Tag Archives: wajid zia

نواز شریف کی تنخواہ ایک لاکھ تھی جسے کاٹ کر 10 ہزار لکھا گیا، واجد ضیا

 اسلام آباد(ویب ڈیسک ) نیب کے گواہ اور پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء نے نیب ریفرنس کی سماعت کے دوران بتایا ہے کہ حسن نواز کی کمپنی کیپیٹل ایف زیڈ میں ای نواز شریف کی تنخواہ ایک لاکھ تھی جسے کاٹ کر 10 ہزار لکھا گیا۔احتساب عدالت اسلام آباد میں ایون فیلڈ ریفرنس پر سماعت ہوئی۔  سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کی جانب سے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی گئی جو منظور ہوگئی تاہم کیپٹن ریٹائرڈ صفدر عدالت میں پیش ہوئے۔ پراسکیوشن ٹیم نے ملزمان کی بینک ٹرانزیکشنز کا چارٹ وکلاء کے حوالے کیا تو مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ یہ وہ چارٹ ہے جیسے پڑھنے کے لیے محدب عدسے کی ضرورت پڑے گی۔نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے نیب کے گواہ اور پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء سے نواز شریف کی ملازمت کے معاہدے سے متعلق جرح کی۔خواجہ حارث نے پوچھا کہ معاہدے میں دس ہزار درہم تنخواہ کاٹ کر لکھی گئی، آپ کو معلوم ہے کس نے لکھی تھی؟۔ واجد ضیا نے بتایا کہ اصل رقم ایک لاکھ درہم تھی جسے کاٹ کر دس ہزار لکھا گیا، کاٹ کر کس نے لکھا مجھے نہیں معلوم، دستاویز تصدیق شدہ ہے، نواز شریف کی ملازمت کا کنٹریکٹ میرے سامنے تیار نہیں ہوا۔خواجہ حارث نے کہا کہ اقامہ مانا گیا مگر یہاں تنخواہ کی ادائیگی کا سوال ہو رہا ہے، کسی دستاویز پر نواز شریف کا نام نہیں جس سے تنخواہ کی ادائیگی ثابت ہو۔واجد ضیاء نے کہا کہ کیپٹل ایف زیڈ ای سے جولائی 2013 کی تنخواہ اگست 2013 میں جاری ہوئی، تنخواہ کس ملازم کی تھی نام درج نہیں، جافزا کا ریکارڈ نواز شریف سے متعلق تھا، ایسے دستاویزی شواہد نہیں کہ تنخواہ نواز شریف کو موصول ہوئی، ایسا بینک ریکارڈ بھی نہیں ملا کہ نواز شریف نے تنخواہ لی، نواز شریف کو تنخواہ دینے کی رسید جے آئی ٹی کو نہیں ملی، تنخواہ کے اسکرین شاٹ پر نواز شریف کا نام درج نہیں، دستاویزات پرنوازشریف کا نام نہیں، ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کا ذکر ہے، تنخواہوں کی ادائیگیاں اوور دی کاوٴنٹر کی گئیں۔خواجہ حارث نے کہا کہ کوئی ایسی دستاویز حاصل کی جس میں لکھا ہو کہ کیپیٹل ایف زیڈ ای نے نواز شریف کو تنخواہ ادا کی؟۔ واجد ضیا نے کہا کہ نواز شریف کا نام نہیں مگر دستاویز انہی سے متعلق ہے۔ ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس کی سماعت کل ساڑھے نو بجے تک ملتوی۔واضح رہے کہ نواز شریف اکثر یہ سوال اٹھاتے رہتے ہیں کہ بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ نہ لینے پر سپریم کورٹ نے انہیں نااہل کیا۔ پاناما جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ شریف خاندان کے مطابق نوازشریف خاندانی کاروبار نہیں چلاتے تھے جبکہ ثبوتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ حسن نواز کیپٹل ایف زیڈ ای کمپنی کے مالک تھے جبکہ وزیر اعظم نواز شریف کیپٹل ایف زیڈ ای سے تنخواہ لے رہے تھے اور بورڈ کے چیرمین تھے۔

اسحاق ڈار کے خلاف ریفرنس،واجد ضیاءنے حقائق سے پردہ اٹھا دیا

اسلام آباد (ویب ڈیسک) اسحاق ڈار کے خلاف اثاثہ جات ریفرنس کیس میں جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیا نے احتساب عدالت میں پیش ہو کر جے آئی ٹی کی اصل رپورٹ والیم 1 اور 9 پیش کر دیا۔احتساب عدالت کے جج محمد بشیر اثاثہ جات ریفرنس کیس کی سماعت کر رہے ہیں۔ گواہ واجد ضیا نے بیان ریکارڈ کراتے ہوئے بتایا کہ جے آئی ٹی نے 10 جولائی 2017 کو حتمی رپورٹ پیش کی، اسحاق ڈار سمیت مختلف شخصیات کے بیانات ریکارڈ کیے گئے، ایس ای سی پی، مختلف بینکوں، ایف بی آر، الیکشن کمیشن سے ریکارڈ لیا۔ واجد ضیا نے مزید بتایا کہ 1992 میں اسحاق ڈار کے اثاثے 9 ملین روپے تھے، 2009 تک اثاثوں میں 91 گنا اضافہ ہوا، 2009 میں اثاثے 831 ملین روپے تک پہنچ گئے۔

 

ڈی جی ایف آئی اے نے شریف خاندان کی مشکلات میں اضافہ کر دیا

اسلام آباد(ویب ڈیسک) پانامہ ریفرنس میں جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء نے کہا ہے کہ گلف سٹیل ملز کی فروخت اور قطری شہزادے کے ساتھ سرمایہ کاری کی باتیں جھوٹ ہیں۔ اقامہ، لندن فلیٹس کی ملکیت کے علاوہ شریف خاندان پر الزامات کے تمام ثبوت موجود ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ایڈیشنل ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیاء نے نیب کو ریکارڈ کرائے گئے اپنے بیان میں کہا کہ گلف سٹیل ملز کی فروخت کی بات جھوٹ ہے۔قطری شہزادے کے ساتھ سرمایہ کاری کی بات بھی درست نہیں ہے۔ برطانوی دستاویزات لندن فلیٹس کی ملکیت کا ثبوت ہیں۔ ایڈیشنل ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیاء نے کہا کہ شریف خاندان پر تمام الزامات کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں۔ ایون فیلڈ سے متعلق ثبوت ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ متحدہ عرب امارات سے تمام ریکارڈ ایا ہے۔ کیلبری فونٹ پر 2ماہرین کی رپورٹس بھی ثبوت ہے۔انہوں نے کہا کہ نواز شریف کے اقامے کا مکمل ریکارڈ ہے۔ جو جبل علی فری زون اتھارٹی سے حاصل کیا۔ سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی تمام دستاویزات کی تصدیق کرتا ہوں۔ بینکوں، کمپنیوں ، آمدن ، ویلتھ ٹیکس کے تمام ریکارڈ کی بھی تصدیق کرتا ہوں۔ اسحاق ڈار کے بینکوں، کمپنیوں، آمدن اور ویلتھ ٹیکس کے ریکارڈ کی بھی تصدیق کرتا ہوں۔ انکوائری کے دوران بین الاقوامی تعاون کے لئے مختلف ممالک کو خطوط لکھے منی ٹریل ثابت کرنے کے لئے یو اے ای کی دستاویزات موجود ہیں۔۔

واجد ضیاسمیت 16گواہ کیا کرنیوالے ہیں؟؟تہلکہ خیز خبر

اسلام آباد (آئی این پی) احتساب عدالت نے وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار پر اثاثہ جات ریفرنس میں فرد جرم عائد کردی‘ وزیر خزانہ نے صحت جرم سے انکار کردیا‘ جبکہ سینیٹر اسحاق ڈار کے وکیل نے فوری فرد جرم عائد کرنے کی مخالفت کی ‘ نیب کی طرف سے عدالت میں 16گواہوں کی فہرست جمع کرائی گئی ہے جس میں پانامہ کیس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاءبھی شامل ہیں ، وزیر خزانہ کی طرف سے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست بھی دیدی گئی‘ عدالت نے کیس کی سماعت 4اکتوبر تک ملتوی کرتے ہوئے آئندہ سماعت پرعدالت پیش ہونے کیلئے استغاثہ کے گواہوں کو نوٹس جاری کردیئے ‘ وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار کو طویل انتظار کے بعد جوڈیشل کمپلیکس کے عقبی دروازے سے داخل کیا گیا‘ جوڈیشل کمپلیکس کا مرکزی دروازہ بند ہونے کے باعث وکلاءاور صحافی دیواریں پھلانگ کراحاطہ عدالت میں داخل ہوئے۔ بدھ کو اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس کی سماعت کی۔ نیب پراسیکیوٹر کی طرف سے عدالت کو سینیٹر اسحاق ڈار کے خلاف بنائی گئی چارج شیٹ فراہم کی گئی اور اس چارج شیٹ کے ساتھ 16گواہوں کی ایک فہرست بھی لگائی گئی جن کے نیب نے بیانات ریکارڈ کررکھے ہیں۔ سینیٹر اسحاق ڈار کے وکیل امجد پرویز نے عدالت سے استدعا کی کہ فرد جرم فوری طور پر عائد نہ کی جائے کیونکہ ابھی تک بنائے گئے ریفرنس کا تفصیلی مطالعہ نہیں کیا جاسکا اور عدالتی تاریخ میں اس طرح کا کوئی کیس نہیں ملتا جس میں 48گھنٹوں کے اندر فرد جرم عائد کی گئی ہو۔ عدالت نے فرد جرم عائد کرنے میں کچھ وقت دینے کی استدعا مسترد کردی اور فاضل جج محمد بشیر نے سینیٹر اسحاق ڈار کے خلاف الزامات پڑھ کر سنائے جس پر اسحاق ڈار نے الزامات کی صحت سے انکار کردیا اور کہا کہ وہ اپنے اوپر لگنے والے الزامات کا دفاع کریں گے اور عدالت میں اپنی بے گناہی ثابت کریں گے۔ میرے اثاثے میری آمدن سے مطابقت رکھتے ہیں اور تمام اثاثے میں نے جائز طریقے سے بنائے ہیں۔ نیب پراسیکیوٹر کی طرف سے جمع کرائی گئی گواہان کی فہرست کی روشنی میں عدالت نے آئندہ سماعت پر دو گواہوں کو طلبی کے نوٹس جاری کردیئے اور ان دونوں گواہوں کا تعلق لاہور سے ہے اور یہ بنکنگ سیکٹر سے ہیں۔ عدالت میں سینیٹر اسحاق ڈار کے وکیل کی طرف سے 50لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے بھی جمع کرائے گئے۔اس دوران عدالت نے وزیر خزانہ سے آئندہ سماعت پر حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کی جس پر اسحاق ڈار نے یقین دہانی کرائی کہ وہ عدالتی حکم کی ہر صورت تعمیل کرینگے ۔ وزیر مملکت کیڈ طارق فضل چوہدری نے کہا ہے کہ اسحاق ڈار کی استدعا کو نہیں سنا گیا‘ فرد جرم عائد کرنے سے پہلے سات روز کا وقت دیا جاتا ہے‘ عدالت نے دو گواہوں کو چار اکتوبر کو طلب کیا ہے‘ ہم صرف زبانی قانونی کی حکمرانی کی بات نہیں کرتے بلکہ عملی طور پر عدالتوں کا سامنا کررہے ہیں‘ میڈیا کے احاطہ عدالت میں جانے کا فیصلہ عدالت نے کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسحاق ڈار عدالت میں پیش ہوئے ہمارے وکیل نے جج سے استدعا کی کہ نیب قوانین کے مطابق جب ریفرنس دائر کیا جاتا ہے تو اس کی کاپی دی جاتی ہے اور سات دن کا ٹائم دیا جاتا ہے اس کے بعد فرد جرم عائد کی جاتی ہے اس کے لئے انہوں نے مختلف عدالتوں کے فیصلے ریفرنس کے طور پر پیش کئے جس میں 48گھنٹے میں آپ فرد جرم عائد نہیں کرسکتے لیکن جج نے ہماری استدعا کو نہیں سنا اور اسحاق ڈار پر فرد جرم عائد کردی گئی ہے اس کے بعد عدالت نے دو گواہوں کو طلب کیا ہے چار اکتوبر کو جس کے بعد کیس کو آگے لے کر چلا جائے گا۔

پانامہ تحقیقاتی رپورٹ کے اہم نکات،جان کر آپ بھی حیران ہو نگے

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)وزیراعظم اور ان کے بچوں کے خلاف پاناما لیکس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اپنی حتمی رپورٹ میں کہا ہے کہ وزیر اعظم اور ان کے بچوں کے رہن سہن اور معلوم آمدن میں بہت فرق ہے۔پاناما لیکس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اپنی حتمی رپورٹ پیر کو سپریم کورٹ میں جمع کرائی ہے۔جے آئی ٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس ضمن میں وزیراعظم اور ان کے بچوں کو بلایا گیا اور ان کے بیانات سے جو بات سامنے آئی وہ یہ ہے کہ ان کے طرززندگی اور معلوم آمدن میں بہت فرق ہے۔اس کے علاوہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھاری رقوم کو قرض یا تحائف کی صورت میں دینے سے متعلق بے قاعدگیاں پائی گئی ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مدعا علیہان تحقیقاتی ٹیم کے سامنے رقوم کی ترسیل کے ذرائع نہیں بتا سکے۔رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ اس ضمن میں جب حسن نواز اور حسین نواز سے رقوم کے بارے میں دریافت کیا گیا تو وہ تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔جے آئی ٹی نے اپنی حتمی رپورٹ میں کہا ہے کہ مدعا علیہان کی برطانوی کمپنیاں شدید نقصان میں ہونے کے باوجود بھاری رقوم کی ترسیل میں ملوث تھیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس لیے استعمال ہو رہی تھیں تاکہ ایسا محسوس ہو کہ ان برطانوی کمپنیوں کے کاروبار سے حاصل ہونے والی رقم کی مدد سے برطانیہ میں مہنگی جائیدادیں خریدی گئی ہیں۔

جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا نے برطانیہ میں کس سے کام لیا ؟

لندن‘ لاہور (خصوصی رپورٹ) پانامہ کیس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی جی کے سربراہ واجد ضیا نے یوکے میں جے آئی ٹی کیلئے پی ٹی آئی کے طرفدار اپنے کزن کی خدمات حاصل کی ہیں۔ ان کے کزن کو پاکستانی ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے ادائیگی بھی کی گئی۔ اختر ریاض کوئسٹ سولیسٹر کے نام سے ایک کمپنی کے مالک ہیں جن سے ہزاروں پاﺅنڈز کی ادائیگی سے بے معنی خطوط لکھوائے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ اختر ریاض اور ان کی اہلیہ تحریک انصاف کے متحرک ممبرز ہیں اور اس حقیقت سے واجدضیا بھی بخوبی واقف ہیں۔ جے آئی ٹی کے ذرائع نے اس خبر کی تصدیق کی ہے کہ اختر راجہ کو واجد ضیا کی خصوصی ہدایت پر ہائر کیا گیا۔ واجد ضیا نے جے آئی ٹی ممبرز کو بتایا کہ ان کا کزن قابل اعتماد شخص ہے اور اعلیٰ پیشہ ورانہ صلاحیتیں رکھتا ہے۔ جے آئی ٹی کے ایک رکن کا کہنا ہے کہ واجدضیا نے واضح طور پر اپنے کزن کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی تاکہ وہ جے آئی ٹی کی جانب سے برطانیہ میں مختلف اداروں کو نوازشریف کے بچوں کے حوالے سے خطوط لکھ سکیں۔ اختر راجہ ماضی میں دہشت گردی کے معاملات کو ڈیل کرتے رہے ہیں اور مالی یا منی لانڈرنگ کے حوالے سے کوئی تجربہ نہیں رکھتے۔ تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ اختر راجہ اور واجدضیا فرسٹ کزنز ہیں اور دونوں اصل میں مری‘ راولپنڈی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اختر راجہ کو واجدضیا کے انکل نے گود لیا تھا کیونکہ واجدضیا کے انکل کی اپنی اولاد نہیں تھی۔ معلوم ہوا ہے کہ اختر راجہ کم عمری میں ہی یوکے شفٹ ہو گئے تھے۔ انہوں نے اپنی اور واجدضیا کی مشترکہ کزن سے شادی کر رکھی ہے۔

جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاءکیلئے سب سے اہم خبر

اسلام آباد (خصوصی رپورٹ) جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا کو اعلیٰ اختیاراتی سلیکشن بورڈ کے آئندہ اجلاس میں ترقی دیئے جانے کا امکان ہے۔ اعلیٰ اختیارات سلیکشن بورڈ کا اجلاس اسی ماہ کسی بھی وقت طلب کیا جاسکتا ہے جو وزیراعظم نوازشریف کی زیرصدارت ہوگا۔ ذرائع کے مطابق سلیکشن بورڈ کے اجلاس میں سیکرٹری کابینہ ڈویژن‘ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ اور سیکرٹری ٹو وزیراعظم شرکت کریں گے۔ ذرائع کے مطابق واجد ضیا کا تعلق پولیس سروس گروپ سے ہے اور ان کا 16واں کامن بنتا ہے۔ ان کا شمار پولیس سروس کے سینئر افسران میں ہوتا ہے۔ واجد ضیا نے یکم نومبر 1988ءکو سول سروس کا آغاز کیا اور اس وقت گریڈ 21 میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان کو مئی 2015ءمیں سینٹرل سلیکشن بورڈ کے اجلاس میں گریڈ 21 میں ترقی دی گئی تھی اور گریڈ 21 میں ان کی مدت ملازمت کے دو سال مکمل ہوچکے ہیں جو گریڈ 22 میں ترقی کے لئے ضروری ہے۔ ذرائع کے مطابق سلیکشن بورڈ کے اجلاس میں گریڈ 21 کے 20 کے قریب افسران کو گریڈ 22 میں ترقی دی جائے گی۔ جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا 27 مارچ 2022ءکو ریٹائرڈ ہوجائیں گے۔