Tag Archives: supreme-court-of-pakistan

توہین عدالت کیس میں ن لیگی رہنماوں کی نااہلی کیخلاف اپیل مسترد

اسلام آباد(ویب ڈیسک) سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں ن لیگی رہنماؤں کی سزا کے خلاف اپیل مسترد کردی۔سپریم کورٹ میں ن لیگ کے دو رہنماؤں شیخ وسیم اختر اور احمد لطیف کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے سابق رکن قومی اسمبلی شیخ وسیم اختر اور قصور کے مقامی لیگی رہنما احمد لطیف کی سزا کے خلاف اپیل خارج کردی۔دونوں لیگی رہنما عدالت میں معافی مانگتے رہے لیکن عدالت نے دونوں رہنماؤں کی غیر مشروط معافی مسترد کرتے ہوئے ایک ماہ قید اور نااہلی کی سزا برقرار رکھی۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہائی کورٹ نے غیرمشروط معافی مانگنے پر سزا 6 ماہ سے کم کرکے ایک ماہ کردی تھی اور دونوں رہنما اپنی ایک ماہ قید کی سزا پوری کرچکے ہیں، ہم نہیں سمجھتے کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے میں ہماری مداخلت کی ضرورت ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سیاسی جماعت کے لیڈر کی نااہلی پر عدلیہ اور ججز کے خلاف نعرے لگائے گئے، یہ وتیرہ بن گیا ہے پہلے گالیاں دو پھر معافی مانگ لو، کیوں نہ دونوں کی سزائیں بڑھا دیں، دونوں رہنما ان پڑھ نہیں، بڑی ذمہ دار شخصیات تھیں، اس کے باوجود ججز اورعدلیہ کے خلاف نعرے لگائے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے نواز شریف کی نااہل قرار دیے جانے پر قصور میں مسلم لیگ ن نے ریلی نکالی تھی جس میں اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار اور عدلیہ کے خلاف نعرے بازی کی گئی تھی۔

پولیس نے پانچ سال کی بچی کو بھی نہیں چھوڑا کیا وہ دہشت گرد تھی؟ سپریم کورٹ

کراچی(ویب ڈیسک) سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے ہیں کہ پولیس نے پانچ سال کی بچی کو بھی نہیں چھوڑا کیا وہ دہشت گرد تھی؟۔سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں شہر میں غیر قانونی تجاوزات اور امن و امان کی صورت حال سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی تو عدالت عظمیٰ نے پولیس کی کارکردگی پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔جسٹس گلزار احمد نے ایڈوکیٹ جنرل سے کہا کہ پولیس کا رویہ اور کارکردگی شرمناک ہے، ختم کردیں ایسی پولیس ان سے کہیں چلے جائیں کوئی دوسری فورس لائیں، یہ لوگ کسی وجہ کے بغیر چلتے آدمی کو ماردیتے ہیں۔جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ فیملی گاڑی میں سفر کررہی ہے اسے بھی ماردیتے ہیں، انہوں نے پانچ سال کی بچی کو بھی نہیں چھوڑا کیا وہ دہشت گرد تھی؟ عوام کے ٹیکسوں پر پلتے ہیں مگر عوام کیلئے کچھ نہیں کرتے۔

ڈاکٹر شاہد مسعود کے انکشافات کا بھانڈا پھوٹ گیا

اسلام آباد (ویب ڈیسک) ملک کے معروف صحافی ڈاکٹر شاہد مسعود نے زینب قتل کیس میں گرفتار ملزم عمران علی کے 37 بنک اکاؤنٹس ہونے کا دعویٰ کیا تھا ۔ نجی ٹی وی چینل پر اپنے پروگرام میں ڈاکٹر شاہد مسعود نے دعویٰ کیا کہ زینب قتل کیس میں گرفتارملزم عمران علی کے 37 سے زائد بینک اکاؤنٹس موجود ہیں جن میں سولہ لاکھ یوروز موجود ہیں جو اس گھناؤنے کام کے بدلے عمران علی کو دئے جاتے ہیں۔ساتھ ہی ساتھ انہوں نے کہا کہ زینب قتل کیس کا مرکزی ملزم عمران علی انٹرنیشنل پورنوگرافی مافیا کا ایک فعال رکن ہے جو کم سن بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیتے ہیں۔ اپنے پروگرام میں ڈاکٹر شاہد مسعود نے چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار سے سو موٹو ایکشن لینے کا مطالبہ کیا اور کہاکہ خدارا اس معاملے کو دیکھا جائے۔ ڈاکٹر شاہد مسعود نے اپنے پروگرام میں یہ بھی دعویٰ کیا کہ پنجاب حکومت اور ایک وفاقی وزیر اس گھناؤنے کام میں ملوث ہیں اور یہ کہ اگر میری خبر جھوٹی ثابت ہو جائے تو چاہے مجھے پھانسی دے دی جائے۔دعووں کی برسات کرنے کے بعد چیف جسٹس نے بالآخر ڈاکٹر شاہد مسعود کے اس مطالبے پر غور کیا اور سو موٹو لیتے ہوئے ڈاکٹر شاہد مسعود کو ریکارڈ سمیت طلب کر لیا۔ ڈاکٹر شاہد مسعود سپریم کورٹ میں پیش ہوئے ، پیشی کے دوران انہوں نے چیف جسٹس کو ایک چٹ پر وفاقی وزیر اور ایک اور نام لکھ کر دیا جسے چیف جسٹس نے صیغہ راز میں رکھنے کی یقین دہانی کروائی۔تاہم اب اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے ایف آئی اے کو ریکارڈ فراہم کیا جس میں صاف صاف بتایا گیا کہ عمران علی کا کوئی بینک اکاؤنٹ نہیں ہے ۔ اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے اس ریکارڈ پر ایف آئی اے نے بھی تصدیق کی کہ عمران علی کے شناختی کارڈ پر 37 تو کیا کوئی بھی بینک اکاؤنٹ موجود نہیں ہے۔ اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی اس رپورٹ کو جھُٹلاتے ہوئے ڈاکٹر شاہد مسعود نے نجی ٹی وی چینلز پر گفتگو کےدوران ایک ہی بات کی کہ میں اپنی خبر پر قائم ہوں ، لیکن میں یہ بھی دعا کرتا ہوں کہ میری خبر جھوٹی نکلے۔لفظوں کا سہارا لیتے ہوئے اپنے دعووں سے مُکر گئے اور کہا کہ میں نے محض خبر دی ہے اب اس پر تحقیقات کرنا اداروں کا کام ہے۔ ڈاکٹر شاہد مسعود نے ایک ٹی وی چینل پر گفتگو کے دوران یہ تک کہہ دیا کہ میں کسی کو ثبوت نہیں دوں گا لیکن اگر سپریم کورٹ مجھ سے ثبوت طلب کرے گی تو میں بلا شُبہ تمام ثبوت چیف جسٹس کے سامنے رکھ دوں گا۔ ڈاکٹر شاہد مسعود کے مبینہ بھونڈے دعوے اور غلط خبر پر سوشل میڈیا صارفین نے جہاں انہیں تنقید کا نشانہ بنایا وہیں ان کو پھانسی دینے کا مطالبہ بھی کردیا ہے۔سوشل میڈیا صارفین کا کہنا تھا کہ ڈاکٹرشاہد مسعود نے غلط خبر دی اور اپنے مبینہ جھوٹے دعووں سے پاکستان کی دنیا بھر میں ہتک عزت کا سبب بنے۔ اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے بھی صحافی کی خبر کو جھُٹلادیا ہے لہٰذا اب ان کے اپنے ہی بیان کہ ” خبر جھوٹی ہونے پر مجھے پھانسی دے دی جائے” کے مطابق انہیں تختہ دار پرلٹکا دیا جائے تاکہ آئندہ صحافیوں کے لیےایک مثال قائم ہو اور اس کو اس بات کا احساس ہو کہ غیر ذمہ دارانہ صحافت کا یہ انجام بھی ہو سکتا ہے۔ ایسا کرنے سے ملک میں موجود نام نہاد صحافی آئندہ کسی بات پر انکشاف کرنے سے پہلے سو مرتبہ سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے اور صحیح خبر بریک کرنے سے قبل بھی کم از کم 10 مرتبہ اس کی تصدیق کریں گے۔

سابق صدر پرویز مشرف کے انکشافات نے سندھ کی سیاست میں بھونچال پیدا کر دیا

کراچی ( وقائع نگار)آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے کہا ہے کہ ہندوستان پاکستان کے خلاف سازشیں کر رہا ہے لیکن وہ سمجھ لے کہ ہماری فوج اور دفاع بہت مضبوط ہے۔ پاکستان اپنا دفاع کرنا جانتا ہے۔ ملک کی سیاست میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اے پی ایم ایل ہم خیال لوگوں کے ساتھ مل کر نیا اتحاد بنا رہے ہیں۔ عوام ہمارا ساتھ دیں۔ ہم حکومت میں آ کر ان کے مسائل حل کریں گے۔ ایم کیو ایم کا نام ایک دھبہ ہے۔ پیپلز پارٹی ، ایم کیو ایم اور اے این پی نے اسلحہ دے کر کراچی کے لوگوں کو لڑوایا۔ ہمیں ان سے چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا۔ عوام سے کہتا ہوں کہ قومیتوں کی سیاست چھوڑ کر پاکستانیت کی سیاست کریں۔ ہم آئندہ انتخابات میں بھرپور کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتوار کی شب اے پی ایم ایل سندھ ساو¿تھ ریجن ( کراچی ) کے تحت لیاقت آباد نمبر 10 فلائی اوور پر جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ جلسے سے اے پی ایم ایل کے صدر ڈاکٹر محمد امجد ، اے پی ایم ایل ساو¿تھ ریجن کے صدر احمد حسین ، جنرل سیکرٹری اسلم مینائی، مرکزی جوائنٹ سیکرٹری محمد علی شیروانی اور دیگر رہنماو¿ں نے خطاب کیا۔ جلسے میں عوام نے پرویز مشرف کی تصاویر ، پاکستان اور اے پی ایم ایل کے جھنڈے اٹھا رکھے تھے۔ جلسے میں جئے پاکستان اور جئے پرویز مشرف کے نعرے لگائے گئے۔ جلسے میں میوزیکل پروگرام اور آتش بازی کا شاندار مظاہرہ کیا گیا۔ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے سید پرویز مشرف نے کہا کہ کراچی کے عوام کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ لیاقت آباد ایم کیوایم کا گڑ ھ کہلاتا تھا۔ آج ہم نے لیاقت آباد میں جلسہ کیا ہے۔ کراچی پاکستان ہے۔ لوگ قومیتوں کو چھوڑ کر پاکستان آئیں۔ اس شہر میں سندھی ، مہاجر پٹھان ، بنگالی ، پنجابی ، بلوچی سمیت تمام قومیتیں رہتی ہیں۔ یہاں سارے لوگ آباد ہیں۔ کراچی کے لوگوں کو استعمال کیا گیا۔ کراچی میں لاشیں ملتی تھیں کچھ سیاسی قوتیں دباو¿ کے ذریعہ عوام کو لڑواتی رہیں۔ ہمیں ان سے چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے کچھ نہیں چاہئے۔ میں صدر ، آرمی چیف ، وزیر اعظم رہ چکا ہوں۔ میں مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھتا ہوں۔ میں پاکستان کی ترقی کا سوچتا ہوں۔ کراچی میں لاشوں کی سیاست ہوتی تھی۔ کراچی میں خاندان کے خاندان تباہ ہو گئے۔ میں بھی مہاجر ہوں لیکن میں اپنے آپ کو مہاجر نہیں سمجھتا۔ میں سب سے پہلے پاکستانی ہوں۔ میں ایم کیو ایم یا مہاجر نہیں ہوں۔ ایم کیو ایم کا نام ایک دھبہ ہے۔ مہاجر ایک پڑھی لکھی قوم ہے۔ ایم کیو ایم نے مہاجروں کو تباہ کر دیا۔ اے این پی نے کٹی پہاڑی میں پٹھانوں کو اسلحہ دیا۔ ایم کیو ایم نے مہاجروں کو اسلحہ دیا۔ پیپلز پارٹی نے لوگوں کو اسلحہ دیا۔ لوگوں کو ایک دوسرے سے لڑوایا۔ ہمیں اس سیاست سے چھٹکارا حاصل کرنا پڑے گا۔ آج کے لیڈر دریا کے بہاو¿ میں بہہ کر سیاست کرتے ہیں۔ لیڈر وہ ہوتا ہے جو دریا کے بہاو¿ کو دیکھ کر ملک کے مفاد میں سیاست کرتا ہے۔ ہمیں قومی سوچ اپنانا ہو گی اور ملک کو ترقی کی جانب گامزن کرنا ہو گا۔ کراچی کے لوگ باشعور ہیں۔ وہ میرا ساتھ دیں۔ ہم کراچی میں بھرپور سیاست کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم پورے کراچی میں ایک ہیں۔ میں ایم کیو ایم یا پی ایس پی کی طرف جھکوں۔ ہم ایک ہیں۔ ہم سب ملں گے تو یکجہتی ہو گی اور ایک بھرپور طاقت بن کر ابھریں گے اور الیکشن جیتیں گے۔ پیپلز پارٹی کا اس وقت سندھ میں مقابلہ کرنے کے لیے کوئی نہیں ہے۔ ہم سیاسی لوگوں کو ملائیں گے۔ پیپلز پارٹی کا مقابلہ کریں گے۔ اب جو اتحاد بنے گا اس کو نیا نام دیا جائے گا۔ اور ہماری کوشش ہو گی کہ ہم حکومت بنائیں۔ ہم کراچی سمیت ملک بھر کی ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔ ہم تعلیم صحت ، امن و امان ، اور دیگر مسائل کو حل کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم حکومت نہیں بنا سکے تو ہم کچھ نہیں کر سکیں گے۔ اس لیے میں عوام کو کہتا ہوں کہ وہ ہمارے ساتھ چلیں گے۔ تاکہ ہم حکومت بنا کر عوام کے مسائل حل کر سکیں۔ کراچی سندھ کا حصہ ہے۔ کراچی سندھ ہے۔ کوئی بھی سمجھتا ہے کراچی سندھ نہیں ہے وہ غلط سمجھتا ہے۔ کراچی ہمیشہ سندھ کا حصہ رہے گا۔ سندھ کے دیہی علاقے اور شہری علاقے ایک ہونے چاہئیں۔ لوگ ایک ہو کر ہمیں جتوائیں۔ ایم کیو ایم اور مہاجر کے کوزے میں عوام تیس سال سے بند ہیں ، اس سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اس سے صرف بتاہی ہوئی ہے۔ میرے ساتھ چلو میں اسے ختم کراو¿ں گا اور آپ نے جو نام پایا ، وہ نام را کا ایجنٹ ، ٹارگٹ کلر ، بھتہ خور اور دہشت گرد ہو۔ کسی کے ماتھے پر نہیں لکھا کہ وہ شریف آدمی ہے۔ ان دھبوں سے میں آپ کو باہر نکالوں۔ انہوں نے کہا کہ آپ سب سے پہلے پاکستانی ہیں۔ ہماری پوری سیاست قومیت کی ہے تمام لوگ قومیت میں بٹھے ہوئے ہیں۔ قائد اعظم نے کہا تھا کہ ہم قومیتوں میں بٹھے رہے تو ہم زندہ نہیں رہیں گے۔ پیپلز پارٹی سندھ ، مسلم لیگ (ن) پنجاب ، اے این پی پٹھان ، ہمیں قومیتوں کی سیاست کو ختم کرنا ہے۔ پہلے پاکستانی ہیں پھر سندھ کے ہیں اور پھر کراچی کے ہیں۔ میرے زمانے میں تو کوئی سندھ اور کوئی مہاجر نہیں تھا سب بھائی تھے۔ ہم پر ہندوستان مسلط ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ ہمیں تباہ نہٰں کر سکتا۔ ہماری فوج اور دفاع مضبوط ہے۔ یہ کہتے ہوئے مجھے برا لگتا ہے کہ ہمارا مستقبل اچھا نہیں ہے۔ یہ سارا سلسلہ کراچی اور سندھ میں ختم نہٰں ہوتا۔ اب کراچی اور سندھ میں کامیاب ہوں گے تو پیپلز پارٹی کو ٹکر دیں گے اور حکومت بنائیں گے۔ ہمیں پورے پاکستان سے قومیتیں ختم کرنی ہیں اور پاکستانیت کو پھیلانا ہے۔ ہم پاکستانیت کے پیغام کو پورے ملک میں پھیلائیں گے۔ عوام ساتھ ہو گی تو سارے کام ہو جائیں گے۔ پاکستانیت کا پیغام پھیلائیں تو سارے کام ہو جائیں گے۔ اگر عوام میرے ساتھ ہوں گے تو میں سارے کام کر سکتا ہوں۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم پاکستان کو ترقی دیں اور پاکستان کے عوام کو خوش حالی دیں۔ ان کو نوکریاں ملیں ، ان کے روزگار میں اضافہ ہو۔ مہنگائی میں کمی ہو تاکہ غریب عوام زندہ تو رہ سکیں اور یہی میرا مقصد ہے اور ہم اس میں کامیاب ہو ں گے۔ میری بدقسمتی سے کہ مجھے جانا پڑا۔ میں نے اس وقت کہا تھا کہ پاکستان کا اللہ ہی حافظ ہے۔ پاکستان کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔ اس کی حفاظت کریں گے۔ اے پی ایم ایل کے مرکزی صدر ڈاکٹر محمد امجد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج کراچی شہر کے اندر اے پی ایم ایل کے سربراہ سید پرویز مشرف نے یہ اعلان کیا ہے کہ ہم 2018 کے انتخابات کا حصہ اسی شہر سے بنیں گے۔ یہ جلسہ انتخابی مہم کی کڑی ہے۔ پرویز مشرف نے اسی شہر میں تعلیم حاصل کی۔ جب پرویز مشرف صدر تھے تو انہوںنے کراچی شہر کو خصوصی توجہ دی۔ کراچی سے پورا پاکستان چلتا ہے۔ کراچی شہر میں ہر طبقے کے لوگ بستے ہیں۔ چاہے وہ ہندوستان سے آئے ہوں یا پنجاب سے۔ یہ شہر تمام قومیتوں کا شہر ہے۔ ہم اسی شہر سے اپنی انتخابی کا آغاز کرنے کا جا رہے ہیں۔ کراچی کی ترقی میں کسی جماعت کا ہاتھ نہیں جو شہر کے اسٹیک ہولڈر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ، وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم اس شہر کو بنایا ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ یہ دعوی کرنے والوں کو سید پرویز مشرف نے بنایا ہے۔ یہ لوگ احسان فراموش ہیں۔ ان لوگوں نے ہمیں جلسہ کرنے سے روکا۔ ہمارے بینرز پھاڑے۔ مبارک ہو کراچی کو کہ آج لوگوں نے ثابت کر دیا کہ وہ سید پرویز مشرف کے چاہنے والے ہیں۔ یہ پی ایس پی والے کان کھول کر سن لیں کہ جو لوگ ایم کیو ایم سے پی ایس پی میں گئے وہ دودھ کے دھلے ہوئے ہو گئے۔ اب وہ ہمارے پاس آ رہے ہیں تو ان کو حراساں کیا جا رہا ہے۔ یہ تو وہی بات ہے کہ نواز شریف کہتا ہے کہ مجھے کیوں نکالا۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم ٹانگیں توڑ دیں گے۔ ہمارے کارکنوں کو ہراساں نہ کیا جائے۔ کراچی والے ان کی ٹانگیں توڑ دیں گے۔ پرویز مشرف ایک قوم کے نہیں بلکہ پورے پاکستان کے لیڈر ہیں۔ اب کسی کو ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ کسی کو دھمکی دینے کی ضرور ت نہیں۔ جو لوگ ہمارے پاس آ رہے ہیں وہ ہمارے پاس رہیں گے۔ ہم اس شہر کی ترقی کے لیے پر ویز مشرف کی قیادت میں کردار ادا کریں گے۔ پیپلز پارٹی نے بھی پانچ سال گزارے۔ اب مسلم لیگ (ن) حکومت کرکے پانچ سال گزار رہی ہے۔ پرویز مشرف کا دور سب سے سنہری دور تھا۔ پرویز مشرف نے کراچی والوں کو جگایا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں کی کارکردگی سے پرویز مشرف کا دور بہتر تھا۔ یہ جماعتیں لوٹ مار کر رہی ہیں۔ عوام قانون کی حکمرانی اور معیشت کی مضبوطی کے لیے ، روزگار کی فراہمی کے لیے ، غربت کے خاتمے اور پاکستان کو امت مسلمہ کا لیڈر بنانے کے لیے پرویز مشرف کا ساتھ دیں۔ امریکہ ہمیں دھمکا نہیں سکتا۔ چور حکمرانوں کی وجہ سے امریکا ہمیں دھمکیاں دے رہا ہے۔ اب سرمایہ کاری ملک میں نہیں آ رہی بلکہ ملک سے باہر جا رہی ہے۔ چور سیاست دان ملک سے باہر جا کر جائیدادیں بنا رہے ہیں۔ ہمیں اپنے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سے نجات حاصل کرنا ہو گی۔ اس کے لیے پرویز مشرف کی قیادت میں عوام متحد ہو جائے۔ اگر عوام متحد ہو گئے تو پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ انتخابی عمل سے باہر ہو جائے گی۔ احمد حسین کو کوئی دھمکی نہ دے۔ آج احمد حسین اور اس کی ٹیم نے لیاقت آباد میں کامیاب جلسہ کیا۔ اگر ہمیں دھمکیاں دیں تو ہم یہیں دھرنا دے کر بیٹھ جائیں گے۔ میں عوام کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے اس جلسے کو کامیاب بنایا۔ڈاکٹر امجد نے کہا کہ اے پی ایم ایل 21 جنوری کو راولپنڈی اور 25 جنوری کو ملتان میں جلسہ کرے گی۔ اے پی ایم ایل ساو¿تھ ریجن کے صدر احمد حسین نے کہا کہ آج ہم نے کراچی میں کامیاب جلسہ کرکے دکھا دیا ہے کہ کراچی ہمارا ہے اور کراچی میں مزید جلسے کریں گے۔ احمد حسین نے کامیاب جلسے پر عوام اور پارٹی رہنماو¿ں اور کارکنان کا شکریہ ادا کیا۔ اسلم مینائی نے کہا کہ کراچی پرویز مشرف کا شہر ہے۔ اور آج عوام نے ثابت کر دیا ہے کہ کراچی کے عوام پرویز مشرف کے ساتھ ہیں۔

 

حدیبیہ کیس ۔۔ سپریم کورٹ کے فیصلے نے سب کو ہلا کر رکھ دیا

اسلام آباد (ویب ڈیسک) سپریم کورٹ نے حدیبیہ پیپرز مل ریفرنس کیس کھولنے کی اپیل مسترد کر دی۔ تینوں ججوں نے نیب اپیل خارج کرنے کا متفقہ فیصلہ دیا۔ جسٹس مشیر عالم نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا عدالت نیب کے دلائل پر مطمئن نہیں، اپیل زائد المیعاد ہونے پر نا قابل سماعت ہے۔سپریم کورٹ میں جسٹس مشیر عالم کی سرابرہی میں حدیبیہ پیپرز ملز یفرنس کیس کی سماعت جاری ہے۔ نیب وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا ہائیکورٹ کے فیصلے میں خلا ہے، ریفرنس کھولنے کی اجازت دی جائے۔ جس پر جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیئے کہ ریفرنس نہیں اپیل سن رہے ہیں، ہمیں تاخیر پر مطمئن کریں۔جسٹس قاضی فائز نے کہا آپ جس بیان پر کیس چلا رہے ہیں وہ دستاویز لگائی ہی نہیں۔ جسٹس مشیر عالم نے کہا اسحاق ڈار کو تو آپ نے فریق ہی نہیں بنایا، اسحاق ڈار کے بیان کونکال دیا جائے تو انکی حیثیت ملزم کی ہوگی، تاخیر کی رکاوٹ دورکریں پھر کیس بھی سنیں گے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ملزم پر فرد جرم کب عائد کی گئی؟۔ نیب وکیل عمران الحق نے کہا ملزم کے نہ ہونے کے باعث فرد جرم عائد نہیں کی جا سکی۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا سالوں کیس چلا اور فرد جرم عائد نہیں کی گئی۔خیال رہے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے حدیببہ پیپر ملز ریفرنس کھولنے کیلئے نیب کی اپیل پر بینچ تشکیل دیا تھا۔ جس میں جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس دوست محمد اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل شامل تھے۔ لاہور ہائیکورٹ نے شریف برادران کیخلاف حدیبیہ پیپرز ملز ریفرنس خارج کر دیا تھا۔ نیب نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے ریفرنس دوبارہ کھولنے کی اجازت طلب کر رکھی ہے۔ نیب نے پاناما کیس میں پانچ رکنی بینچ کی آبزرویشن پر اپیل دائر کی تھی۔واضح رہے لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ نے اکتوبر 2011 میں نیب کو اس ریفرینس پر مزید کارروائی سے روک دیا تھا۔ حدیبیہ ریفرنس مشرف دور میں سابق وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار سے 25 اپریل 2000 کو لیے گئے اس بیان کی بنیاد پر دائر کیا گیا تھا جس میں انہوں نے جعلی اکاو¿نٹس کے ذریعے شریف خاندان کے لیے ایک کروڑ 48 لاکھ ڈالر کے لگ بھگ رقم کی مبینہ منی لانڈرنگ کا اعتراف کیا تھا۔ اسحاق ڈار بعدازاں اپنے اس بیان سے منحرف ہو گئے تھے اور ان کا موقف تھا کہ یہ بیان انھوں نے دباو¿ میں آ کر دیا تھا۔

حدیبیہ کیس ،نیب کی بنائی کہانی :سپریم کورٹ

اسلام آباد (آئی این پی) سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جے آئی ٹی نے کچھ کیا ہے اور نہ نیب نے‘ نیب کی بنائی گئی کہانی بار بار تبدیل ہورہی ہے‘ اسحاق ڈار کے اعترافی بیان کے سوا نیب کے پاس کوئی شواہد ہیں؟ اسحاق ڈار کا بیان بطور گواہ استعمال ہوسکتا ہے بطور ثبوت نہیں‘ بیانات چھوڑیں شواہد پیش کریں‘ جے آئی ٹی نے صرف اپنی رائے دی تھی‘ مجرمانہ عمل کیا ہے وہ بتائیں‘ ہمارے ساتھ کھیل نہ کھیلیں‘ حدیبہ کیس فوجداری مقدمہ ہے‘ پانامہ کا فیصلہ آرٹیکل 189 کی شق 3 کے تحت سنایا گیا تھا‘ ہم آپ سے ملزمان پر لگایا جانے والا الزام پوچھ رہے ہیں‘ اسحاق ڈار کا بیان کس قانون پر دوسرے کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے؟ جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ پانامہ فیصلے کو حدیبیہ کے ساتھ کیسے جوڑیں؟ بتائیں کہ حدیبیہ کا اکاﺅنٹ کون آپریٹ کررہا تھا؟ 1992 سے 2017 آگیا الزامات واضح ہونے چاہئیں‘ ممکن ہے یہ کیس بلیک منی یا انکم ٹیکس کا ہو‘ نیب کو مکمل منی ٹریل ثابت کرنا ہے‘ کیا اسحاق ڈار کے بیان کو کاﺅنٹر چیک بھی کیا گیا؟ ہم نے صرف اکثریتی فیصلہ پڑھنے کا کہا ہے‘ قانون سب کے لئے ایک ہے‘ تاخیر کے معاملے کو عبور کرلیا تو ممکن ہے بات میرٹ پر آجائے۔ منگل کو سپریم کورٹ میں حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس سے متعلق نیب درخواست سماعت ہوئی۔ جسٹس شیر عالم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ نیب پراسیکیوٹر نے حدیبیہ پر جے آئی ٹی کی سفارشات پڑھ کر سنائیں۔ عدالت نے نیب کو ہدایت کی کہ ریفرنس میں تاخیر سے متعلق مطمئن کریں۔ کیس کی باقی تفصیلات دوسرے فریق کو نوٹس کے بغیر سنیں گے۔ جسٹس شیر عالم نے کہا کہ ہم نے صرف اکثریتی فیصلہ پڑھنے کا کہا ہے۔ پراسیکیوٹر نیب عمران الحق نے کہا کہ پانامہ فیصلے کے بعد نیب اجلاس میں اپیل کا فیصلہ کیا گیا۔ جسٹس مظہر عالم نے سوال کیا کہ کیا حدیبیہ کے حوالے سے پانامہ فیصلے میں ہدایات تھیں عمران الحق نے کہا کہ حدیبیہ کا ذکر پانامہ فیصلے میں نہیں ہے جسٹس شیر عالم نے سوال کیا کہ پانامہ فیصلے کو حدیبیہ کے ساتھ کیسے جوڑیں گے۔ جے آئی ٹی سفارسات پر کیا عدالت نے حدیبیہ کے بارے میں ہدایت کی؟ عمران الحق نے بتایا کہ لاہور ہائیکورٹ نے فیصلہ تکنیکی بنیادوں پر دیا تھا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جے آئی ٹی نے رائے دی مجرمانہ عمل کیا ہے وہ بتائیں ممکن ہے یہ معاملہ انکم ٹیکس کا ہو۔ جسٹس شیر عالم نے کہا کہ عدالت کو نیب آرڈیننس کے سیکشن 9 کا بتائیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نیب کے وکیل کو ہدایت کی کہ بادی النظر کا لفظ استعمال نہ کریں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بادی النظر کا لفظ نہیں بلکہ سیدھا موقف اختیار کریں۔ کیا نیب کو مزید تحقیقات کیلئے پچاس سال کا وقت لگ جائے گا۔ ہمارے ساتھ کھیل نہ کھیلیں حدیبیہ کیس فوجداری مقدمہ ہے جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ حدیبیہ کا اکاﺅنٹ کون چلا رہا ہے؟ اکاﺅنٹ اب آپریٹ نہیں ہورہا تو ماضی میں کرنے والے کا نام بتائیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ نیب نے اب تک کیا تحقیقات کیں بینک کا ریکارڈ جھوٹ نہیں بولتا بینک ملازمین کے بیانات ثانوی ہیں۔ تحریری ثبوت دیں کیا نیب نے حدیبیہ پیپرز کے بارے میں انکم ٹیکس پر سوال کیا؟ وکیل نیب نے بتایا کہ ہم نے سوال نامہ بھیجا پر ابھی ریکارڈ پر نہیں ہے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہائیکورٹ نے 2013 میں کہا تھا کہ نیب مذاق بنا رہی ہے 2017 میں اب پھر ہمیں مذاق والی بات کہنا پڑ رہی ہے یاد رکھیں پانامہ کا فیصلہ آرٹیکل 184 کی شق 3 کے تحت سنایا گیا وکیل نیب نے استدعا کی کہ اسحاق ڈار کا بیان پڑھنا چاہتا ہوں اسحاق ڈار نے بطور وعدہ معاف گواہ بیان دیا تھا جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ پیسے ادھر چلے گئے ادھر چلے گئے یہ کہانیاں ہیں پراسیکیوشن نے چارج بتانا ہوتا ہے ہم آپ سے ملزمان پر لگایا جانے والا الزام پوچھ رہے ہیں۔ وکیل نیب نے بتایا کہ ایٹمی دھماکوں کے بعد فارن اکاﺅنٹس منجمد کردیئے گئے تھے جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ 1992 سے 2017 آگیا الزامات واضح ہونے چاہئیں۔ حدیبیہ کے اکاﺅنٹ سے پیسے کس نے نکلوائے نام بتائیں۔ عمران الحق نے بتایا کہ 164 کے بیان میں اسحاق ڈار نے رقم نکلوانے کا عتراف کیا جس پر مشیر عالم نے کہا کہ ایسی صورت میں متعلقہ دستاویزات سامنے ہونی چاہئیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بیانات چھوڑیں شواہد بتائیں جے آئی ٹی نے کچھ کیا اور نہ ہی نیب بنے کچھ کیا ہے۔ بہت سارے قانونی ولازمات بھی نیب کو پورے کرنے تھے کیا حدیبیہ کے ڈائریکٹرز کو تمام سوالات دیئے گئے؟ عمران الحق نے بتایا کہ ہم نے ملزمان کو سوالنامہ بھیجا مگر جواب نہیں دیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آرٹیکل 13 کو بھی ہم نے مدنظر رکھنا ہے ممکن ہے یہ کیس بلیک منی یا انکم ٹیکس کا ہو۔ جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ آپ کو مکمل منی ٹریل ثابت کرنا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ نیب باتیں مان لیں تو پھر بھی مجرمانہ عمل بتانا ہوگا۔ نیب سیکشن 9اے کے تحت تو کوئی بات نہیں کررہے۔ اسحاق ڈار کا بیان بطور گواہ استعمال ہوسکتا ہے بطور ثبوت نہیں۔ ہمارے صبر کا امتحان نہ لیں ہمیں کسی کی ذاتی زندگی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے بتائیں کیا آپ یہ کیس چلانا چاہتے ہیں کہ نہیں۔ نیب کی بنائی گئی کہانی بار بار تبدیل ہورہی ہے۔ اسحاق ڈار کے اعترافی بیان کے علاوہ نیب کے پاس کوئی شواہد ہیں؟ اسحاق ڈار نے یہ سارا عمل کس فائدے کے لئے کیا؟ وکیل نیب نے بتایا کہ اسحاق ڈار کو شریف فیملی کے لئے کام کرنے کے بدلے سیاسی فائدہ ہوا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا اسحاق ڈار کے بیان کو کاﺅنٹر چیک کیا گیا کیس کی مزید سماعت (آج) بدھ گیارہ بجے تک ملتوی کردی گئی۔

 

حدیبیہ کیس:ٹی وی تبصروں پر پابندی

اسلام آباد(اے این این، آئی این پی) سپریم کورٹ نے حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس کھولنے کی نیب کی درخواست کی سماعت کے دوران حدیبیہ پیپر کے حقائق سے متعلق لائیو شوز اور تبصروں پر پابندی عائد کردی ہے ۔پیر کو جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس مظہر عالم خان پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس کھولنے کی نیب کی درخواست پر سماعت کی۔نیب کے ڈپٹی پراسیکیورٹر جنرل عمران الحق نے اپنے دلائل دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ نیب پروسیکیوٹر کا عہدہ خالی ہے لہذا مناسب ہوگا کہ اس اہم مقدمے میں پراسیکیوٹر خود پیش ہوں۔ جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیے کہ پراسیکیوٹر نیب کا عہدہ خالی ہونا کیس کے التوا کی کوئی بنیاد نہیں اور پراسیکیوٹر کی تقرری سے ہمارا کوئی تعلق نہیں، کیس ملتوی نہیں ہوگا۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ اگر نیب کی جانب سے کوئی قانونی افسر اس کیس میں پیش نہیں ہوسکتا تو انہیں چاہیے کہ وہ استعفی دے دیں،جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ عدالت کا مذاق نہ اڑائیں، ہمارے لیے ہر کیس ہائی پروفائل ہے،کیوں نہ آپ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کریں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ صرف کرپشن کہنے سے کرپشن ثابت نہیںہوتی،نیب انکم ٹیکس کیس نہیں اٹھاسکتی مجرمانہ عمل دیکھانا ہوگا، ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیں،پھر بھی ریفرنس بحال نہیں ہوگا، اگر پانامہ کیس نہ ہوگا، تو کیا نیب نے کچھ نہیں کرنا تھا؟ پانامہ فیصلے کے آپریٹو حصہ پڑھیں، پانامہ فیصلے حدیبیہ کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا، آپ اقلیتی فیصلے کا حوالہ دے رہے ہیں، اقلیتی رائے ہم پر لازم نہیں ، اس کیس میں نئے قوائد بنائے گئے ہیں، لاہور ہائی کورٹ نے ریفرنس بحالی پر حکم امتناع جاری نہیں کیا تھا، نیب اپنے رویے سے ریفرنس ختم کروایا، جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ پہلے حدیبیہ کیس دوبارہ کھولنے پر دلائل دیں پھر میرٹ پر ،کیا حکومت کل کسی دورے ملزم کو بھی معاہدہ کرکے باہر جانے کی اجازت دے دے گی؟ ملزمان کو واپسی پر گرفتار کیوں نہیں کیا گیا، عدالت نے نیب سے جعالی اکاﺅنٹس کے حوالے سے تفصیلات طلب کرلی۔ پیر کو سپریم کورٹ میں ہائی کورٹ فیصلے کے خلاف حدیبیہ ریفرنس پر جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی،ڈپٹی چیئرمین نیب امتیاز تاجور بھی عدالت میں پیش ہوئے، نیب کے پراسیکوٹر عمران الحق نے اپنے دلائل دیے۔ عدالت نے سوال کیا کے اپیل دائر کرنے میںاتنی تاخیر کیوں کی گئی؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ جلاوطنی کی کیا کوئی قانونی حیثیت ہے؟مفرور کا تو سنا تھا جلاوطنی کا حکم کیا ہے؟نوازشریف کی جلاوطنی کا حکم کس نے دیا؟ عمران الحق نے جواب دیا کہ معاہدے کے تحت نوازشریف کو ملک سے باہر بھیجا گیا، نوازشریف خود اپنی مرضی سے باہر گئے تھے،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ خود باہر گئے تھے تو مفرور کی کاروائی ہونی چاہیے تھی،اس کیس میں نئے قوائد بنائے گئے، جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ کل کو کیا حکومت کسی دوسرے ملز م کو بھی معاہدہ کرکے ملک سے باہر جانے کی اجازت دے دے گی؟ جسٹس قاضی فائز عیسی نے سوال کیا کہ کیا نیب نے جلاوطنی کے سہولت کاری پر کوئی کاروائی کی؟ عمران الحق نے بتایا کہ نوازشریف پر طیارہ ہائی جیک کرنے کا کیس کراچی میں چل رہا تھا، جسٹس مشیر عالم نے سوال کیا کہ کیا ملزمان کراچی میں زیر حراست تھے؟عمران الحق نے بتایا کہ ملزم اٹک قلعہ میں تھا، جسٹس قاضی فائز عیسی نے سوال کیا کہ اٹک قلعہ کے اندر کیس کس نے چلایا، کیا اٹک قلعہ کے اندر بھی کوئی عدالت ہے؟ اس وقت پاکستان کو کون سے حکومت چلارہی تھی؟عمران الحق نے جواب دیا کہ اس وقت چیف ایگزیکٹو پرویز مشرف تھے نوازشریف سپریم کورٹ کے حکم کے بعد واپس آئے ، جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ اگر نوازشریف خود گئے تھے،توواپسی کے لیے درخواست نہ دینی پڑتی،جسٹس مشیر عالم نے سوال کیا کیہ ملزمان کی واپسی پر انھیں گرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟عمران الحق نے بتایا کہ کیس چلنے کے بعد عدالت ہی گرفتار کا حکم دے سکتی ہے، 17جولائی 2011کو چیئرمین نیب نے کیس بحالی کی درخواست دی،17اکتوبر 2011کو ملزمان نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی، 18اکتوبر 2011کو عدالت نے حکم امتناع جاری کردیا، جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے ریفرنس بحالی پر کوئی حکم امتناع نہیں دیا، نیب نے اپنے رویے سے ریفرنس ختم کروایا، ہائی کورٹ کا حکم کالعدم قرار دے دیں پھر بھی ریفرنس بحال نہیں ہوگا، جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ پہلے کیس دوبارہ کھولنے پر دلائل دیں پھر میرٹ پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے سوال کیا کہ اگر پانامہ نہ ہوتا تو کیا نیب نے کچھ نہیں کرنا تھا؟پانامہ فیصلے کا آپریٹو حصہ پڑھیں، پانامہ فیصلے میں حدیبیہ کیس کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا ، فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ جب نیب اپیل دائر کرے گی تب دیکھا جائے گا، اگر سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے تو پھر ہم سماعت کیوں کررہے ہیں، آپ اقلیتی فیصلے کا حوالہ دے رہے ہیں، اقلیتی رائے ہم پر لازم نہیں ہے،ہم آپ سے پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ اقلیتی فیصلے کو نہ پڑھیں، اتنا وقت ضائع کیا گیا آخر میں پھر وہی بات آگئی ،اگر آپ نے پانامہ فیصلے کا اب حوالہ دیا تو آپ کو نوٹس جاری کریں گے، جسٹس مظہر عالم نے سوال کیا کہ نیب کی عبوری ریفرنس دائر کرنے کی وجوہات کیا تھیں، پراسیکیوٹر نیب عمران الحق نے بتایا کہ حدیبیہ تحقیقات میں آنے والی درخواست پر کسی کے دستخط نہیں تھے، شکایات ذرائع سے موصول ہوئیں، جسٹس قاضی فائز عیسی نے سوال کیا کہ دیکھنا ہے کہ ریفرنس میں مجرمانہ عمل کیا ہے، ہمارا رخ افسردہ تاریخ کی طرف نہ موڑیں ، نہیں جاننا چاہتے کہ صدر کون تھا، چیئرمین کون تھا، کرپشن لفظ نہیں شواہد دکھائیں ، جعلی اکاﺅنٹس کیسے کھولے گئے؟کیا بینک ان کا تھا؟صرف کرپشن کرپشن کہنے سے کرپشن ثابت نہیں ہوتی،نیب انکم ٹیکس کیس نہیں اٹھا سکتی، مجرمانہ عمل دکھانا ہوگا، عدالت نے نیب سے جعلی اکاﺅنٹس کے حوالے تفصیلات طلب کرلیں، کیس کی مزید سماعت (آج ) بروز منگل 11بجے تک ملتوی کردی گئی۔

 

جسٹس باقر نجفی ٹربیونل کیخلاف رپورٹ دینے والے سپریم کورٹ کے جسٹس خلیل الرحمن کے بیٹے پر ”نوازشیں “کرنیوالے کون ؟دیکھئے خبر

لاہور (نیااخبار رپورٹ) سانحہ ماڈل ٹاﺅن میں جسٹس باقر نجفی ٹربیونل کے خلاف حکومت پنجاب کے حق میں رپورٹ دینے والے سپریم کورٹ کے 1 رکنی بنچ پر مشتمل جسٹس خلیل الرحمن خان کے بیٹے شکیل الرحمان کو صوبائی حکومت نے ایڈووکیٹ پنجاب کے عہدے سے نواز دیا۔ واضح رہے کہ انہوں نے سانحہ ماڈل ٹاﺅن میں صوبائی حکومت کو کلین چٹ دے کر بری الذمہ کردیا تھا اور کہا تھا کہ جسٹس باقی نجفی رپورٹ تضادات کا مجموعہ ہے۔ اسے کسی صورت قبول نہ کیا جائے۔ رپورٹ میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ سانحہ ماڈل ٹاﺅن میں فائرنگ طاہر القادری کے گھر سے ہوئی جس کے بعد پولیس نے آپریشن شروع کیا۔

عمران خان کیخلاف بھی شکنجہ تیار،سپریم کورٹ سے جاری منی لانڈرنگ کے شواہد بارے اہم ترین خبر

لاہور (ویب ڈیسک) حفیظ اللہ نیازی نے دعوی کیا ہے کہ سپریم کورٹ میں جاری عمران خان کے کیس میں منی لانڈرنگ کے شواہد بھی سامنے آنے والے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے کزن حفیظ اللہ نیازی نے نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کے دوران اپنے کزن پر منی لانڈرنگ کا الزام عائد کر دیا۔ حفیظ اللہ نیازی کا کہنا ہے کہ نواز شریف اور عمران خان کا کیس ایک جیسا ہے۔ جبکہ عمران خان کیخلاف منی لانڈرنگ کے شواہد بھی سامنے آنے والے ہیں۔ حفیظ اللہ نیازی کا دعوی ہے کہ جن قوانین کے تحت نواز شریف کو نااہل کیا گیا انہیں قوانین کے تحت عمران خان بھی نااہل قرار پائیں گے۔

حدیبیہ کیس :سپریم کورٹ نے ریکارڈ طلب کر لیا

اسلام آباد(ویب ڈیسک) سپریم کورٹ نے حدیبیہ پیپر ملز کیس میں نیب سے تمام ریکارڈ طلب کرتے ہوئے احتساب عدالت کی کورٹ ڈائری اور اس وقت کے چیئرمین نیب کی تقرری کا طریقہ کار طلب کرلیا ہے۔سپریم کورٹ کے جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل پر مشتمل بینچ حدیبیہ پیپر ملز کیس کی سماعت کررہا ہے۔ اس موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ حدیبیہ ریفرنس کی دستاویزات کدھر ہیں جس پر خصوصی پراسیکیوٹر نیب عمران الحق نے کہا کہ ہائی کورٹ نے تکنیکی بنیادوں پر ریفرنس خارج کیا تاہم عدالت کہے تو ریفرنس کی دستاویزات فائل کردیتے ہیں۔جسٹس مشیر عالم نے استفسار کیا کہ حدیبیہ پیپرملز سے متعلق ریفرنس کی بات جے آئی ٹی کے کس والیم میں کی گئی، نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ والیم 8 میں حدیبیہ پیپرزملز ریفرنس کے بارے سفارشات دی گئی ہیں جس پر عدالت نے رجسٹرار آفس سے والیم 8 اور والیم 8 اے منگوالیا۔جسٹس مشیرعالم نے کہا کہ حدیبیہ پیپرزمل کے اصل ریفرنس کی دستاویزات دیکھناچاہتے ہیں، عمران الحق کا کہنا تھا کہ منی لانڈرنگ کے لیے اکنامک ریفارمز ایکٹ کا سہارا لیاگیا اور منی لانڈرنگ کے لیے جعلی فارن کرنسی اکاؤنٹ کھولے گئے جب کہ ملزمان کے بیرون ملک ہونے کی وجہ سے کارروائی روک دی گئی تھی۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کسی کوجبری طورپر باہر بھیجنا یا کسی کاعدالت سے فرارہونا مختلف چیزیں ہیں جب کہ کس کے حکم پر نواز شریف کو باہر بھیجا گیا تھا، وکیل نیب نے عدالت کو بتایا کہ نوازشریف کو اس وقت کے چیف ایگزیکٹو پرویزمشرف کے حکم پر باہر بھیجا گیا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ فریقین بیرون ملک کب گئے جس پر وکیل نیب کا کہنا تھا کہ دسمبر 2000 میں جلا وطن ہوئے اور نومبر 2007 میں جلا وطنی سے واپس آئے جب کہ ملزمان 2014 میں مقدمہ پر اثر انداز ہوئے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ نیب کو ریفرنس پرکتنے عرصے میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے، نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ نیب کو ایک ماہ کے اندر ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس میں کہا کہ کیا کسی کے خلاف ریفرنس بنا کر اس پر ہمیشہ کے لیے تلوار لٹکائے رکھیں گے، ریفرنس کو طویل عرصہ تک زیر التواء نہیں رکھا جا سکتا، آپ سمجھتے ہیں ہم اپیل پر ابھی حکم جاری کر دیں گے۔ جسٹس مشیر عالم نے استفسار کیا کہ حدیبیہ کا ریفرنس کہاں ہے، جس پر وکیل نیب کا کہنا تھا کہ پاناما کے مقدمہ کے بعد اپیل دائر کی۔ جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ حدیبیہ ریفرنس پر دلائل دیں، نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ حدیبیہ ریفرنس پر میری مکمل تیاری نہیں ہے تاہم حدیبیہ پیپر ملز 1999 تک خسارے میں چل رہی تھی،اس وقت کمپنی کے ڈائریکٹرز کے پاس بہت بڑی رقم تھی۔

سپریم کورٹ نے حدیبیہ پیپر ملز کیس میں نیب سے تمام ریکارڈ طلب کرتے ہوئے احتساب عدالت کی کورٹ ڈائری اور اس وقت کے چیئرمین نیب کی تقرری کا طریقہ کار بھی طلب کرلیا۔ عدالت نے نیب کی جانب سے دستاویزات پیش کرنے کے لئے 4 ہفتوں کی مہلت کی استدعا مسترد کردی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کیس میں سنجیدگی دکھائیں، سپریم کورٹ نے خاص بینچ بنایاہے، کیا نیب ابھی بھی دباؤ میں ہے۔ وکیل نیب نے جواب دیا کہ بدقسمتی سے ایساہی ہے۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت 11دسمبر تک ملتوی کردی۔