کی ہیں، عدالت نے اپنے تفصیلی فیصلہ میں نگران جج کی تعیناتی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ نگران جج کا تقرر نئی بات نہیں ہے تعیناتی کا مقصد. صرف ٹرائل میں بے پروائی کو روکنا ہے، یہ تصور نہیں کیا جاسکتا نگران جج ٹرائل پر اثر انداز ہونگے، عدالت نے اپنے فیصلے میں مزید کہا ہے کہ مریم نواز بادی النظر میں لندن فلیٹس کی بینیفشل مالک ہیں اور یہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ لندن فلیٹ سے کیپٹن صفدر کا کوئی تعلق نہیں ہے، یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کیپٹن صفدر کا فلیٹس سے تعلق کا مواد موجود نہیں ہے ، عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے نواز شریف نے جان بوجھ کر اثاثے چھپائے کاغذات نامزدگی میں جھوٹابیان حلفی حلفی دیا گیا کاغذات نامزدگی میں تمام اثاثے بتانا قانونی ذمہ داری ہےامیدوار نے عوام کی قسمت کے معاملات کودیکھناہوتا، منتخب رکن کواس معاملے پررعائت دیناتباہی ہوگی ایف زیڈ ای کی ساڑھے چھ سال کی تنخواہ نواز شریف کااثاثہ تھی، تنخواہ کمپنی پرواجب الادااورنوازشریف کمپنی کے ملازم تھے، تسلیم نہیں کیاجاسکتاکہ اثاثوں میں غلطی حادثاتی یاغیرارادی تھی، عدالت نے کہا ہے کہ نواز شریف کی نااہلی کے معاملے کامحتاط ہوکرجائزہ لیا، فیصلہ میں مزید کہا گیا ہے کہ نیب،آئی بی،اسٹیٹ بینک اور نیشنل بینک میں اعلی شخصیت کااثرورسوخ ہے، ایف آئی اے اور ایس ای سی پی میں بھی اعلی شخصیت کااثررسوخ ہے، نیب کوجے آئی ٹی کی تحقیقات سے فائدہ اٹھاناچاہیے عدالتی فیصلے کے مطابق سابق وزیراعظم نواز شریف نے پارلیمینٹ کے اندر اور باہر لوگوں کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی اور عدالت کو بھی بے وقوف بنایا،نواز شریف یہ بھول گئے کہ لوگوں کو کچھ وقت کیلیے بے وقوف بنایا جا سکتا ہے،لوگوں کو کچھ دیر کیلیے تو بے وقوف بنایا جا سکتا ہے لیکن ہر وقت بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا،فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چیزیں اپنا آپ خود بول کر بتاتی ہیں۔ فیصلے میں یہ بھی آیا ہے کہ نواز شریف نے جان بوجھ کر اپنے اثاثے چھپائے ہیں بددیانتی کے ساتھ کاغذات نامزدگی میں جھوٹا بیان حلفی دیا اس اقدام کو عمومی انداز سے نہیں دیکھا جا سکتا فیصلے میں یہ لکھا گیا ہے کہ کاغذات نامزدگی میں تمام اثاثے بتانا قانونی ذمہ داری ہے اور یہ قانونی ذمہ داری پوری نہیں کی گئی ساڑھے چھ سال کی تنخواہ نواز شریف کمپنی پر واجب الادا اور نواز شریف اس کمپنی کے ملازم تھے نہیں مانا جا سکتا کہ اثاثوں میں غلطی حادثاتی یا غیر ارادی طورپر ہوئی فیصلہ یہ بھی لکھا گیا ہے کہ متفق نہیں نکالی گئی تنخواہ نواز شریف کا اثاثہ نہیں ہے امیدوار کو قابل پاس نمبر دینا اچھے نتائج نہیں دیتا فیصلے میں یہ بھی واضح طور پر لکھا گیا کہ یہ چیز لوگوں اور سسٹم کو مذید بدعنوان کرتی ہے نااہلی کے معاملے کا انتہائی محتاط ہو کر جائزہ لیا گیا ہے فیصلے میں مذید کہا گیا ہے کہ امیداوار نے عوام کی قسمت کے معاملات کو دیکھنا ہوتا ہے کاغذات نامزدگی میں غلط بیانی کا شبہ تک بھی نہیں ہونا چاہیے امیدوار یا منتخب رکن کو اس معاملے پر رعایت دینا سیاست میں تباہی ہو گی اور یہ تباہی پہلے ہی انتہا کو پہنچ چکی ہے جسے روکنے کے لیے انتہائی اقدامات کی ضرورت ہے اعلٰی ترین عہدے پر بیٹھے شخص کے حواری اہم عہدوں پر فائز ہیں فیصلے میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ نیب ،آئی بی ، سٹیٹ اور نیشنل بینک میں اعلیٰ شخصیت کا اثرورسوخ ہے اس کے ساتھ ساتھ ایف آئی اے اور ایس ای سی پی میں بھی اعلٰی شخصیت کا اثرورسوخ ہے فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نیب کو جے آئی ٹی کی تحقیقات سے فائدہ اٹھانا چاہیے عدالت نہیں چاہتی کہ معاملہ کسی کے حواریوں کے پاس جائے۔سپریم کو رٹ کے تفصیلی فیصلہ میں ایک شعر کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔
ادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا

 

نئے چیف جسٹس کا فیصلہ ہو گیا ….نوٹیفکیشن جاری

اسلام آباد (ویب ڈیسک)جسٹس ثاقب نثار کو نیا چیف جسٹس آف پاکستان بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے ،تفصیلات کے مطابق جسٹس ثاقب نثار کو چیف جسٹس کے عہدے پر تقرری کا باقاعدہ نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے ۔نوٹیفکیشن وزارت قانون نے صدر مملکت ممنون حسین کی منظوری سے جاری کیا ۔جسٹس ثاقب نثار 31دسمبر سے عہدے کا چارج سنبھالینگے۔

پانامہ کا ہنگا مہ دلچسپ مرحلہ میں داخل ….اعلیٰ ترین عدلیہ نے 3اہم سوال پوچھ لیے

پاناما کیس میں عدالت نے 3 سوال اٹھا دیے،وزیراعظم کے بچوں نے کمپنیاں کیسے بنائیں، زیر کفالت ہونے کے معاملے کی وضاحت کریں، تقریروں میں سچ کہا گیا ہے یا نہیں۔چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ نے پانامالیکس کی تحقیقات سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران جماعت اسلامی کی جانب سے ایک مرتبہ پھر کمیشن تشکیل دینے کی استدعا کی گئی ، جس پر چیف جسٹس نے جماعت اسلامی کے وکیل اسد منظور بٹ کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ نے کہا ہے کہ کمیشن تشکیل دیا جائے، ہم نے تمام آپشن کھلے رکھے ہیں، اگراس نتیجے پر پہنچے کہ کمیشن کے بغیر انصاف کے تقاضے پورے نہ ہوں گے تو ضرور کمیشن بنائیں گے، نیب، ایف بی آر اور ایف آئی اے نے کچھ نہیں کیا، جب ہم نےدیکھا کہ کہیں کوئی کارروائی نہیں ہورہی تو یہ معاملہ اپنے ہاتھ میں لیا، ادارے قومی خزانے پر بوجھ بن گئے ہیں ، اگر انہیں کوئی کام نہیں کرنا تو ان کو بند کردیں۔
سپریم کورٹ میں پانامہ کا ہنگامہ دلچسپ لمحہ میں داخل ہو گیا ہے ۔

وزیر اعظم کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے پاناما کیس میں دلائل کا آغاز کیا تو جسٹس آصف سعید کھوسہ نے تین سوال اٹھا دیے کہا کہ پیسہ کہاں سے آیا یہ ثابت آپ نے کرناہے بٹ صاحب۔ آپ ہمیں بتائیں کہ پیسہ کہاں سے آیا اور کیسے منتقل ہوا؟ انکل، گرینڈ سن اور گرینڈ فادر کے ذریعے منتقلی نے ہمیں الجھا رکھا ہے۔بیانات میں تضاد کا بھی الزام ہے۔

پہلا سوال: بچوں نے کمپنیاں کیسے بنائیں؟
دوسرا سوال: زیر کفالت ہونے کے معاملے کی وضاحت کریں؟
تیسرا سوال: تقریروں میں سچ کہا گیا ہے یا نہیں؟

سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ درخواستوں میں عائدتمام الزمات کا جواب دوںگا،وزیراعظم کی تقاریر کو تفصیل سے سامنے رکھوں گا۔ مریم نواز پر فائدہ اٹھانے ، زیر کفالت ہوکر گوشواروں میں کمپنیاں ظاہر نہ کرنے کا الزام لگایا گیا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ الزامات رقم منتقلی کے بارے میں بھی عائد کئے گئے ہیں۔ ا?پ کے پاس دفاع کے لئے بنیادی طور پر کیاہے؟

جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ الزام ہے کہ کمپنیاں اور جائیداد غیر قانونی طریقے سے بنائی گئیں۔

سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ درخواست گزاروں نے اس بارے میں کوئی ثبوت فراہم نہیں کیے۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ جائیداد کی ملکیت کو تسلیم کرنے کے بعد ثبوت فراہم کرنے کی ذمہ داری ا?پ پر ہے، بار ثبوت پر ایسے لوگوں نے بھی بات کی جن کو قانون کا کچھ علم نہیں۔

سلمان بٹ نے کہا کہ مریم نواز 2011 اور 2012 میں وزیر اعظم کے زیر کفالت نہیں تھیں، 1992 میں مریم نواز شادی کے بعد وہ وزیر اعظم کی زیر کفالت نہیں ، کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت صرف بیگم صاحبہ کلثوم نواز زیر کفالت تھیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ کاغذات نامزدگی میں زیر کفالت کے خانے میں مریم نواز کا نام درج ہے۔

سلمان اسلم بٹ نے جواب دیا کہ مریم کی جائیداد کی تفصیلات فراہم کرنے کے لئے کوئی اور کالم موجود نہیں تھا، وزیر اعظم نے جائیداد کے لئے رقم ادا کی تھی اس لئے خانے میں نام ظاہر کرنا ضروری تھا۔

جسٹس کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ اگر کوئی مخصوص کالم نہیں تھا تو نام لکھنے کی کیا ضرورت تھی؟ اگر نام لکھنا ضروری تھا تو کسی اور کالم میں لکھ دیتے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ زیر کفالت افراد میں دو بالغ افراد کا ذکر کیا گیا۔

سلمان بٹ نے کہا کہ ان دو افراد میں وزیر اعظم خود اور ان کی اہلیہ ہیں۔

جسٹس کھوسہ نے سوال اٹھایا کہ وزیر اعظم خود اپنے زیر کفالت کیسے ہوسکتے ہیں۔

کیس کی سماعت بدھ تک کے لیے ملتوی کر دی گئی۔وزیراعظم کے وکیل سلمان اسلم بٹ دلائل جاری رکھیں گے۔

جسٹس اعجاز الحسن نے استفسار کیا کہ وزیر اعظم کے گوشواروں میں کہاں لکھا ہے کہ مریم نواز ان کے زیر کفالت ہیں۔ جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ ان کے پاس مریم کے والد کے زیر کفالت ہونے کے واضح ثبوت ہیں۔ جسٹس اعجاز الحسن نے استفسار کیا کہ ویلتھ ٹیکس 2011 میں مریم نواز کے اپنے والد کے زیر کفالت ہونے کے ثبوت بتائیں، جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ اس کے بھی ٹھوس شواہد موجود ہیں، مریم صفدر کو 3 کروڑ 17 لاکھ اور حسین نواز کو 2 کروڑ کے تحفے والد نے دیے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے نعیم بخاری کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ کے د لائل سے ظاہر ہوتا ہے کہ مریم نواز زیر کفالت ہیں لیکن ابھی یہ تعین کرنا ہے کہ مریم نواز کس کے زیر کفالت ہیں، نعیم بخاری نے کہا کہ مریم نواز چوہدری شگر مل کی شیئر ہولڈر ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہو سکتا ہے کہ مریم نواز کی آمدن کا ذریعہ چوہدری شگر مل ہو۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا میاں شریف خود کاروبار سنبھالتے تھے، ہوسکتا ہےکہ میاں شریف بچوں اور پوتوں کی دیکھ بھال کرتےہوں۔ جسٹس عظمت نے ریمارکس دیئے کہ تمام بیانات کوملا کر پڑھیں کہ پیسہ دبئی سے قطر پھر سعودی عرب اور پھر لندن گیا، جسٹس اعجازالحسن نے ریمارکس دیئے کہ کوومبر کمپنی کے نام سے بھی ایک آف شور کمپنی ہے، اس کوجو کمپنی فنڈ فراہم کرتی ہے وہ دبئی میں ہے، کوومبر کو یہ رقم دبئی میں کہاں سےآتی ہے وہ سوال وکیل دفاع سے پوچھیں گے۔
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ نوازشریف کے گوشواروں کےمطابق مریم نواز2011میں ان کے زیر کفالت تھیں، پہلے نواز شریف نے مریم کو 3 پھر 5کروڑ تحفے میں دیے، پاناما لیکس کی دستاویز ڈاو¿ن لوڈ کی گئی ہیں، جنوری 1999 میں فلیٹس کے بورڈ آف ڈائریکٹرزمیں میاں شریف،شہبازشریف، حمزہ شہباز، شمیم اختر، صبیحہ اختر اور مریم نواز شامل تھے، 1999 میں لندن کی ایک عدالت نے فیصلہ بھی جاری کیا تھا۔ وزیراعظم کے بیانات میں تضادہےاس وجہ سےوہ صادق اورامین نہیں رہے۔

لندن فلیٹ کہاں سے خریدے ؟انرونی کہانی سامنے آگئی

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے پاناما کیس میں سماعت 17نومبر تک ملتوی کرتے ہوئے کہا ہے کہ کیس پر اتنی درخواستیں آرہی ہیں شاید الگ سے سیل کھولنا پڑے،ہم بار بار کہہ رہے ہیں سپریم کورٹ تفتیشی ادارہ نہیں ہے ،ہم صرف لندن میں خریدے گئے فلیٹس پر فوکس کریں گے ۔

سماعت کے آغاز پر درخواست گزار طارق اسد ایڈووکیٹ نے سپریم کورٹ کی گزشتہ سماعت کا حکم پڑھا۔ طارق اسد ایڈووکیٹ نے عدالت سے استدعا کی کہ آف شور کمپنیوں کے مالک تمام ارکان پارلیمنٹ کے خلاف تحقیقات کی جائے، یہ بہت اہم کیس ہے ، مقدمہ تیزرفتاری سے چلانے میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوں گے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایسا لگتا ہے آپ درخواست گزار نہیں نواز شریف کے وکیل ہیں، آپ کے جواب سے لگتا ہے کہ آپ مقدمے کا فیصلہ نہیں چاہتے، یہ ہمارا کام ہے ، انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے، اگر 800 افراد کی تحقیقات شروع کی تو 20 سال لگ جائیں گے، پاناما لیکس پر اتنی درخواستیں آرہی ہیں شاید الگ سے سیل کھولنا پڑے، ایک درخواست میں 1947 سے احتساب کی استدعا کی گئی ہے، 700 صفحات ایک طرف سے جب کہ دوسری جانب سے 1600 صفحات جمع کرائے گئے ہیں۔ ہم کوئی کمپیوٹر تو نہیں ایک منٹ میں صفحات کو اسکین کرلیں۔

وزیر اعظم کے بچوں کے وکیل اکرم شیخ نے عدالت کو بتایا کہ حسن اور حسین نواز پاکستان میں مقیم نہیں، مریم نواز کی جانب سے دستاویزات جمع کروا دی ہیں، وہ اپنے موکلین کی ایک دستاویز کے علاوہ تمام دستاویزات جمع کرارہے ہیں۔ اکرم شیخ نے عدالت کے روبرو موقف اختیار کیا کہ پاکستان سے کوئی پیسہ باہر نہیں گیا ، میاں شریف کے70کی دہائی میں صنعتی 6 یونٹ تھے، جن میں سے 5 یونٹ قومیالیے گئے ، گلف اسٹیل دبئی کے امیر راشد المکتوم کی مدد سے لگائی گئی، 1980 میں پہلے 75 فیصد پھر 25 فیصد حصص بیچے گئے۔

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان، امیر جماعت اسلامی سراج الحق، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی درخواستوں پرچیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں قائم5رکنی لارجر بینچ سماعت کی۔

جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ پی ٹی آئی نے 6سو سے زائد صفحات کی دستاویزات جمع کرائیں جن کا کیس سے کوئی تعلق ہی نہیں ، درخواست گزار نے سچ کو خود ہی دفن کردیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 700صفحات ایک طرف سے 1600دوسری طرف سے جمع کرائے گئے ، ہم کوئی کمپیوٹر تو نہیں ایک منٹ میں صفحات کو اسکین کرلیں۔

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ چیئرمین نیب خود ساختہ جلاوطنی میں چین چلے گئے ہیں، ہم کیا کریں؟ نعیم بخاری نے جو کاغذات جمع کرائے ان کی ضرورت نہیں تھی، اخبارات کے تراشے کوئی ثبوت نہیں ہوتا۔

وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ وزیراعظم کے بچوں کی دستاویزات جمع کرارہاہوں، جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ کل جمع کرادیتے ہم دیکھ تو لیتے، حامد خان نےکہا کہ انہوں نےدستاویزات پہلے جمع کرانی تھی نا ۔

اس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ حامد خان صاحب آپ نے اخباری تراشے جمع کرادیے ہیں، اخباری تراشے الف لیلی کی کہانیاں ہیں،الف لیلی کی کہانیوں پر ہمارا وقت کیوں ضائع کیا؟ کیا کسی اخبار کی خبر پر کسی کو پھانسی ہو سکتی ہے؟ اخبار میں خبر آجائے کہ اللہ دتہ نے اللہ رکھا کو قتل کردیا ہے تو پھانسی دیدیں گے؟ اخبار ایک دن خبر ہوتا ہے اگلے روز اس میں پکوڑے فروخت ہوتے ہیں۔

جسٹس عظمت نے کہا کہ پہلے آپ نے 4 فلیٹس کا کہا اب 1982ء سے لے کر اب تک کی دستاویزات جمع کرادیں،ان دستاویزات کا کوئی سر ہے نہ پیر، سارا مواد ریکارڈ پر ہے، اس کو کمیشن تسلیم نہیں کرتا تو کہیں گے سارا ریکارڈ نہیں دیکھا ، اگر سارے ریکارڈ کا جائزہ لیا تو 6 ماہ میں بھی رپورٹ نہیں آئے گی، وہ دستاویزات دیں، جن سے معاملات کو آگے بڑھایا جا سکے، اخباری خبر کی بنیاد پر فیصلے نہیں کئے جاسکتے۔

حامدخان نے کہا کہ جو دستاویزات جمع کرائی گئی ہیں انہیں دیکھنے کے لیے 48گھنٹے کا وقت دیا جائے ۔اکرم شیخ نے کہا کہ مریم نواز شریف کا اضافی بیان جمع کرارہاہوں ۔ قطر کے شہزادے حماد بن جاسم کی جانب سے دستاویزات پیش کرنے کی اجازت دی جائے جو صرف عدالت کے ملاحظے کے لیے ہے ۔

عدالت نے کہا کہ آپ جس شخصیت کا نام لے رہے تو کیا بطور گواہ بلوانے پر وہ پیش ہوںگے؟ جسٹس آصف سعید نے کہا کہ شیخ صاحب کیا آپ کو اس دستاویز کی حساسیت کا پتہ ہے ؟ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ غیر ملکی سربراہ نے آپ کو تحفہ دیا ہے۔

اکرم شیخ نے کہا کہ میاں شریف کے 70کی دہائی میں 6یونٹ تھے، ان میں سے 5یونٹ قومیا لیے گئے ۔ گلف اسٹیل دبئی کے امیر کی مدد سے لگائی گئی ، یہ دستاویزات عدالت میں پیش کردی گئی ہیں۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ جو دستاویزات آپ نے دی ہیں وہ وزیراعظم کے پارلیمنٹ میں دیے گئے بیان کے برعکس ہیں۔

اکرم شیخ نے کہا کہ میں وزیر اعظم کے بچوں کا وکیل ہوں وزیر اعظم کا نہیں ، وزیر اعظم کا جواب سلمان اسلم بٹ دیںگے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہماری کوشش تھی اتنا مواد آئے کہ 2،3روز میں جائزہ لیکر خود فیصلہ کریں ، ہمارا تاثردرست ثابت نہیں ہوا، بہت زیادہ دستاویزات آگئیں کہ اصل اور نقل کا پتہ ہی نہ چل سکے، اس طرح تو اس کیس کا فیصلہ 6ماہ بھی ممکن نہیں ہے۔کیس کی سماعت 17نومبر تک ملتوی کر دی گئی۔