تازہ تر ین

سیکیورٹی کے نام پر 4 ہزار خواتین و بچیوں کی برہنہ تلاشی کا انکشاف

ساﺅتھ ویلز (ویب ڈیسک)آسٹریلیا کی مشرقی ریاست نیو ساو¿تھ ویلز میں پولیس اور قانونی نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے گزشتہ 3 سال کے دوران کم سے کم 4 ہزار خواتین، کم عمر و نوجوان لڑکیوں، لڑکوں اور بچیوں کی برہنہ تلاش لیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔نیو ساو¿تھ ویلز ریاست کو ملک کی اہم ترین ریاست سمجھا جاتا ہے، اسی ریاست میں ا?سٹریلوی وفاقی علاقہ بھی موجود ہے، جس میں آسٹریلیا کا دارالحکومت کینبرا بھی واقع ہے۔اس ریاست کی مجموعی

آبادی 80 لاکھ کے قریب ہے اور یہاں پر اہم سرکاری دفاتر، پارلیمنٹ اور سیکیورٹی ادارے ہونے کی سے اسے خاصی اہمیت حاصل ہے۔اسی ریاست میں منشیات کے اسمگلنگ اور اس کے استعمال کو روکنے کے لیے سخت قوانین بھی بنائے گئے۔قوانین کے تحت پولیس اور سیکیورٹی نافذ کرنے والے اہلکار منشیات سمیت دیگر دہشت گردانہ مواد کی منتقلی و اسمگلنگ

کے شک میں کسی بھی شخص کی تلاشی لینے سمیت اس سے پوچھ گچھ کر سکتے ہیں۔مذکورہ قوانین کے تحت پولیس کم عمر افراد کی ان کے والدین یا دیگر رشتہ داروں کی موجودگی میں ضرورت پڑنے پر برہنہ تلاشی لے سکتی ہے، تاہم رپورٹس کے مطابق پولیس نے کم عمر لڑکیوں کو ان کے کسی رشتہ دار کی غیر موجودگی میں بھی برہنہ کیا۔قوانین کے تحت ضرورت پڑنے اور شک کی بنیاد پر سیکیورٹی اہلکار کسی بھی شخص کی برہنہ تلاشی بھی لے سکتے ہیں اور اسی قانون کے تحت مذکورہ ریاست میں گزشتہ 3 سال کے دوران کم سے کم 4 ہزار افراد کی برہنہ تلاشی لیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ نیو ساو¿تھ ویلز کی ایک 16 سالہ لڑکی کی جانب سے پولیس کے خلاف دائر کیے گئے کیس کی تفتیش کے تحت یہ بات سامنے ا?ئی کہ پولیس نے اب تک 4 ہزار افراد کی برہنہ تلاشی لی ہے۔ایک سولہ سالہ لڑکی نے پولیس کے خلاف درخواست دائر کی ہے کہ اسے ایک پارٹی میں شرکت کرنے پر شک کی بنیاد پر برہنہ کیا گیا اور خاتون اہلکار نے انہیں پارٹی سے تھوڑے فاصلے پر برہنہ کرکے تلاشی لی۔اسی کیس کی تفتیش کے تحت ہی ایک انسانی حقوق کی تنظیم نے پولیس سے لوگوں کو برہنہ کرکے تلاشی لینے کا ڈیٹا حاصل کیا جو ’رائٹ ٹو فریڈم‘ کے تحت حاصل کیا گیا۔سی این این کی رپورٹ کے مطابق نیو ساتھ ویلز کی پولیس اور حکومتی اداروں کی جانب سے ’رائٹ ٹو فریڈم‘ (جاننے کے حق کے قانون کے تحت) حاصل کی گئی معلومات کے مطابق پولیس نے اب تک سب سے کم عمر 12 سال کی بچیوں کی بھی برہنہ تلاشی لی ہے۔جاننے کے قانون کے حق کے تحت فراہم کی گئی معلومات کے مطابق پولیس نے 2016 سے اب تک 4 ہزار خواتین، نوجوان و کم عمر لڑکیوں اور بچیوں سمیت لڑکوں کی بھی برہنہ تلاشی لی۔حکومتی دستاویزات میں اعتراف کیا گیا کہ پولیس نے اب تک 12 سال کی عمر کی 2 بچیوں، 13 سال کی عمر کی 8 اور 14 سال کی عمر کی 7 بچیوں و لڑکیوں کی برہنہ تلاشی لی۔دستاویزات کے مطابق اسی عرصے کے دوران پولیس نے مجموعی طور پر 12 سے 17 برس کی 122 کم عمر لڑکیوں کی برہنہ تلاشی بھی لی۔اسی عرصے کے دوران پولیس نے 18 سال کی عمر کی لڑکیوں سمیت اسی عمر کے لڑکوں اور بالغ خواتین کی بھی برہنہ تلاشی لی۔تاہم دستاویزات میں دیگر خواتین کی عمریں نہیں بتائی گئیں اور نہ ہی اس حوالے سے تفصیلات فراہم کی گئی ہیں کہ خواتین کو کس حد تک برہنہ کیا گیا۔دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ پولیس نے عام طور پر کم عمر لڑکیوں اور خواتین کو انتہائی نامناسب انداز میں برہنہ کرکے انہیں گھٹنوں کے بل پر بٹھاکر بھی تلاشی لی۔اگرچہ پولیس اور سیکیورٹی نافذ کرنے والے اداروں کے ذمہ داروں اور سربراہوں نے پولیس کے برہنہ تلاشی کے اقدامات کی طرفداری کی، تاہم بعض افسران نے اعتراف کیا کہ کچھ واقعات میں ضرور کچھ نامناسب اور غلط رویے بھی رکھے گئے ہوں گے۔دستاویزات میں اس بات کا بھی اعتراف کیا گیا کہ ہے کہ زیادہ تر خواتین اور کم عمر لڑکیوں کو منشیات رکھنے کے شک میں برہنہ کرکے تلاشی لی گئی اور بہت سارے واقعات میں پولیس کو کچھ بھی نہیں ملا۔پولیس کی جانب سے برہنہ تلاش لیے جانے کے عمل پر ایک اعلیٰ افسر کا کہنا تھا کہ اگرچہ یہ عمل غلط لگتا ہے، تاہم جب کسی بھی نو عمر لڑکے یا لڑکی سے منشیات برا?مد ہوتی ہے تو ہر کوئی پولیس کی تعریف کرتا ہے۔مذکورہ افسر کا کہنا تھا کہ ا?سٹریلیا میں کم عمر لوگ ہی انتہاپسندی، دہشت گردی اور منشیات کی جانب راغب ہو رہے ہیں۔تاہم لوگوں کی شک کی بنیاد پر برہنہ تلاشی لیے جانے پر انسانی حقوق پر کام کرنے والی تنظیموں نے شدید تنقید کی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ بعض کیسز کے حوالے سے انتہائی نامناسب رپورٹس سامنے ا?ئی ہیں۔بعض رپورٹس کے مطابق پولیس اہلکاروں نے خواتین کی چھاتی کی بھی نامناسب انداز میں برہنہ تلاشی لی، تاہم حکام کی جانب سے اس حوالے سے کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئی۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain