Tag Archives: WORLD

دنیا کے 7 بڑے شہروں کی تباہی، صرف 24 گھنٹے باقی

اسلا م آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) امریکہ سات بڑے شہر آوارہ سیارے نبیرو کی زد میں ہیں، تفصیلات کے مطابق آوارہ سیارہ نبیرو، جسے پلینٹ ایکس بھی بولا جاتا ہے، کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ زمین کی طرف بڑھ رہا ہے اور ظاہر ہونے کے بعد تباہی پھیلا دے گا اس کی پیش گوئیاں کئی عرصے سے کی جاتی رہی ہیں ہیں مگر اب بتایا جا رہا ہے کہ یہ سیارہ ہفتہ 23 ستمبر 2017 کو کرہ ارض سے ٹکرانے جا رہا ہے، اور اس سے امریکہ کے سات بڑے شہر متاثر ہوں گے،واضح رہے کہ شہر تباہی کا زیادہ سامنا کریں گے۔

علم النجوم واعداد کے ماہر ڈیوڈ میڈ کا ڈیلی سٹار کی رپورٹ میں کہنا ہے کہ سیارہ نبیرو پہلی دفعہ 23 ستمبر کے روز ظاہر ہوگا جس کے بعد زمین پر تباہی و بربادی کا خوفناک سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ اس سیارے نبیرو کی وجہ سے آنے والی تباہی کی پیشگوئیاں کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اگر یہ زمین سے براہ راست نہ بھی ٹکرایا تو اس کی کشش ثقل اتنی زیادہ ہوگی کہ زمین کے قطبین کا رخ تبدیل ہوجائے گا اور دنیا بھر میں زلزلے اور سونامی آئیں گے جبکہ آتش فشاں بھی پھٹ پڑیں گے۔ زمین کی جانب بڑھتے ہوئے اس تباہ کن سیارے کی تباہی کا دعوٰی کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یورپ اور امریکہ کے کچھ حصے زیادہ متاثر ہوں گے اور خصوصاً نیویارک، شکاگو، سان فرانسسکو، لاس اینجلس، اوکلینڈ اور سیاٹل اس تباہی کا نشانہ بنیں گے۔ ڈیوڈ میڈ نے سیارے نبیرو کی وجہ سے آنے والی تباہی سے بچنے کے لئے بھی کچھ مشورے دئیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ آفت نازل ہونے سے پہلے آپ کو یقینی بنانا چاہیے کہ آپ کسی بھی بڑے شہر کے آس پاس نہ ہوں۔ انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ خصوصاً لاس اینجلس، نیویارک یا شکاگو جیسے شہروں میں رہنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ ڈیوڈ میڈ نے دیگر خطرناک شہروں میں سان فرانسسکو اور واشنگٹن کو بھی شامل کیا ہے۔یاد رہے کہ سیارے نبیرو کے ظہور کے متعلق اس سے پہلے بھی کئی تاریخیں دی جا چکی ہیں مگر اب تک وہ ظاہر نہیں ہو سکا اس کے علاوہ خلائی تحقیق کے امریکی ادارے ناسا نے اس سیارے کے وجود کی کبھی تصدیق نہیں کی ہے، واضح رہے کہ اس سے قبل بھی دنیا کے خاتمے کی متعدد پیش گوئیاں کی جاتی رہیں کہ جن پر ضعیف العتقاد لوگوں کا شدید ردعمل سامنے آتا رہا ہے، ایسی پیش گوئیوں پر یقین رکھنے والے افراد میں شدید خوف و ہراس پایا جا رہا ہے اور ہزاروں کی تعداد میں ان شہروں سے لوگوں نے نقل مکانی شروع کر دی ہے۔

دنیا ختم ہونے میں صرف 14دن باقی ۔۔!

کراچی (خصوصی رپورٹ) امریکہ میں سازشی نظریات کا پرچار کرنے والے مصنف ڈیوڈ میڈ نے سورج گرہن کے بعد پیش آنے والے واقعات کا ذمہ دار موت کے سیارے کو قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ 23ستمبر کو دنیا تباہ ہوجائے گی کیونکہ موت کا سیارہ زمین سے ٹکرا جائے گا۔ برطانوی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق اگرچہ ڈیوڈ میڈ کی پیش کردہ تھیوری سے کسی سائنسدان نے اتفاق نہیں کیا لیکن ان کی پیش کردہ رپورٹ کی وجہ سے کئی لوگ حیران و پریشان نظر آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ موت کا سیارہ فی الوقت خفیہ ہے اور اس کا نام نبیرو (Nibiru) ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ موت کا کھیل 23 ستمبر کو اس وقت شروع ہو جائے گا جب نبیرو آسمان پر نظر آنا شروع ہوگا۔ ایک ریڈیو چینل پر انٹرویو دیتے ہوئے ڈیوڈ میڈ کا کہنا تھا کہ انہوں نے پیرس میں ایک ماہر فلکیات پروفیسر سے تبادلہ خیال کیا ہے اور انہوں نے بھی نبیرو سیارے کو حقیقت قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ بائبل اور اہرام مصر سے حاصل ہونے والے فلکی چارٹ سے بھی نبیرو کی سچائی کی تصدیق ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ نبیرو کو Planet X بھی کہا جاتا ہے جو زمین سے ٹکرا کر نسلِ انسانی کو ختم کر دے گا اور آفات اسی تباہی کی شروعات ہیں۔ ڈیوڈ میڈ کی اس پیش گوئی کے بعد سے کئی لوگوں نے انٹرنیٹ پر اس حوالے سے معلومات حاصل کرنا شروع کر دی ہیں اور ان کی یہ خبر تیزی سے وائرل ہوگئی ہے۔

دنیا کے وہ ممالک جہاں رہنا سب سے زیادہ سستا ہے

لندن(خصوصی رپورٹ)دنیا کے پچاس سستے ترین ممالک میں سے پچاسویں نمبر پر یورپی ملک بیلارس ہے، جہاں نیویارک کی نسبت گھروں کا کرایہ تقریبا 85 فیصد کم ہے اور ضروری اشیا کی قیمتیں تقریبا 67 فیصد کم ہیں۔ یہ ملک مشرقی یورپ میں واقع ہے اور اس کی سرحدیں پولینڈ، یوکرین اور روس کے ساتھ ملتی ہیں۔ اس کے دارلحکومت میں بہترین زندگی گزارنے کے لئے فی کس ماہانہ کرایہ 440ڈالر اور دیگر ماہانہ اخراجات 450 ڈالر ہوسکتے ہیں۔ انچاسویں نمبر پر یورپی ملک پیرو ہے، جس کے دارالحکومت لیما میں اوسط کرایہ 427 ڈالر اور دیگر اخراجات 490 ڈالر ہیں۔ اس کے بعد 48 ویں نمبر یورپی ملک لتھوانیا ہے جہاں زندگی گزارنا دیگر کئی یورپی ممالک کی نسبت خاصا سستا ہے۔ سینتالیسویں نمبر پر کروشیا اور 46 ویں نمبر پر سستا ترین ملک مراکش ہے۔ان پانچ ممالک سے بھی سستے ممالک کی بات کریں تو بالترتیب لیٹویا، پرتگال، مصر، آرمینیا، فلپائن، بنگلہ دیش، روس، ہنگری، شام، سلووینیا، جرمنی، تیونیسیا، سپین، اسٹونیا، ترکی، برازیل، جارجیا، نیپال، البانیا، مونٹی نیگرو، الجیریا، یوکرین، آذربائیجان، میکسیکو، رومانیہ، بلغاریہ، یونان، سربیا، ملائیشیا، چلی، مالدووا، پاکستان، کولمبیا، پولینڈ، بوسنیا اینڈ ہرزیگووینا، مقدونیہ، چیک ری پبلک، پیراگوائے، عمان، زیمبیا، قازقستان، سعودی عرب، کسوووو، بھارت اور جنوبی افریقہ کا نمبر آتا ہے۔تو اس فہرست کے مطابق جنوبی افریقہ سستا ترین ملک قرار پایا ہے۔ اس کے دارالحکومت کیپ ٹان میں اوسط ماہانہ اخراجات 400ڈالر (تقریبا 40 ہزار پاکستانی روپے) سے کم ہیں، جبکہ ڈربن جیسے شہر میں ایک بیڈروم کرائے پر لینے کے ماہانہ اخراجات اوسطا 280 ڈالر (تقریبا 28ہزار پاکستانی روپے) ہیں۔

مستقبل میں دنیا کی قسمت کے فیصلے کون کریگا ….جان کر آپ بھی حیران رہ جائیں گے

روم (ویب ڈیسک) ایشیاءبلاشک و شبہ اس مقام پر پہنچ گیا ہے جہاں دنیا کی قسمت کا فیصلہ آئندہ چند برسوں میں ہونے والا ہے اور اٹلی طویل عرصہ سے اس صورتحال سے باخبر ہے، اٹلی چین کے ساتھ طویل المیعاد مضبوط تعلقات کا خواہاں ہے ، چین کے ساتھ اٹلی کے 27سالہ سفارتی تعلقات موجود ہیں اور اب اٹلی ان تعلقات کو طویل شراکت داری کے تعلقات میں بدلنا چاہتا ہے۔ان خیالات کا اظہار انٹرنیشنل سٹڈیز مرکز روم کے صدر اینڈریا مار گلینی نے اپنے ایک انٹرویو میں کیا ہے ۔یاد رہے کہ اٹلی کے صدر سرجیو متاریلا اپنے وفد کے ہمراہ آج کل چین کے دورے پر ہیں ، ان کے وفد میں وزیر خارجہ اینجلینو الفانو ٹرانسپورٹ کے وزیر برازیانو ڈیل ریو اقتصادی ترقی کے انڈر سیکرٹری آئی وان سکلفروٹو اور ایک کاروباری کے افراد بھی شامل ہیں ۔تجزیہ نگارکا کہنا ہے کہ اٹلی کے صدر کا یہ دورہ اٹلی اور چین کے تعلقات میں بڑی اہمیت کا حامل ہے ، اٹلی چین کے ساتھ جامع تعلقات کا خواہاں ہے اور آئندہ مئی میں اٹلی میں ہونیوالی جی 7-کانفرنس کے سلسلے میں چینی تعاون کا خواہش مند ہے ، اس پس منظر میں ہمیں یقین ہے کہ اٹلی کے صدر کا دورہ مستقبل کے تعلقات میں انتہائی اہم ثابت ہو گا بلکہ ان کے دورے سے تعلقات کے نئے دور کا آغاز ہو گا۔

صرف چھ ماہ میں دو کروڑ انسانوں کی ہلاکت کا خطرہ

جنیوا (ویب ڈیسک )دنیا کے چار مختلف خطوں میں قحط کے باعث صرف چھ ماہ کے اندر اندر دو کروڑ سے زائد انسانی ہلاکتوں کا خطرہ ہے۔ عالمی خوراک پروگرام کے مطابق یہ تعداد یورپی ملک رومانیہ یا امریکی ریاست فلوریڈا کی مجموعی آبادی سے بھی زیادہ ہے۔سوئٹزرلینڈ کے بر طا نو ی نیو ز ایجنسی کی رپورٹوں کے مطابق اقوام متحدہ کے عالمی خوراک پروگرام کے اعلیٰ ترین ماہر اقتصادیات عارف حسین نے کہا ہے کہ یمن، شمال مشرقی نائیجیریا اور جنوبی سوڈان میں جنگوں کے نتیجے میں نہ صرف اشیائے خوراک کی قیمتیں بہت زیادہ ہو چکی ہیں بلکہ اس صورت حال نے ہزارہا گھرانوں کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔عارف حسین نے ایک انٹرویو میں کہا کہ براعظم افریقہ کے مشرقی حصے میں خشک سالی مجموعی طور پر اس خطے میں زراعت کو تباہ کن حد تک شدید نقصانات سے دوچار کر چکی ہے۔عارف حسین کے مطابق، ”عالمی خوراک پروگرام سے بطور ایک ماہر اقتصادیات اپنے تعلق کے پچھلے قریب پندرہ برسوں میں کم از کم میں نے ایسا پہلی مرتبہ دیکھا ہے کہ اقوام متحدہ کی طرف سے دنیا کے چار مختلف خطوں کو بیک وقت قحط کے خلاف خبردار کیا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا، ”یہ بات ناقابل فہم ہے کہ آج اکیسویں صدی میں بھی دنیا اس حد تک خشک سالی اور قحط کا سامنا کر رہی ہے کہ ماہرین صرف چھ ماہ کے عرصے میں 20 ملین یا دو کروڑ سے زائد تک ممکنہ انسانی ہلاکتوں کے خلاف تنبیہ کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔“عارف حسین نے روئٹرز کو بتایا، ”اگر میں صومالیہ کی موجودہ صورت حال کو دیکھوں تو وہاں خاص طور پر اشیائے خوراک کی آسمان کو چھوتی ہوئی قیمتیں، مویشیوں کی قیمتوں میں شدید کمی اور زرعی شعبے کے کارکنوں کی اجرتوں میں بہت زیادہ گراوٹ اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ صومالیہ میں قحط کی وجہ سے انسانی ہلاکتوں کا المناک سلسلہ بہت جلد دیکھنے میں آ سکتا ہے۔“رپو رٹ کے مطابق بحرانوں، خشک سالی اور قحط کے شکار انسانوں کی مدد کرنے والے بین الاقوامی نظام کو پہلے ہی عالمی سطح پر بدامنی کے شکار ملکوں کے شہریوں کی طرف سے ترک وطن کے ایک تاریخی حد تک شدید رجحان کا سامنا ہے اور شام، عراق، افغانستان، مشرقی یوکرائن، برونڈی، لیبیا اور زمبابوے میں انسانی بنیادوں پر امدادی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔چھ ماہ میں قحط کی وجہ سے موت کے خطرے سے دوچار دو کروڑ سے زائد انسانوں میں بڑی تعداد میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں،ایسے میں دنیا کے چار مختلف خطوں میں کروڑوں انسانوں کی بھوک کے ہاتھوں ہلاکت کا خطرہ ایک ایسی المناک صورت حال ہے، جس نے بین الاقوامی امدادی اداروں اور ان کے کارکنوں کو مزید پریشان کر دیا ہے۔اس کے علاوہ ڈیموکریٹک ریپبلک کانگو، وسطی افریقی جمہوریہ، مالی اور نائجر کی مثالیں ایسے ممالک کی ہیں، جہاں اشیائے خوراک کی فراہمی کے حوالے سے حالات میں مستقل بے یقینی پائی جاتی ہے اور مقامی طور پر ان ملکوں میں ایسے وسائل بھی دستیاب نہیں کہ کسی طرح وہاں ممکنہ قحط کے تدارک کے لیے کوئی علاقائی حل نکالے جا سکیں۔