تازہ تر ین

”پوری قوم کی نظریں جے آئی ٹی پر جمی ہیں“ نامورتجزیہ کار ضیاشاہد کی چینل ۵ کے مقبول پروگرام میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ پانامہ کیس میں حسین نواز کو کسی بھی رکن پر اعتراض کرنے کا پورا حق حاصل ہے لیکن اگر اس طرح سے لوگوں پر اعتراض کرنے لگیں تو پھر عمران خان، شیخ رشید اور سراج الحق کی طرف سے بھی بہت سے نام آ سکتے ہیں۔ عمران خان کی اس سوچ سے متفق نہیں ہوں کہ اگر ایک شخص سرکاری ملازم ہے تو وہ لازماً نوازشریف کی حمایت کرے گا۔ پرویز الٰہی نے ورکرز کنونشن میں اچھی بات کہی کہ ”جے آئی ٹی کے ارکان کے لئے بھی چیلنج ہے، پوری قوم ان کی پہرہ داری پر لگی ہوئی ہے۔“ انہوں نے کہا کہ مہذب و ترقی یافتہ ممالک میں یہ روایت رہی ہے کہ جب کوئی بڑا واقعہ پیش آتا ہے تو متعلقہ وزیر استعفیٰ دے دیتا ہے۔ پانامہ لیکس میں بھی برطانیہ سمیت 2 ممالک کے وزرائے اعظم نے استعفیٰ دیا۔ خواجہ سعد رفیق نے ضرور بند ہوتی ریلوے کو زندہ کیا ہے لیکن اکثر حادثات ہوتے رہتے ہیں جس پر وہ انکوائری بٹھا دیتے ہیں۔ جمہوریت کی روح یہ ہے کہ جس حکمران پر بات آئے وہ استعفیٰ دے دے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم قانونی ماہرین سے مشاورت کر رہے ہیں کہ استثنیٰ کی شقوں کو استعمال کرنا چاہئے یا نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ وزیراعظم کو استثنیٰ کے قانون کو استعمال نہیں کرنا چاہئے بلکہ خود کو احتساب کے لئے پیش کرنا چاہئے، اس میں ان کا وقار اور جمہوریت کی شان ہے۔ دنیا بھر کی نظریں ہمارے پانامہ کیس پر لگی ہوئی ہیں کہ ہمارے قومی اداروں اور عدالتوں میں جمہوری و آئینی روایات کی کس قدر پاسداری کی جاتی ہے ہمیں اس امتحان میں سرخرو ہونا ہے۔ محاورہ ہے کہ ”جنگ میں سب سے پہلا قتل سچائی کا ہوتا ہے۔“ ہمارے ہاں عدالتی، انتخابی یا سیاسی جنگ ہو سچ کا قتل ہونا ہی ہے اور ہو بھی رہا ہے۔ تمام سٹیک ہولڈرز کو گزارش کرنی چاہئے کہ دنیا ہماری طرف دیکھ رہی ہے، اب وہ دور نہیں کہ کسی بات کو چھپایا جا سکے۔ مانچسٹر حادثے کے فوری بعد دنیا بھر کے میڈیا نے شور مچا دیا کہ وہاں دھماکہ ہوا ہے۔ دعا ہے کہ سپریم کورٹ سرخرو ہو کیونکہ پانامہ کیس میں اس کا اپنا وقار و عزت داﺅ پر لگی ہوئی ہے کہ وہ خود کو شکوک و شبہات سے بالاتر ثابت کرتے ہیں یا نہیں؟ انہوں نے کہا کہ منگل کے روز وزیر داخلہ چودھری نثار اور وزیر مملکت مریم اورنگزیب نے پنجاب ہاﺅس میں سی پی این ای، اے پی این ایس اور براڈ کاسٹر کے عہدیداروں کو ڈان لیکس پر بریفنگ دی۔ تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔ محسوس ہوا کہ حکومت خاص طور پر وزیر داخلہ ابھی کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔ چودھری نثار نے تسلیم کیا کہ دونوں طرف کے لوگوں سے پوچھ گچھ کی۔ کسی کو گرفتار نہیں کیا اور نہ ہی پولیس کے ذریعے کسی کو اٹھایا گیا۔ وزیر داخلہ نے بتایا کہ وزیراعظم ہاﺅس اسلام آباد کے ایک ذمہ دار اہلکار اور وزیراعلیٰ پنجاب کی میڈیا سیل ٹیم کے ایک اہلکار دونوں کو بلایا جبکہ کوئٹہ سے تحریک انصاف کے 3,2 لوگوں کو بھی بلایا، صرف پوچھ گچھ کی گئی۔ ابھی سوچ رہے ہیں کہ اس نوعیت میں حکومت کیا اقدامات لے سکتی ہے۔ مختلف سوالوں کے جواب میں چودھری نثار نے کہا کہ سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد کے حوالے سے دقت پیش آ رہی ہے کہ ملک کے اندر سے جو مواد اپ لوڈ کیا جاتا ہے اس پر تو کسی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے لیکن دوسرے ممالک کی مختلف کمپنیاں جو مواد اپ لوڈ کرتی ہیں ان کو زبردستی کیسے روکا جا سکتا ہے؟۔ تجزیہ کار نے کہا کہ سوشل میڈیا پر خلاف اسلام، فوج یا عدلیہ کے حوالے سے جو مواد پھینکا جا رہا ہے اس کے سدباب کے لئے جو کچھ بھی ہو سکتا ہے حکومت کو کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ضابطہ اخلاق ایک رضا کارانہ عمل ہے، اس میں آئین و قانون کی طرح سزا نہیں ہوتی۔ جس نے غیر قانونی کام کیا ہے، کوئی جھوٹی خبر شائع کی ہے تو اس کے خلاف عدالت میں جائیں اور تادیبی کارروائی کریں۔ جسٹس عامر رضا نے عجیب و غریب آسمانی حکم جاری کرتے ہوئے ڈان لیکس جیسی خبروں پر ضابطہ اخلاق بنانے کے لئے اے پی این ایس کو ریفر کر دیا ہے جس کا اس سے کوئی تعلق ہی نہیں جبکہ یہ سی پی این ای کا کام ہے۔ انہوں نے کہا کہ خبریں سن رہا ہوں کہ بجٹ میں بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا کیونکہ گردشی قرضے بڑھ گئے ہیں۔ کاش اسحاق ڈار ایسا نہ کریں۔ بجلی کی قلت اور مہنگائی کی وجہ سے لوگ پہلے ہی مر رہے ہیں۔ قیمت میں اضافہ سے مزید مریں گے۔ اگر حکومت کوئی ایسا قدم اٹھائے تو اپوزیشن کو ڈٹ جانا چاہئے لیکن اپوزیشن اس ملک میں پہلے ہی 90 فیصد حکومت کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ خورشید شاہ کبھی اپوزیشن لیڈر ہوتے ہیں تو کبھی نوازشریف کے ساتھ کھڑے دکھائی دیتے ہیں کہ ہم نے جمہوریت بچانی ہے۔ مفاد اپنا ہوتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ وسیع تر قومی مفاد میں یہ کام کر رہے ہیں۔ خورشید شاہ نے چند روز پہلے دعویٰ کیا کہ ”ہم نے دھرنے کے موقع پرنواز حکومت کو بچایا، وہی خورشید شاہ 2 روز قبل خواتین کو پنکھے پکڑا کر احتجاج کر رہے تھے۔ پی پی کی سینٹ میں اکثریت ہے وہ وہاں بجلی و پانی کے وزیر کو بلا کر شکایات کیوں نہیں کرتے؟ ارکان اسمبلی ویسے آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں لیکن تنخواہ میں اضافے کی بات پر سب متفق ہیں۔ ان کو مطالبہ کرنا چاہئے کہ سٹیٹ بینک تمام بینکوں کو حکم دے کہ ایم این ایز، ایم پی ایز اور سنیٹرز کو 40 کروڑ روپے کے ایسے قرضے دئے جائیں جو بعد میں معاف کروا لئے جائیں۔ ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے تجزیہ کار نے کہا کہ ایک دفعہ میرے اخبار میں ”پنجاب اسمبلی کے گونگے و بہرے اراکین“ کے عنوان سے ایک لسٹ شائع ہوئی۔ جس میں بتایا گیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جوکئی مرتبہ اسمبلی کے رکن بنے۔ لیکن کبھی اٹھ کرکھڑے نہیں ہوئے، کبھی کوئی عوامی مسئلہ نہیں اٹھایا، کبھی کسی بل پر اظہارخیال نہیں کیا، کبھی کسی صورتحال پر توجہ نہیں دلائی لہٰذا یہ گونگے و بہرے اراکین ہیں۔ اس پر میرے خلاف تحریک استحقاق جمع ہو گئی۔ ان کے بلانے پر میں گیا تو انہوں نے کہا کہ آپ کو 6 ماہ کی سزا دے سکتے ہیں جس پر میں نے کہا کہ استحقاق کمیٹی سزا نہیں دے سکتی یہ کام صرف عدالت کر سکتی ہے۔ آپ صرف حقائق بیان کرنے کے لئے کسی کو بلا سکتے ہیں۔ یہ سارا فراڈ ہے۔ سمندر میں نہانے پر پابندی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پابندی لگانا خوش آئند ہے لیکن اس پر عملدرآمد کون کروائے گا۔ ملک میں صرف ایک ہی چیز نہیں ہے کہ قانون پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ اینٹی کرپشن کے قانون کے مطابق وہ کسی 17 ویں یا اس سے اوپر کے گریڈ کے افسر کا ٹرائل نہیں کر سکتے وہ صوبے کے چیف سیکرٹری کو ٹرائل کی اجازت کے لئے خط لکھتے ہیں جس کا 10,10 سال جواب ہی نہیں آتا۔ جب بھی گرفتار ہوتا ہے تو کوئی چھوٹا افسر ہی ہوتا ہے البتہ اگر حکومت کسی کو پکڑوانا چاہے تو پھر قانون حرکت میں آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کہا جاتا ہے کہ اگر کنارے پر کھڑے ہو کر چاند کی روشنی میں مسلسل سمندر کی طرف دیکھا جائے تو دل کرتا ہے کہ اس میں چھلانگ لگا دیں، اس پر بہت تحقیق بھی ہوئی ہے۔ یہ خاص کیفیت ہے جو خاص طور پر چاند کے بڑھنے اور کم ہونے سے تعلق رکھتی ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما نعیم الحق نے کہا ہے کہ جے آئی ٹی پر مکمل اعتماد ہے۔ حسین نواز کا اعتراض بے معنی تھا۔ نوازشریف کو اخلاقی طور پر مستعفی ہو جانا چاہئے تھا۔ پانامہ پیچیدہ معاملہ ہے۔ عدالت کی رائے کا احترام کریں گے۔ یقین ہے کہ عدالت جے آئی ٹی پر کسی اثرورسوخ کو اثر انداز نہیں ہونے دے گی۔ انہوں نے کہا کہ امید ہے کہ جے آئی ٹی کے ارکان ایمانداری سے کام کریں گے، پوری قوم کی نظریں ان پر جمی ہوئی ہیں۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain