ڈالر گرل کی مشکل آسان ہو گئی اہم شخصیت بھی حق میں بول پڑی

اسلام آباد(اویب ڈیسک)سپریم کورٹ آف پاکستان نے وزارت داخلہ کی درخواست مسترد کرکے سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے سپر ماڈل ایان علی کو بیرون ملک جانے کی اجازت دےدی۔پیر کو چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے وزارت داخلہ کی درخواست پر سماعت کی۔وفاق کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی عدالت میں پیش ہوئے۔سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ ایان علی کا نام تو آپ نے تیسری بار ای سی ایل میں ڈال دیا ہے ¾بتائیں کہ حکومت نے قتل کے کتنے ملزموں کا نام ای سی ایل میں ڈالا ¾ لگتا ہے کہ آپ ہر قیمت پر ملزمہ کو روکنا چاہتے ہیں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل صاحب ہم آپ سے دائرہ اختیار کا پوچھ رہے ہیں اور آپ اپیل کا دفاع کر رہے ہیں۔ انہوں نے پوچھا کہ ایک تفتیشی افسر کو قتل کر دیا گیا، کیا پنجاب حکومت نے کوئی شکایت کی۔جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ بتائیں کہ ایان علی کے خلاف مقدمہ کب درج ہوا تھا جس پر ایڈیشل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 2 جون 2015 کو ایان علی کے خلاف مقدمہ درج ہوا تھا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بہت افسوس کی بات ہے کہ اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی کیس کی تفتیش مکمل نہیں ہو سکی۔ جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیئے کہ آپ ہائی کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کر کے ہم سے مدد مانگ رہے ہیں۔چیف جسٹس نے وزارت داخلہ کی جانب سے ایان علی کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا اور ماڈل ایان علی کو بیرون ملک جانے کی اجازت دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ بینک کسی کا نام ای سی ایل میں ڈالے تو بینک کو بلا کر سماعت نہیں کر سکتے۔یاد رہے کہ 19 جنوری کو سندھ ہائیکورٹ نے ماڈل ایان علی کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کا فیصلہ سنایا تھا تاہم چند ہی گھنٹوں بعد وفاق کی درخواست سامنے آنے کے بعد اس فیصلے کو 10 دن کےلئے مو¿خر کردیا گیا تھا۔بعدازاں 28 جنوری کو وفاقی وزراتِ داخلہ نے ماڈل ایان علی کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے مو¿قف اختیار کیا تھا ایان کا نام وزارت داخلہ پنجاب کی درخواست پر ای سی ایل میں ڈالا گیا تھالہذا سندھ ہائی کورٹ کو اس معاملے پر سماعت کا اختیار نہیں۔درخواست میں کہا گیا کہ سندھ ہائی کورٹ نے درخواست کے قابلِ سماعت ہونے کا معاملہ نظرانداز کرتے ہوئے ماڈل کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا فیصلہ سنایا ¾ ریفری جج نے ایان علی کے حق میں فیصلہ دینے کی وجوہات بھی بیان نہیں کیں۔کہا گیا تھا کہ سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے کیونکہ اس معاملے پر محکمہ داخلہ پنجاب کا مو¿قف نہیں سنا گیا۔ماڈل ایان علی کو 14 مارچ 2015 کو اسلام آباد کے بے نظیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے دبئی جاتے ہوئے ا±س وقت حراست میں لیا گیا تھا جب دورانِ چیکنگ ان کے سامان میں سے 5 لاکھ سے زائد امریکی ڈالر برآمد ہوئے تھے۔ملزمہ کی گرفتاری کے وقت ان کے 3 پاسپورٹ بھی ضبط کیے گئے تھے جن میں سے ایک کارآمد ¾ دو منسوخ شدہ ہیں جن پر ویزے لگے ہوئے تھے۔ایان علی کے خلاف کرنسی اسمگلنگ کا مقدمہ درج ہونے کے بعد انھیں راولپنڈی کی اڈیالہ جیل منتقل کیا گیا جس کے بعد ان کے خلاف کسٹم کی عدالت میں سماعت شروع ہوئی اور کسٹم کے عبوری چالان میں انہیں قصوروار ٹھہرایا گیا۔بعد ازاں ایان علی نے راولپنڈی کی کسٹم عدالت اور لاہور ہائی کورٹ میں اپنی ضمانت کی درخواست دائر کی جسے مسترد کردیا گیا۔لاہور ہائی کورٹ میں ضمانت کی دوسری درخواست کا فیصلہ ماڈل کے حق میں آیا جس کے بعد انہیں عدالت کے حکم پر جیل سے رہا کردیا گیا تھا۔

انصاف پر مبنی سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ

اسلام آباد (ویب ڈیسک) عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ میں پندرہ، بیس دن کے اندر اندر فیصلہ آجائے گا، سپریم کورٹ انصاف پر مبنی تاریخی فیصلہ دے گی۔میڈیاسے گفتگو میں شیخ رشید احمد نے کہاکہ جیسے جیسے پاناما کیس آگے جارہاہے ¾شریف فیملی اپنے بیانات کوبدل رہی ہے ¾ یہ جو مرضی کرلیں جھوٹ ان کے گلے پڑےگا۔انہوں نے کہا کہ اخبارات سے پتا چلا ہے کہ کوئی نیا خط آرہا ہے ¾ ایک جھوٹ کو چھپانے کےلیے کئی جھوٹ بولے جارہے ہیں۔

ون ڈے کپتان کی ڈوبتی کشتی ….سوراخ بڑھنے لگے

لاہور (ویب ڈیسک )سابق کرکٹرز کی مخالفت کے بعد قومی ون ڈے کپتان اظہر علی کی ڈوبتی کشتی میں سوراخ بڑھنے لگے۔سابق کپتان وسیم اکرم کا کہنا تھا کہ ہمارے کلچر میں دو یا تین کپتان نہیں چل سکتے ،اظہر علی کی جگہ سرفراز احمد کو کپتان ہونا چاہئے اوراس کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ کپتان تبدیل ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ٹیم فوراً ہی تبدیل ہو جائے گی بلکہ اس سے رفتہ رفتہ بہتری آئے گی۔رمیز راجہ نے بھی اظہر علی کو عہدے سے ہٹانے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ سرفراز احمد بہترین چوائس ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اظہر علی میں صورتحال کے حساب سے فیصلے کرنے کی اہلیت نہیں۔ سابق فاسٹ باو¿لر شعیب اختر نے کہا کہ سرفراز احمد تینوں فارمیٹس کے بہترین کپتان ہیں۔ٹیم لیڈرکی تقرری بھی ایک آرٹ ہے مگر یہ کام کون کرے گا معلوم نہیں۔ہاں اگر یہ کام انضمام الحق کریں تو ہو سکتا ہے ، تیر سیدھا نشانے پر لگے۔ سابق کپتان محمد یوسف نے بھی ون ڈے ٹیم کے کپتان کے طور پر سرفراز احمد کا نام لیا اور کہا کہ کپتانی کیلئے ایک ہی نام ہے اور وہ سرفراز احمد ہیں۔سابق باو¿لرسکندر بخت کا کہنا تھا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کا آئین ہی غلط ہے جبکہ شہریارخان کے پاس کپتان مقرر کرنے کا حق نہیں۔ عاقب جاوید کا کہنا تھا کہ کپتان کے پاس وڑن ہونا چاہئے، اگر پھر کسی غیر موزوں کھلاڑی کو کپتانی سونپی گئی تو پھر کپتان ہی بدلتے رہیں گے اور آئی سی سی ورلڈ کپ سر پر آجائے گا۔

قومی ٹیم اور پوری قوم کیلئے مایوس کن صورتحال

کراچی(ویب ڈیسک ) سابق آل راو¿نڈر عبدالرزاق نے کہا ہے کہ گرین شرٹس کو اگر ورلڈ کپ میں رسائی کے لئے کوالیفائنگ راو¿نڈ کھیلنا پڑا تو ان کیلئے یہ بڑی تکلیف دہ اور مایوس کن بات ہو گی۔ واضح رہے کہ پاکستان پر ابھی تک ورلڈ کپ کا کوالیفائنگ راو¿نڈ کھیلنے کی تلوار لٹک رہی ہے اور اسے دورہ ویسٹ انڈیز میں ون ڈے سیریز کے دوران اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ ایک انٹرویو میں عبدالرزاق نے کہا کہ وہ خود بھی ملک کی طویل عرصے تک نمائندگی کر چکے اور اتنی مایوس کن صورتحال سے ماضی میں دوچار نہیں ہوئے۔درحقیقت پاکستان کرکٹ کی موجودہ حالت تکلیف دہ ہے۔پاکستان کو اگر ورلڈ کپ میں براہ راست رسائی نہ ملی تو یہ صرف ان کیلئے ہی نہیں بلکہ پوری ٹیم اور قوم کیلئے بھی انتہائی مایوس کن صورتحال ہو گی۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ قومی ٹیم جلدایک روزہ میچز جیتنا شروع کر دے گی اور کوالیفائنگ راو¿نڈ کھیلنے کی شرمندگی سے خود کو بچا نے میں کامیاب ہوجائے گی۔ عبدالرزاق کا کہنا تھا کہ پاکستانی ٹیم کی موجودہ حالت کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ملک میں کھلاڑیوں کا معیاری ٹیلنٹ سامنے نہیں آرہا اور ماضی میں جس طرح سپر اسٹارز قومی اسکواڈ میں شامل ہوتے تھے ، ویسا اب ایک کھلاڑی بھی نظر نہیں آتا۔

دراز قد گیند باز کا سب بلے بازوں کو نشانہ بنانے کا عہد

لاہور(ویب ڈیسک) بائیں ہاتھ کے دراز قد فاسٹ باﺅلر محمد عرفان پنجاب بھر میں ہونے والے لاہور قلندرز کے ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام رائزنگ اسٹارز کی دریافت ہیں۔محمد عرفان کا تعلق ننکانہ صاحب کے محنت مزدوری کرنے والے گھرانے سے ہے لیکن کرکٹ محمد عرفان کا جنون ہے اور وہ اسی میں نام کمانا چاہتے ہیں۔ محمد عرفان کا کہنا ہے کہ کیون پیٹرسن ہوں یا کرس گیل، کوئی فرق نہیں پڑتا، ان کے نشانے پر سب ہوں گے۔لاہور قلندرز کے ڈائریکٹر عاقب جاوید نے محمد عرفان کی نشاندہی کی تھی، عاقب جاوید کہتے ہیں کہ محمد عرفان کا ایکشن ہی منفرد نہیں مہارت بھی خوب ہے ۔ سابق فاسٹ باﺅلر وقار یونس محمد عرفان کے آئیڈیل فاسٹ باﺅلر ہیں، محمد عرفان کہتے ہیں کہ وہ پی ایس ایل میں لاہور قلندرز کے پلیٹ فارم کو مایوس نہیں کریں گے۔

کالا دھن سفید کرنے کا طریقہ ….مزید جانیئے

اسلام آباد(ویب ڈیسک)پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری نے کہا ہے کہ مرضی کا چیئرمین نیب لگایاگیا اور اس نے مرضی کے فیصلے کیے،قطری اور سونے کے انڈر دینے والی مرغی میں کوئی فرق نہیں،حدیبیہ پیپرمل کے نام سے جعلی مل بنائی گئی،پیسہ باہر حدیبیہ پیپرمل کے ذریعے وائٹ کیاگیا،میاں نوازشریف اس جائیداد کے اصل مالک ہیں۔پیر کو سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہاکہ قطری اور سونے کے انڈے دینے والی مرغی میں فرق نہیں،ایک پوری منی ٹریل اسحاق ڈار کے گرد گھومتی ہے،تین جعلی اکاﺅنٹس پاکستان اور تین لندن میں بنائے گئے۔انہوں نے کہاکہ پہلے پیسہ باہر بھیجا گیا،کالادھن سفید کرنے کیلئے مل لگائی گئی،اسحاق ڈار مالی مفادات کے محافظ تھے،حدیبیہ پیپرمل کے نام سے جعلی مل بنائی گئی،مرضی کا چیئرمین نیب لگایا گیا اور اس نے مرضی کے فیصلے کئے،پیسہ باہر بھیج کر حدیبیہ مل کے ذریعے وائٹ کیاگیا۔فواد چوہدری نے کہاکہ حسن اور حسین نواز کاتعلق نہیں اصل مالک مریم نواز ہیں،مریم کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ وہ جائیداد کی مالک بن سکیں،میاں نوازشریف اس جائیداد کے اصل مالک ہیں۔

گڑھے مردے باہر نکا ل کر جشن ….حیرت انگیز انکشاف

اسلام آباد(ویب ڈیسک)مسلم لیگ(ن) کے رہنماﺅں نے کہا ہے کہ تحریک انصاف گڑھے مردے باہرنکال کہ جشن مناناچاہتی ہے،عمران خان کے ہرالزام کا ثبوتوں کے ذریعے سامناکیاہے،تحریک انصاف لوگوں کے ذہنوںکےساتھ کھیل رہی ہے،اٹک جیل میں لیے گئے اسحاق ڈار کے بیان کی کوئی حیثیت نہیںہے،عمران خان کے جلسیوںسے ثابت ہوتاہے،ان کے پانامہ پیپرز مستردہوچکے ہیں،امریکی ویزے بندکرنے کے حوالے سے عمران خان کا بیان غیرذمہ درانہ ہے۔پیر کو سپریم کورٹ کے باہرمیڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیرمملکت آئی ٹی انوشہ رحمان نے کہاکہ 1.2ارب روپے کے حوالے سے حدیبیہ پیپرملز نے قرض کی تمام رقم واپس کی،حدیبیہ ملز کے معاملے پر کوئی سرکاری رقم سے مل نہیں تھی،لین دین دو بنکوں کے درمیان ہوا۔انہوں نے کہاکہ اٹک جیل میں لیے گئے اسحاق ڈار کے بیان کی کوئی حیثیت نہیں ہے،تحریک انصاف گڑھے مردے باہرنکال کرجشن مناناچاہتی ہے،آمریت کے دور میں سیاستدانوں کو بندوق کے زور پر مجبورکیاجاتاہے۔مسلم لیگ (ن) کے رہنما دانیال عزیز نے کہاکہ عمران خان کے ہرالزام کا ثبوتوں کے ذریعے سامناکیاہے،اسحاق ڈار نے خودکہا کہ یہ بیان غیرقانونی ہے،عمران خان کو اپنے کالے دھن کا پیسہ سفیدکرنے پر بھی شرمندگی نہیں،تحریک انصاف لوگوںکے ذہنوں کے ساتھ کھیل رہی ہے۔مسلم لیگ (ن) کی رہنما مائزہ حمید نے کہا کہ عمران خان نے کل جلسی میں پانامہ پیپرز بیچنے کی کوشش کی،عمران خان کی جلسیوں سے ثابت ہوتاہے کہ ان کے پانامہ پیپرز مسترد ہوچکے ہیں،امریکی ویزے بندکرنے کے حوالے سے عمران خان کابیان غیرذمہ دارانہ ہے۔….(خ م)

پاناما کیس :اسحاق ڈار کا بیان وزیر اعظم کیخلاف!!!

اسلام آباد(ویب ڈیسک)پاناما کیس کی سماعت کے دوران وزیراعظم نوازشریف کے وکیل نے شریف خاندان کی وراثتی جائیداد کی تقسیم جب کہ نیب نے منی لانڈرنگ کیس میں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی معافی سے متعلق ریکارڈ جمع کرادیا۔پیر کو سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل پانچ رکنی بینچ نے امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق، چیئرمین تحریک انصاف عمران خان، سربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید احمد اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے وزیراعظم نوازشریف اور ان کے خاندان کے افراد کی آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کے لئے دائر درخواستوں پر سماعت کی ۔ سماعت کے آغاز پر وزیراعظم کے وکیل نے شریف خاندان کی وراثتی جائیداد کی تقسیم جب کہ نیب نے منی لانڈرنگ کیس میں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی معافی سے متعلق ریکارڈ جمع کرادیا۔نیب کے ریکارڈ کے مطابق 20 اپریل 2000 کو اسحاق ڈار نے معافی کی درخواست دی جسے چیئرمین نیب نے 21 اپریل 2000 کو منظور کرلیا۔ 24 اپریل کو تحقیقاتی افسر نے بیان ریکارڈ کرنے کی درخواست دی، 25 اپریل کو اسحاق ڈار کا اعترافی بیان مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ ہوا۔سماعت کے دوران اسحاق ڈار کے وکیل شاہد حامد نے اپنے دلائل میں کہا کہ ان کے موکل کے خلاف نااہلی کی درخواست اور انٹرا کورٹ اپیلیں خارج ہوئیں، نواز شریف اور دیگر کے خلاف ریفرنسز خارج کرنے کا فیصلہ رپورٹ کیا جاچکا ہے۔ دوبارہ تفتیش کروانے کے معاملے پر 2 رکنی بنچ میں اختلاف تھا، اس لیے فیصلہ ریفری جج نے سنایا، ریفری جج نے نیب کی دوبارہ تحقیقات کی درخواست مسترد کی۔ ہائی کورٹ کے 5 ججز نے کہا کہ ایف آئی اے کو بیرونی اکاو¿نٹس کی تحقیقات کا اختیار نہیں، جسٹس آصف کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ فیصلے میں ریفرنس خارج اور تفتیش نہ کرنے کا کہا گیا۔ جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ کیا اس عدالتی فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا، جس پر شاہد حامد نے بتایا کہ اس فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں کیا گیا۔ عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کا وقت بھی ختم ہو چکا ہے۔جسٹس اعجاز افضل کے استفسار پر شاہد حامد نے بتایا کہ اسحاق ڈار کا بیان ان کے وعدہ معاف گواہ بننے کے بعد ریکارڈ کیا گیا، اسحاق ڈار پر منی لانڈرنگ کیس ختم ہو گیا، یہ 25 سال پرانا معاملہ ہے جسے 13 سے زائد جج سن چکے ہیں، منی لانڈرنگ کے الزام کے وقت اسحاق ڈارکے پاس عوامی عہدہ نہیں تھا، اب صرف الزام کی بنیاد پر انہیں نااہل قرار نہیں دیا جا سکتا۔شاہد حامد کی بات پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ اسحاق ڈارکومکمل معافی دی گئی اور انہوں نے چیئرمین نیب کو معافی کی تحریری درخواست خود دی تھی، معافی ملنے کے بعد اسحاق ڈار ملزم نہیں رہے، وعدہ معاف گواہ بننے کے بعد اسحاق ڈار کا بیان ان کے نہیں بلکہ وزیراعظم کے خلاف استعمال ہوسکتا ہے۔اسحاق ڈار کے وکیل شاہد حامد کے دلائل مکمل ہونے کے بعد پراسیکیوٹر جنرل نیب نے اسحاق ڈار کیس سے متعلق تفصیلات عدالت کو بتانا شروع کیں، جسٹس آصف کھوسہ نے استفسار کیا کہ نیب نے شریف فیملی کیخلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کیوں نہ کی، پراسیکیوٹر جنرل نیب نے جواب میں کہا کہ ہائیکورٹ کے ججز کی دانش کو مدنظر رکھتے ہوئے اپیل دائر نہیں کی، جس پر جسٹس آصف کھوسہ نے دوربارہ استفسار کیا کہ کیا نیب ہائیکورٹ کے کسی فیصلے کے خلاف اپیل دائر نہیں کرتا۔ سپریم کورٹ نے نیب، اسٹیٹ بینک اور ایس ای سی پی کی جانب سے فیصلے کے خلاف اپیل دائر نہ کرنے پر اٹارنی جنرل سے تحریری جواب طلب کرلیا۔حسن اور حسین نواز کے وکیل سلمان اکرم راجا نے اپنے دلائل میں کہا کہ ان پر بہت بوجھ ہے جس کی انہیں وضاحت کرنی ہے، عدالت نواز شریف، حسن نواز اور حسین نواز کے بیانات اور دستاویزات کا جائزہ لے، جسٹس اعجازافضل نے ریمارکس دیئے کہ حسن اور حسین کے خلاف تو کوئی بھی استدعا نہیں کی گئی، یہ کسی اور کی جائیداد تھی جو مختلف ذرائع سے ہوتی ہوئی آپ کے پاس آئی، تمام چیزیں نوازشریف کی طرف ہی لوٹ جاتی ہیں۔سلمان اکرم راجا نے کہا کہ درخواست گزارکی استدعا ہے کہ لندن فلیٹس لوٹی ہوئی رقم سے بنائے گئے، حسین نوازنہیں اصل مالک نواز شریف ہیں، اس لیے لندن فلیٹس کوضبط کیا جائے حالانکہ نواز شریف کا لندن فلیٹس سے کوئی تعلق نہیں اور ان فلیٹس کے بینی فیشل اونر حسین نواز ہیں، جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو ثابت کرنا ہوگا کہ نواز شریف لندن فلیٹس کے مالک نہیں اور یہ جائیدادیں آپ کے موکل کی ہیں۔ جس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ اس بات کاتعین تحقیقات کے بغیر ممکن نہیں ۔سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ درخواست میں براہ راست الزام نوازشریف پر نہیں،درخواست میں پوری شریف فیملی پر الزام ہے۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ آپ کہنا چاہتے ہیں بیل کوسینگوں سے پکڑاجائے۔سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ درخواست گزار چاہتا ہے کہ لندن کی جائیدادیں ضبط کی جائیں،درخواست گزار کی استدعا میں تضادہے،درخواست گزار لوٹی ہوئی رقم کی تحقیقات چاہتاہے۔جسٹس اعجاز افضل خان نے کہاکہ الزام ہے لوٹی ہوئی رقم کی منی لانڈرنگ کی گئی،سلمان اکرم راجہ نے کہ کہ منی لانڈرنگ کا تعین184/3کے مقدمے میں نہیں ہوسکتا،عدالت میں شواہد پیش نہیں کیے گئے،صرف الزام لگانے والوں کا موقف آیا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ حسین نواز کہتے ہیں کہ وہ کمپنیوں کے بینی فیشل مالک ہیں۔ آپ ریکارڈ سامنے لائیں توحقائق کا پتہ چلے گا،آف شور کمپنیوں کا ریکارڈ عدالت میں پیش کیاجائے،سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ عدالت قانون کو دیکھے،ثبوت دیناالزام لگانے والوں کا کام ہے،ملزم الزام ثابت ہونے تک معصوم ہوتاہے،عدالت حاکم علی زرداری کیس میں یہ مثال قائم کرچکی ہے،سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ خود کو بے گناہ ثابت کرنے کا بوجھ ملزم پر کم ہے،کلثوم نواز نے 2000میں کوئی انٹرویونہیںدیا،میاں شریف نے گلف فیکٹری1973میں قائم کی،1978میں فیکٹری کے 75فیصد حصص فروخت کیے گئے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ گلف اسٹیل ملز کب سے کمرشل آپریشنل ہوئی؟،گلف اسٹیل کیلئے قرضہ کس سے لیاگیا؟،قرضہ کس چیز پر لیاگیا یہ واضح نہیں،سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ یہ میاں شریف کا ریکارڈ ہے جو پیش کر رہاہوں،قرضے کے متعلق کوئی ریکارڈ موجود نہیں،یہ تسلیم شدہ ہے دبئی کی گلف فیکٹری 1973میں قائم کی گئی،75فیصد شیئرزکی رقم بینک قرضے کی مد میں واپس کی گئی۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ گلف فیکٹری کے واجبات36ملین درہم تھے،فیکٹری کے واجبات کیسے ادا ہوئے بتایاجائے۔جسٹس گلزار احمد نے کہاکہ کمپنی خسارے میں تھی تو 12ملین درہم کیسے مل گئے؟۔سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ نئی کمپنی نے جب گلف فیکٹری کا انتظام سنبھالا تو خسارہ نہ تھا۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ 1978میں فیکٹری کے 75فیصد حصص فروخت کرکے بھی15ملین واجبات باقی تھے،کیاآپ کو اندازہ ہے کہ باقی واجبات کیسے ادا ہوئے،سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ کوئی اندازہ نہیں صرف قیاس آرائیاں ہیں۔سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میاں شریف نے 15ملین درہم کیسے ادا کیے معلوم نہیں۔جسٹس اعجاز افضل خان نے کہاکہ کیا واجبات کی ادائیگی کا ریکارڈ موجود نہیں،سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ 40سال بعد ریکارڈ دستیاب نہیں،1999کے مارشل لا کے بعد ریکارڈ قبضے میں لے لیا گیا۔جسٹس اعجاز افضل خان نے کہاکہ ہم تو صرف پوچھ رہے ہیں جائیداد کیسے خریدی گئی،سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ میاں شریف کا ٹرائل کیا جارہاہے،میاں شریف نے فیکٹری70کی دہائی میں لگائی،40سال کاریکارڈ سنبھال کر رکھنے کی کیاضرورت تھی؟،12ملین درہم شریف خاندان نے فیکٹری فروخت کرکے حاصل کیے،ان چیزوں کاریکارڈمانگاجارہاہے،جن کا تعلق میاں شریف سے ہے،1980میں فیکٹری فروخت کرکے معاہدے پر طارق شفیع نے دستخط کیے۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ طارق شفیع کے دستخط میں بہت زیادہ فرق لگتاہے،بیان حلفی اور فیکٹری فرو خت کے معاہدے پر دستخط مختلف ہیں،سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دستخط میں فرق آجاتاہے۔جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے کہاکہ 1972میں فیکٹری کا پیسہ دبئی گیا؟،سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ دبئی فیکٹری کیلئے پیسہ دبئی نہیں گیا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ کوئی وضاحت نہیں کہ فیکٹری لگانے کیلئے پیسہ کہاں سے آیا؟، سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ پیسہ پاکستان سے دبئی نہیں گیا،کسی کے پاس حقائق ہیں تو سامنے لائے۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ آہستہ آہستہ چلیں ساتھ لے کر چلیں،آپ نے ہمارے ذہن کو کلیئرر کرنا ہے جو خلا ہے اسے پر کرنا ہے،سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ مجھے کوئی جلدی نہیں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ ہم کیس کے ہرپہلو کو جانناچاہتے ہیں،آپ جو کہانی سنارہے ہیں وہ پہلے بھی سن چکے ہیں،سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ میں تو صرف فیکٹری کے متعلق معاہدوں کوپڑھ رہاہوں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ بیانات میں دبئی،جدہ اور لندن کا ذکرتھا،حسین نواز نے لندن،دبئی اور قطر کا ذکرکردیاہے،وکیل نے کہاکہ عبدالرحمان محمد عبداللہ نے دبئی فیکٹری کی خریدکو بیان حلفی میں تسلیم کیا۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ طارق شفیع کے بیان حلفی میں فیکٹری واجبات کی ادائیگی کا ذکر نہیں۔وکیل نے کہاکہ میاں شریف کے 70,80اور 90کی دہائی کے کاموں کا حساب کیسے دوں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ وزیراعظم کے وکیل نے کہا تھا یہ سوال حسین کے وکیل سے پوچھیں،سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ مجھ سے میرے بارے میں سوال پوچھیں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ وزیراعظم نے کہاکہ تمام ریکارڈ موجود ہے،وزیراعظم نے کہا ثبوتوں کا انبارموجود ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ وزیراعظم نے تمام ریکارڈ کی موجودگی کا ذکر کیا،سلمان اکرم راجہ نے طارق شفیع کا بیان حلفی عدالت میں پڑھ کر سنایا،سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ طارق شفیع نے 12ملین درہم کی رقم دبئی سے فہدبن جاسم کو نقد دی،دنیا بھر میں نقد رقم سے کاروبار ہوتاہے۔جسٹس گلزار احمد نے کہاکہ ہم یہ جاننا چاہتے ہیں12ملین درہم کیسے ملے؟۔سپریم کورٹ میں پانامہ کیس کی سماعت(آج )منگل تک ملتوی کردی گئی ہے۔….

داعش نے حضرت یونس کا مزار شہید کر دیا

بغداد(مانیٹرنگ ڈیسک) شام و عراق میں شدت پسند تنظیم اب تک کئی قدیم تاریخی اور مذہبی مقامات کو تباہ کر چکی ہے۔رپورٹ کے مطابق عراق افواج، جو موصول کو داعش کے قبضے سے چھڑوانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں، نے انکشاف کیا ہے کہ شدت پسند تنظیم نے حضرت یونس کا مزار بھی شہید کر دیا ہے۔ ان کا مزار موصل شہر میں واقع تھا۔ جب افواج داعش کے شدت پسندوں کو پیچھے دھکیلتے ہوئے کئی سال بعد اس مزار تک پہنچیںتو انہوں نے دیکھا کہ داعش اس مزار اور اس سے ملحق مسجد کو بھی شہید کر چکی ہے۔رپورٹ کے مطابق جولائی 2014ءمیں موصل شہر پر قبضے کے بعد داعش نے بم نصب کرکے مزار کی عمارت مسمار کر دی تھی۔ خبر سامنے آنے پر دنیا بھر میں اور بالخصوص مقامی مسلمان آبادی میں شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔موصل آپریشن کی قیادت کرنے والی کانٹر ٹیررازم سروس فورسز کے ترجمان صباح النعمان کا کہنا تھا کہ ”ہم نے حضرت یونس کے مزار سے داعش کو پیچھے دھکیل کر اسے واگزار کروا لیا ہے اور اس پر عراقی پرچم لہرا دیا ہے۔ اس کے علاوہ موصل کے مشرقی حصے میں 2اور مضافاتی علاقے بھی داعش سے خالی کروا لیے گئے ہیں۔

ایٹم بم کیلئے50کروڑ ڈالر پاکستان بھجوانے کا انکشاف

واشنگٹن (این این آئی) سی آئی اے کے ایک اعلیٰ افسرنے اس وقت کی امریکی حکومت کو پاکستان کی جانب سے پلوٹونیم کشید کرنے والے ری پراسیسنگ پلانٹ کے بارے میں خبردار کیاتھا، میڈیارپورٹس کے مطابق یہ باتیں بین الاقوامی انٹیلی جنس پر امریکی صدر کو مشاورت فراہم کرنے والے سی آئی اے کے شعبے کے ڈپٹی ڈائریکٹر نے نومبر 1982ءمیں امریکہ پر اثر انداز ہونے والے عالمی واقعات نامی رپورٹ میں کیں۔پاکستان کی جانب سے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کے ذیلی عنوان میں یہ دستاویز اس وقت پاکستان کی جانب سے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کے بارے میں امریکی حکام کی معلومات کی جانب اشارہ کیاگیا تھا ،مزید بتایا گیا تھاکہ پاکستانی نیوکلیئر بم کی تیاری کی جانب بڑھ رہے ہیں وہ ایک ایٹمی ہتھیار کی تیاری کے لیے آلات اور پرزہ جات خرید رہے ہیں، اور اطلاعات ہیں کہ اگلے دو ماہ میں وہ پلوٹونیم کشید کرنے کے لیے ری پراسیسنگ پلانٹ بھی شروع کر دیں گے، صدر ضیاءبھی جانتے تھے کہ ری پراسیسنگ کا کوئی بھی عمل ، یہاں تک کہ وہ بھی جنہیں پاکستانی قانونی سمجھتے ہیں امریکہ اور پاکستان کے سکیورٹی تعلقات میں دراڑ ڈال سکتا ہے۔ اس افسر کا مزید کہنا تھا کہ اس دوران پاکستان کی ایٹمی سرگرمیوں میں چین کے شامل ہونے، یابھارتی ردِعمل کے حوالے سے مزید کوئی معلومات نہیں آئیں۔ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری اور پھیلاو¿” سے متعلق عوام میں جاری کی گئی ایک اور دستاویز ”ورلڈوائڈ رپورٹ“ میں جولائی 1981ءکی ایک جرمن اخباری خبر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھاکہ کس طرح جرمن سائنسدانوں، اور اس وقت کے لیبیا کے حکمران قذافی نے خفیہ طور پر پاکستان کو ایٹمی طاقت بننے میں مدد دی تھی۔مضمون کی شروعات میں ہی کہا گیا کہ صرف چند دن قبل پاکستانی جنرل ضیاءالحق نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے ملک کا ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، مگر خفیہ طور پر ایٹم بم بنانے کے لیے کام تیزی سے جاری رہا پاکستان کے مددگار فیڈرل ری پبلک آف جرمنی کے سائنسدان اور لیبیا کے حکمران قذافی تھے، جو تیل سے کمائی گئی دولت پاکستان کو اس کام کے لیے فراہم کرتے رہے، مضمون میں تین جرمن اور چار پاکستانیوں، بشمول ایک اعلیٰ سرکاری عہدیدار کی ملاقات کا بھی ذکر ہے۔ رپورٹ میں مزید دعویٰ کیا گیا کہ قذافی اور بھٹو نے اسلام آباد میں ایک خفیہ معاہدہ کیا جس کے مطابق لیبیاکے فراہم کردہ فنڈز سے پاکستان ایٹم بم تیار کرے گا، جبکہ بدلے میں لیبیا کو تیار شدہ ایٹمی ہتھیار ملیں گے۔ مضمون میں مزید دعویٰ کیا گیا کہ قذافی نے پی آئی اے کے طیاروں کے ذریعے 50 کروڑ ڈالر کراچی پہنچائے۔