تازہ تر ین

فرانزک رپورٹ منظر عام پر ،چینی مافیا سر سے پیر تک بے نقاب

 اسلام آباد (این این آئی)وفاقی حکومت نے چینی بحران سے متعلق انکوائری کمیشن کی فورنزک رپورٹ پبلک کرتے ہوئے کہا ہے کہ رپورٹ میں صاف نظر آتا ہے کہ کس طرح ایک کاروباری طبقے نے پوری صنعت پر قبضہ کیا ہوا ہے، ادارہ جاتی اور ریگولیٹرز پر قبضے سے نظام کو مفلوج کرکے بوجھ عوام پر ڈال دیا گیا ہے،وزیراعظم ہمیشہ کہتے ہیں کاروبار کرنے والا سیاست میں بھی کاروبار کرے گا، وزیراعظم کی یہ بات سچ ثابت ہوگئی ہے، شوگر ملز نے کسانوں کے ساتھ زیادتی کی اور تسلسل کے ساتھ نقصان پہنچایا، کسان سے کٹوتی کے نام پر ذیادتی کی گئی، شوگر ملیں 15 سے 30 فیصد تک گنے مقدار میں کم کرکے کسانوں کو نقصان پہنچاتی رہیں،شوگر ملز نے کسانوں سے سپورٹ پرائس سے کم دام پر اور کچی پرچیوں پر گنا خریدا، کسانوں کے ساتھ مل مالکان نان آفیشل بینکنگ بھی کرتے رہے،کچی پرچی کا رواج العربیہ مل نے ڈالا، العربیہ نے 78 کروڑ روپے شوگر کین کم شو کیا۔ العربیہ کے 75 فیصد شہباز شریف فیملی کے شیئر ہیں۔ جمعرات کو شوگر انکوائری کمیشن کے سربراہ اور ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیاءنے کمیشن کی رپورٹ وزیراعظم کو پیش کردی۔ذرائع کے مطابق شوگر انکوائری کمیشن کے سربراہ واجد ضیاءنے صبح وزیراعظم کے معاون خصوصی احتساب شہزاد اکبر کے ہمراہ وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی جس میں انہوں نے شوگر انکوائری کمیشن کی رپورٹ پیش کی۔ذرائع نے بتایا کہ 346 صفحات پر مبنی شوگر کمیشن کی حتمی رپورٹ میں شوگر ملز مالکان پر ٹیکس چوری کا الزام عائد کیا گیا ہے اور 200 سے زائد صفحات کی رپورٹ کے ساتھ شوگر ملز مالکان کے بیانات بھی لگائے گئے ہیں۔ذرائع کے مطابق فورنزک آڈٹ میں شوگر ملز کی پیداوار اور فروخت کے حوالے سے بھی تفصیلات شامل ہیں جب کہ چینی کے بے نامی خریدواروں کا ذکر اور ای سی سی کے فیصلے سے متعلق امور بھی شامل ہیں۔ذرائع نے بتایا کہ رپورٹ میں وفاقی حکومت کی جانب سے چینی برآمد کرنے کی اجازت کا ریکارڈ بھی شامل ہے۔ذرائع کے مطابق فورنزک آڈٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ چینی مافیا کی جانب سے سٹہ کیسے کھیلا گیا؟،پچھلے پانچ سالوں میں شوگر ملوں کو 29 ارب کی سبسڈی دی ۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد وزیر اطلاعات کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے شہزاد اکبر نے کہا کہ آج پاکستان کی تاریخ کا بہت اہم دن ہے کیونکہ اس سے پہلے کسی حکومت میں ہمت نہیں تھی کہ اس حوالے سے تحقیقات کرے اور اسے پبلک کرے۔انہوں نے کہا کہ ہم اسے سراہنا چاہیے کہ ہم صحیح سمت میں بڑھ رہے ہیں، دسمبر 2018 سے لے کر اگست 2019 تک چینی کی قیمتوں میں 33 فیصد اضافہ ہوا جو 17 روپے بنتا ہے اور 2019 کے بعد بھی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوا۔شہزاد اکبر نے کہا کہ اسی اضافے کو دیکھتے ہوئے وزیراعظم نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) واجد ضیا کی سربراہی میں 3رکنی تحقیقاتی کمیٹی قائم کی تھی جس نے ایک تفصیلی رپورٹ پیش کی تھی، اس رپورٹ میں بحران اور قیمتوں میں اضافے کی وجہ بننے والے شوگر انڈسٹری کے مسائل کو اجاگر کیا گیا تھا۔معاون خصوصی نے کہا کہ انکوائری کمیٹی کی سفارشات کو وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کیا گیا اور رواں سال کے اوائل میں انکوائری ایکٹ 2017 کے تحت انکوائری کمیشن تشکیل دیا جس کے سربراہ واجد ضیا تھے۔انہوں نے کہا کہ اس انکوائری کمیشن نے جو کام کیا اسے ایک حتمی رپورٹ کی صورت میں کابینہ کے سامنے پیش کیا گیا، جس کے لیے آج خصوصی اجلاس بلایا گیا تھا، واجد ضیا کابینہ کو رپورٹ کے بنیادی نکات اور سفارشات سے متعلق بریفنگ دی۔شہزاد اکبر نے کہا کہ وزیراعظم اور وفاقی کابینہ نے اس رپورٹ کو پبلک کرنے کا اعلان کیا ہے اور کچھ دیر میں یہ رپورٹ پی آئی ڈی کی ویب سائٹ پر دستیاب ہوگی۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان ہمیشہ کہتے ہیں کہ کاروبار کرنے والا جب بھی سیاست میں آئے گا تو وہ سیاست میں آکر بھی کاروبار کرے گا اور عوام کے خرچے پر کرے گا اور رپورٹ میں سامنے آنے والی باتیں وزیراعظم کے بیان کی 100 فیصد تصدیق کرتی ہیں۔معاون خصوصی نے کہا کہرپورٹ میں صاف نظر آتا ہے کہ کس طرح ایک کاروباری طبقے نے پوری صنعت پر قبضہ کیا ہوا ہے، ادارہ جاتی اور ریگولیٹرز پر قبضے سے نظام کو مفلوج کرکے اس کا بوجھ عوام پر ڈال دیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ رپورٹ میں حیران کن انکشافات ہوئے ہیں جو گنے کی خریداری سے لے کر، چینی کی تیاری، اس کی فروخت اور برآمد تک ہیں، رپورٹ میں ان تمام چیزوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔شہزاد اکبر نے کہا کہ تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ کس طرح کسان کو تسلسل کے ساتھ نقصان پہنچایا گیا اور اسے لوٹا گیا، رپورٹ میں یہ پایا کہ شوگر ملز گنا فراہم کرنے والے کسانوں کو انتہائی کم قیمت ادا کرتی ہیں۔معاون خصوصی نے کہا کہ شوگر کمیشن نے فرانزک آڈٹ کے بعد پچھلے سالوں کا جو تخمینہ لگایا ہے تو اس کے مطابق 2019 تک 140 روپے سے کم قیمت میں گنا خریدا گیا اور 2019 کے بعد کمیشن بننے کے بعد گنے کی خریداری مہنگی ہوئی تو اس کی زیادہ قیمت کے اثرات کا اطلاق چینی کی قیمت میں اضافے پر نہیں ہوتا۔انہوں نے کہا کہ رپورٹ میں کٹوتی کے نام پر کسانوں کے ساتھ زیادتی کی نشاندہی کی گئی، تقریباً تمام شوگر ملز گنے کے وزن میں 15سے لے کر 30 فیصد تک کٹوتی کرتی ہیں جس کا نقصان کسانوں کو ہوتا ہے اور مل مالکان کو فائدہ ہوتا ہے۔شہزاد اکبر نے کہا کہ کچھ ملز میں کچی پرچی کا نظام ہے، گنے کی خریداری کے لیے سی پی آر کے بجائے کچی پرچی پر ادائیگیاں کی جاتی ہیں جہاں قیمت 140 روپے سے بھی کم ہے۔معاون خصوصی نے کہا کہ بیچ میں کمیشن ایجنٹس کو استعمال کیا جاتا ہے جن کے ذریعے کسانوں سے گنا اور زیادہ کم دام میں خریدا جاتا اور نقصان کسان کو ہوتا ہے جو بہت مشکل سے کاشتکاری کا نظام چل رہا ہے،ایک نظام کے تحت اس سے کم قیمت پر گنا خریدا جاتا ہے اور چینی کی پیداواری لاگت میں قیمت زیادہ ظاہر کی جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ مل مالکان جب چینی کی پیداواری لاگت ظاہر کرتے ہیں تو گنے کی قیمت اس حوالے سے مختص نرخ سے بھی زیادہ ظاہر کرتے ہیں جبکہ کمیشن نے وہ شواہد معلوم کیے ہیں جہاں گنا کم قیمت میں خرید کر اور ساتھ ساتھ کٹوتی کرکے مزید کم ادائیگی کی جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ کئی ملز مالکان ان آفیشل بینکنگ بھی کرتے ہیں اور ایڈوانس میں پیسے دیتے ہیں یا تو فرٹیلائزر کی مد میں کچھ دیا جاتا ہے جو باضابطہ طریقہ کار نہیں ہے اور اس سے بھی 35 فیصد تک منافع کما کر کسان کو کم ادائیگی کی جاتی ہے۔شہزاد اکبر نے کہا کہ تحقیقات کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ عوام کو کس طرح ل±وٹا گیا اور وہ پیداواری لاگت میں ہیرا پھیری ہے، انکوائری کمیشن کے مطابق ایک کلو چینی کتنے میں بنتی ہے اس کا آج سے پہلے آزاد آڈٹ نہیں کیا گیا تھا۔معاون خصوصی نے کہا کہ انکوائری کمیشن کی پچھلی رپورٹ اور فرانزک رپورٹ میں یہ تعین کردیا گیا ہے کہ حکومت کے ادارے پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے تخمینے پر انحصار کرتے ہیں، یہ حکومتی اداروں اور ریگولیٹر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کا تعین کریں کہ ایک کلو چینی کتنے پیسے میں تیار ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ کمیشن کے ٹی او آرز میں شامل تھا کہ چینی کی پیداواری لاگت معلوم کرنی ہے، جب معلوم کیا گیا تو اصل قیمت اور شوگر ملز ایسوسی ایشنز کی جانب سے دی گئی قیمتوں میں واضح فرق پایا گیا۔ معاون خصوصی برائے احتساب نے بتایا کہ انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں بہت ساری چیزیں سامنے آئی ہیں،یہ بے نامی ایکٹ کی خلاف ورزی اور ٹیکس چوری کا معاملہ ہے، جو سیلز چیک کی گئیں، وہ بھی ساری بے نامی ہیں۔شہزاد اکبر نے کہا کہ کمیشن نے لکھ دیا ہے کہ مراد علی شاہ نے صرف اومنی گروپ کو فائدہ پہنچانے کے لیے سبسڈی دی۔انہوں نے کہا کہ چینی افغانستان کو ایکسپورٹ ہوتی ہے، چینی کی ایکسپورٹ کا جب ڈیٹا چیک کیا گیا تو میچ ہی نہیں ہوا، اس میں اربوں کا فرق آیاخ یہ ایسا مذاق ہے جو آج تک چیک ہی نہیں کیا گیا۔ نجی ٹی وی کے مطابق شہزاد اکبر نے کہاکہ چینی کے 6 بڑے گروپس کا آڈٹ کیا گیا، الائنس مل کی اونرشپ میں مونس الٰہی اور عمر شہریار کے شیئر ہیں، پچھلے پانچ سالوں میں شوگر ملوں کو 29 ارب کی سبسڈی دی گئی، پانچ سالوں میں شوگر ملوں نے 22 ارب روپے کا ٹیکس دیا، جس میں 12 ارب ریفینڈ کے تھے۔ اس طرح پچھلے 5 سال میں کل ٹیکس 10 ارب روپے دیا گیا۔شہزاد اکبر نے کہا کہ چینی کی قیمت میں ایک روپے اضافہ کر کے اربوں روپے منافع کمایا جاتا ہے۔ برآمدات کی مد میں 58 فیصد چینی افغانستان کو جاتی ہے۔انہوں نے انکشاف کیا کہ حمزہ مل کی اونرشپ طیب گروپ آف انڈسٹریز کی ہے،کچی پرچی کا رواج العربیہ مل نے ڈالا۔ العربیہ نے 78 کروڑ روپے شوگر کین کم شو کیا۔ العربیہ کے 75 فیصد شہباز شریف فیملی کے شیئر ہیں۔وفاقی وزیر برائے اطلاعات ونشریات شبلی فراز نے کہا کہ فورنزک رپورٹ کی ساری تفصیلات سے پتا چلے گا کہ ملک میں کیا ہوتا رہا، تاہم یہ ابھی شروعات ہے۔ ہمارا منشور تبدیلی لانا اور مافیا کو بے نقاب کرنا ہے۔ کمیشن پہلے بھی بنتے رہے لیکن حکومت ایسے ایشو کو منظر عام پر لا رہی ہے جو پہلے نہیں ہوا۔وزیر اطلاعات نے کہا کہ چینی بحران کی تہہ تک جانے کے لیے وزیراعظم عمران خان نے اس کے فرانزک آڈٹ کا حکم دیا تھا، جس سے سب سے زیادہ متاثر غریب انسان ہوا۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کی ہدایت کے مطابق غیر منتخب رکن بھی اپنے اثاثے ڈکلیئر کریں گے۔ٹوئٹر پر اپنے بیان میں وزیراعظم کے معاون خصوصی شہباز گل نے کہاکہ کابینہ اجلاس میں طے ہوگیا ہے کہ جب تک عمران خان وزیراعظم ہیں کوئی عوام کو لوٹ نہیں سکتا، وہ وقت گیا جب وزیراعظم اور کابینہ مل کر غریب دشمن اقدامات کرتے تھے، سخت ترین دباو¿ کے باوجود کپتان آج غریب کے لیے ڈٹ کر کھڑا ہوا۔واضح رہے کہ شوگر فورنزک کمیشن (ایس ایف سی) کی جانب سے گزشتہ برس ہونے والے چینی بحران سے رپورٹ اپریل میں کے اواخر میں جمع کروانی تھی تاہم بعدازاں متعلق رپورٹ مرتب کرنے کے لیے مزید 3 ہفتے کی مہلت کی درخواست کی تھی۔خیال رہے کہ 9 مئی کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان کو ثبوت پیش کرنے چینی بحران کی تحقیقات کے لیے تشکیل دیے گئے تحقیقاتی کمیشن کے سامنے پیش ہوئے تھے۔شاہد خاقان عباسی نے چینی کے بحران کی تحقیقات کے لیے قائم انکوائری کمیشن کے سربراہ اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے چیئرمین واجد ضیا کو بحران سے متعلق شواہد فراہم کرنے کے لیے خط لکھا تھا۔سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے مطالبہ کیا تھا کہ ذمہ داری کے تعین کے لیے وزیراعظم عمران خان اور اسد عمر سے بھی تحقیقات کی جانی چاہیے جس کے بعد اسد عمر12 مئی کو کمیشن میں پیش ہوئے۔وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) اور وفاقی کابینہ کی جانب سے چینی اور اس کی برآمدات کے حوالے سے لیے گئے فیصلوں پر اپنا بیان ریکارڈ کروادیا۔13 مئی کو وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے دفاتر میں چینی اسکینڈل کی تحقیقات کرنے والی انکوائری کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر حکومت پنجاب سے متعلق اپنا بیان ریکارڈ کروادیا تھا۔بعدازاں 14 مئی کو وزیر اعظم کے مشیر تجارت عبدالرزاق داو¿د نے چینی بحران پر تحقیقات کرنے والے انکوائری کمیشن کے سامنے پیش ہوکر چینی مشاورتی بورڈ کے اس کی برا?مدات کے حوالے سے فیصلوں پر اپنا بیان ریکارڈ کرایا تھا۔واضح رہے کہ ملک میں چینی کے بحران کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی اپنی رپورٹ 4 اپریل کو عوام کے سامنے پیش کی تھی جس میں کہا گیا ہے کہ چینی کی برآمد اور قیمت بڑھنے سے سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کے گروپ کو ہوا جبکہ برآمد اور اس پر سبسڈی دینے سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا تھا۔معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کا نقطہ نظر یہ تھا کہ کہ چونکہ انہوں نے عوام سے رپورٹ منظر عام پر لانے کا وعدہ کیا تھا اس لیے اب یہ وقت ہے کہ وعدہ پورا کیا جائے۔دستاویز کے مطابق سال 17-2016 اور 18-2017 میں چینی کی پیداوار مقامی کھپت سے زیادہ تھی اس لیے اسے برآمد کیا گیا۔واضح رہے کہ پاکستان میں چینی کی سالانہ کھپت 52 لاکھ میٹرک ٹن ہے جبکہ سال 17-2016 میں ملک میں چینی کی پیداوار 70 لاکھ 80 ہزار میٹرک ٹن ریکارڈ کی گئی اور سال 18-2017 میں یہ پیداوار 66 لاکھ 30 ہزار میٹرک ٹن تھی تاہم انکوائری کمیٹی کی تحقیقات کے مطابق جنوری 2019 میں چینی کی برآمد اور سال 19-2018 میں فصلوں کی کٹائی کے دوران گنے کی پیدوار کم ہونے کی توقع تھی اس لیے چینی کی برآمد کا جواز نہیں تھا جس کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہوا۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ برآمد کنندگان کو 2 طرح سے فائدہ ہوا، پہلا انہوں نے سبسڈی حاصل کی دوسرا یہ کہ انہوں نے مقامی مارکیٹ میں چینی مہنگی ہونے سے فائدہ اٹھایا جو دسمبر 2018 میں 55 روپے فی کلو سے جون 2019 میں 71.44 روپے فی کلو تک پہنچ گئی تھی۔ملک میں چینی کے بحران اور قیمتوں میں اضافے کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ میں 2018 میں چینی کی برآمد کی اجازت دینے کے فیصلے اور اس کے نتیجے میں پنجاب کی جانب سے 3 ارب روپے کی سبسڈی دینے کو بحران کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔کمیٹی کی رپورٹ میں چینی کی برآمد اور قیمت میں اضافے سے زیادہ فائدہ اٹھانے والوں کے نام بھی سامنے لائے گئے ہیں جس کے مطابق اس کا سب سے زیادہ فائدہ جے ڈی ڈبلیو (جہانگیر خان ترین) کو ہوا اور اس نے مجموعی سبسڈی کا 22 فیصد یعنی 56 کروڑ 10 لاکھ روپے حاصل کیا۔رپورٹ کے مطابق اس کے بعد سب سے زیادہ فائدہ آر وائی کے گروپ کو ہوا جس کے مالک مخدوم خسرو بختیار کے بھائی مخدوم عمر شہریار خان ہیں اور انہوں نے 18 فیصد یعنی 45 کروڑ 20 روپے کی سبسڈی حاصل کی۔اس گروپ کے مالکان میں چوہدری منیر اور مونس الہٰی بھی شامل ہیں جبکہ اس کے بعد تیسرے نمبر پر زیادہ فائدہ الم±عیز گروپ کے شمیم احمد خان کو 16 فیصد یعنی 40 کروڑ 60 لاکھ روپے کی صورت میں ہوا۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ شمیم احمد خان کی ملکیت میں موجود کمپنیوں نے گزشتہ برس چینی کی مجموعی پیداوار کا 29.60 فیصد حصہ برآمد کیا اور 40 کروڑ 60 لاکھ روپے کی سبسڈی حاصل کی۔رپورٹ کے مطابق اومنی گروپ جس کی 8 شوگر ملز ہیں اس نے گزشتہ برس برآمداتی سبسڈی کی مد میں 90 کروڑ 10 لاکھ روپے حاصل کیے، خیال رہے کہ اومنی گروپ کو پی پی پی رہنماو¿ں کی طرح منی لانڈرنگ کیس کا بھی سامنا ہے۔تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں اس اہم پہلو کو بھی اٹھایا ہے کہ برآمدی پالیسی اور سبسڈی کا سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے سیاسی لوگ ہیں جن کا فیصلہ سازی میں براہ راست کردار ہے، حیران کن طور پر اس فیصلے اور منافع کمانے کی وجہ سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا اور اس کی قیمت بڑھی۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain