تازہ تر ین

نیب سے ایماندارکون؟, سپریم کورٹ کے بیان سے سب حیران

اسلام آباد (صباح نیوز)سپریم کورٹ نے بلوچستان میں کرپشن کے کروڑوںروپے برآمدگی پر کی جانے والی پلی بارگیننگ کرنے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے آبزرویشن دی ہے کہ اس کیس میں نیب کی طرف سے اپنایا گیا طریقہ کار نیب کے اختیارات کے خلاف ہے،نیب حکام اپنی خواہشات کے مطابق ملک کو فروخت کر رہے ہیں ۔عدالت نے کہا ہے کہ نیب قانون کے مطابق برآمد کی گئی رقم پر پلی بارگین نہیں کی جاسکتی تو اس کیس میں کیسے یہ اقدام اٹھایا گیا، عدالت نے کوئٹہ میں سابق مشیر وزارت خزانہ خالد لانگو اورسابق سیکرٹری داخلہ مشتاق رئیسانی سے رقم برآمدگی کے وقت نیب کے چھاپے کی ویڈیو اوردیگر تحریری ریکارڈ طلب کر لیاہے۔جسٹس دوست محمد خان کی سربراہی میں جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل عدالت عظمی کے تین رکنی بینچ نے زیر حراست سابق مشیر خزانہ بلوچستا ن نذیر خالد لانگو کی درخواست ضمانت کی سماعت کی۔ دوران سماعت عدالتی سوالات کا جواب نہ دینے پر عدالت نے چیئرمین نیب قمر زمان،اور پراسیکیوٹرجنرل نیب کی کارکردگی پرشدیداظہار برہمی کرتے ہوئے کہاہے کہ یہ پلی بارگین چیئرمین نیب کے خلاف انضباطی کاروائی کی بنیاد بن سکتی ہے۔کیس کی سماعت کا آغاز ہوا تو پراسیکیوٹرجنرل نیب نے عدالت کو آگاہ کیا کہ سابق سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کے ساتھ کی گئی پلی بارگین کا مکمل ریکارڈعدالت میںجمع کرادیا گیا ہے ، جسٹس قاضی فائز عیسی نے استفسار کیا کہ مشتاق رئیسانی کے ساتھ کی گئی پلی بارگین کے معاملہ میں چیئرمین نیب کی سفارشات کہاں ہیں، عدالت میں توصرف ایگزیکٹوبورڈ کے اجلاس کے منٹس جمع کروائے گئے ہیں،پراسیکیوٹر جنرل نے کہاکہ پلی بارگین، رضاکارانہ واپسی یا ریفرنس دائر کرنے کیلئے چیئرمین ہدایات دیتے ہیںقانونی طریقہ کار یہ ہے کہ بورڈ کے اجلاس میں چیئرمین نیب، پراسیکیوٹر جنرل،تفتیشی افسر اور ڈی جی شریک ہوتے ہیں اور چیئرمین بورڈ کو ریفرنسز و دیگر امورکی منظور یوں کے بارے میں بتاتا ہے ، جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہاکہ قانون مین یہ طریقہ کار موجود نہیں ہے آپ نے کوئی نیا طریقہ کار اپنایا ہے عدالت کو بتائیں کہ چیئرمین نیب نے کس دستاویز میں کہا ہے کہ پلی بارگین کو قبول کرلیں۔نیب حکام اور بینچ کے درمیان ایک ہی رکاوٹ ہے ہم ایک چیزمانگتے ہیں آپ اپنی مرضی کی چیز پیش کردیتے ہیں۔اس موقع پر چیئرمین نیب نے کہا کہ ان دستاویزات پر ان کے دستخط موجود ہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسی نے پراسیکیوٹرجنرل سے کہاکہ نیب آرڈیننس کا سیکشن 25کہتا ہے کہ پلی بارگین صرف آفر کی گئی املاک کے بارے میں ہوتی ہے قبضے میں لی گئی رقم پر پلی بارگین نہیں ہو سکتیں، قانون میں مخصوص حالات کا ذکر بھی ہے لیکن اس کیس مین کونسے مخصوص حالات تھے۔عدالت مین کوئی ایک بھی حقیقت نہیں پیش کی گئی،جسٹس قاضی فائز عیسی نے چیئرمین نیب کو طلب کیا تو چیئرمین قمرزمان چوہدری کا کہنا تھا کہ ان کی جگہ پراسیکیوٹر جنرل جواب دے رہے ہیں لیکن جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہاکہ آپ چیئرمین ہیں آپ کو ہی جواب دینا ہوگا۔اس موقع پر پراسیکیوٹر جنرل نے بتایا کہ مشتاق رئیسانی نے 2گھر،مرسیڈیز اور ٹیوٹا گاڑی سرنڈر کی ہیں، جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ نیب نے مشتاق رئیسانی کیساتھ پلی بارگین نہیں، بارگین کی ، چیرمین بتائیں کہ قبضے میں لی گئی جائیداد پر پلی بارگین کیسے ہوئی،ہم دیکھنا چاہتے ہیں گھر سے برآمد کی گئی رقم کتنی تھی اورکتنی رقم بعد میں سامنے کتنی لائی گئی ۔چیئرمین نے بتایا کہ 65کروڑ روپے نقدی، ساڑھے تین کلو سونا اور کی گاڑیاں ضبط کی گئیں، چیئرمین نے بتایا کہ مشتاق رئیسانی کے گھر سے 65کروڑ روپے جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ وہاں سے سونے کی اینٹیں بھی ملی تھیں چیئرمین نیب نے بتایا کہ 3.2کلوسونا بھی برآمد ہوا ،اور ہم نے سمجھا تھا کہ پلی بارگین سے جیل مین قید ملزم کیخلاف کیس مین مدد ملے گی، جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہاکہ آپ نے تو کہاہے کہ یہ ملزم کےخون پسینے کی کمائی تھی۔ایک سرکاری افسر کے گھر پر چھاپہ مارا گیا وہان سے رقم ملی اور اس افسر کو آپ رعایت دے رہے ہیں،چیئرمین نیب نے کہاکہ یہ قانون کا نظریہ ہے، جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہاکہ یہ نظریہ نہیں قانون کی بات ہے ۔جسٹس دوست محمد خان نے کیس کی سماعت ملتوی کرنا چاہی تو جسٹس قاضی فائز عیسی نے روکتے ہوئے انہیں کہاکہ اس کیس میں ہمیں اٹارنی جنرل کو بھی طلب کرنا ہوگا کیا یہ نیب کی ایمانداری ہے کہ اتنے ماہ سے ریفرنس دائر نہیں ہوا،ہمیں اس بات کا علم نہیں کہ انہوں نے خود کتنے پیسے لئے ہونگے۔ملزم کے گھر سے ملی رقم دراصل ملزم کی رقم نہیں، ملزم ایماندارلگتا ہے کیونکہ اس نے چوری تسلیم کی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہاکہ نیب نے اپنی اتھارٹی کا غلط استعمال کیا،ٹیکس کی رقم سے ہم اور آپ تنخواہ لیتے ہیں، ٹیکس کی رقم کا تحفظ ہم سب کی ذمہ داری ہے، ان کا کہنا تھا کہ چیئرمین نیب کیخلاف کاروائی کا کیس بنتا ہے،عدالت اس بارگین کے عمل میں شکوک و شبہات میں مبتلا ہے،انہوں نے کہا کہ نیب کو عدالت میں سچ بولنے میں کیوں مشکل پیش آتی ہے،آپ ہی کے کاغذات کے مطابق نیب نے اپنے ہی قانون و قواعد کی خلاف ورزی کی ہے، آپ اپنی خواہشات کے مطابق ملک کو فروخت کر رہے ہیں، چیئرمین نیب نے کہا کہ نیب کا پلی بارگین کا ضابطہ کار 12 سال پہلے طے کیا گیا،جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہاکہ چھاپے کے دوران ریکارڈ کی گئی ویڈیو بھی عدالت میں پیش کی جائے ،جس پرپراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ ان کے پاس ڈی وی ڈی موجود نہیں ہے تاہم میڈیا پر چلی تھی ، جس پرجسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ جب نیب حکام نے چھاپہ مارا کیا میڈیا کو دعوت دی گئی تھی کہ وہاں پہنچ گیا، کیا میڈیا سے کہیں کہ وہ نیب کی تحقیقات میں مدد کرے، جس پر ڈی جی نیب نے بتایا کہ چھاپے کی ٹکڑوں میںویڈیو موجود ہے تاہم مکمل ڈی وی ڈی موجود نہیں ہے ۔جس پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے طنزاکہا کہ نیب کی کارکردگی بہترین ہے ہم آپ کا موقف لکھ دینگے کہ نیب حکام یہ بات کہہ رہے ہیں، پہلے ویڈیو نہیں تھی اب آگئی ہے ، نیب حکام سچ بولنے سے کیوں ہچکچا رہے ہیں۔ عدالت نے چئیرمین نیب سے دوران سماعت اٹھائے گئے سوالات کا جواب طلب کرتے ہوئے سماعت 9فروری تک ملتوی کر دی۔


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain