All posts by Daily Khabrain

عدم اعتماد کی سیاست اور حکومت کا مستقبل؟

ملک منظور احمد
ملک میں سیاسی گہما گہمی بڑھتی چلی جا رہی ہے،ایک جانب اپوزیشن جماعتیں جو ڑ توڑ کی کوششوں میں مصروف ہیں تو دوسری جانب حکومت بھی جوابی وار کے لیے تیار بیٹھی ہے گزشتہ دنوں میں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پا رٹی کی قیادت کے درمیان ہونے والی ملا قات نے سیاسی میدان میں ہلچل مچا دی ہے اور طرح طرح کی قیاس آرائیاں زیر گردش ہیں کہ آخر کس طرح اچانک دو بڑی جماعتوں کی قیادت تمام تر اختلا فات با لائے طاق رکھتے ہوئے ملا قات کرنے کے لیے اکٹھی ہوگئیں۔سابق صدر آصف زرداری نے حکومت کی اتحادی جماعت ق لیگ کے ساتھ ملا قات کی ہے اور چوہدری شجاعت اور پرو یز الہیٰ کو حکومت کے خلاف عدم اعتماد کے لیے منانے کی کوشش کی ہے جو کہ بظاہر نا کام ہو گئی ہے لیکن کہنے والے کہہ رہے ہیں ابھی کہانی کا اختتام نہیں ہوابلکہ ابھی تو کہانی کی شروعات ہوئی ہے۔بہر حال ایسا محسوس ہو رہا ہے اکہ اپوزیشن جماعتیں پہلی مرتبہ سنجیدگی کے ساتھ حکومت کو گرانے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔حکومت بظاہر تو ان حالات میں پُر اعتماد نظر آرہی ہے لیکن محسوس ایسا ہو تا ہے کہ حالات کی تپش بہر حال حکومت کو بھی محسوس ہو رہی ہے کیونکہ انھوں نے بھی گزشتہ روز اپنی سینٹرل ایگز یکٹو کمیٹی کے اجلاس میں ملک بھر میں بڑے جلسے کرنے اور عوامی رابطہ مہم شروع کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
مارچ کے مہینے کو سیاسی طو رپر بہت اہمیت حاصل ہو گئی ہے اور پیپلز پا رٹی اور پھر پی ڈی ایم کے لانگ مارچ بھی اس حوالے سے زیادہ اہمیت اختیار کرگئے ہیں۔لیکن معاملات اتنے سادہ نہیں ہیں جتنے نظر آتے ہیں۔پی ڈی ایم کے اندر کی صورتحال ابھی تک پیچیدہ ہے مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا گرین سگنل تو دے دیا ہے،لیکن اگر حکومت کے اتحادی نہیں مانیں گے تو تحریک اعتماد کامیاب کیسے ہو گی یہ سوال اہم ہے؟ تحریک عدم اعتماد لا کر وزیر اعظم کو گھر بھیجنا اتنا آسان کام نہیں ہے جتنا کہ اپوزیشن سمجھ بیٹھی ہے اور نہ ہی حکومت ابھی تک سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے گرین سگنل کے مرحون منت اقتدار میں موجود ہے۔
بہر حال اس حوالے سے یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ مولا نا فضل الرحمان جو کہ پی ڈی ایم کے سربراہ ہیں اور پیپلز پا رٹی سے خاصے خفا بھی ہیں وہ اس سارے عمل سے باہر نظر آتے ہیں اگرچہ لیڈر آف دی اپوزیشن شہباز شریف نے ان کو اعتماد میں لینے کے لیے ان سے رابطے کیے ہیں لیکن ان اہم ملا قاتوں میں مولانا کو شامل نہ کرنا ان کی مزید نا راضگی کا باعث بن سکتا ہے۔
اپوزیشن جماعتوں نے بھی ملک بھر میں جلسوں اور عوامی رابطوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔اور حالیہ دنوں میں پیپلز پا رٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمان نے بڑے جلسے کیے ہیں،اپوزیشن کی یہی کوشش ہے کہ اپنے اپنے اعلان کردہ لا نگ ماررچز سے قبل حکومت مخالف مو مینٹم بنایا جائے جو کہ آخری ہلے سے قبل اپوزیشن کی مدد کر سکے۔ملک کی مجموعی صورتحال پر نظر ڈالی جائے تو کافی پیچیدہ نظر آتی ہے افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد پاکستان کو سرحد پر بھی مسائل کا سامنا ہے اور گزشتہ کچھ عرصے سے خصوصاً بلوچستان میں دہشت گرد حملوں میں مسلسل تیزی دیکھنے میں آرہی ہے اور ملک کے جوان ملک کی حفاظت کے لیے جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے حال ہی میں چین کا اہم دورہ مکمل کیا ہے اور اب اسی ماہ روس کے اہم دورے پر بھی جا رہے ہیں جو کہ یقینا بین الا ا اقومی سطح پر پاکستان کی مخالفت کا باعث بنیں گے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ امریکہ اور مغرب جن کی آجکل روس کے ساتھ یو کرائن کے معاملہ پر شدید کشیدگی ہے وزیر اعظم کے اس دورے کو اچھی نظر سے ہمیں دیکھیں گے اس صورتحال میں ملک کے وزیر اعظم کے پاس اپنی پا رلیمان اور اپوزیشن کی حمایت ہو نا بھی بہت ضروری ہے اور اس سے حکومتیں اور وزیر اعظم تقویت حاصل کرتے ہیں۔ پارلیمان کے مقاصد میں سے ایک مقصد یہی ہوتا ہے کہ حکومت یا وزیر اعظم پر آنے والے دباؤ کو اپنے اوپر لے اور حکومت کو سپیس مہیا کرے لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں گزشتہ ساڑھے تین سال سے تو ایسا کچھ بھی دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔یہ ملک کے لیے ایک آئیڈیل صورتحال نہیں ہے۔ آنے والے دنوں میں ہر شہر میں سیاسی حدت میں بلا شبہ اضافہ ہونے جا رہا ہے اور حکومت اور اپوزیشن آمنے سامنے ہوں گے۔ایسی صورتحال ہمیشہ حکومت کے لیے زیادہ مشکل ہوا کرتی ہے کیونکہ احتجاج اور لانگ مارچ کے دوران اگر کوئی بھی نا خوشگوار واقعہ پیش آئے یا پھر پولیس کی جانب سے کوئی بھی کا رروائی کی جائے تو اس کا سارا ملبہ حکومت کے اوپر ہی آتا ہے۔اس لیے حکومت کو بھی چاہیے کہ اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ کسی نہ کسی لیول پر رابطے کرے اور معاملات کو پوائنٹ آف نو ریٹرن تک جانے سے روکا جائے لیکن پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے ٹریک ریکا رڈ کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس نہیں ہوتا ہے کہ حکومت کی جانب سے ایسا کو ئی قدم اٹھایا جائے گا۔
جہاں تک تحریک عدم اعتماد کا تعلق ہے تو حکومت کے اتحادیوں کے بغیر تحریک عدم اعتماد کو کسی صورت کامیابی نہیں مل سکتی ہے اور اگر اپوزیشن کی جانب سے ایسی کوشش بغیر حکومتی اتحادیوں کو اعتماد میں لیے بغیر کی گئی تو قوی امکان ہے کہ اپوزیشن کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس صورت میں اپوزیشن کی سیاست کو شدید دھچکا لگنے کا بھی امکان ہے،حکومت کے لیے ایک مسئلہ مہنگائی کا ہے جو کہ جوں کا توں برقرار ہے بلکہ مزید بڑھتا چلا جا رہا ہے،آئی ایم ایف کی نئی شرائط سامنے آئیں ہیں جن کے تحت حکومت کو مارچ تک بجلی اور ٹیکسوں کی شرح میں مزید اضافہ کرنا ہے جس کے باعث یقینا عوام کی مشکلا ت میں بھی اضافہ ہو گا اور حکومت پر عوامی دباؤ بھی بڑھے گا۔
بڑھتی ہو ئی مہنگائی اور آئی ایم ایف کی شرائط اپوزیشن کے لیے ایک اچھا موقع ہو سکتی ہیں کہ عوام کو حکومت کے خلاف سٹرکوں پر لایا جائے دیکھنا ہو گا کہ اپوزیشن اس موقع کا فائدہ اٹھا پائے گی یا نہیں۔بہر حال آنے والے چند ہفتے سیاسی طورپر بہت دلچسپ ہو نے جا رہے ہیں،اقتدار کی اس کشمکش میں جیت کس کی ہو گی شاید اس بات کا جواب ہمیں مارچ کے آخر تک مل جائے گا۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭

درسگاہ سے تربیت گاہ کا سفر

ڈاکٹرعبدالقادر مشتاق
قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد پاکستان کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے۔مجھے اس ادارے میں جانے کا اتفاق 1985ء میں پہلی دفعہ ہوا تھا۔ جب میرے بڑے بھائی وہاں پر ایم اے تاریخ کے طالب علم تھے۔ یہ ضیاء الحق کا دور تھا اس لئے ڈسپلن کے حوالے سے بہت سختیاں تھیں۔ طلبہ سیاست پر مکمل طور پر پابندی تھی لیکن طلبہ کونسلز کو فروغ مل رہا تھا جس سے نظریات دم توڑ رہے تھے اور علاقائی تعصب کو فروغ مل رہا تھا۔ اس ادارے کے فارغ التحصیل طلبہ و طالبات پاکستان میں ہر شعبہ ہائے زندگی میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
چند دن پہلے ہمارے دوست ڈاکٹر مظہر حیات چیرمین شعبہ انگریزی نے مجھے کہا کہ ہمیں قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد جانا ہے آپ تیار ہو جاو۔ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کا نام سنا تو میرے ذہن میں موجودہ وائس چانسلر ڈاکٹر محمد علی شاہ کی شخصیت گھومنے لگی۔ میں نے زندگی میں ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ وہ بہت خوب صورت شخصیت کے مالک ہیں۔ ان کا طرز حکمرانی بہت ہی مختلف ہے۔ وہ ڈسپلن پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے، کسی کو بے جا تنگ نہیں کرتے، کام کرنے والے لوگوں کی سرپرستی کرتے ہیں، صوفیائے کرام کی تعلیمات سے خاص شغف رکھتے ہیں، وائس چانسلرز میں وائس چانسلر ہیں اور دوستوں میں دوست، کلچر کو فروغ دینے والے انسان ہیں۔ جب وہ گورنمنٹ کالج یونورسٹی فیصل آباد میں وائس چانسلر تھے تو انہوں نے میری بڑی سرپرستی کی۔ مجھے کام کرنے کا موقع دیا۔ میں نے ان کے ساتھ بطور پبلک ریلشنز آفیسر کام کیا۔ جس طرح ہر انسان کے حاسدین ہوتے ہیں اسی طرح مجھے بھی ہر دور میں ایسے لوگوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اس وقت زیادہ افسوس ہوتا ہے جب دوست نما دشمن آپ کی زندگی میں داخل ہو جائیں اور اندر ہی اندر سے آپ کی جڑیں کاٹنا شروع کر دیں۔ ایسے لوگوں کی کوششوں سے میرے اور ڈاکٹر محمد علی شاہ کے درمیان کچھ غلط فہمیوں نے جگہ لے لی۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے چہروں سے غلاف اترنے شروع ہو گئے اور وہ بے نقاب ہوتے گئے۔ خدا انسان کو بے نقاب ضرور کرتا ہے بس کچھ وقت کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ان ساری باتوں کے باوجود ڈاکٹر محمد علی شاہ نے کبھی بھی انتقامی کاروائی کا عملی مظاہرہ نہیں کیا۔ ڈاکٹر مظہر حیات، خالد حسن اور میں نے اسلام آباد کا رخ کیا۔ میرے ہم سفر بہت خوبصورت انسان تھے اس لئے سفر کا احساس ہی نہیں ہوا۔ دوران سفر سیاست پر سیر حاصل گفتگو ہوئی، تصوف کی باریک بینیوں زیر بحث آئیں، لٹریچر پر بات ہوئی اور ہم اسلام آباد پہنچ گئے۔ ڈاکٹر محمد علی شاہ کے لئے ہی شاعر نے کہا تھا کہ جہاں بھی گئے داستان چھوڑ آئے۔ انہوں نے قائداعظم یونیورسٹی میں محفل مشاعرہ کا بندوبست کیا ہوا تھا۔ قومی سطح کے شاعر اپنا کلام پیش کر رہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ ہمیں خوش آمدید کہا اور ہم خوب شعر و شاعری سے لطف اندوز ہوئے۔
قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کی تاریخ میں یہ پہلا اتنا بڑا مشاعرہ تھا۔ میں چونکہ تاریخ کا طالب علم ہوں اس لئے تاریخ کی تلاش میں رہتا ہوں۔ میں نے پروگرام دیکھ کر اندازہ لگایا کہ محمد علی شاہ کا شمار ان لوگوں میں ہے جو تاریخ میں اپنا نام لکھوانا جانتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے بطور وائس چانسلر قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کو بھی ایک نئی پہچان دی۔ ایک خوبصورت مسجد کی تعمیر کروا چکے ہیں، طلبہ و طالبات کے اندر قومی یکجہتی کو فروغ دینے کے لئے ان کی کاوشیں قابل تعریف ہیں، کئی نئے تعلیمی پروگرام شروع کئے گئے ہیں جن میں شعبہ انگریزی، ماس کمیونیکیشن، فزیکل ایجوکیشن کا قیام قابل ذکر ہے۔ طلبہ سیاست کو تشدد سے پاک کرنے کے لئے ان کو تعلیمی و ادبی سرگرمیوں میں مصروف کرنے ویثرن بھی قابل تعریف ہے۔ طلبہ و طالبات کی رہائش کا یونیورسٹی کو بہت بڑا مسئلہ درپیش تھا، وائس چانسلر صاحب نے نئے ہاسٹل کی تعمیر سے اس مسلے کو حتی الامکان حل کرنے کی کوشش کی ہے۔
قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کا پرامن ماحول دیکھ کر ایسا لگا کہ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ ہمارے ایک اور دوست اعجاز الحسن کی بدولت ہمیں سینٹ کا اجلاس بھی دیکھنے کا موقع ملا۔ سیاست دانوں کی قومی معاملات پر سنجیدگی کا بھی احساس ہوا کہ ہمارے لیڈر اجلاس میں کتنی سنجیدگی سے قومی معاملات پر بات کرتے ہیں۔ اعجاز الحسن کی مہمان نوازی نے میرے دونوں دوستوں کو بہت متاثر کیا۔ اس سارے سفر میں ہمیں جس چیز نے سب سے زیادہ تنگ کیا وہ خالد حسن صاحب کا فون تھا۔ لیکن ان کی محبت اتنی شامل حال رہی کہ فون کا بار بار بجنا بھی ہمارے خوشگوار ماحول کا متاثر نہ کر سکا۔ جس چیز نے ہمارا ساتھ نہیں دیا وہ دن کی روشنی تھی۔ جب روشنی اندھیرے میں ڈھلنے لگی تو ہم نے اسلام آباد کی خوبصورت یادوں کو اپنے ساتھ لیا فیصل آباد کا رخ کیا۔ کیونکہ محسن نقوی نے کیا خوب کہا ہے کہ شام ہو جائے تو محسن تم بھی گھر جایا کرو۔
(کالم نگار جی سی یونیورسٹی فیصل آبادکے
شعبہ ہسٹری کے چیئرمین ہیں)
٭……٭……٭

اہلِ کشمیر کی صحرانوردی

محمد صغیر قمر
جب کوئی قوم خود اپنی بقاکی جنگ سلیقے سے نہ لڑ سکے،اپنی آزادی کی کو یقینی بنانے کی جدوجہد کے لیے د وسروں سے امیدیں وابستہ رکھے تومنزلیں یوں ہی کھو جاتی ہیں۔جیسے بنواسرائیل چالیس سال تک جہاد سے انکار کے بعد صحرانوردری کی سزا بھگتتے رہے۔
جموں کشمیر پون صدی سے ایک غیراعلانیہ جنگ کی لپیٹ میں ہے۔جس میں لاکھوں انسان موت کی نیند سلا دیے گئے۔لاکھوں ہجرت پر مجبور کیے گئے۔ہزاروں بندی خانوں میں ڈالے گئے۔جائیدادیں تباہ اور گھر مسمار کر دیے گئے۔ظلم کی رات طویل ہوتی گئی اوراہل کشمیر ظلم کی متعین تاریخوں کے ”یوم“منانے پر راضی کر لیے گئے۔ تین نسلیں اپنی آزادی کو یقینی نہ بنا سکیں۔یہ مانا کہ کشمیر کے خمیر میں رزم آرائی کم رہی ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ تیس برسوں میں کشمیریوں نے جبر کے سامنے سینہ سپر ہو کربھارت کے چھکے چھڑادیئے۔ اس جدوجہد کو ترک نہیں ہونا چاہیے،حالات خواہ کیسے ہی کیوں نہ ہوں،بھارت جوزبان سمجھتا ہے اسی میں بات کرنا،کشمیریوں کا مقدر بدل سکتا ہے۔دنیا کتنی ہی بدل جائے،طاقت کی زبان استعمال کرنے والے ہی سرخرو ٹھہرتے ہیں۔مطالبے،نعرے اور قرارادادیں اپنی جگہ لیکن اہل کشمیر نے اس پون صدی کی دو دہائیوں میں جو سبق بھارت کو سکھایا ہے وہی کارگر تھا اور رہے گا۔
پاکستان اور عالم اسلام سے ریاست کی آزادی کی مدد طلب کرنے والوں سے اب ریاست کے عوام پوچھ رہے ہیں کہ اگر وہ آزادی کے لیے خود کچھ نہیں کر سکتے تو دوسروں کو اس کا ذمہ دار کیسے قرار دے سکتے ہیں۔گزشتہ تیس برسوں سے ریاست کی کچھ ”قیادت“ آزادکشمیر اور پاکستان میں آ بسی ہے۔ الا ما شااللہ چند ایک کو چھوڑ کر یہ سب تین دہائیاں گزرنے کے بعد بھی یہاں ”مہمان“ کی حیثیت میں رہتے ہیں اور پورا پروٹوکول بھی مانگتے ہیں۔ یہ لوگ پاکستانیوں سے شکوے بھی کرتے ہیں کہ انہوں نے کشمیر کی آزادی کے لیے ”کچھ“ نہیں کیا۔ اس ربع صدی میں ان کی دوسری نسل بھی جوان ہو کر’”اپنے اپنے“ گھروں میں منتقل ہو چکی ہے اور تیسری نسل کو خبر ہی نہیں کہ کشمیر بھی کوئی مسئلہ تھا یا ہجرت کا کرب بھی کوئی کرب ہوتا ہے۔یہ المیہ ہے اور اس کا شکوہ بھی اپنے آپ سے بنتا ہے۔
شیخ عبداللہ جیسا آدمی جس طرح ڈگڈی پر معصوم سادہ لوح کشمیریوں کو نچاتا تھا، پاکستان کی نشانیاں بتا کر محبت کی اداکاری کرتا تھا۔یکے بعد دیگرے اس کی اصلی اور معنوی اولاد نے جموں کشمیر کے عوام کے ارمانوں، آرزوؤں اور جذبات سے کھیلنا جاری رکھا اور کشمیری عوام ان کے وعدوں پر یقین کرتے رہے۔ یہ اداکار آج بھی ہمارے اندر زندہ ہیں اور ان کی اداکاری اب بھی باقی ہے۔ آج کا جموں وکشمیر جس انجام سے دوچار ہے،اس کو سمجھنے کے لیے کسی افلاطونی دماغ کی ضرورت نہیں۔ اس خطے کی قیادت چاہے وہ خود مختاری کے نظریے کی حامی ہے یا پاکستان سے الحاق کی متمنی یا آمریت کے تیار شدہ چار نکاتی پالیسی کی ترجمان، یہ سب افتراق اختلاف اور انتشار کی گہری خلیج کے آر پار کھڑے ہیں۔ حالیہ تحریک کے دوران ایک لاکھ سے زائد انسانوں کی قربانی اور ماضی کے چار لاکھ شہیدوں کا لہو دینے والے یہ لوگ جموں وکشمیر کے عوام کے ہی نہیں اپنے ضمیر کے سامنے بھی جواب دہ ہیں۔ کشمیریوں کے پاس اب دو ہی آپشن باقی ہیں۔ ایک یہ کہ جموں وکشمیر کی ”قیادت“ تمام تر اختلافات ختم کر کے آزادی اور صرف آزادی پر اتفاق کرلے۔ دوسرا یہ کہ قیادت کے منصب کو ترک کر کے کشمیری عوام کے کندھوں سے اتر جائیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو ان کی خدمت میں یہ عرض ہے کہ کشمیر کے عوام اپنے مزاج کے عین مطابق ان کو اتار پھینکیں گے۔ آج جب ریاست جموں کشمیر کے مستقبل پر گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں ”قیادت“ کاسرد مہر ی دکھانا،کسی معجزے کا انتظار کرنا،جیلوں میں سڑتے،ہجرت کے راستے پر پڑے بے بس لوگوں اور شہیدوں کے ورثاء سے لاتعلق رہنا،سیادت کے ”تمغے“اور بغل کی بیساکھیاں چھین لے گا۔صاف دکھائی دے رہا ہے کہ اگر ہماری موجودہ آر پارکشمیری قیادت اپنا کوئی رول ادا نہ کر سکی اور محض طفل تسلیوں پر مقبوضہ کشمیر کے عوام کو احتجاجوں کی تصاویر بھیج بھیج کر بہلاتی رہی تو بہت جلد کشمیر کے اندر سے متبادل وہ لوگ اٹھیں گے جو اس جدوجہد کا دھارا بدل سکتے ہیں۔ قوموں کی زندگی میں گرم لوہے پر چوٹ لگانے کا وقت ایک ہی بار آتا ہے اور وہ چند لمحے ہی ہوتے ہیں۔یہ لمحے گزر رہے ہیں۔مقبوضہ جموں کشمیر میں ہماری اس سہل انگیزی کا شدید ترین ردعمل ہو سکتا ہے۔یہاں تک کہ محصور لوگ کسی ایسے ”سیٹ اپ“ پر اتفاق کر لیں جو خالصتاًمیدان کارزار سے تعلق رکھتی ہو اور”باہر“ بیٹھنے والوں کو ہمیشہ کے لیے باہر کردیں۔
ریاست کا ہر فرد آج قائدین سے سوالی ہے۔اس کی التجاؤں اور تمناؤں کا جواب ان میں سے کس کے پاس ہے؟قربانیوں، جراتوں اور ہمتوں کی لازوال داستان اس قیادت کے علاوہ اور کون جان سکتا ہے؟ اس لہو کی قدر کون پہچان سکتا ہے؟ جس کی اولاد ذبح ہو جائے، گھر بار لٹ جائے، وہ قاتل کے ساتھ کس قیمت پر صلح کے لیے تیار ہوں گے۔ وہ قاتل پر اعتماد اور دوستوں پر عدم اعتبار کا مظاہرہ کیسے کر سکتا ہے۔
(متعدد کتابوں کے مصنف‘شعبہ تعلیم
سے وابستہ اورسماجی کارکن ہیں)
٭……٭……٭

لتا منگیشکر سُروں کی دیوی

مریم ارشد
کیاسہانی روح تھی۔ لہروں کی دوش پر دنیا کے ہر خطے میں دلِ نادان کی وہ آواز عجیب داستانیں سناتی رہی۔ کبھی وہ آواز برہا کی سلی سلی راتوں میں جلتی رہی۔ تنہائی میں پریتم جہاں چلتا ہے اس سریلی آواز کا سایہ ساتھ ساتھ ہوتا ہے۔ اس مدُھر آواز میں کئی زندگیوں نے جینے کی تمنا کی اور مرنے کا ارادہ بھی کیا۔ سنگیت اور سُر بلا شبہ ربّ کی دین ہے۔ خدا نے بہت سخاوت سے لتا جی کو سنگیت کے سارے سُر عطا کیے تھے۔لتا جی کی آواز زندگی کی چلچلاتی دھوپ میں فروری کے مہینے کی مست ٹھنڈی ہواؤں کی طرح دلوں کو چھو جاتی۔ چاندنی راتوں میں بیٹھ کر ”آجا صنم مدُھر چاندنی میں ہم“ سنتے ہوئے چاندنی واقعی مدُھر ہو جاتی ہے۔ گانے میں سانس کہاں چھوڑنی اور کہاں لینی ہے لتا جی کو اس پر ملکہ حاصل تھا۔ لتا جی اس صدی کی مہان گلوکارہ جو سادگی، عاجزی، بُردباری اور تحمل کا حسین امتزاج تھیں۔ سنگیت میں سُر نہ ہو تو وہ مر جاتا ہے۔
لتا کو خدا نے سُر جھولیاں بھر بھر کر سُچے موتیوں کی صورت میں دیا تھا۔ لتا منگیشکر فلموں کے کرداروں میں کھو کر گاتی تھیں۔ مینا کماری، نوتن، نرگس، سادھنا پر لتا جی کی آواز بہت سجتی تھی۔ لتا جی کے گیتوں سے محبتوں کے خواب دیکھنے والوں کے دلوں میں پُھول کھلنے کے سلسلے شروع ہو جاتے ہیں۔ دل جب فرصت کے رات دن ڈھونڈتا ہے تو زندگی میں پیار کے نغمے شروع ہو جاتے ہیں۔ زندگی پھر تیری میری کہانی بن جاتی ہے تو ویرانوں میں بہار آ جاتی ہے۔ جس طرح پھول کی خوشبو کھلنے پر ہر طرف پھیل جاتی ہے۔ لتا جی کی آواز بھی سُروں کی مدھر لہروں پر پھیل جاتی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے سننے والوں کے سینوں میں عطر کی ٹھنڈک اترنے لگتی ہے۔ اپنے والد کی ڈرامہ کمپنی میں انہوں نے کم سنی میں ہی گانا شروع کیا۔ لتا جی کبھی سکول نہیں گئیں۔ لیکن بہت سی زبانیں انہوں نے گھر ہی میں سیکھیں۔ مراٹھی ان کی زبان تھی۔ لتا جی کی آواز میں نجانے کیا طلسماتی کھنک تھی۔ کون سی جھنجھناہٹ تھی کہ سُننے والا بے اختیار تھرکنے لگتا ہے۔اگر ان کا گانا دل تو پاگل ہے کی ریکارڈنگ دیکھیں تو سادہ سی لتا جی گا رہی ہیں۔ لیکن ان کی آواز کی کھنک ہر کسی کو تھرکنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
دلیپ کمار لتا جی کو اپنی چھوٹی بہن مانتے تھے۔ 1947میں ان کی ملاقات انیل بسواس کے ساتھ ٹرین میں ہوئی۔ وہ لتا جی کے سامنے بیٹھے تھے۔ انیل بسواس نے دلیپ کمار سے کہا یہ لتا منگیشکر ہے۔ مراٹھی لڑکی ہے بہت اچھا گاتی ہے۔ دلیپ کمار صاحب نے کہا اچھا مراٹھی ہے تو مجھے اس کے اردو تلفظ پر تھوڑا شک ہے۔ ان کے اردو بولنے پر ایسا لگتا ہے جیسے دال چاولوں کی بُو آرہی ہو۔ لتا جی کو یہ بات بہت کھٹکی۔ پھر انہوں نے اپنے منہ بولے بھائی شفیع سے کہا کہ انہیں اردو سیکھنی ہے۔ وہ ایک مولانا جن کا نام محبوب تھا انہیں لتا جی کو اردو پڑھانے لے آئے۔ انہوں نے کہا اردو کے ساتھ غا لب، ذوق، میر تقی میر کو بھی پڑھنا شروع کرو۔ یوں لتا جی نے اردو پڑھنا سیکھی۔ لتا جی کو ”سُروں کی دیوی“ کا خطاب دیا گیا۔
برستی بارشوں، جھلملاتے ستاروں، چاندنی راتوں میں، بھیگتی برساتوں میں لتا جی کے سُر کلیاں بن کے یادوں کے باغِ وفا میں مہکا کریں گے۔ ان کے جتنے مداح بھارت میں ہیں اتنے ہی پاکستان میں بھی ہیں۔ ماسٹر غلام حیدر ان کے گرو تھے۔ تین نسلیں لتا جی کے گانوں کے طلسم میں پل کر جوان ہوئیں۔ لتا جی وہ پہلی عورت تھیں جنھوں نے گلوکار کو گانے کی رائلٹی دلوانے کی ابتدا کی۔ ”خوب صورت ہے تُو تو ہوں میں حسیں“ ”اچھا تو ہم چلتے ہیں“۔ کیا کیا خوب صورت گانے گائے ہیں انہوں نے۔ لتا منگیشکر بننا آسان نہیں۔ لتا جی نے کلاسیکل میوزک بہت گایا۔ لتا منگیشکر کو ”ایشیا کی کوئل“ بھی کہا جاتا تھا۔
لتا جی 14برس کی تھیں تو میڈم نور جہاں سے ہلا پور میں ایک شوٹنگ پر ملاقات ہوئی۔ لتا جی نے انہیں شاستری سنگیت سنایا۔ میڈم نور جہاں نے پوچھا کوئی فلمی گانا سناؤ۔ لتا جی نے سنایا تو میڈم نے کہا تم بہت دور تک جاؤ گی۔ میڈم نور جہاں کی یہ پیشن گوئی سچ ثابت ہوئی۔ لتا جی بھی میڈم کی پرستار تھیں۔ کسی گیت میں لتا جی جانے کیوں لوگ محبت کیا کرتے ہیں کا شکوہ کرتی ہیں تو ساتھ ہی لگ جا گلے کہ پھر یہ حسیں رات ہو نہ ہو گاتی ہیں۔ کہیں ان کے پاؤں زمیں پر نہیں پڑتے تو کبھی ساون کے جُھولے جھولتی دکھائی دیتی ہیں۔ کبھی کبھی لتا جی کے دل میں خیال آتا ہے تو ایشور اللہ تیرو نام جیسا بھجن گلے کے سُریلے سُروں سے نکلتا ہے تو امر ہو جاتا ہے۔
گلزار صاحب کا کہنا ہے کہ لتا جی گانے کا جینڈر بدلنے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔انہوں نے قصہ سنایا کہ ہیمنت کمار کے ساتھ ”ہم نے دیکھی ہیں ان آنکھوں کی مہکتی خوشبو“ فلمانا تھا تو میں نے کہا کہ یہ جملہ تو کوئی لڑکا ہی کسی لڑکی کو کہہ سکتا ہے یہ لتا جی کیسے گا سکتی ہیں۔ ہیمنت کمار نے کہا یہ کمپوزیشن تو صرف لتاہی گائیں گی۔ گلزار صاحب کہتے ہیں پھر لتا جی نے یہ گانا گایا تو گانے کا جینڈر ہی بدل گیا۔ لتا جی نے جو گایا کمال گایا۔ لتا جی نے روایت کے مطابق شادی نہیں کی جبکہ شادی عورت کی زندگی کی بڑی ضرورت سمجھی جاتی ہے۔ لتا جی نے ثابت کیا کہ ان کی روح صوفیانہ ہے۔ انہوں نے شیرنی کی طرح اپنے اندر کی جنگ لڑی ہوگی۔ باپ کے جانے کے بعد باپ بن کر نہ صرف اپنے بہن بھائیوں کو پالا بلکہ اپنی ماں کے اوپر بھی چھت مہیا کی۔ محبت کا سیاق و سباق دل سے جڑ تا ہے۔
لتا جی سراپا محبت تھیں۔ جب تک دل اور روح آپس میں گُھلیں گے نہیں تو گلے سے سچے سُر نہیں نکلیں گے۔ لتا جی نے گیتوں کے ایسے خزانے چھوڑے ہیں کہ وہ اپنے مداحوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔لتا جی نے جب مغلِ اعظم کے لیے ”بے کس پر کرم کیجیے سرکارِ مدینہ“ گایا تو پتھر دل بھی پگھل گئے۔ نجانے خدا لتا منگیشکر کے گائے اس کلام کو کس معیار پر پرکھے گا۔ یہ رب ہی جانے کہ وہ تو بے نیاز ہے۔
(کالم نگارقومی وسماجی ایشوزپرلکھتی ہیں)
٭……٭……٭

جوڈیشل اصلاحات

لیفٹیننٹ جنرل(ر)اشرف سلیم
عدلیہ میں تمام کیسوں کی مکمل ویڈیو ریکارڈنگ ہونی چاہئے اور معمولی معمولی وجوہات پر اگلی تاریخ دینے کوئی موثر مداوا ہونا ضروری ہے۔ کیس جب عدالت میں زیر سماعت ہو تو اس پر میڈیا میں بے جا تبصرے اور کیس کو متاثر کرنے کی کوئی کوشش نہیں ہونی چاہئے۔ متعلقہ عدالت کسی بھی کیس میں اس کی میڈیا پر تشہیر روکنے کے احکامات جاری کر سکے۔ عدالتوں میں شہادت دینے والوں کی حفاظت اور ان کو کسی قسم کے نقصان سے بچانا ضروری ہے۔ اس کے لئے شہادت دینے والے افراد کو ویڈیو لنک video link سے شہادت اور جرح کی اجازت اور بندوبست ہونا ضروری ہے۔ عدلیہ نہ صرف قانون کا تحفظ کرے بلکہ اس سے بڑھ کے انصاف کریاور انصاف کے تمام تقاضے پورے کرے۔انصاف کے رستے میں اگر قانون بھی حائل ہو تب بھی انصاف کو ترجیح دی جائے۔ جوڈیشری کی اپنی صفوں میں کسی قسم کی رشوت ستانی کو روکنا عدلیہ کا ہی کام ہے اور اس سلسلے میں سپریم جوڈیشل کونسل supreme judicial commissionاور ہائی کورٹس کے لیول پر ہائر جوڈیشل کمشن higher judicial commission فعال ہو اور اپنے ما تحت عدلیہ پر کڑی نظر رکھے۔ان دونوں کمشنرز commissions کے لئے بھی وقت کی حد مقرر کی جائے وہ اپنے فیصلے زیادہ سے زیادہ دو مہینے کے اندر مکمل کر کے سنا دیں۔
عدلیہ کو ضروری سروس قرار دے اس کے خلاف کئے جانے والے جرائم کے کیس سپیشل کورٹ یا اینٹی ٹیرورسٹ کورٹ یا ملٹری کورٹس میں چلائے جائیں تاکہ عدلیہ مکمل آزادی کے ساتھ قوم کو جلد از جلد انصاف کی فراہمی یقینی بنائے۔ اگرچہ عدلیہ کے اوپر کوئی اور چیک check نہیں مگر گزشتہ کالموں میں قومی مشاورتی کونسل قائم کرنے کا کہا گیا ہے جس میں سپریم کورٹ کے دو سابق چیف جسٹس بھی ممبر ہیں، یہ قومی مشاورتی کونسل عدلیہ کو انصاف کی عدم فراہمی یا کوئی اور غیر معمولی حالات پیدا ہونے کی صورت میں ایڈوائزری جاری کر سکتی ہے جس پر عدلیہ کے لئے لازم ہو گا کہ اس کونسل کو مطمئن کرنے کے لئے عمل کرے یا کونسل کو تسلی بخش جواب دے۔
عدلیہ کا احترام اور عزت ہر صورت برقرار رکھنا اشد اہم ہے۔ آئے دن وکلا کی طرف سے یا کسی اور شخص کا خاص طور پر ڈسٹرکٹ جوڈیشری کے احترام کو پا مال کرنا کسی صورت برداشت نہ کیا جائے اور ایسے اشخاص کو کڑی سزائیں دی جائیں۔عدلیہ ایک باوقار ادارہ ہے اور اس وقار کو برقرار رکھنے میں عدلیہ اپنا کردار اور کارکردگی سے بہت اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ مندرجہ بالا چند تجاویز پر عمل کرکے پاکستان میں عدلیہ اور عوام میں اعتماد اور عزت کا بہترین معیار قائم کیا جا سکتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر سطح پر جج صاحبان کی کارکردگی performance، کردار integrity اور قابلیت competence کو ریکارڈ کیا جائے اور ان کو اگلی سطح پر ان کی پروموشن کے لئے معیار بنایا جائے۔ اس طرح ایک نہایت تربیت یافتہ، قابل اور بہترین کردار کی عدلیہ وجود میں آئے گی جو کسی قسم کے سیاسی یا سماجی دباؤ سے آزاد ہو گی اور اس میں نہ ہی کسی قسم کا وکلا کا دخل ہوگا جو وکلا جج بننا چاہیں وہ شروع سے اس سٹریم stream میں شامل ہوں اور اس کی تربیت لیں، کارکردگی اور کردار کا مظاہرہ کریں اور مختلف کورٹس میں بہترین خدمات انجام دیں۔
عدلیہ میں مقدمات کی بھر مار ہے اور پینڈینسی pendency بہت زیادہ ہے جو ہزاروں اور لاکھوں کیسز کی صورت میں نظر آتی ہے جس کی ایک بڑی وجہ کیس کی تحقیق میں تاخیر اور تحقیق کا غیر معیاری بھی ہونا ہو سکتا ہے۔ ضروری ہے کہ ایسے کیسوں کے لئے عدلیہ کے ماتحت تحقیقات کا ایک علیحدہ ادارہ بنایا جائے جو ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں کیسز کو دوبارہ یا نامکمل تحقیق کو مکملْ کرنے کے لئے عدالت اس ڈیپارٹمینٹ کو ریفر refer کرے اور وقت کی حد مقرر کر کے اس تحقیق کو جلد مکمل کرا کے کیس کو نپٹایا جا سکے۔ اسی طرح ہر نوعیت کے کیس کو مکمل کرنے کے لئے ایک مناسب مدت مقرر کرے۔ کوئی بھی کیس کتنا بھی پیچیدہ ہو ایک سال سے زیادہ لٹکا نہ رہے۔ چھوٹے کیسوں کے لئے تو چار سے آٹھ ہفتے سے زیادہ وقت نہ لگے۔جیلوں میں قیدی کئی کئی سال تک اپنی اپیلوں کی تاریخ کا انتظار کرتے ہیں۔ جن کو چند دنوں یا ہفتوں میں نپٹایا جائے۔
(کالم نگار ہلال ملٹری امتیازاورسابق ہائی کمشنر ہیں)
٭……٭……٭

کل کے دشمن۔ آج کے دوست

سید سجاد حسین بخاری
سیاست کے بارے میں بڑی مشہور کہاوت ہے کہ اس میں دوستیاں اور دشمنیاں بدلتی رہتی ہیں آج آپ مخالف ہیں کل آپ دوست بن جائیں گے پھر ممکن ہے کہ آپ دوبارہ مخالف ہو جائیں تو سیاسی دنیا میں یہ سب چلتا ہے تو اس لئے سمجھدار سیاستدان اپنے سیاسی مخالفین کی ذاتیات یا کردار کشی کے بجائے ان کی سیاسی کارکردگی پر باتیں کرتے ہیں مگر یہ بات شریف برادران کو 25 سال تک سمجھ نہ آسکی اور ان کے والد گرامی مرحوم نے بھی ذوالفقار علی بھٹو کے مخالفین کی ہمیشہ حمایت کی، انہیں کرنا بھی چاہیے تھا کیونکہ بھٹو نے ان کی اتفاق فونڈری سرکاری تحویل میں لیکر میاں شریف مرحوم کے بچوں کا روزگار چھین لیا اور پھر مرحوم آخری دم تک بھٹو مخالف رہے۔
میاں نوازشریف کو ان کے والد جنرل جیلانی کی معرفت سیاست میں لائے۔، ان کے دل میں بھی بھٹو خاندان کے خلاف انتقام کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ انہوں نے بھی مرحوم جنرل حمید گل کی شاگردی اختیار کی اور ان کا دیا گیا سبق میاں نوازشریف نے دو دہائیوں تک یاد رکھا۔ بقول شیخ رشید فوج کی نرسری میں شریف برادران پروان چڑھے ہیں۔ وقت گزرتا رہا بینظیر کے مقابلے میں جنرل ضیاء نے میاں نوازشریف کو اپنی زندگی دے کر کھڑا کیا اور میاں نوازشریف نے بھی 17اگست 1987ء کو جنرل ضیاء کے جنازے پر کھڑے ہو کر کہا تھا کہ میں آپ کا مشن جاری رکھوں گا اور مشن ایسا جاری رکھا کہ بینظیر کی ذاتیات پر تابڑ توڑ حملے کئے، جعلی پوسٹرز تک چھپوائے، جب ان کی شادی ہوئی تو ان کے شوہر آصف علی زرداری کیلئے مسٹر ٹن پرسنٹ کا مشہور زمانہ خطاب دیا جو آج تک عوام کو یاد ہے۔
مجھے تعجب ہوتا تھا کہ شریف برادران نے بینظیر اور آصف علی زرداری کی نجی زندگی سے لیکر ان کے خلاف مقدمات اور پھر اُنہیں سزائیں دلوانے کے لئے کوشاں رہے۔ یعنی شریف برادران نے بہو، بیٹی اور خواتین کی کسی بھی حرمت کا خیال نہیں رکھا تھا۔ بلاول بھٹو کی آمد پر بھی شریف برادران اور ان کی مریم نواز اور حمزہ شہباز اپنے والدین سے دو دو قدم آگے نکل گئے تھے اور ذاتیات، گریبانوں، پیٹ پھاڑنے اور سڑکوں پر گھسیٹنے تک کی نوبت آگئی اور نہ گھسیٹنے پر ”میرا نام بدل دینا“ کی شرطیں لگتی رہیں مگر دانشوروں کا قول ہے کہ وقت بڑا بے رحم ہوتا ہے اس کے بدلتے دیر نہیں لگتی اور پھر ایسا ہی ہوا کہ پہلے میاں نوازشریف لندن میں بینظیر بھٹو کے پاس چل کر گئے اور میثاق جمہوریت پر دستخط کئے اور پھر 5فروری کو شہبازشریف نے سڑکوں پر گھسیٹنے والے کی گاڑی کا دروازہ کھول کر استقبال کیا۔
بڑا عجیب منظر تھا جب شہبازشریف، مریم نواز ودیگر مسلم لیگی جُھکی جُھکی نگاہوں سے آصف زرداری کے قدموں سے قدم ملا کر چل رہے تھے اور میٹنگ میں فرما رہے تھے کہ ”بس ماضی کی بات کا ذکر نہ کریں“ مستقبل کی بات کریں ماضی چھوڑیں۔ بڑے عجیب اور دلفریب منظر کے ساتھ یہ ایک عبرتناک منظر بھی تھا کہ قادر مطلق نے اُسی چور کے استقبال پر شریف برادران کو کس طرح مجبور کیا جس کا پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی دولت نکالنے کے تکبرانہ دعوے کرتے تھے۔ ٹی وی پر جب یہ منظر میں دیکھ رہا تھا تو مجھے خواجہ آصف بڑا یاد آرہے تھے جب انہوں نے قومی اسمبلی کے فلور پر وزیر خارجہ کو کہا تھا کہ انسان میں کوئی شرم ہوتی ہے، حیا ہوتی ہے، غیرت ہوتی ہے۔
چلو ان سب کو چھوڑ کر مقصد کی بات کرتے ہیں کہ شریف برادران کا مقصد عمران حکومت کا خاتمہ کرنا ہے جس کیلئے انہیں سب کچھ کرنا اور سہنا پڑ رہا ہے اور وہ اپنی دشمن حکومت کو ہر صورت ختم کرنا چاہتے ہیں اور گزشتہ دو سال سے وہ سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں مگر میرا صرف ایک سوال ہے کہ مقتدر قوتوں کے بغیر یہ ممکن ہے؟ کیا آصف زرداری نے کچی گولیاں کھیلی ہوئی ہیں؟ جو وہ عمران حکومت کا خاتمہ کرکے اپنی روزی روٹی سے بھی جائے؟ ہرگز ایسا نہیں ہوگا وہ شروع دن سے تحریک عدم اعتماد کی بات کرتے ہیں اب جا کر شریف برادران نے تسلیم کیا ہے کہ زرداری سندھ حکومت کسی صورت نہیں چھوڑیں گے چلو شاید عدم اعتماد کامیاب ہو جائے اور اب انہوں نے لانگ مارچ اور اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کی ضد بھی ختم کردی ہے۔ دیکھتے ہیں عدم اعتماد کب اور کیسے کامیاب ہوتی ہے؟
اسمبلی میں موجودہ صورتحال کچھ یوں ہے کہ حکومتی اتحاد کے ممبران قومی اسمبلی کی تعداد184 ہے جبکہ اپوزیشن کی تعداد 151ممبران ہیں۔ اس وقت اگر بی اے بی، بی این پی، ایم کیو ایم اور مسلم لیگ(ق) حکومتی اتحاد کو خیرباد کہہ دیں تو پھر اپوزیشن کے گیم نمبرز پورے ہوتے ہیں ورنہ ہنوز دلی دوراست۔ چند سوالات اس بابت اور بھی ہیں مثلاً کیا مریم نواز اپنے چچا کی حمایت کریں گی؟ مولانا فضل الرحمن ودیگر پی ڈی ایم لیڈروں کو کیوں نہیں بلایا گیا؟ اس عدم اعتماد کیلئے گارنٹی کون دے گا؟ کیا اس کو ہر صورت توڑ چڑھایا جائے گا، کیا مسلم لیگ(ق) کے چودھری برادران‘ شریف برادران کو اقتدار میں دیکھنا اور خود باہر رہنا پسند کریں گے؟
کیا ایم کیو ایم‘ پی پی پی کا ساتھ دے سکتی ہے؟ یہ دونوں جماعتیں اپنے بڑوں سے پوچھ کر سانس لیتی ہیں تو اتنا بڑا کام یہ بغیر اجازت کیسے کرسکتے ہیں؟ حکومت کا یہ آخری سال ہے جسے الیکشن کا سال کہا جاتا ہے اور 16ماہ باقی ہیں نئی حکومت اگر بن بھی جاتی ہے تو کیا وہ اس مختصر عرصے میں عمران خان سے بہتر کارکردگی دِکھا سکے گی؟ یہ صرف چائے کی پیالی میں اُبال ہے سب لوگ موجودہ تنخواہ پر ہی کام کرینگے البتہ رونق میلہ لگا رہے گا مگر میں تو صرف اتنا ہی کہوں گا کہ میاں صاحب کس منہ سے آپ نے زرداری کا استقبال کیا؟
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

چیختی خاموشی

محبوب عالم محبوب
خبر آئی ہے کہ ”جمہوریت کی جھوٹی ماں“ ہندوستان کی ریاست اتر پردیش، جہاں 2011 کے مطابق مسلمانوں کی آبادی تقریبا 19.3 فیصد تھی، ضلع الہ آباد جس کا نام اب مسلم دشمنی میں تبدیل کرکے پریاگ راج رکھ دیا گیا ہے، دریائے گنگا کے ریتلے کنارے پر ماگھ میلہ ”برہما رشی آشرم ٹرسٹ“کے زیر اہتمام”سنت سمیلن“کی تقریب منعقد ہوئی ہے۔ جس میں مقررین نے چند ماہ پہلے ”ہردیوار“میں ہوئی”دھرم سنسد“کی مسلم نسل کشی پر مشتمل نفرت انگیز تقاریر کی یاد تازہ کردی ہے۔ اس سنت سمیلن میں شدت پسند ہندوؤں نے تین عجیب اور دہشت ناک قراردادیں پاس کی ہیں جس سے ہندوستان کے مسلمانوں کی جان، املاک اور عزت کو شدید ترین خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔
پہلی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان کو ہندو راشٹرا قرار دیا جائے۔ دوسری قرارداد میں مذہب کی تبدیلی پر سزائے موت کا مطالبہ کیا گیا جبکہ تیسری قرارداد میں یتی نرسنگھا نند اور جیتندر نرائن تیاگی کی رہائی کی بات کی گئی ہے۔ شدت پسند ہندوسوامی نریندرا نند سرسوتی نے کہا کہ تمام ہندوؤں کو اپنے ملک کو ”ہندو راشٹر“لکھنا اور بولنا شروع کر دینا چاہیے ایسا کرنے سے حکومت ملک کو ”ہندو راشٹرا“ قرار دینے پر مجبور ہوجائے گی۔ شدت پسند ہندو بھیانک سازش کے ذریعے ہندوستان میں ایسی بہت سی تاریخی جگہوں، شہروں اور حتیٰ کہ دیہاتوں کے نام، جو پہلے مسلم ناموں پر تھے، پہلے ہی تیزی سے تبدیل کر رہے ہیں اور اب ملک کے نام کی تبدیلی کا مطلب ہے کہ ہندوستان میں صرف ہندو ہی رہ سکتے ہیں۔”سنت سمیلن“میں شدت پسند ہندو، مہا منڈلیشور بربھو دانند نے واضح الفاظ میں مسلمانوں کو ”جہادی بلی“کہا اور ہندوؤں کو ”کبوتر“ قرار دیا۔ اور یہ بھی کہا کہ اس”جہادی بلی“کی آنکھیں پھوڑ دو۔ اور مزید کہا کہ جو ہندوؤں کی عزت نہیں کر سکتے وہ پاکستان یا بنگلہ دیش چلے جائیں۔ خود کو ”معصوم“ کہنے والے شدت پسند ہندوؤں نے درحقیقت ہندوستانی تاریخ کے اوراق ہندوستانی مسلمانوں کے خون سے مسلسل رنگین کیے ہیں۔
آپ 1857 کے بعد کی ہندوستانی تاریخ پڑھیے تو سہی اور پھر 1947 کے بعد تو یہ منظر اور بھی بھیانک ترین ہوتا چلا جاتا ہے۔ ”ہندوؤں کی عزت“ کا بیانیہ واضح کر رہا ہے کہ شدت پسندی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ اب ہندو اعلانیہ ہندوستانی مسلمانوں کو ”غلامی“قبول کرنے کا کہہ رہے ہیں یا پاکستان اور بنگلہ دیش میں ہجرت کرنے کا، ایک طرح سے، حکم جاری کر رہے ہیں۔ یہ سب ایک طرح سے بی جے پی حکومت کی شہہ پر ہورہا ہے ورنہ ایسے کوئی کیسے کہہ سکتا ہے کہ جیسا کہ شدت پسند ہندو سوامی سوروپ آنند نے واضح الفاظ میں دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اگر ہمارے مذہبی جنگجو، نرسنگھا نند اور جیتندر نرائن تیاگی کو ایک ہفتہ کے اندر رہا نہ کیا گیا تو یہ مہم جارحانہ ہو جائے گی۔ اس کا نتیجہ بھیانک ہوگا۔ ہو سکتا ہے ان دو جنگجوؤں کی قید ہمیں وہی کرنے پر مجبور نہ کردے جو بھگت سنگھ نے اسمبلی کے ساتھ کیا۔ یہاں ہندوستان میں برطانوی راج کے دوران 1929 میں سینٹرل لیجسلیٹیو اسمبلی پر بم دھماکے کا حوالہ دیا گیا ہے۔ ایسے بیانیہ کے بعد بھی حکومتی خاموشی صورت حال کو واضح کرنے کیلئے کافی ہے۔ تبدیلی مذہب پر پھانسی کی سزا کا مطالبہ اصل میں شدت پسند ہندوؤں کا دین اسلام کی حقانیت کو تسلیم کرنے کاایک طرح سے واضح اعلان ہے۔ ورنہ کسی کے بھی اسلام قبول کرنے سے کسی کو کیا فرق پڑ سکتا ہے۔
سنت سمیلن میں ہندوستان میں مسلمانوں کی اقلیتی حیثیت کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا یعنی اب جو برائے نام ”اقلیت“ہونے کی وجہ سے دنیا سے کبھی کبھی ہندوستانی مسلمانوں کیلئے کہیں کہیں سے آواز اٹھائی جاتی ہے، اقلیتی حیثیت ختم ہونے کے بعد یہ سلسلہ بھی ختم ہوجائے گا۔ اور یہ انتہائی خوف ناک ہے۔ ایک تشدد پسند ہندو مذہبی رہنما کی جانب سے ان تمام اسلامی اداروں کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے جہاں سے فتویٰ جاری کیا جاتا ہے۔ دو ممتاز اسلامی مدارس”دیو بند“اور ”بریلی“کو بند کرنے کا خصوصی طور پر ذکر کیا گیا۔ اسلامی مدارس کی بندش کی بات کی گونج ہندوستان کی تاریخ میں نئی نہیں ہے مگر اب جیسی شدت پہلے کم ہی نظر آتی ہے۔ یہاں تک کہ ایک شدت پسند ہندو کی طرف سے ”روکو، ٹوکو اور اگر نہ رکے تو ٹھونکو“ کے الفاظ کہے گئے جو ہندوستانی مسلمانوں کی نسل کشی کا واضح اعلان ہے۔ ایک انتہائی اہم بات آپ کی نذر کرنا چاہتا ہوں کہ چند ہفتے پہلے ہونے والی دھرم سنسد میں مسلمانوں کی کھلے عام نسل کشی کا اعلان کیا گیا تو بین الاقوامی سطح پر احتجاج کے بعد جب جیتندر نرائن تیاگی کو گرفتار کیا گیا، گو یہ صرف دکھاوا تھا پھر بھی ایک شدت پسند ہندو مذہبی رہنما یتی نرسنگھا نند نے اس گرفتاری پر ہندوستانی پولیس افسران کو خبردار کیا کہ ”آپ سب مر جائیں گے۔“ غالب امکان یہ ہے کہ ریاستی اداروں کو واضح دھمکیاں وہی دے سکتا ہے کہ جسے یقین دلا دیا گیا ہو کہ ”کچھ نہیں ہوگا۔“ ورنہ پولیس کے خلاف ایسے الفاظ کا استعمال کرنے والا کس حالت میں اور کہاں ہوتا ہے، یقینا بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ جنیو سائیڈ واچ کے صدر نے ”دھرم سنسد“کے بعد کہا تھا، ”مودی ہندوستان کو مسلمانوں کے قتل عام کی طرف لے جارہے ہیں۔“ بات کو مزید واضح کرتے ہیں کہ گانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی کو بھی کہنا پڑا کہ بی جے پی نے نفرت کی کئی فیکٹریاں لگا رکھی ہیں۔ ایک بات اچھی طرح یاد رہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کیلئے حالات اتنے خراب نہیں ہیں جتنے ہم سمجھ رہے ہیں بلکہ حالات اس سے کہیں زیادہ خراب ہیں۔ مزید یہ چارسو چیختی خاموشی بہت الم ناک اور فکر انگیز ہے۔
(کالم نگارسیاسی وسماجی موضوعات پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

بھائیاں باج محمد بخشا کون کرے دلجوئی……

افضل عاجز
سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے خالد بھائی کو گھر میں خصوصی اہمیت حاصل تھی۔اماں جہاں بھی جاتیں خالد بھائی ان کے پلو سے بندھا رہتا۔سو ہمارے مقابلے میں ٹانگری اور پتا شوں سے اس کا منہ اور جیب بھرا رہتا ہم بھی کبھی منت سماجت اور کبھی دھونس دھاندلی سے کچھ نہ کچھ جھپٹ لیتے ابا شام کو باقاعدگی سے ولایت کی برفی لاتے جس میں ہمارا حصہ تو ہوتا مگر حق ملکیت خالد کے پاس ہوتا کبھی تو مسکراتے ہوئے دے دیتا اور کبھی رلا رلا کے۔
اماں کی بڑی خواہش تھی کہ خالد کی شادی دنیا دیکھے خالد اپنی شادی کے نام پر شرم سے انگارے کی طرح سرخ ہو جاتااور مجھے کہتا لالہ ایک بات یاد رکھنا میں اپنی بیوی کو سائیکل پر اپنے ساتھ بٹھا کے گھر تک نہیں لے جاؤنگا۔ سائیکل پر بیوی بٹھا کے لے جانے کا قصہ بہت دلچسپ تھا جب میری شادی ہوئی تو ہماری منت سماجت کے باوجود بس والے بس ٹیلوں میں سے گزار کر لے جانے پر رضا مند نہ ہوئے پریشانی کے اس عالم میں ابا کو کچھ اور نہ سوجھی تو انہوں نے قریب سے محلے کے ایک نوجوان کو سائیکل سے گزرتے ہوئے دیکھا تو اس سے سائیکل پکڑ کر میرے ہاتھ میں پکڑاتے ہوئے کہا یہ پکڑو سائیکل اور اپنی بیوی کو گھر لے جاؤ مگر ہمارے آنے سے پہلے گھر کے اندر داخل نہیں ہونا کیونکہ گھر میں داخلے سے پہلے کچھ رسمیں ادا کرنی ہیں سو ہم بیگم کو لے کر گھر کے دروازے پر بیٹھے رہے جب باقی بارات پہنچی تو ہم بیگم سمیت گھر میں داخل ہوئے سو ہمارے اس عمل کے چرچے بہت عرصے تک خاندان میں ہر زبان پہ رہے خالد بھائی کا اشارہ اسی طرف تھا۔
سو ہم نے اماں اور خالد بھائی کی خواہش کو پورا کرنے کی کوشش کی خالد کی شادی ہوئی اور پورے پندرہ دن تک شادیانے یوں بجائے گئے کہ ہر رات میوزیکل نائٹ قرار پائی دور نزدیک کے ہر ایک دوست نے ایک ایک رات کیلئے محفل سجائی اور خوب سجائی آخری رات ہمارے عطا اللہ عیسیٰ خیلوی نے فن کا جادو جگایا اور ایسا جگایا کہ پورے پنجاب سے لوگ پنڈال میں نظر آئے ایک عرصے تک خالد بھائی کی شادی کے چرچے ہوتے رہے ابھی یہ گونج دھیمی نہیں ہوئی تھی کہ شادی کے دوسرے سال ایکسیڈنٹ میں دنیا چھوڑ کے چل دیئے مگر ایک بیٹی اور بیٹا نشانی چھوڑ گئے۔
ناصر بھائی کی شادی بھی میں نے اپنے ہاتھوں سے کی محدود وسائل کے باوجود تمام تر معاملات کو انجام تک پہنچایا۔ناصر بھی مجھ سے چھوٹے اور خالد سے بڑے تھے مزاج کے تھوڑے تیز لڑکپن میں ایک بار میری وجہ سے ایک لڑکے کی کمر کو بلیڈ سے لہو لہان کر دیا ہوا یوں کہ ہم چند لڑکے کبڈی کھیل رہے تھے اور روایتی کھیل میں دونوں کھلاڑی ایک دوسرے کو طمانچے مارتے ہیں اتفاق سے ناصر بھائی میدان میں آئے تو ایک کھلاڑی ہم پہ طمانچوں کی بارش کیے ہوے تھا ناصر بھائی نے مجھے پٹتے دیکھا تو جھٹ سے بلیڈ نکالا اور اور اس لڑکے کی کمر کو لہو لہان کر دیا اچھا خاصا ہنگامہ کھڑا ہوگیا دشمنی کا نتیجہ نہ جانے کیا نکلتا محلے کے بزرگوں نے بچے ہیں اور غلط فہمی کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا کہ کہہ کے معاملہ نپٹا دیا۔
ناصر بھائی پورے خاندان کیلئے ایک نعمت سے کم نہیں تھے دکھ سکھ میں پہلی صف میں کھڑے نظر آتے خاندان کے بچوں کی تو اس میں جان تھی دس دس کے نوٹ ہر وقت ان کی جیب میں پھڑکتے رہتے اور بچے ہر دس منٹ بعد ان کی طرف لپکتے رہتے میرا بہت احترام کرتے کوئی بھی خاندانی فیصلہ میرے مشورے تک اٹکا رہتا عمومی طور پر وہ اس فیصلے پر جمے رہتے جو انہوں نے کر رکھا ہوتا تھا میں اگر اس فیصلے کو تسلیم نہ کرتا تو اس کے اندر سے ایک وکیل برآمد ہوتا جو جب محسوس کرتا کہ دلائل کام نہیں دکھا رہے تو پھر ہماری بیگم کے ذریعے اپنی بات منوانے کی کوشش کرتا جو ہم کبھی مان لیتے اور کبھی نہیں بھی مانتے تھے۔کوئی سات سال پہلے ان کے دل کے معاملات گڑ بڑ ہوتے تو میں انہیں لاہور لے آیا دوتین ماہ کے علاج کے بعد ان کی طبیعت سنبھل گئی تو ہم نے ان کے ہر طرح کے کام پر پابندی لگا دی اور ان کے کھانے پینے کے معاملات پر بھی گرفت بڑھا دی مگر جب وہ گاوں یعنی کندیاں چلے جاتے تو تو پھر انہیں روکنے والا کوئی پیدا ہی نہیں ہوا تھا۔
ادھر لاہور میں رہتے ہوئے ان کا دم گھٹتا تھا اور ہر وقت کی نگرانی سے خاصے تنگ رہتے مگر جب آجاتے تو پھر میرے نواسے نواسیاں ایک دو مہینے تک ان کو واپس گاؤں کم ہی جانے دیتے تھے اور عموماً سالگِرہ کے نام پراسے روکے رکھتے تھے بچوں کی سالگِرہ منانے کیلئے وہ ہر وقت تیار رہتے جیب سے پیسے نکالتے اور دیکھتے ہی دیکھتے گھر میں جھنڈیاں کیک اور باربی کیو کا انتظام ہو جاتا اور وہ اس موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تمام تر پرہیز اور پابندیاں ہوا میں اڑا دیتے طبیعت خراب ہوتی تو پھرکہتے دراصل بچوں کے کہنے پر انہوں نے بد پرہیزی کی ہے حالانکہ سگریٹ پر سخت پابندی کے باوجود وہ بہانے سے نکلتے اور گلی میں کھڑے ہو کے سگریٹ نوش فرماتے مگر ہماری بیگم کے چھاپہ مارنے پر سخت شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے بھائی کو نہ بتانا کی درخواست کرتے۔
دو بڑے بیٹے بیاہ چکے تھے اب چھوٹے بیٹے اور بیٹی کے بیاہ کیلئے بہت متحرک تھے بیٹی کیلئے ایک رشتہ پسند آیا تومجھے میانوالی آنے کو کہا ہم پہنچے تو مشورہ دیا یہاں رشتہ مناسب رہے گا رشتہ داری بھی ہے اور لوگ بھی اچھے ہیں بہت خوش تھے دو دن پہلے بچی کے سسرال گئے اور اگلے ہفتے منگنی کے انتظامات میں مصروف تھے بظاہر طبیعت میں کوئی پریشانی نہیں تھی قریب کی دکان سے کچھ سودا سلف خریدنے گئے مسکراتے ہوئے گھر داخل ہوئے چارپائی پر بیٹھے اوردوبارہ نہ اٹھے۔ان کی وفات کے بعد دل بہت بوجھل ہے وہ صحیح معنوں میں پورے خاندان کیلئے ایک برکت تھے مجھے کسی بھی طرح کے کسی خاندانی معاملے میں کوئی فکر نہیں تھی وہی سب کو جوڑے رکھتا اب احساس ہوا ہے کہ
بھائیاں باج محمد بخشا کون کرے دلجوئی……
(کالم نگارمعروف شاعر اورادیب ہیں)
٭……٭……٭