Tag Archives: imtnan

قوم کو عمران کے وعدوں پر اعتماد ، شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی مثال

تجزیہ: امتنان شاہد

وزیراعظم عمران خان نے کل اپنے قوم سے پہلے خطاب میں جو باتیں کی ہیں وہ ان باتوں کا تسلسل ہے جو انہوں نے الیکشن جیتنے کے بعد اپنی تقریر میں کی تھیں۔ پہلی تقریر میں وہی سب کچھ کہا سب سے پہلے احتساب کی بات کی، سادگی سے حکومت چلانے کے لئے اخراجات کم کرنا پڑتے ہیں۔ انہوں نے 4 منٹ تک پاکستان کی خارجہ پالیسی کے بارے میں بات کی اور اس کے بعد ایک گھنٹہ 40 منٹ کے قریب کے ڈومیسٹک ایشوز، اندرونی مسائل کے بارے میں بات کی۔ انہوں نے سب سے بڑی بات سول سروس ٹھیک کرنے، پانی کے مسئلہ پر کی۔ لیکن ان کے خطاب کے بنیادی خیال کو دیکھا جائے تو اس میں سب سے بنیادی چیز جو میرے خیال میں انہوں نے کی کہ وہ عام آدمی کو بنیادی سہولیات مہیا کرنے کے بارے میں کی گئی ہے جس میں ہیلتھ ایجوکیشن، جوڈیشل سسٹم ، انصاف کا حصول ہے۔ پولیس سسٹم میں اصلاحات ہیں یہ سب جڑے ہوئے ہیں اس عام آدمی کے مسائل سے جو ان اداروں میں جا کر دھکے کھاتا ہے کس طرح سے اسے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ کس طریقے سے اس میں بہتری لائی جا سکتی ہے اس بارے میں انہوں نے بات کی ہے۔ جو ان کا سب سے بڑا اور اہم اعلان ہے سادگی کہ اس حکومت کو چلانے کے لئے سب سے ضروری طریقہ کار کیا ہونا چاہئے جو ہمارے ماضی کے حکمرانوں نے نہیں کیا کہ ہم قرضے تو لیتے رہے۔ ہمارے اخراجات ہماری آمدن سے کئی گنا زیادہ رہے۔ اگر آپ کو یاد ہو کہ میں نے پہلے بھی لکھا بھی تھا اور کہا بھی تھا کہ جس عمران خان کو میں جانتا ہوں وہ یہ سب کچھ کر گزریں گے۔ میں نے الیکشن سے دو دن بعد ہونے والی تقریر میں جب انہوں نے کہا تھا کہ وہ وزیراعظم ہاﺅس میں نہیں رہیں گے۔ وہاں رہنا تو دور کی بات ہے وہ وزیراعظم ہاﺅس کو کسی سوشل ادارے میں بدل دیں گے یہی بات میں نے گورنر ہاﺅسز کے بارے میں کہی تھی کہ انہوں نے اپنے گورنروں کو گورنر ہاﺅسز میں رہنے سے روک دیا ہے اور میری یہ بات بھی یاد رکھیں کہ گورنر ہاﺅسز کو یا تو کمرشلائز کر دیا جائے یااسے کسی پرائیویٹ سیکٹر میں دے دیا جائے گا۔ اسی طرح وزیراعلیٰ ہاﺅسز کے اخراجات میں بھی کمی کی جائے گی۔ جس جس طریقے سے بھی پاکستان کا پیسہ بچ سکا وہ بچائیں گے۔ تیسری اور سب سے ضروری چیز اگر یہی تقریر ہمارے ماضی کے کوئی دیگر حکمران جو اچھے یا برے، خامیاں تھیں خوبیاں تھیں اگر وہ یہی سب کچھ کہہ رہے ہوتے تو شاید اس تقریر کا امپیکٹ پاکستانی قوم پر، پاکستان کے عام شہری پر جس نے یہ تقریر سنی وہ نہ ہوتا۔چونکہ عمران خان نے یہ بات کی ہے اور عمران کی کریڈیبلٹی ہے۔ یہ وہ آدمی کہہ رہا ہے جس کے پیچھے 22 سال کی جدوجہد ہے یہ وہ آدمی کہہ رہا ہے جس نے 22 سال میں 2 ہسپتال، ایک یونیورسٹی، ایک ایم این اے اور 33 ایم پی ایز کے ساتھ دو اسمبلیوں میں رہ کر بنا کر دکھائی۔ وہ کیسے بنا کر دکھائی چونکہ عام آدمی نے عمران خان کی ذات پر اعتماد کیا۔ وہ اعتماد یہ تھا کہ اس نے عوام سے جو پیسہ لیا وہ کام کر کے دکھائے۔ یہ فرق ہے عمران خان نے وزیراعظم بننے کے بعد اپنے پہلے قوم سے پہلے خطاب میں کی ہے عمران بہ نسبت ماضی کے حکمران مختلف اوقات میں کرتے رہے ہیں۔ وہ وعدے ضرور کرتے رہے مگر عمل نہیں کروا سکے۔ وہ وعدے تو کرتے رہے جنوبی پنجاب صوبہ پچھلی دو حکومتوں میں نہیں بنا۔ وہ وعدے ضرور کرتے رہے مگر ہسپتالوں کی حالت زیر وہی رہی ہے۔ وہ وعدہ ضرور کرتے رہے پولیس کا نظام درست نہ کر سکے۔ وہ وعدے ضرور کرتے رہے مگر ایوان صدر، وزیراعظم ہاﺅس کے اخراجات میں کبھی کمی نہیں آئی۔ تو یہ وہ فرق ہے جو آج کے بعد سے پاکستانی قوم کو میں پرامید ہوں وہ دکھائی دے گا۔ سب سے ضروری بات یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں وزیراعظم عمران خان کے مشکل ترین وقت ہے ان فیصلوں کے جس کا اعلان انہوں نے کیا ہے اگر ہماری ملک کی بیورو کریسی، اسی وجہ سے انہوں نے خاص کر میں نے کئی وزراءاعظم کی تقاریر سنی ہیں اور ان کی پالیسی سٹیٹ منٹ سنی لیکن سب سے ضروری بات جو انہوں نے کہا کہ ہم پالیسی بناتے رہیں گے اگر اس پر عملدرآمد کرنے کے لئے ہماری بیورو کریسی مدد نہیں کرے گی جس کا مجھے سب سے زیادہ خدشہ ہے۔ لیکن امید ہے عمران خان کے آنے کے بعد پاکستان کی بیورو کریسی کو عملدرآمدکرنا پڑے گا۔کیونکہ بیورو کریسی کو پتہ ہے کہ اگر انہوں نے حکومتی پالیسی پر عملدرآمد نہ کیا تو وہ اپنی موجودہ پوزیشن پر نہیں رہیں گے۔ ایسا ہونے والا ہے ہو سکتا ہے تھوڑا ٹائم لگ جائے، وزیراعظم نے اشارہ دے دیا ہے۔ وزیراعظم نے اپنی ایک گھنٹہ 45 منٹ کی تقریر میں ایک گھنٹہ 38 منٹ پاکستان کے ڈومیسٹک و اندرونی ایشوز پر کی ہے، اس انفراسٹرکچر پر کی ہے جس کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر عمران خان کے خیالات 22 سال پہلے والے ہی ہیں تو میرے خیال میں وہ یہ کر گزریں گے کیونکہ اگر نہ کیا تو ماضی کے حکمرانوں کی طرح کٹہرے میں ہوں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر عمران خان 2 ملازم اور 2 گاڑیاں رکھتے ہیں تو باقی ملازموں کی تنخواہیں اور گاڑیوں سے ماہانہ کروڑوں روپے کی بچت آتی ہے۔ میری معلومات کے مطابق وزیراعظم میں ہونے والی کسی ایک تقریب کے اخراجات 6 سے 7 کروڑ روپے ہوتے ہیں اگر سو سے زائد افراد ہوں۔ ماضی میں حکمرانوں کا طرززندگی شاہانہ رہا ہے۔ اور وہ وہی پیسہ تھا جو لوگوں پر لگنا چاہئے تھا۔ میرا نہیں خیال تھا کہ وہ اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں کا بھی خاص خیال رکھیں گے۔ بڑے اعلانات کی توقع تھی۔ وزیراعظم ہاﺅس میں یونیورسٹی بنانے کا مجھے معلوم تھا، 3 بڑے ہوٹلز سے بھی ان کی بات ہوئی ہے اگر وہ اس کو یونیورسٹی کے بجائے ہوٹل میں تبدیل کرنا چاہیں۔ برطانیہ میں 2 یونیورسٹیوں کے کیمپس سے بھی بات ہوئی ہے کہ کیا وہ یہاں اپنا کیمپس بنانا چاہتے ہیں۔ یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے کہ وزیراعظم ہاﺅس یونیورسٹی بنے گی یا ہوٹل بہرحال اگر وہ پیسہ وہاں کی بجائے ملکی خدمت میں لگے گا تو وہ عوام کا پیسہ ہے اس کی طرف جائے گا۔