تازہ تر ین

مودی کی جیت ، ثابت ہو گیا بھارت سیکولر نہیں انتہا پسند ہندو سٹیٹ ہے : معروف صحافی ضیا شاہد کی چینل ۵ کے پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ ڈالر کے خلاف جو پاکستان میں محب الوطن عوام نے مہم چلائی ہے خوش آئند ہے۔ ایسی مہم کا فوری طور پر کوئی حل نہیں ہوتا ہے اور فوری اثر نہیں ہوتا۔ یہ ایک مسلسل عمل ہوتا ہے اور وقت لگتا ہے کہ لیکن اس سے ٹرننگ پوائنٹ آ جاتا ہے کہ سب سے پہلے تو اس مہم کا یہ نتیجہ نکلا کہ ایک سوچ کا نیا اینگل پیدا ہوا اور سوچ یہ زاویہ جو ہے وہ ایک عام آدمی کے ذہن پر ضرور اثر انداز ہوتا ہے اس کا جاننے والا بھی کوئی ہو گا۔ منافعکے لئے ڈالر حریدنے والے ان کے واقف کار، رشتہ دار عزیم دوست پڑوسی ہمسائے شہر دار ہوں گے۔ اس قسم کی جو تتعمیری اقدامات ہوتے ہیں اس کا فوری طور پر ایک سوئچ آف اور سوئچ آن کی طرح سے اثر نہیں ہوتا لیکن اثر بہرحال ہوتاہے۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ حکومت کوئی اقدام نہیں کیا جیسے اسحق ڈار کیا کرتے تھے کہ کچھ پیسہ ارینج کرتے تھے اور کچھ ڈالر اوپن مارکیٹ سے خرید کر استعمال کرتے تھے جس سے ڈالر کی قیمت جو تھی تھوڑی سی کم ہو جاتی تھی۔ مجھے اس قسم کی بھی کوئی شکل نہیں آتی تھی کیونکہ حکومت کہہ چکی ہے کہ ہم سبسڈائز کرنے میں یقین نہیں رکھتے۔ بس یہ سمجھتے میں حق بجانب ہوں گے کہ اگر دوچار دن میں ٹرینڈز جو ہیں وہ نیچے کی طرف آتےے رہے تو اس کا مطلب ہے لوگوں نے اس کا رسپانس لیا ہے اس کا یہ کمپین چل نکلی ہے اگر فوری طور پر اس کا رزلٹ سامنے آئے تو بھی یہ ضروری نہیں ہے کہ اس کو چھوڑ دیا جائے یہ کمپین ایک طرح سے ملک کے لئے بہتر ہے معاشرے کے لئے بہتر ہے اور رجحان کو بدلنے کے لئے بہتر ہے۔ میں حیران ہوں کہ آغاز بھی ڈالر سے شروع کیا ہے حالانکہ آج پاکستان پر ایک بم شیل کی طرح سے جو چیز نازل ہوئی ہے وہ مودی کی کامیابی ہے۔ مودی کو 262 سیٹیں چاہئے تھیں 350 سیٹیں اس کی ہو چکی ہیں اور مزید بڑھ رہی ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے جیسے تعلقات ہیں جس طریقے سے بار بار جنگ ہوتے ہوتے رہ جاتی ہے اور تین جنگیں ہو چکی ہیں میں سمجھتا ہو ںکہ آج ہمیں جس پر گفتگو کرنی چاہئے وہ بھارت میں مودی کی فتح ہے اور دوبارہ کانگریس کی شکست ہے اس سے دو چیزیں ظاہر ہوتی ہیں پوری دنیا میں یہ تاثر اور زیادہ واضح ہو گیا کہ یہ بھارت سیکولر سٹیٹ نہیں ہے بلکہ ایک ہندو سٹیٹ ہے۔ اس لئے کہ مودی واحد آدمی تھا جس نے کھلم کھلا یہ نعرے لگایا کہ ہمیں مسلم ووٹ نہیں چاہئیں۔ اس نے کسی جگہ پر مسلمان کو ٹکٹ ہی نہیں دیا اور اس کے برعکس کانگریس یا اس سے پہلے والی حکومتیں کچھ نہ کچھ سیٹیں مسلمان امیدواروں کو دے دیتی تھیں تا کہ اپنے آپ کو سیکولر کہہ سکیں کہ جی ہمارا تو مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہم تو سارے مذاہب کو ایک جیسا سمجھتے ہیں۔ دوسرے بات کہ جو حشر ہوا ہے مقبوضہ کشمیر میں الیکشن کا اور جس طرح سے 1.2 س لے کر 1.8 تک ٹرن آ?ٹ آیا ہے مختلف اضلاع کا اسش سے ظاہر ہوتاہے کہ کتنے بڑے پیمانے پر یعنی 100 میں سے 98 لوگوں نے واضح طور پر الیکشن کا بائیکاٹ کیا اس سے پیشتر یہ پوزیشن نہیں تھی۔ اس سے پیشتر 6 فیصد،12 فیصد، 15 فیصد تک ٹرن آ?ٹ ہوتا تھا اور لوگ الیکشن میں ووٹ دیتے تھے جس کی وجہ سے انڈیا بار بار یہ کہتا تھا کہ جناب وہاں تو اسمبلیاں بھی ہیں اور وہاں تو لوگ اپنی مرضی سے ووٹ دیتے ہیں اور کمبائنڈ انڈیا کے حق میں ووٹ دیتے ہیں اور یہ تاثر کہ لوگ انڈیا کو ری جیکٹ کر چکے ہیں لیکن موجودہ وسیع پیمانے پر بائیکاٹ نے یہ ثابت کر چکا کہ کم از کم کشمیر کے لوگ قطعی طور پر اس حق میں نہیں کہ وہ انڈیا کے زیر انتظام الیکشن کی کسی مہم میں حصہ لیں اور تیسری اور آخری بات یہ کہ اس میں ایک بہت بڑا فیکٹر کھل کر یہ سامنے آیا ہے کہ دیکھیں بائیس کروڑ مسلمانوں کا انڈیا میں ہونا جو تعداد پاکستان سے بھی زیادہ ہے اوران لوگوں کا اب قطعی طور پر مایوس ہونا کہ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہمیں آپ کا ووٹ نہیں چاہئے اس سے کیا ثابت ہوتا ہے میں آج کی بات نہیں کر رہا میںکوئی خواب دیکھنے والا آدمی نہیں ہوں لیکن میں دو اور دو کو جمع کر کے حساب لگانے والا آدمی ہوں کے چار ہوتے لہٰدا میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جو رزلٹ سامنے آئے ہیں مودی کی حکومت کے کلیئر کٹ ایک ایک متعصب، تنگ نظر اور انتہا پسند ہندو ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ کمبائنڈ انڈیا ہے اس میں ایک اور پاکستان ابھرے گا اس کا کوئی سا بھی نام ہو وہ ایک ایسی ریاست کے طور پر ابھرے گا جو ان 22 کروڑ مسلمانوں کو بھی تو نہیں جانا ہے اگر مودی کی پالیسی یہی رہی اور وہ انتہا پسندانہ ہندو ازم کے شکار بنے رہے تو یقینی طور اس بائیس کروڑ مسلمانوں نے بھی اپنا مستقبل دیکھنا ہے۔ چنانچہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ قائداعظم کا دو قومی نظریہ کے خلاف اندرا گاندھی جس نے کہا تھا کہ دو قومی نظریئے کی تھیوری کو بحر ہند میں غرق کر دیا تو معاف رکھنا آج وہ اگر زندہ ہوتی ان سے پوچھا جانا چاہئے تھا کہ بی بی کہاں دفن کر دیا وہ تو اور زیادہ ابھر کر نکھر کر واضح ہو کر چٹا اور کلیئر ہو کر روز روشن کی طرح سامنے آ گیا کہ یہ دو الگ الگ قومیں جو ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں۔ ضیا شاہد نے تیل کی قیمتوں میں اضافہ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک ایک کر کے وہ سارے راستے بند کئے جا رہے تھے جو کسی طرح سے حکومت کی مداخلت کا باعث بن سکتے تھے۔ اس کا مطلب ہے اوگرہ اور نیپرا اپنے طور پر قیمتوں کا تعین کرنے میں آزاد ہیں حکومت کو سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کرنا چاہئے تھا اس سے سارا بوجھ عوام پر پڑے گا اگر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں عید سے پہلے بڑھیں تو عوام کا تو کچومر نکل جائے گا۔ اور صحیح کہتے تھے اسد عمر کہ لوگوں کا بیڑا غرق ہو جائے گا ابھی ان کی چیخیں نکلیں گی۔ضیا شاہد نے کہا کہ مذہبی جذباتی فضا میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بند ہو جاتی ہیں اس طرح جیسے بابری مسجد کا واقعہ ہے میں یہ سمجھتا ہو ںکہ ہمیں مسلم ووٹ نہیں چاہئے والا نعرہ لگا کر ایک طریقہ سے مودی نے ثابت کر دیا کہ کشمیر سے تو شاید انہیں ہاتھ دھونا پڑے گا اب بھارت کے لئے کشمیر پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کا چانس نہیں ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت ہے کہ وہ مسلمانوں کو مائنس کر کے ہندو مذہب اور ہندو دھرم کو ساتھ لے کر چل کر وہ ہیرو بنیں اور اب وہ چونکہ ایک اکثریتی مذہب کے ہیرو ہیں لہٰدا اس حیثیت سے لوگوں نے جتنی بھی لبرل آوازیں تھیں ان کو مسترد کر دیا، ادیبوں شاعروں کی، ایکڑوں کی، کھلاڑیوں کی، کسی نے اس پر توجہ نہیں دی۔ لہٰذا مودی حکومت کی جو کامیابی ہے اس کے ساتھ ساتھ انتہاپسند ہندو ازم پر مبنی ایک سٹیٹ کا تاثر دیتی ہے مسلمانوں کے لئے مشکل ہو جائے گا اس کا ان کو فوری حل نہیں ملےے گا البتہ ایک بے چینی کی فضا پیدا ہو گی۔ 22 کروڑ مسلمانوں کو اپنا تاریک مستقبل نظر آ گیا ہے اور اس لئے میں کہہ رہا ہوں کہ دو قومی نظریہ ختم نہیں ہوا بلکہ زیادہ شدت کے ساتھ ہندوستان میں سامنے آیا ہے کہ ہندوستان کو مسلمانوں کو محسوس ہو گیا ہے کہ ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔بھارت کی عوام نے مودی کو دوبارہ اپنا وزیراعظم چن لیا ہے، مذہبی جذباتی فضا میں سوچ سمجھ کی صلاحیتیں ختم ہو جاتی ہیں، مار دو جلا دو کی کیفیت ہوتی ہے جس کی ایک مثال بابری مسجد کی شہادت ہے۔ ایسے حالات میں عقل سلیم کے بجائے بڑے بڑے فیصلے بھی محض جذبات کے تحت کئے جاتے ہیں جن کے نتائج مثبت نہیں آتے۔ نریندر مودی کی کامیابی نے بھارت کے بارے میں ایک انتہا پسند ریاست ہونے کے تاثر کو مضبوط کیا ہے اور اس کے سیکو لر ہونے کے دعوے کو زبردست دھچکا لگا ہے۔ بھارت کے عوام نے وہاں کے ادیبوں، شاعروں، فنکاروں کی آواز کو مسترد کرتے ہوئے مودی کو ووٹ دیا۔ بھارت میں عوامی سطح پر عدم تحفظ بڑھے گا مسلمانوںکی مشکلات میں اضافہ ہو گا۔ مودی نے یہ نعرہ لگا کرکہ مجھے مسلم ووٹ نہیں چاہئے ثابت کر دیا ہے کہ اب بھارت کو کشمیر سے تو منطقی طور پر ہاتھ دھونا پڑیں گے وہاں بھارتی تسلط کو مزید برقرار رکھنے کا کوئی چانس نہیں ہے۔ نریندر مودی بھارت میں انتہا پسند لیڈروں کے ہیرو بن کر سامنے آئے ہیں۔ دو قومی نظریہ ختم نہیں ہوا بلکہ بھارت میں یہ مزید شدت سے ابھر کر سامنے آیا ہے۔ مسلمانوں کو محسوس ہوا ہے کہ بھارت میں ان کا مستقبل محفوظ نہیں ہے۔ بقول شاعراسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہےاتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبا دیں گےبھارت میں بھی اسلام کو جتنا کچلنے کی کوشش کی جائے گا یہ اتنا ہی ابھرتا چلا جائے گا۔ کرغستان میں وزیرخارجہ شاہ محمود بھارتی ہم منصب کے ساتھ صوفے پر بیٹھے نظر آئے اور اس امید کا اظہار کیا کہ مذاکرات کی جانب بڑھا جائے۔ ابھی فوری طور پر تو مذاکرات ہوتے نظر نہیں آتے تاہم دونوں اطراف سے اس کے لئے راہ ہموار کرنے کی کوشش ضرور ہو گی۔ مودی سرکار بھی آخر کار اس نتیجے پر پہنچے گی کہ مذاکرات کو ٹالا نہیں جا سکتا اور کسی طرح سے تنا? میں کمی لانا چاہئے دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان تنا? کی کیفیت کو زیادہ دیر تک برقرار رکھنا مشکل ہے۔حریت کانفرنس کی کال پر دنیا بھر میں کشمیریوں نے بھارتی الیکشن کا بایکاٹ کر کے ثابت کر دیا کہ وہ بھارت کے ساتھ موجودہ شکل میں تو بالکل نہیں رہنا چاہتے۔بھارت میں 70 سال سے جمہوریت ہے اس لئے وہاں سیاسی جماعتوں کا مزاج جمہوری ہے اس بات کانگریس نے فوری انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ بھارتی الیکشن کے دوررس نتائج سامنے آئیں گے۔ الیکشن کی گرد بیٹھ جائے گی تو بھارتی انتخابات منفی نتائج کا پیش خیمہ ثابت ہوں گے۔ بھارت میں الیکشن ہو گئے اب بھی اگر پاک بھارت مذاکرات دوبارہ جاری نہیں ہوتے تو صورتحال خطرناک جانب بڑھ سکتی ہے۔ دونوں ملکوں کے لئے دو طرفہ مذاکرات ضروری ہیں کیونکہ پچھلے دنوں میں بیک باقاعدہ سرحدی جھڑپ بھی ہو چکی ہے۔ خاموشی کے نتائج خطرناک ہو سکتے ہیں آرمی چیف جنرل باجوہ نے چند روز قبل بیان دیا تھا کہ خاموشی کے پیچھے بڑا بحران جنم لے سکتا ہے۔


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain