تازہ تر ین

ڈالر کی قیمت میں اضافہ ، عوام کی مشکلات بڑھ رہی ہیں ، حکومت فوراً کوئی حل نکالے : معروف صحافی ضیا شاہد کی چینل ۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ اصولی بات تو یہی ہے کہ سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک ہونا چاہئے لیکن یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ خواتین کے خاص طور پر جب وہ لیڈر خواتین ہوں اور ان کا تعلق بلاول بھٹو کی پھوپھی لگتی ہیں اور آصف رداری کی بہن ہیں اس لئے غالباً رفع شر خیال سے کہ بلا وجہ کوئی ایسی بات نہ ہو جائے جس کو حکومت کے لئے فیس کرنا مشکل ہو اس لئے اس قسم کی پہلے بھی مثالیں موجود ہیں اکثر لوگوں کو ان کے گھروں کو حتیٰ کہ مردوں کو بھی ان کے گھروں میں ہی نظر بند کر دیا جاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس سے زیادہ فرق نہیں پڑتا دیکھنا صرف یہ ہے کہ ان پر جو مقدمہ چلتا ہے کیا اس میں تو کوئی رعایت تو نہیں کی جا رہی۔ آج انہوں نے ایل این جی کے بارے میں بھی۔ لہٰذا لگتا ہے کہ جو اتنے دنوں سے افواہ چل رہی تھی کہ اب اگلی باری شاہد خاقان عباسی کی ہے۔ وہ واقعی ان کی باری ہو۔ اس کے علاوہ شہباز شریف کے خلاف بھی گھیرا تنگ بھی ہو رہا ہے اور صوبہ سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کے بارے میں ایسی ہی افواہیں آ رہی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ایک شخص جو منتخب وزیراعلیٰ ہے صوبے کا اس کو حکومت گرفتار کرنے کی متحمل ہو سکتی ہے لیکن ان کے بارے میں بھی فضا ایسی ہے کہ ان کو گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ گرفتار لوگوں کے اسمبلی سے پروڈکشن آرڈر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ چونکہ آئین میں موجود ہے پروڈکشن آرڈر جو ہے سپیکر دے سکتا ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جب تک اسمبلی کا سیشن جاری ہے وہ باہر رہیں گے البتہ جونہی وہ سیشن ختم ہو گا وہ دوبارہ دھر لئے جائیں۔ بلاول بھٹو کے پریس کانفرنس میں 21 جون سے عوامی رابطہ مہم جاری کرنے کے اعلان پر گفتگو کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا ہر لیڈر کو یہ امید ہوتی ہے کہ اس کی پارٹی اٹھ کھڑی ہو گی ان کی پچھلی کال کا حشر تو اچھا نہیں ہوا اور جب انہوں نے کہا کہ پورے ملک میں یوم احتجاج منایا جائے تو پورے ملک میں نہیں ہوا کراچی کی حد تک اور سندھ میں کچھ جزوی طور پر علامات ظاہر ہوئیں لیکن باقی صوبوں میں بالکل سرے سے قطعی اثر نہیں پڑا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ دیکھنا یہ ہے کہ بلاول بھٹو کی موجودہ کال کا جو 21 جون کو انہوں نے دے بھی دی ہے۔ انہوں نے نواب شاہ میں جلسہ رکھا ہے گرمی کے باوجود شام کو جلسہ ہو سکتا ہے۔ آصف زرداری کے اس بیان پر کہ اگر عمران خان نے 1947ئ سے کمیشن نہیں بنانا تو کم از کم گزشتہ 20 سال سے کمیشن بنائیں ضیا شاہد نے کہا کہ یہ جب بھی کسی کی پکڑ دھکڑ ہوتی ہے وہ ہمیشہ یہی مطالبہ ہوتا ہے کہ پچھلے 40 سال سے ہو اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ نہ ہو۔ یہ مطالبے ہوتے رہتے ہیں کام بھی چلتا رہتا ہے لہٰذا اس سے فرق نہیں پڑتا کہ کیا مطالبہ ہوا کیونکہ جو احتساب کا عمل جاری ہے اور نیب جو کچھ کر رہی ہے میں نہیں سمجھتا کہ اس کے راستے میں کوئی حقیقی خطرہ موجود ہے۔ پنجاب کے بجٹ اورجنوبی پنجاب کے فنڈز دوسری جگہ منتقلی پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ وزیراعلیٰ اور وزراءکی تنخواہوں میں 10 فیصد کمی دی گئی ہے۔ وفاقی وزرائ کی تنخواہوں میں کمی ہوئی تھی اسش پر گفتگوکرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ یہ کمی اس بات کا شاخسانہ ہے جو ایم این اے ایم پی اے حضرات میں سے ایک مہم چلی تھی اس میں ایم پی اے حضرات نے پنجاب میں اپنے لئے معاوضہ میں اضافہ کر دیا گیا اور سابق وزریراعلیٰ کے لئے بھی بہت ساری سہولتیں منظور کروا لی تھیں لیکن گورنر صاحب نے اس پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا اور عمران خان نے کہا تھا کہ لوگ اسے پسند نہیں کر رہے۔یہ تنخواہوں میں کمی سے یہ تاثر پیدا ہو گا کہ ہم لوگوں پر ٹیکس ہی نہیں لگا رہے بلکہ ہم اپنی تنخواہیں بھی کم کر رہے ہیں میرے خیال میں اس بات کا اچھا تاثر جائے گا۔ کل کا سب سے دھماکہ خیز واقعہ ہے وہ تو ڈالر کی قیمت میں 5 روپے اضافہ ہے ڈالر ایک دم157 پر چلا گیا ہے اب ظاہر ہوتا ہے کہ عمران خان واپس آ رہے ہیں اور آج انہیں اس صورتحال پر قابو پانے کے لئے ایک ہائی لیول میٹنگ بلانی چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ یہ تو بہت ہی بے لوگ طور پر ایک کوئی لائحہ عمل بنانا چاہئے کیونکہ یہ ناقابل برداشت ہوتا جا رہا ہے۔ بجلی کے نرخ میں اضافہ کے حوالہ سے بات کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ یہ تو میں سمجھتا ہوں کہ کچھ دیر کے لئے بجلی کی قیمت میں اصافہ ضرور روک دینا چاہئے۔ بہت ہو گیا اس سے پیشتر کہ لوگ سڑکوں پر نکلیں اور طوفان کھڑا ہو جائے معلوم نہیں حکومت یہ چاہتی ہے کہ اپوزیشن کے جلسوں میں رونق ہونی چاہئے اور لوگوں کو اتنا تنگ کیا جائے کہ وہ از خود بلبلاتے ہوئے اپوزیشن کے مجمعوں میں شریک ہونے لگیں۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں بجٹ پر بحث کی بجائے حکومتی بنچوں نے انہیں بولنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ میرا خیال ہے کہ اس کا سلسلہ ختم ہونا چاہئے دونوں طرف سے صورتحال بہت نامناسب ہے اگر عمران خان کو نہیں بات کرنے دی گئی تو پھر شہباز شریف صاحب کو بدلے میں یہی صورتحال ان کے ساتھ ہے اگر یہ سلسلہ چل نکلا تو نہ لیڈر آف اپوزیشن اس میں گفتگو کر سکتا ہے نہ لیڈر آف دی ہا?س گفتگو کر سکے تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ عملاً اسمبلیاں خواہ وہ وفاقی ہوں یا صوبوں کی حد تک آگے بات چل کر پہنچ جائے تو اسمبلیوں کا مقصد ہی باقی نہیں رہ جاتا۔ اگر اسمبلیوں میں بات ہی نہیں ہو سکتی تو پھر اس کا کیا فائدہ ہے میں دونوں اطراف سے اپیل کروں گا کہ براہ کرم اپوزیشن والے رضا کارانہ طور پر یہ اعلان کر دیں کہ وہ احتجاج ضرور کریں گی مگر وہ بات سنیں گے عمران خان، وفاقی وزرائ کی اور دوسری طرف تحریک انصاف کی طرف سے بھی یہ اعلان ہو جائے کہ ہم لیڈر آف اپوزیشن کو جو وہ چاہتے ہیں کرنے دیں گے۔ جمہوریت کا خاصہ یہ ہے کہ لوگوں کو بات کرنے دی جاتی ہے لوگوں کو روکا نہیں جاتا۔بجٹ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ بجٹ میں بھی عوام دشمنی کی بھی کوئی بات نظر نہیں آتی البتہ جو طبقات ایسے بچ گئے ہیں تھے جن پر ٹیکس نہیں تھا ان پر ٹیکس لگا دیا گیا ہے جیسے پنجاب کے بجٹ میں ڈاکٹروں پر ٹیکس لگا ہے ہیرکٹنگ کرنے والوں پر ٹیکس لگا ہے۔ درزیوں پر بھی ٹیکس لگ گیا ہے۔ یہ وہ طبقات تھے جن کی انکم تو ماشائ اللہ کافی ہے لیکن وہ ٹیکس نیٹ میں نہیں کرتے تھے اس سلسلے میں تو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ حمزہ شہباز درست کہتے ہیں کہ بڑی مشکلات ہیں لیکن بات یہ ہے کہ وہ اس بات پر نشاندہی نہیں کر رہے کہ ان کی حکومت اور ان سے پہلے کی حکومتیں آصف زرداری صاحب اور نوازشریف اور شاہد خاقان عباسی کی حکومتیں کیا کرتی رہی ہیں اور آج جو کچھ ہمیں فصل کاٹنی پڑ رہی ہے وہ اس کے بیج تو وہ بو کر گئے تھے۔بشکیک کانفرنس میں عمران خان اور مودی کے درمیان کوئی بات چیت نہ ہونے پر افسوس ہے اگر آمنے سامنے آنے پر بھی کوئی سلام دعا نہیں ہوئی تو پھر مذاکرات کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے۔ بھارتی ترجمان کہتے ہیں کہ مستقبل میں مذاکرات کے امکانات پیدا ہو رہے ہیں تاہم مجھے تو ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ ضیائ الحق ایک بار کھٹمنڈو گئے تو انہوں خود آگے بڑھ کر بھارتی وزیراعظم سے مصافحہ کیا تھا عمران خان کو بھی کوشش کرنا چاہئے تھی کہ مودی سے رابطہ کرتے، ایسی بڑی کانفرنس میں سائڈ لائن پر ہلکے پھلکے مداکرات اور مختصر ملاقاتیں ہو جاتی ہیں جن سے مستقبل کیلئے راستہ ہموار ہوتا ہے۔ پاک بھارت مذاکرات کے حوالے سے ساری امیدیں اب پیوٹن سے ہیں کیونکہ روس نے دعویٰ کیا تھا کہ اس معاملے پر کردار ادا کرے گا۔ پاکستان نے تو ایک بار پھر روس کو یقین دہانی کرا دی ہے کہ ہم آپ کے فارمولے سے متفق ہیں روس کو چاہئے کہ بھارت سے بات کر کے معاملے کو آگے بڑھانے امریکہ کا رویہ پاکستان سے سخت ہے تاہم ہمیں بہتر تعلقات کیلئے کوشش کرتے رہنا چاہئے۔ اب ہم نے اپنا وزن روس کے پلڑے میں ڈالا ہے تو یہ کوشش مسلسل جاری رکھنی چاہئے کہ وہ بھارت سے مداکرات میں کردار ادا کرے۔ پاکستان کی معیشت کے لئے زراعت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے بدقسمتی سے سابق ادوار میں اس پر کوئی خاص توجہ نہ دی گئی۔ موجودہ حکومت کا زراعت کے لئے زیادہ فنڈز مختص کرنا خوش آئند ہے۔ دیہاتوں میں شہر سے بہتر فیصد لوگ رہتے ہیں جو زراعت کے ساتھ منسلک ہیں کسان خوشحال ہو گا تو ملک بھی خوشحال ہو گا۔ کسانوں کی تنظیمیں بھی اشتہار دے کر حکومت سے اظہار تشکر کر رہی ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت نے واقعی زراعت کے لئے سنجیدگی سے اقدامات کئے ہیں۔ حکومت کو صحت کارڈز تقسیم کرنے کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنا چاہئے۔ سستے گھر بنانے کا منصوبہ اچھا تھا اس پر عمل کرتے تو روزگار میں بھی اضافہ ہوتا۔ حکومت کو کئی غیر ممالک اور بڑے نجی اداروں نے ہا?سنگ منصوبہ کیلئے سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کی تھی۔ حکومت کو اس پر سنجیدگی سے سوچتے ہوئے عمل کرنا چاہئے تاہم ابھی تک کوئی پیش رفت دکھائی نہیں دے رہی۔ وزیراعظم کا غیر ملکی سرمایہ کی آمد بارے پ±را±مید ہونا اچھی بات ہے تاہم زمینی حقائق کے مطابق تو ابھی تک کوئی سرمایہ کاری نہیں آئی حتیٰ کہ سعودیہ اور چین نے جس سرمایہ کاری کی بات کی تھی وہ بھی ابھی تک نہیں آئی۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain