تازہ تر ین

ضیا شاہد ، امتنان شاہد کی صمصام بخاری سے ملاقات میں سیاسی نکات پہ اہم گشت و شنید

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) وزیراطلاعات پنجاب صمصام بخاری نے کہا ہے کہ نوازشریف، شہبازشریف، آصف زرداری شور مچا کر احتساب سے نہیں بچ سکتے۔ دِیا جب ب±جھنے لگتا ہے تو پھڑپھڑانا شروع ہو جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سیاستدانوں سے ملک کا لوٹا ہوا پیسہ واپس لینے کے عزم پر قائم ہیں۔ نوازشریف، شہبازشریف، آصف زرداری جن مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں یہ ان کی حکومتوں نے ایک دوسرے کے خلاف بنائے ہوئے ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت نے کوئی مقدمہ نہیں بنایا۔ حکومت کی ترقی کی راہ پر چل نکلی ہے۔ آئندہ تین چار مہینوں میں ترقی کے اثرات نظر آنے لگیں گے اور آئندہ دو سال میں پاکستان صحیح سمت پر چل نکلے گا اور دنیا میں پورے قد سے کھڑا نظر آئے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے چینل ۵ کے پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں انٹرویو میں کیا جو سوالاً جواباً پیش ہے۔ضیا شاہد:میرا پہلا سوال آپ سے یہ ہے کہ وزیراطلاعات ایک طرح سے حکومت کا ترجمان ہوتا ہے۔ آپ صرف پنجاب ہی کے ترجمان نہیں بلکہ اپنی پارٹی کے بھی ایک ترجمان سمجھے جاتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ اتنی زور دار تحریک کے بعد حکومت پی ٹی آئی کو ملی لیکن جب سے حکومت آئی ہے کچھ مالی، کچھ دوسرے معاملات، معلوم یہ ہوتا ہے کہ اپوزیشن زیادہ بڑھ چڑھ کر بول رہی ہے اور الزام پر الزام لگا رہی ہے حالانکہ احتساب عدالت ہو یا عام عدالتیں ہوں پاکستان کی اتنے زیادہ الزامات ثابت ہو رہے ہیں اپوزیشن لیڈروں پر خاص طور پر میاں نوازشریف، شہباز شریف اور آصف زرداری پر اور بلاول بھٹو کی پارٹی پر لیکن کیا وجہ ہے کہ نظر آتا ہے کہ جیسے بہت مظلوم ہیں وہ لوگ اور تب حکومت کوئی غیر جمہوری اقدامات کر رہی ہے۔ حالانکہ دور دور تک غیر جمہوری اقدام کی شنید سنائی نہیں دیتی تو یہ جو وائس ورسا پراپیگنڈا ہے اس کی کیا وجہ ہے۔صمصام بخاری: ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ دیا جب بجھنے لگتا ہے تو بہت پھڑ پھڑاتا ہے۔ انہوں نے ایک بات سیکھی خصوصاً مریم بی بی نے سوشل میڈیا ٹیم پرائم منسٹر ہا?س میں ہی بنا دی تھی جس کی وجہ سے ڈان لیک ہوئی جس کی وجہ سے حکومتی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور ایک ان کی سازشی ٹیم تیار ہوئی اور پھر ان کا گالم گلوچ کرنے والے ہیں جن پر انگلیاں اٹھی ہوئی ہیں۔ اصل میں انہوں نے سمجھا کہ شاید شور مچا کر کرپشن سے بچ جائیں گے جس کا نام عمران خان ہے وہ کسی چیز پر سمجھوتہ نہیں کرے گا یہ تو صرف پیسے چاہتے ہیں یہ تو چاہتے ہیں ان کو نکل جانے دیا جائے صرف مال بھی دے دیں مگر اذیت نہ دی جائے جو شیخ رشید نے تو کہا ہے کہ میں نے تو کہا ہے کہ ان کو جانے دو عمران خان یہ کہتے ہیں کہ 70 سال تک جانے ہی دیا گیا لوگوں کو اب دو چیزیں ہیں احتسابی عمل تو نیب کر رہا ہے نیب کو کرنا چاہئے حکومت سے مدد جو وہ چاہے گا جہاں اس کو ایف آئی اے کی ضرورت پڑے گی شواہد کی پڑے گی فراہم کریں گے کیسز دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے پر اپنے اپنے ادوار میں بنائے ہوئے ہیں۔ پی ٹی آئی نے نہیں بنائے یہ لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں ہاں اب پی ٹی آئی یہ چاہتی ہے کہ وہ کیسز اپنے منطقی انجام تک پہنچ جائیں اور وہ کیسز انشائ اللہ تعالیٰ اپنے انجام تک پہنچیں گے اب عرض یہ ہے کہ یہ جو ان کی منی لانڈرنگ ہے اظہرمن الشمس ہے اس میں تو کوئی معاملہ نہیں ہے منظور حسین کون ہے پاپڑ والا کون ہے جی، فالودے والا کون ہے جی، چورن والا کون ہے جی، ریڑھی والا کون ہے اتنے لوگوں کو صفر کے ہندسے لگانے نہیں آگے جتنی جتنی بڑی انہوں نے کرپشن کی ہے۔ روز ایک نیا سکینڈل آ جاتا ہے اب یہ ڈیلی میل والی بات ہے۔ ہم جی فلانے کا نام لیں گے بھائی جا? ہمت ہے دعویٰ کرو اخبار پر اور ثابت کرو جا کے اور ادھر وہ ہم پرائم منسٹر پر لگائیں گے اس پر لگائیں گے یہ بنیادی طور پر ان کی کرپشن کا پردہ چاک ہو چکا ہے اس کو بچانے کے لئے کوشش کر رہے ہیں ان میں ایک ڈیوائڈر ہے مانیں یا نہ مانیں کہ قلیل تعداد شہباز شریف کے ساتھ اور ایک تعداد مریم بیٹی کے ساتھ ہے یہ جو نوازشریف اور شہباز شریف کو آپنے دیکھا کہ ان کا مستقبل نہیں ہے تو حمزہ شہباز ورسز مریم بی بی جنگ شروع ہو گئی اس جنگ میں اب حمزہ شہباز تو ال ریلی ونٹ ہو گئے مگر مریم بی بی نے اپنی پارٹی کو خدمات نہیں دے سکیں گے اپنے والد کو وہ غالب کا شعر ہے کہ کوئی مجھ کو سمجھاوے کہ سمجھائیں گے کیاکیا وہ لوگوں کو جا کر یہ کہہ دیں کہ ہم نے کرپشن کی ہے اور کیا لوگوں کو یہ جا کر کہہ دیں کہ کرپشن ہم نے آپ کے لئے کی ہے۔ یہ جو سینٹ، فلاں ڈھینگ کہیں آپ کو عمران خان ڈولتا ہوا نظر آیا وہ اس کا ایسا تو ٹھیک ہے وہ جگارڈ بازی نہیں کرے گا۔ حکومت بہت بعد میں آتی ہے۔ عمران خان کے لئے اس ملک و قوم کا لوٹا ہوا پیسہ واپس لانا سب سے بڑی چیز ہے بنیادی طور پر یہ لوگ اس وقت ایک دیوانے کا خواب دیکھ رہے ہیں اور یہ پھڑ پھڑاہٹ ہے اور ڈپریشن اور فرسٹریشن کا ایک مجموعہ ہے وہ پھڑپھڑاہٹ۔ضیا شاہد: صمصام صاحب یہ بتایئے کہ قطر کے امیر یہاں آئے اس طرح سے کئی اور حکمرانوں کے بارے میں خود عمران خان بھی، شیخ رشید بھی آپ کے اور بہت سے کولیگ بھی کہہ چکے ہیں کہ مختلف بادشاہوں نے مختلف حکمرانوں نے یہ پیش کش کی کہ وہ نوازشریف کی جگہ کچھ پیسے ادا کر دیتے ہیں انہیں رہا کر دیا جائے عمران خان صاحب نے ہمیشہ ڈٹ کر انکار کیا ار کہا کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا این آر او کا۔ لیکن آپ فرمایئے کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جب عمران خان صاحب اور آپ کی پارٹی کا بنیادی مقصد جو تھا وہ پاکستان کے باہر لوٹ کر لے جانے والے سرمایہ کی واپسی تھی۔ تو پھر اس قسم کی پیش کشوں کو قبول کر لینا چاہئے تا کہ ہمیں کچھ پیسے ملیں۔صمصام بخاری: یہ عجیب بات مجھے آپ یہ بات بتائیں کہ کیا حرام کے پیسے سے حج ہو سکتا ہے، زکوٰة دی جا سکتی ہے۔ صدقہ دیا جا سکتا ہے میں تو ذاتی طور پر پلی بار گین کے بھی خلاف ہوں۔ میں اس لئے خلاف ہوں کہ فرص کریں ایک بندے نے سو روپیہ لوٹا 40 روپے خرچ کر لئے 60 اس کے پاس پڑے، 60 کا 60 اس نے واپس کر دیا پھر بھی 40 تو اپنی تعیش میں اڑا گیا ناں قوم کے۔ پھر پلی بار گین کس بات کی۔ پلی بار گین جو چیز ثابت ہوتی ہے اس کا کتنا آتا ہے بہرحال وہ قانون کی بات نہیں کر رہا میں ذاتی طور پر بات کر رہا ہوں میرے حساب میں تو پلی بار گینگ جو پیسہ لووٹا گیا ہے اور بیدردی سے لوٹا گیا ہے اس پیسے کو من و عن واپس آنا چاہئے اور جو نہیں آتا اس کی سزا بھگتنی چاہئے۔ یا تو یہ پورا پیسہ واپس کر دیں۔ پھر بھی اتنے لوپولز چور دروازے ہوں گے جو سمجھ نہیں آئے گا لیکن جو آن ریکارڈ پر ہے وہ واپس کر دیں۔ باقی زندگی جیل میں گزار دیں اور قوم سے معافی مانگیں کہ ہم سیاست نہیں کریں گے ہم میں اہلیت نہیں ہے اور ہم اس قابل نہیں ہیں کہ اس قوم کی حکمرانی کر سکیں اور اس قوم کے نمائندے بن سکیں اور چلے جائیں۔ضیا شاہد: ڈیلی میل جو انگلینڈ کا معروف اخبار ہے اور سب سے زیادہ شائع ہوتا ہے ایک اخبار نویس کی حیثیت سے میں جانتا ہو ںکہ مجھے اس شعبہ میں 50 سال سے زیادہ عرصہ گزر چکاہے۔ میری معلومات کے مطابق برطانیہ کے اندر اتنے سخت قوانین ہی ںکہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ کوئی اخبار جھوٹی خبر چھاپتا ہے وہ اخبار ضبط ہوتا ہے اس کی پراپرٹی ضبط ہوتی ہے اس کے اثاثے ضبط ہو جاتے ہیں۔ اور ان کو سزائیں ملتی ہیں لہٰدا اتنی سنگین قسم کے خطرات میں انگلینڈ کا کوئی اخبار جو ہے 100 فیصد جھوٹ نہیں چھاپ سکتا۔ اس کے باوجود اپوزیشن نہیں مانتی میں تو انتظار کر رہا ہوں کہ شہبازشریف کو جانا چاہئے اخبار کے خلاف پتہ چلے گا کہ آٹے دال کا بھا? کیا ہے۔ لیکن یہ بتائیں جہاں عمران خان اتنے کام کر رہے ہیں ذاتی طور پر، اپنی ذاتی زندگی سے لے کر ایک حکمران کو ملنے والی سہولتوں کو مسترد کر کے انہوں نے بہت سنہری مثالیں قائم کی ہیں لیکن یہ جو معاشی بحران ہے اس کی وجہ سے عوام کی ایک بڑی تعداد جو ہے مایوس ہوتی جا رہی ہے اور اب میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی اپوزیشن کی جگہ ایسی اپوزیشن ہوتی جس پر لوگوں کا اعتماد ہوتا تو شاید واقعی بجٹ کا پاس کروانا کافی مشکل کام تھا لیکن اتنے ہنگامے کے باوجود وہ آسانی سے منظور ہو گیا تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ جو تگ و دو ہے اپوزیشن کی وہ تو کامیاب ہوتی نظر نہیں آ رہی لیکن یہ چیز کامیاب ہوتی نظر آ رہی ہے کہ ایک اوورآل ملک بھر میں فرسٹریشن پھیل گئی ہے عوام میں مایوسی ہے بددلی اور افسوس کا اظہار کیا جا رہا ہے میں یہ سنتا ہوں کہ جیسا کہ نوازشریف نے پوری کوشش کی اس کے باوجود یہ جو تاجروں کی ہڑتال ہو یا اس قسم کے اور کوئی واقعات ہوں پاکستان میں کھاتا پیتا طبقہ پچھلے 10 سال سے اور 35 سال کی حکمرانی کے دور میں جتنا قریب ہے میاں نوازشریف کے اور ان کی پارٹی کے اتنا شاید کسی بھی پارٹی کے قریب نہیں ہے لیکن کیا کوئی جماعت اس صورتحال میں کیا حکمت عملی اختیار کر رہی ہے جس سے اب بھی جو تاجر طبقات ہیں دکاندار ہیں بجائے ان کی مخالفت مول لینے کے ان کو اپنے ساتھ ملا سکیں۔ کیونکہ اس وقت تک تو عالم یہ ہے کہ جو کھاتا پیتا آدمی ہے جو مالدار آدمی ہے جو ٹیکس ادا نہیں کرتا جو بے تحاشا اخراجات کرتا ہے جو بڑی گاڑیوں میں بیٹھتا ہے جو روزانہ ایک ایک کھانے پر 90,90 ہزار روپے خرچ کر دیتا ہے ہوٹلوں میں اور اس کا بھی جو ہے ایک طرف ایسے لوگ ہیں جن کو مہینے کے بعد اتنی تنخواہ نہیں ملتی جتنی کمائی یہ لوگ ایک چائے پر اڑا دیتے ہیں تو اس صورتحال میں یہ جو جو فرق ہے اس کو کم کرنے کے لئے آپ کی پارٹی اور آپ کی حکومت کیا کر رہی ہے کیونکہ لوگوں کو نظر آ رہا ہے امیر امیر سے امیر تر ہو جا رہا ہے اور غریب غریب سے غریب تر ہوتا جا رہا ہے مہنگائی کے بوجھ تلے پستا جا رہا ہے۔صمصام بخاری: آپنے صحیح فرمایا کہ انگلینڈ میں قوانین کافی سخت ہیں برطانیہ میں جمہوریت ہے ان کو ضرور جاننا چاہئے یہ کہہ رہے ہیں ہم عمران خان پر کریں گے شہزاد اکبر پر کریں گے کس کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔ سٹوری ایک اخبار نے چھاپی ہے شواہد ان کے پاس ہوں گے لازماً وہ اس پر سٹینڈ کرتے ہیں۔ وہ اپنی سٹوری پر پیچھے نہیں ہٹے ہیں اور آپ وہاں پیچھے ہٹ جائیں تو یا آپ کو معافی مانگنی پڑتی ہے یا آپ کے اثاثے ضبط ہوتے ہیں۔ ڈیزمیشن میں حبر کی جتنی سٹیک ہوں۔ یہ بالکل نہیں جائیں گے کیونکہ یہ سرتاپا آلودہ ہیں۔ ان کے 90 فیصد خاندان فراری ہیں۔ منی لانڈرنگ میں پیسہ چوری کرنے میں باہر بیٹھے ہوئے ہیں تو یہ بالکل نہیں جائیں گے۔ اگر یہ جائیں ہم ان کو خوش آمدید کہیں گے کہ دودھ کا دودھھ اور پانی کا پانی ہو۔ آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے ویسے سوشل میڈیا پر لوگوں سے ہاتھ باندھ کر عرض کرتا ہوں تمام لوگوں سے کوئی جس جماعت سے ہو۔ حضور کی ایک حدیث ہے کہ کسی بھی خبر کو کسی بھی بات کو سوچے سمجھے بغیر آگے کر دینا، یہ بندے کے جھوٹے ہونے کے لئے ہی کافی ہے۔“سید صمصام بخاری نے کہا کہ حضور? کی ایک حدیث ہے کہ کسی بھی خبر یا بات کو بنا تصدیق آگے پھیلادینا ، انسان کے جھوٹے ہونے کی نشانی ہے۔ سوشل میڈیا پر ہم مختلف سیاسی جماعتوں کے بارے میں کتنی ہی چیزیں اپ لوڈ کرتے ہیں جنکی کوئی تحقیق نہیں ہوتی۔ کسی پر الزام لگانے پر اسلام میں کیا سزا ہے؟ الزام لگانے اور ثابت نہ کر سکنے والے کو وہی سزا ملنی چاہئے۔ن لیگ نے جھوٹ کا پلندہ اچھالنے کے لیے لوگ بٹھائے ہوئے ہیں کیونکہ ان کے پاس پیسہ بہت ہے۔ مجھے پتا ہے کہاں کہاں لوگ بیٹھے ہیں۔ شہباز شریف نے کہا تھا کہ اگر مجھے عدالت سزا دے دے گی تو میں چلا جا?ں گا،میاں نواز شریف نے اسمبلی میں کہا اور ن لیگ کے 3سینئر وزرائ نے عدالت میں کہا کہ اسمبلی کی بات اور ہوتی ہے اور عدالت کی بات اور ہوتی ہے۔ تاجروں کے ساتھ پنجا ب میں میاں اسلم اقبال کی سربراہی میں کمیٹی کے تحت چیزیں بہتری کی طرف جارہی ہیںاور ن لیگ کے جھوٹ اور لوگ بے نقاب ہو رہے ہیں۔ضیا شاہد :پہلے کہا جاتا تھاکہ عوام ثمرات پانے کے لیے ایک سال انتظار کریں اب اسمیں ایک سال کا اضافہ ہوگیا ہے اور شیخ رشید نے بھی کہا ہے کہ ایک سال اور انتظار کریں۔ عمران خان کے پچاس لاکھ گھروں کے منصوبے کا آغاز خوش آئند ہے مگرعوام انتظار کر رہے ہیں اور اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ دو سال بعد ملک کے تمام حالات ٹھیک ہو جائیں گے؟سید صمصام بخاری: سیاست میں لوگوں کی گفتگو اور سیاسی وقار ہی انکاسیاسی ثمر ہوتا ہے۔میں پیپلز پارٹی اور ایک دور میں دو مرتبہ کابینہ کا حصہ رہا ہوں ، پیپلز پارٹی کے لوگوں پر الزام ہیں مگر مجھ پر ایک روپے کا کوئی الزام نہیں ہے۔ میرے سیاسی مخالف مجھ پر پیسے کا الزام نہیں لگاتے کیونکہ انکا یہ الزام کوئی مانے گا نہیں۔ عمران خان نے جو کہا کر کے دکھایا ہے۔ شوکت خانم ، نمل یونیورسٹی اور اب جنوب میں دو بڑے ہسپتال شروع کر دئیے گئے ہیںجنکو صرف پرویز الہیٰ کے شروع کرنے کیوجہ سے جنوبی پنجاب کی عوام کو ن لیگ نے علاج کی سہولت سے محروم رکھا۔ جنوبی پنجاب میں ملٹی پل یونیورسٹیاں بن رہی ہیں۔ ہم نمود ونمائش پر پیسہ خرچ نہیں کر رہے کیونکہ ہماری خامیاں بتانے کے لیے میڈیا کافی ہے۔ اکتوبر سے نومبر تک عوام کو پاکستان کی ترقی کا رخ نظر آنے لگے گا اور دو سال میں چیزویں مکمل بہتر ہوجائیں گی۔ خیبر پختونخوا میں ہمیں پولیس اور ہسپتالوں کے نظام نے ہی الیکشن جتوایا تھا۔ سکول، کالجز، یونیورسٹیز، ہسپتال، احساس پروگرام، ہیلتھ کارڈ نے عوام کی زندگی میں کمال برپا کر دیا ہے۔ دو سال میں عوام کو ثمرات پہنچنے سے پاکستان کاقد بڑا ہوگا۔ضیا شاہد:سعودی عرب، قطر، چین کی جانب سے پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری سے روزگار کے مواقع ملنے کی توقع کے برعکس اب تک کوئی عملاصورتحال نظر نہیں آرہی اورنہ ہی کسی جگہ پرحقیقی طور پر کوئی سرمایہ کاری شروع ہونے کی کیا وجہ ہے؟صمصام بخاری:ضیا شاہد صاحب۔ میں ادب سے آپ سے اختلاف کرتا ہوں۔ پاکستان میں ہسپتالوں، یونیورسٹیز ، سکولوں وغیرہ پر سرمایہ کاری شروع ہو چکی ہے ہاں مگر بڑی بڑی گاڑیوں اور بنگلوں پر سرمایہ کاری نہیں کی گئی۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کو ایک ارب سے کم ادا کیا ہے اور ہم نے عوام کے ٹیکس سے انکا 10ارب ڈالرز سے زائد قرض واپس کیا ہے جو سابق حکومتوں کا لیا ہوا تھا۔ 10سال میں پاکستان کا 24ہزار ارب لوٹا گیا ہے۔ جسکا ہم آڈٹ چاہتے ہیں۔ اپوزیشن کہتی ہے کہ مشرف کیوجہ سے 10سال سے پیچھے کا احتساب نہیں ہورہا ، میں کہتا ہوں کہ 1947ئ سے احتساب شروع کیا جائے۔ مشرف کا نام لینے والے ضیا الحق کا نام کیوں نہیں لیتے۔ 24ہزار ارب کا حساب دس سال جبکہ 6ہزار ارب کا حساب باقی 65سال میں ہے۔ان میں کوئی مماثلت نہیں ، 24ہزار کا حساب ہوجائے تو 6ہزار کا بھی کر لیں گے۔ضیا شاہد: احتساب کا عمل جس رفتار سے چلنا چاہئے تھا اس رفتار سے نہیں چل رہا۔ بے تحاشا کیسز شروع ہوئے، ایک دو خبریں بھی آئیں مگر وہ تمام کیسز زیر التوا ہیں۔ احد چیمہ ، فواد حسن فواد کا نام آیا مگر انکے کیسز کا پھر پتا نہیں چلا۔ ٹھیک ہے نیب کی سربراہی میں کام ہو رہا ہے مگر حکومت کا فرض بنتا ہے کہ اپنے احساسات نیب تک پہنچائیں ، کیونکہ لوگ پوچھتے ہیں کہ کیوں کسی فرد یا ادارے کی پکڑ کے بعد کیس میں کوتاہی کی جاتی ہے اور کیوں سست روی دکھائی جارہی ہے۔ صمصام بخاری:نیب آزاد ادارہ ہے۔ تحریک انصاف میں شامل کچھ لوگ بھی سمجھتے ہیں کہ اس ادارے کو حکومت چلا رہی ہے۔ نیب کے موجودہ چیئرمین کے نام پر اتفاق کرنے والے اپوزیشن لیڈر اور لیڈر آف ہا?س یعنی پیپلز پارٹی اور ن لیگ تھے۔ آج اس بندے پر ہی لوگ چیخ رہے ہیں تو انہوں نے کیا کیا کچھ کیا ہوگا۔ حکومت روز ٹی وی پر احساسات پہنچاتی ہے کہ احتساب کا عمل تیز ہونا چاہئے۔ نیب کے پاس سٹاف کے مسائل ہیں مگر یہ عمل تیز ہونا چاہئے۔کچھ ایسے کیسز جنکا ریفرنس تیار ہو رہا ہو اس پر خاموشی ہوتی ہے مگر جن کے خلاف نیب ریفرنس مکمل ہوجائے فوری کاروائی ہونی چاہئے کہ ملزم پاک ہوجائے یا ٹرائل پر چلا جائے۔ ضیا شاہد: عوام مہنگائی سمیت دیگر تکالیف سے دوچار ہیں ، عوام کے لیے کوئی سکھ اور امید کی خبر بھی جاری کریں گے؟اگر عوام کو اس بات پر اطمینان دلانا چاہیں کہ صبر کریں عنقریب اچھا وقت آرہا ہے تو آپ کس طرح سے عوام کے لیے اس تسلی کو فریم کریں گے؟صمصام بخاری: میں نہ کوئی نجومی نہ جادوگر ہوں کہ بتا?ں مستقبل میں کیا ہونے والا ہے۔ ایک سیاسی کارکن اور عوامی آدمی ہوتے ہوئے کہنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی 70فیصد سے زائد معیثت کی ڈاکیومینٹیشن نہیں ہے۔ 22کروڑ عوام میں سے کتنے لوگ ٹیکس دیتے ہیں۔ عوام میں جھوٹ پھیلایا جارہا ہے کہ کوئی 50 ہزار کی خریداری کرنے جائے گا تو وہ بھی شناختی کارڈ دے گا۔ شاپنگ کرنے والا کیوں شناختی کارڈ دے گادوکاندار تو خریداری پر ہی اسکا ٹیکس کاٹ لے گا۔ صرف بیچنے والا شناختی کارڈ دے گا۔ پاکستان کا لیڈر عمران خان ہے عمران خان پر کوئی کرپشن کا الزام کیوں نہیں لگاتا؟ انکی ایمانداری پر شک نہیں کیا جاسکتا۔ وزیراعلیٰ ہر جگہ جارہے ہیں، ہر جگہ کام کر رہے ہیں، گھر، یونیورسٹیز ، احساس پروگرام چلا رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ خود گاڑی چلا کر رات کو سڑکوں پر پھر رہے ہیں۔ لیکن چونکہ وہ دکھاوا نہیں کرتے ، ہیٹ نہیں پہنتے ، گرمیوں میں گرم بوٹ پہن کر پانیوں میں نہیں گھستے توہم انکا ذکر نہیں کرتے۔ ہم نے سی پیک کو پورا کرنا ہے ، پاکستان کو تعلیم اور صحت کے میدان میں اوپر لیجانا ہے۔درختوں کی پیداوار بڑھانی ہے، پانی بچانا ہے اس سب حوالے سے ہم صحیح سمت میں جارہے ہیں۔ ہم منزل پر پہنچ جائیں گے۔ ضیا شاہد:لوگوں میں مایوسی اور بددلی کو ختم کرنے کی کوشش میں تحریک انصاف اور انکے حلیفوں کے علاوہ تمام سیاسی جماعتیں حکومت کیخلاف کیوں کھڑی ہیں۔ کیا یہ تمام جماعتیں طاغوتی، غلط اور کرپٹ نظام کا حصہ تھیںجو ایکدوسرے کو بچانے کی کوشش کر رہی ہیں؟صمصام بخاری:میں اپنے خون سے مجبور ہوں کے کسی کے خلاف سخت الفاظ استعمال نہیں کر سکتا ، کسی کی ذات پر گند نہیں اچھال سکتا مگر یہ تمام جرائم میں سانجھے دار ہیں۔ یہ صرف اپنی کرپشن بچانے کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں اور اسی میں اپنی بقائ سمجھتے ہیں۔ مولاکریم کا ایک طریقہ کار ہے کہ جسکو اونچادرجہ دینا ہوتا ہے اسکی ضد پیدا کر دیتا ہے۔ اللہ آج دکھا رہا ہے کہ جو ایک اکیلا آدمی کھڑا ہوا تھا آج یہ سب اسکی ضدپیدا ہوگئے ہیں۔ مگر انکو کچھ ہاتھ آنیوالا نہیں، یہ لوگوں کو کیا بتائیں گے کہ کرپشن بچانے کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں۔ ضیا صاحب آپ میری آج سے 30سال پہلے اور آج کی جائیداد نکالیں اور انکی 30سال پہلے اور آج کی جائیداد نکالیں ، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ اسکے بعد انکے ان ورکرز کی جائیدادیں نکالیں جو آج لیڈر بن گئے، انکی نکالیں جو 30سال پہلے شاید ریڑھی بان تھے اور آج کروڑ پتی بن گئے۔ یہ کروڑ پتی بننے کا نسخہ ہمیں بھی بتا دیں۔ ضیا شاہد:پاکستان میں پہلی مرتبہ دیکھا کہ جیل میں واپس جمع کروانے کے لیے مجرموں کو بینڈ باجے کیساتھ لیجایا گیا جیسے یہ بہت عزت اور خوشی کی بات ہے۔ جس طرح سے اس سارے مسئلے پر سلوک کیا جارہا ہے کہ پہلے یہ گھر سے کھانا آنے پر غیر مطمئن تھے اور اب کہتے ہیں کہ گھر سے کھانا نہیں آنے دیا جارہا۔حالانکہ دو باورچی انہیں ملے ہوئے ہیں تمام راشن گھر سے آسکتا ہے۔ ہم خود اپنی عمر میں بہت مرتبہ جیلوں میں رہے ہیں ، اے کلاس میں کافی سہولتیں ملتی ہیں۔ یہ لوگ جیل میں بیٹھے آدمی کے بارے میں اپیلیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ انہیں ایک خاص ملک کے خاص ڈاکٹر کے پاس علاج کے لیے بھیجا جائے۔ آپ انکے مطالبات کو کتنا جائز سمجھتے ہیں؟صمصام بخاری´:جیل میں جانا کوئی عزت کی بات نہیں۔ کوئی آزادی کی جنگ یا کسی مقصد کے لیے لڑ رہا ہوتو اسکا پوری دنیا کو پتا ہوتاہے۔ یہاں تومنی لانڈنگ ، پیسے کے خوردبرد کے کیسز ہیں۔ ہمارے سسٹم کی خرابی ہے کہ مریم بی بی ضمانت پر ہیں ، جلسے کرتی پھرتی ہیں اور اپنی صفائیاں دے رہی ہیں ، ایسا بھی کبھی ہوا ہے۔ اگر یہ لوگ واقعی پاک ہوتے تو لوگوں میں جاتے ، عدالت میں منی ٹریل دیتے، انکار کیوں کرتے رہے۔ضیا شاہد:خبریں آئی ہیں کہ صرف انگلینڈ میں نواز شریف کی 328جائیدادیں ملی ہیںجنکے کرایہ جات کھربوں پا?نڈز میں آتے ہیں۔ پوچھنا چاہتا ہوں کہ ایک آدمی خواہ کتنا ہی مالدار ہوجائے اسکی ایک حد ہوتی ہے۔ مگر بادشاہوں کے اس خاندان کی حرص کبھی کم نہیں ہوتی۔ اس خاندان کے بیٹوں ، بھتیجوں، بچوں، رشتہ داروں اور دامادوں کا یہی وطیرہ ہے کہ منی لانڈرنگ کے ذریعے پیسے باہر بھیجے جائیں۔ کیا وجہ ہے کہ انکے خلاف جس تیز طریقے سے ان کے خلاف کاروائی ہونی چاہئے وہ نظر نہیں آرہی۔صمصام بخاری:ان لوگوں نے پیسے سے طاقت خریدی اور طاقت سے پیسہ بنایا۔ جس وقت میاں شریف نے نوا زشریف کو گیلانی صاحب کے حوالے کیا تو اسکے پیچھے پیسہ وجہ تھی۔ اسکے بعد جب انہیں طاقت ملی تو طاقت سے پیسے کو کئی گنا کیا۔ نواز شریف کی 328جائیدادیں تو ظاہر ہوئیں مگر 3028نکلیں گی۔ انکی جائیدادیں سعودیہ اور زیمبیا میں نکلنے پر آپ حیران ہو جائیں گے۔ سا?تھ افریقہ اور امریکہ میں ان کا بہت کچھ ہے۔ پاکستان کو اب بچانا ہے اور ملک تب ہی بچے گا جب قوم کا پیسہ قوم کے پاس آئے گا۔ ضیا شاہد:پاکستان کے عوام کو آپ کیا پیغام اور امید بھری خبر دینا چاہت ہیں کہ وہ اور کتنی دیر انتظار کریں؟صمصام بخاری:عوام کو اشارے ملنا شروع ہو جائیں گے کہ ہم عوام کی فلاح، مساوات ، ایک قانون چاہتے ہیں اور ہم ایسا کریں گے۔ ڈیل کی باتیں کرنے والوں سے کہہ دوں کہ کسی صورت عوام کے ڈاکو?ں کے ساتھ صلح نہیں کرنی۔ حکومت اور طاقت کا سرچشمہ اللہ ہے۔ ہم نے ملک کو درست کرنا ہے اور لوگوں کو ٹیکس کے نظام میں لاکر انکی تکالیف دور کرنی ہیں۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain