تازہ تر ین

میری کتاب کا مقصد قائداعظم کو سیاستدانوں کیلئے بطور رول ماڈل پیش کرنا ہے

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ یہ کتاب میری برسوں کی محنت کا نتیجہ ہے۔ میں مختلف وقتوں میں جو ٹی وی پر پروگرام کرتا تھا۔ پی ٹی وی پر ایک مدت تک 5 منٹ روزانہ قائداعظم کی زندگی کا ایک واقعہ بھی سناتا رہا ہوں۔ ان سارے برسوں میں جو بہت زبردست واقعات ان کی زندگی سے ملے جو مستند تھے ان کی روایت کسی بڑے بندے نے کی تھی مثال کے طور پر محترمہ فاطمہ جناح ان کی بہن، ان کے سیکرٹری کے ایچ خورشید، ان کے قریبی دوست اصفہانی صاحب اور ان کے دوسرے دوست مسلم لیگ کے بہت سے اکابرین جیسے بیگم رعنا لیاقت علی خان، لیاقت علی خان جو پاکستان کے پہلے وزیراعظم تھے یہ سارے واقعات میں نے ایک جگہ جمع کئے اور میرے ذہن میں تھا کہ یہ میرے نزدیک پاکستانی سیاست تک میں قائداعظم کا جو مقام ہے یہ وہی مقام ہے جو ایک تصویر جو ایک شخص بناتا ہے جو مصور کا مقام ہوتا ہے قائداعظم نے جس انداز میں یہ خاکہ بنایا اور اس خاکے میں جو نظام بنانا تھا جو محکمے بنانے تھے جو ادارے بنانے تھے وہ ہمارا کام تھا قائداعظم نے تو ملک لے کر دیا اور ایک سال کے اندر ان کی صحت اتنی خراب ہو گئی تھی کہ وہ اس دنیا سے چل بسے لیکن جو انہوں نے بڑی مشکل سے بیک وقت انگریز، ہندو سے لڑائی لڑی اور علمائے ہند کا جو موقف تھا بعد میں تاریخی حقائق نے غلط ثابت کر دیا۔ اور آپ کے سامنے مسلمان جو بیس کروڑ سے کہیں زیادہ ہندوستان میں آباد ہیں لیکن آپ کو پتہ ہے کہ جو پچھلے جو الیکشن ہوئے ہیں ان میں جو اسمبلیاں بنی ہیں ان میں جو جماعت کامیاب ہوئی ہے بی جے پی اس کے مودی سربراہ ہیں جو وزیراعظم بھی بنے ہیں ان کا نعرہ تھا کہ We Want no Muslim اس سے پہلے کانگریس دکھاوے کے لئے مسلمانوں کو بتانے کے لئے کچھ کانگرسی مسلمان رکھ لئے تھے۔ لیکن بی جے پی نے یہ نعرہ لگایا اور مسلمانوں کے خلاف نعرے لگایا کہ متحدہ کو موومنٹ بھی چلائی جگہ جگہ مسلمانوں کے خلاف فسادات ہوئے اس طرح جو انڈیا میں الیکشن کے بعد جو شکل بنی انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک بھی مسلمان اپنی اسمبلیوں میں نہیں چاہتے۔ گویا جو علمائے ہند نے حواب دیکھا تھا جو بڑے تھے حضرت مولانا مفتی محمود صاحب جو مولانا فصل الرحمن کے والد تھے ان کو عملاً شکست ہو گئی ان کی تھیوری ناکام ہو گئی۔ اور ان کا یہ کہنا کہ ہم ہندو کے ساتھ مل کر چل سکتے ہیں جیسی وہاں مسلمانوں کی حالت ہے جس طرح یہاں سے جانے والے فنکاروں کو، کھلاڑیوں کو مارپیٹ کر نکال دیا اور انہیں انڈسٹری پر پابندی لگا دی کہ آپ پاکستان کے کسی اداکار یا اداکارہ، کسی گلوکار کو نہیں لے سکتے کسی موسیقار کو نہیں لے سکتے۔ پاکستان سے نصرت فتح علی خان ایک زمانے میں گئے تھے۔ زیبا بختیار کے شوہر عدنان سمیع گئے تھے۔ پاکستانی اداکاروں نے اچھی پرفارمنس بھی دی تھی لیکن انڈیا کی فلم انڈسٹری کے خلاف اتنا ہنگامہ ہوا۔ گلوکار غلام علی کو ان کے فنکشن میں ہنگامہ ہوا اور غلام علی کو زبردستی پاکستان بھیج دیا گیا۔ ان حالات میں یہ بات ثابت ہو گئی کہ قائداعظم کا یہ نظریہ کہ ہم کانگریس کے ساتھ مل کر نہیں چل سکتے درست تھا۔ انہوں نے پاکستان بنایا۔ پاکستان بننے کے بعد قائداعظم تو چل بسے لیکن بعد میں ہم لوٹ کھسوٹ شروع کی۔ سیاستدانوں نے کرپشن شروع کی اور غیر جمہوری حکومتیں آئیں پھر ایسی حکومتیں آئیں جنہوں نے پیسے کی بنیاد پر سیٹیں خریدنا شروع کیں۔ آج میں نے تقریب میں صرف کتاب میں سے صرف دو واقعات سنائے کہ جی ایم سید اس وقت قائداعظم کے ساتھ تھے اور جب پاکستان بننے سے پہلے عام انتخابات میں جی ایم سید سندھ سے کھڑے ہوئے انہوں نے قائد کو ایک خط لکھا کہ میرے مقابلے میں دو امیدوار ہیں ایک امیدوار کو میں نے منا لیا۔ اگر اس کو کچھ اخراجات دے دیئے جائیں دوسرے لفظوں میں اسے کچھ پیسے دے دیئے جائیں تو ہمارے حق میں دستبردار ہو جائیں گے قائداعظم نے ایک تار بھیجا جس کے الفاظ یہ تھے ”میں یہ سیٹ ہارنا پسند کروں گا بہ نسبت اس کے کہ میں سیٹ خریدوں۔ چنانچہ کتاب میں وہ واقعات جمع کئے ہیں۔ قائداعظم کی ایمانداری تھی کہ وہ مسلم لیگ کا ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کرتے تھے۔ وہ عوام کا ایک پیسہ بھی اپنے لئے حرام سمجھتے تھے۔ وہ اپنا، اپنی بیٹی اور اپنے پی اے کے اخراجات ان کے ٹکٹ ان کے ریل کے اخراجات، ان کے جہاز کے اخراجات ان کے کھانے کے اخراجات اپنی جیب سے ادا کرتے تھے۔ اور کوئی بچہ بھی 4 آنے کا چندہ بھیجتا تھا تو ان کے پرائیویٹ سیکرٹری کے ایچ خورشید کہتے ہیں کہ 4 آنے کی بھی رسید کاٹی جائے اور بچے کو بھجوائی جائے۔ جتنی نیٹ کلین، صاف ستھری اور کرپشن سے پاک زندگی گزاری اور ان کی زبردست وکالت تھی بعد میں جب وکالت چھوڑ کر انہوں نے فل ٹائم سیاست شروع کی مسلمانوں کے لئے تو قائداعظم شیئرز کا کاروبار بھی کرتے تھے اور قائد کا لباس بہترین ہوتا تھا، بہترین گھر ہوتا تھا۔ چار سال انگلینڈ میں وکالت کی وہ ٹاپ کے وکیل تھے۔ لیکن جو پیسہ کمایا وہ اپنی وفات کے بعد آپ اندازہ کریں کہ جس مدرسے کو دیا اس میں وہ پڑھتے تھے۔ سندھ مدرسة الاسلام پشاور کے اسلامیہ کالج کو دے دیا۔ ٹرسٹ بنا دیا غریبوں کے لئے یتیموں کے لئے اور انہوں نے پیسہ رشتہ داروں کے لئے بھی (جس طرح ہوتا ہے) نہیں دیا آج بھی ایک مقرر نے واقعہ سنایا کہ قائداعظم کے سگے بھائی احمد علی جناح ان کا نام تھا۔ قائداعظم جب گورنر تھے تو انہیں ملنے کے لئے قائداعظم کے سٹاف نے بتایا کہ ایک آدمی آیا ہے کہتا ہے میں قائداعظم کا بھائی ہوں آپ نے کہا کیا نام ہے انہوں نے کارڈ سامنے رکھ دیا اس میں لکھا ہوا تھا احمد علی جناح نیچے لکھا ہوا تھا برادر آف قائداعظم محمد علی جناح۔ انہوں نے کہا میں اس سے نہیں ملوں گا اور کہا کہ یہ کارڈ سارے ضائع کر دو اور تمہیں کسی جگہ حقق حاصل نہیں کہ تم جا کر کہا کہ میں گورنر جنرل کا یا قائداعظم کا، مسلم لیگ کے سربراہ کا سگا بھائی ہوں تا کہ وہ کسی جگہ جا کر ناجائز کام نہ کروا سکے۔ آج کے دور کے حکمرانوں کو دیکھو لوٹ کھسوٹ میں وہ سارے کے سارے ڈربے ہیں اورپیسہ یہاں سے لے کر باہر لے جا چکے ہیں ان کی اولادوں کو دیکھو وہ کتنے ٹھاٹ باٹ سے رہتی ہیں۔ بیمار ہوں تو پاکستان سے باہر علاج کرواتے ہیں ان کے بچے ملک سے باہر پڑھتے ہیں۔ یہ لوگوں کے فنڈ سے اربوں روپے لوٹ کر باہر لے جا چکے ہیں آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں۔ ان کی دنیا بھر میں جائیدادیں ہیں۔ ان کے علاج بیرون ملک ہوتے ہیں یہاں کے ہسپتالوں کی بری حالت ہے جو انہوں نے خود ہسپتال بنائے ہوئے ہیں۔ اپنا علاج ان میں کبھی نہیں کرواتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ میں نے آج جو کتاب پیش کی یہ ایک رول ماڈل ہے۔ قائداعظم اس لئے میں نے کہا عمران خان صدارت کے لئے بلایا ہوا تھا۔ وہ کلیم کرتا ہے کہ ایک نئی اور تبدیل شدہ اور کرپشن سے پاک فری کنٹری دے گا۔ میں نے علیم خان سے کہا کہ یہ کتاب اب ہر شخص کو جو ایم پی اے یا ایم این اے کا الیکشن آپ کی پارٹی کے ٹکٹ پر لڑنا چاہتا ہے اس کو یہ ایک کتاب دیں اسے کہیں وہ اسے پڑھے جب آپ اس کا انٹرویو کریں اس کا ٹکٹ دینا ہے یا نہیں تو اس سے پوچھیں قائداعظم پاکستان کو کیسا چاہتے تھے اور میں نے اس میں ایک واقعہ سنایا تھا میں نے کہا قائداعظم نے فرمایا تھا کہ اگر میرے بنائے ہوئے پاکستان میں غریب کو روٹی، محروم کو چھت اور مظلوم کو انصاف نہیں ملتا تو مجھے ایسا پاکستان نہیں چاہئے۔ میں نے یہ کہا تھا کہ قائداعظم سے پہلے جس برصغیر کے مسلم شاعر نے جس اُردو شاعری سے زیادہ فارسی شاعری دنیا میں مقبول ہوئی اور ایران میں کتابیں چھپیں وہ تھے علامہ سر محمد اقبال جنہوں نے پی ایچ ڈی کیا تھا اس زمانے میں جب کوئی پرائمری پاس ہوتا تھا تو اس کو سرکاری نوکری مل جاتی تھی۔ اس زمانے میں وہ پی ایچ ڈی ڈاکٹر تھے فلسفے میں ان کی ڈگری تھی۔وہ کیسا پاکستان چاہتے تھے ان کے کیا الفاظ تھے۔
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
جو نقش کہن تم کو نظر آئے ملا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے خوشہ گندم کو جلا دو
پاکستان تو اس لیے بنا تھا کہ کرہ ارض پر ہم ایک ایسی ریاست بنائیں گے جس میں اسلام کے فلاحی نظام کو رائج کریں گے جس کو سکنڈے نیوین کنٹری (ناروے اور سویڈن سے بھی زیادہ) جو فلاحی ریاست بنائیں گے جس میں آپ کو پتہ ہے وہاں بے روزگار کو روزگار ملتا ہے حکومت پیسے دیتی ہے اور وہاں ناروے میں ہمارے کچھ لوگوں نے پاکستانی ایک رسالہ نکال لیا ایک سال کے بعد کہا کہ اس میں ا تنا نقصان ہے کے ساتھ انہوں نے درخواست دے دی کے یہ اردو کا اخبار ہے حالانکہ وہ ماہنامہ تھا۔ یہ یہاں کے جو پاکستانی ہیںوہ پڑھتے ہیں لہٰذا ہمارے اخراجات حکومت دےخ جناب برسوں سے ہمارے دوست کا نام مسرور ہے وہ اکی شاعر ہے برسوں سے جو ان ماہنامہ پرچہ نکلتا ہے اس کے نقصان کا جو حساب بنایا گیا اور اتنے پیسے دئیے جائیں اس طرح سے جس ریاست کا عمران خان نے بتایا ہے کہ مدینہ کی فلاحی ریاست وہ فلاحی ریاست یہ تھی کہ حکمران رات کو بھیس بدل کر گلیوں میں پھرتے تھے کہ کہیں کوئی بھوکا تو نہیں ہے۔ کہیں کوئی مقروض تو نہیں۔ جونہی کسی کے گھر بچہ پیدا ہوتا تھا تو بیت المال سے اس کا دودھ لگ جاتا تھا۔ اخراجات بیت المال سے دیا جاتا تھا۔ چنانچہ غریبوں کے لیے کپڑا، محتاجوں کےلئے دو وقت کے اخراجات ریاست مہیا کرتی تھی۔ اس کو ویلفیئر ٹرسٹ کہتے ہیں۔
لہٰذا میں نے یہ کتاب اس لیے لکھی ہے کہ پاکستان میں قائداعظم ہمارے لیے رول ماڈل ہیں، ان کی ذات، اگر ہم قائد کی تعلیمات پر چلتے ہوئے اپنے آپ کو اس سانچے میں ڈھال لیں کہ بجائے اس کے کہ سرکاری فنڈز لوٹیں ہم اپنی جیب سے جو ہے وہ پیسے خرچ کر کے قوم کے فرائض پورے کریں، میں نے یہ بھی کہا کہ جن لوگوں کو قائداعظم نے ترتیب دی تھی ذرا ان کا انداز دیکھیں۔ کے ایچ خورشید جموں میں پڑھتے تھے اور بی اے کر کے آگے پڑھنا چاہتے تھے قائداعظم نے تین ماہ کی چھٹیوں کے لیے کشمیر گئے تو ان کو یہ نوجوان پسند آ گیا اور انہوں نے کہا کہ ان کے سیکرٹری فرانسس وہ پارسی تھے ان کو اردو نہیں پڑھتی آتی تھی قائدکے اتنے لیٹر وہاں موصول ہوئے تھے کہ سرینگر میں وہ پڑھ کر بتانے کےلئے انہوں نے کے ایچ خورشید کو کہا کہ تین مہینے تم مجھے پڑھ کر سنا دیا کرو قائداعظم روزانہ ان کو اردو میں جواب لکھواتے تھے تین ماہ کے بعد انہوں نے کہا تم میرے ساتھ چلو۔ تو ان کے والد نے کہا کہ میں اس کو ا یل ایل بھی کروانا چاہتا ہوں۔ قائداعظم نے کا کہ میں اس کو ایل ایل بھی کرواﺅں گا ان کو اپنے ساتھ لے گئے۔ 1943سے1947تک 4سال کے ایم خورشید قائد کے پرائیویٹ سیکرٹری رہے پاکستان بنا قائداعظم گورنر جنرل بنے وہ اس کے پرائیویٹ سیکرٹری تھے پر کسی مشن پر شیخ عبداللہ سے بات کرنے کے لئے کے ایچ خورشید کو کیونکہ وہ کشمیری تھے ان کو سری نگر بھیجا وہاں پولیس نے ان کو گرفتار کر لیا واپس نہیں کرنے دیا لیکن جب وہ واپس آئے اس وقت قائد کا انتقال ہو چکا تھا۔
آپ عظیم شخصیتوں اور ان کے گھرانوں کا کردار دیکھیں فاطمہ جناح نے یہ سوچ کر کے میرے بھائی نے اس نوجوان کو وعدہ کیا تھا فاطمہ جناح نے ان سے کہا کہ آپ تیاری کریں ان کا ٹکٹ فاطمہ جناح نے دیا اپنی جیب سے، قائد تو وفات پا چکے تھے ان کے اخراجات انہوںنے دئیے۔ ان کے ماہانہ اخراجات فاطمہ جناح نے برداشت کیے اور انہوں نے لندن سے وکالت کی اور وکیل بن کر واپس آئے۔ وہ ایوب کے زمانے میں آزاد کشمیر کے کچھ عرصہ کے لیے صدر رہے۔ آج کل چپڑاسی حکمرانوں کا ہوتا ہے ان کے مال و دولت کا اندازہ کریں۔ کے ایچ خورشید قائد کے سیکرٹری تھے ان کے پاس اپنے رہنے کے لیے گھر نہیں تھا۔ پوری عمر کرائے کے گھر میں رہے اور وہ میر پور واپس آ رہے تھے ویگن میں ان کو دل کا دورہ پڑا وہ انتقال کر گئے۔ ان کی جیبوں کی تلاشی لی تو پتہ چلا کہ یہ تو کے ایچ خورشید ہیں جو قائداعظم کے سیکرٹری تھے۔ یہ قائد کی تربیت کا اثر تھا کہ بے ایمانی، ناجائز لوٹ مار نہیں کرنی اپنی پوزیشن سے فائدہ نہیں اٹھانا۔
ضیا شاہد نے کہا کہ کسی لیڈر کے خلاف نہیں ہوں۔ کتاب کی تقریب رونمائی میں صدر ممنون حسین کو مدعو کیا تھا لیکن ایک مہینہ انتظار کرنے کے باوجود ان کے پاس وقت ہی نہیں تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ صدر اس لئے بنے ہیں کیونکہ قائداعظم نے یہ ملک بنا دیاتھا۔ ممنون حسین کے بھائی کی کپڑے کی دکان، بیٹے کی بھینسیں ہیں، رشتے داروں کی مٹھائیوں کی دکان ہے، کیا ایسا بندہ صدر کا حلف اٹھا سکتا تھا؟ انہوں نے کہا کہ کتاب کی تقریب رونمائی میں ساری جماعتوں کو بلوایا تھا لیکن الیکشن قریب ہونے کی وجہ سے سب میں اتنی مخالفت پیدا ہو گئی ہے، میں نے تقریب میں بات بھی نہیں کی۔ مسلم لیگ کے دو سینئر رہنماﺅں کو مدعو کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں ہمارے قائد نہیں چھوڑیں گے نہیں کہ عمران خان کی تقریب میں گئے۔ میں نے کہا کہ یہ عمران خان کی نہیں کتاب کی تقریب رونمائی ہے۔ عین وقت پر دوسری جماعتوں کے لوگوں نے گریز کیا۔ میرے خیال میں سچا اور کھرا لیڈر صرف قائداعظم تھے لہٰذا اب اگر کوئی ان کے نقش قدم پر چلتا ہے، باہر جائیدادیں نہیں خریدتا اور اس ملک کی خدمت کرتا ہے تو وہ قائداعظم کو فالو کر رہا ہے۔ اگر یہاں کے وسائل باہر لے کر جاﺅ گے، لوٹ مارکرو گے تو ملک کیسے ترقی کر سکتا ہے۔ چیف ایگزیکٹو آفیسر چینل ۵ اور ایڈیٹر خبریں امتنان شاہد نے کہا ہے کہ ضیا شاہد کی کتاب کی تقریب رونمائی میں جتنے بھی لوگ موجود تھے، سب سے تبادلہ خیال ہوا تو یہ بات سامنے آئی کہ پاکستان کے تمام لیڈران کے لئے قائداعظم عملی نمونہ ہونا چاہئیں۔ بانی پاکستان کے بارے ایسی کتب اول تو ملتی ہی نہیں اور جو ملتی ہیں ان میں ایسی کوئی تصدیق نہیں ہوتی کہ کس حد تک باتیں درست ہیں یا نہیں اس کتاب کی سب سے زیادہ ضرورت اس لئے تھی کہ نوجوان نسل کو قائداعظم کے بارے پڑھانا و بتانا چاہئے کیونکہ جب سے انٹرنیٹ و موبائل فونز کا زمانہ آیا ہے، تب سے قائداعظم کی شخصیت، سیاست، عمل، وکالت و کردار کے بارے قوم کا دھیان نہیں۔ دسویں جماعت تک قائد کے بارے پڑھایا جاتا ہے اس کے بعد کوئی ایسا مستند ریسرچ انسٹیٹیوٹ پاکستان میں موجود نہیں جو ان کے بارے تفصیلی معلومات فراہم کر سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ضیا شاہد کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، قائداعظم کی شخصیت بارے جس طریقے سے بتایا گیا اس قسم کی کتاب کہیں نظر نہیں آتی۔ 40,30 سالہ تاریخ میں ایسی کتاب نہیں دیکھی۔ انہوں نے کہا کہ تقریب میں عمران خان، شیخ رشید، حسن نثار، عارف نظامی، مبشر لقمان سمیت تمام لوگوں نے مجھے اور ضیا شاہد کو مبارکباد دی۔ یہ کتاب عظیم لیڈر قائداعظم کے بارے میں حقیقی طور پر ایک گائیڈ لائن ہے۔

 


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain