تازہ تر ین

عدم اعتماد کی سیاست اور حکومت کا مستقبل؟

ملک منظور احمد
ملک میں سیاسی گہما گہمی بڑھتی چلی جا رہی ہے،ایک جانب اپوزیشن جماعتیں جو ڑ توڑ کی کوششوں میں مصروف ہیں تو دوسری جانب حکومت بھی جوابی وار کے لیے تیار بیٹھی ہے گزشتہ دنوں میں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پا رٹی کی قیادت کے درمیان ہونے والی ملا قات نے سیاسی میدان میں ہلچل مچا دی ہے اور طرح طرح کی قیاس آرائیاں زیر گردش ہیں کہ آخر کس طرح اچانک دو بڑی جماعتوں کی قیادت تمام تر اختلا فات با لائے طاق رکھتے ہوئے ملا قات کرنے کے لیے اکٹھی ہوگئیں۔سابق صدر آصف زرداری نے حکومت کی اتحادی جماعت ق لیگ کے ساتھ ملا قات کی ہے اور چوہدری شجاعت اور پرو یز الہیٰ کو حکومت کے خلاف عدم اعتماد کے لیے منانے کی کوشش کی ہے جو کہ بظاہر نا کام ہو گئی ہے لیکن کہنے والے کہہ رہے ہیں ابھی کہانی کا اختتام نہیں ہوابلکہ ابھی تو کہانی کی شروعات ہوئی ہے۔بہر حال ایسا محسوس ہو رہا ہے اکہ اپوزیشن جماعتیں پہلی مرتبہ سنجیدگی کے ساتھ حکومت کو گرانے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔حکومت بظاہر تو ان حالات میں پُر اعتماد نظر آرہی ہے لیکن محسوس ایسا ہو تا ہے کہ حالات کی تپش بہر حال حکومت کو بھی محسوس ہو رہی ہے کیونکہ انھوں نے بھی گزشتہ روز اپنی سینٹرل ایگز یکٹو کمیٹی کے اجلاس میں ملک بھر میں بڑے جلسے کرنے اور عوامی رابطہ مہم شروع کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
مارچ کے مہینے کو سیاسی طو رپر بہت اہمیت حاصل ہو گئی ہے اور پیپلز پا رٹی اور پھر پی ڈی ایم کے لانگ مارچ بھی اس حوالے سے زیادہ اہمیت اختیار کرگئے ہیں۔لیکن معاملات اتنے سادہ نہیں ہیں جتنے نظر آتے ہیں۔پی ڈی ایم کے اندر کی صورتحال ابھی تک پیچیدہ ہے مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا گرین سگنل تو دے دیا ہے،لیکن اگر حکومت کے اتحادی نہیں مانیں گے تو تحریک اعتماد کامیاب کیسے ہو گی یہ سوال اہم ہے؟ تحریک عدم اعتماد لا کر وزیر اعظم کو گھر بھیجنا اتنا آسان کام نہیں ہے جتنا کہ اپوزیشن سمجھ بیٹھی ہے اور نہ ہی حکومت ابھی تک سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے گرین سگنل کے مرحون منت اقتدار میں موجود ہے۔
بہر حال اس حوالے سے یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ مولا نا فضل الرحمان جو کہ پی ڈی ایم کے سربراہ ہیں اور پیپلز پا رٹی سے خاصے خفا بھی ہیں وہ اس سارے عمل سے باہر نظر آتے ہیں اگرچہ لیڈر آف دی اپوزیشن شہباز شریف نے ان کو اعتماد میں لینے کے لیے ان سے رابطے کیے ہیں لیکن ان اہم ملا قاتوں میں مولانا کو شامل نہ کرنا ان کی مزید نا راضگی کا باعث بن سکتا ہے۔
اپوزیشن جماعتوں نے بھی ملک بھر میں جلسوں اور عوامی رابطوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔اور حالیہ دنوں میں پیپلز پا رٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمان نے بڑے جلسے کیے ہیں،اپوزیشن کی یہی کوشش ہے کہ اپنے اپنے اعلان کردہ لا نگ ماررچز سے قبل حکومت مخالف مو مینٹم بنایا جائے جو کہ آخری ہلے سے قبل اپوزیشن کی مدد کر سکے۔ملک کی مجموعی صورتحال پر نظر ڈالی جائے تو کافی پیچیدہ نظر آتی ہے افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد پاکستان کو سرحد پر بھی مسائل کا سامنا ہے اور گزشتہ کچھ عرصے سے خصوصاً بلوچستان میں دہشت گرد حملوں میں مسلسل تیزی دیکھنے میں آرہی ہے اور ملک کے جوان ملک کی حفاظت کے لیے جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے حال ہی میں چین کا اہم دورہ مکمل کیا ہے اور اب اسی ماہ روس کے اہم دورے پر بھی جا رہے ہیں جو کہ یقینا بین الا ا اقومی سطح پر پاکستان کی مخالفت کا باعث بنیں گے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ امریکہ اور مغرب جن کی آجکل روس کے ساتھ یو کرائن کے معاملہ پر شدید کشیدگی ہے وزیر اعظم کے اس دورے کو اچھی نظر سے ہمیں دیکھیں گے اس صورتحال میں ملک کے وزیر اعظم کے پاس اپنی پا رلیمان اور اپوزیشن کی حمایت ہو نا بھی بہت ضروری ہے اور اس سے حکومتیں اور وزیر اعظم تقویت حاصل کرتے ہیں۔ پارلیمان کے مقاصد میں سے ایک مقصد یہی ہوتا ہے کہ حکومت یا وزیر اعظم پر آنے والے دباؤ کو اپنے اوپر لے اور حکومت کو سپیس مہیا کرے لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں گزشتہ ساڑھے تین سال سے تو ایسا کچھ بھی دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔یہ ملک کے لیے ایک آئیڈیل صورتحال نہیں ہے۔ آنے والے دنوں میں ہر شہر میں سیاسی حدت میں بلا شبہ اضافہ ہونے جا رہا ہے اور حکومت اور اپوزیشن آمنے سامنے ہوں گے۔ایسی صورتحال ہمیشہ حکومت کے لیے زیادہ مشکل ہوا کرتی ہے کیونکہ احتجاج اور لانگ مارچ کے دوران اگر کوئی بھی نا خوشگوار واقعہ پیش آئے یا پھر پولیس کی جانب سے کوئی بھی کا رروائی کی جائے تو اس کا سارا ملبہ حکومت کے اوپر ہی آتا ہے۔اس لیے حکومت کو بھی چاہیے کہ اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ کسی نہ کسی لیول پر رابطے کرے اور معاملات کو پوائنٹ آف نو ریٹرن تک جانے سے روکا جائے لیکن پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے ٹریک ریکا رڈ کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس نہیں ہوتا ہے کہ حکومت کی جانب سے ایسا کو ئی قدم اٹھایا جائے گا۔
جہاں تک تحریک عدم اعتماد کا تعلق ہے تو حکومت کے اتحادیوں کے بغیر تحریک عدم اعتماد کو کسی صورت کامیابی نہیں مل سکتی ہے اور اگر اپوزیشن کی جانب سے ایسی کوشش بغیر حکومتی اتحادیوں کو اعتماد میں لیے بغیر کی گئی تو قوی امکان ہے کہ اپوزیشن کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس صورت میں اپوزیشن کی سیاست کو شدید دھچکا لگنے کا بھی امکان ہے،حکومت کے لیے ایک مسئلہ مہنگائی کا ہے جو کہ جوں کا توں برقرار ہے بلکہ مزید بڑھتا چلا جا رہا ہے،آئی ایم ایف کی نئی شرائط سامنے آئیں ہیں جن کے تحت حکومت کو مارچ تک بجلی اور ٹیکسوں کی شرح میں مزید اضافہ کرنا ہے جس کے باعث یقینا عوام کی مشکلا ت میں بھی اضافہ ہو گا اور حکومت پر عوامی دباؤ بھی بڑھے گا۔
بڑھتی ہو ئی مہنگائی اور آئی ایم ایف کی شرائط اپوزیشن کے لیے ایک اچھا موقع ہو سکتی ہیں کہ عوام کو حکومت کے خلاف سٹرکوں پر لایا جائے دیکھنا ہو گا کہ اپوزیشن اس موقع کا فائدہ اٹھا پائے گی یا نہیں۔بہر حال آنے والے چند ہفتے سیاسی طورپر بہت دلچسپ ہو نے جا رہے ہیں،اقتدار کی اس کشمکش میں جیت کس کی ہو گی شاید اس بات کا جواب ہمیں مارچ کے آخر تک مل جائے گا۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain