تازہ تر ین

کل کے دشمن۔ آج کے دوست

سید سجاد حسین بخاری
سیاست کے بارے میں بڑی مشہور کہاوت ہے کہ اس میں دوستیاں اور دشمنیاں بدلتی رہتی ہیں آج آپ مخالف ہیں کل آپ دوست بن جائیں گے پھر ممکن ہے کہ آپ دوبارہ مخالف ہو جائیں تو سیاسی دنیا میں یہ سب چلتا ہے تو اس لئے سمجھدار سیاستدان اپنے سیاسی مخالفین کی ذاتیات یا کردار کشی کے بجائے ان کی سیاسی کارکردگی پر باتیں کرتے ہیں مگر یہ بات شریف برادران کو 25 سال تک سمجھ نہ آسکی اور ان کے والد گرامی مرحوم نے بھی ذوالفقار علی بھٹو کے مخالفین کی ہمیشہ حمایت کی، انہیں کرنا بھی چاہیے تھا کیونکہ بھٹو نے ان کی اتفاق فونڈری سرکاری تحویل میں لیکر میاں شریف مرحوم کے بچوں کا روزگار چھین لیا اور پھر مرحوم آخری دم تک بھٹو مخالف رہے۔
میاں نوازشریف کو ان کے والد جنرل جیلانی کی معرفت سیاست میں لائے۔، ان کے دل میں بھی بھٹو خاندان کے خلاف انتقام کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ انہوں نے بھی مرحوم جنرل حمید گل کی شاگردی اختیار کی اور ان کا دیا گیا سبق میاں نوازشریف نے دو دہائیوں تک یاد رکھا۔ بقول شیخ رشید فوج کی نرسری میں شریف برادران پروان چڑھے ہیں۔ وقت گزرتا رہا بینظیر کے مقابلے میں جنرل ضیاء نے میاں نوازشریف کو اپنی زندگی دے کر کھڑا کیا اور میاں نوازشریف نے بھی 17اگست 1987ء کو جنرل ضیاء کے جنازے پر کھڑے ہو کر کہا تھا کہ میں آپ کا مشن جاری رکھوں گا اور مشن ایسا جاری رکھا کہ بینظیر کی ذاتیات پر تابڑ توڑ حملے کئے، جعلی پوسٹرز تک چھپوائے، جب ان کی شادی ہوئی تو ان کے شوہر آصف علی زرداری کیلئے مسٹر ٹن پرسنٹ کا مشہور زمانہ خطاب دیا جو آج تک عوام کو یاد ہے۔
مجھے تعجب ہوتا تھا کہ شریف برادران نے بینظیر اور آصف علی زرداری کی نجی زندگی سے لیکر ان کے خلاف مقدمات اور پھر اُنہیں سزائیں دلوانے کے لئے کوشاں رہے۔ یعنی شریف برادران نے بہو، بیٹی اور خواتین کی کسی بھی حرمت کا خیال نہیں رکھا تھا۔ بلاول بھٹو کی آمد پر بھی شریف برادران اور ان کی مریم نواز اور حمزہ شہباز اپنے والدین سے دو دو قدم آگے نکل گئے تھے اور ذاتیات، گریبانوں، پیٹ پھاڑنے اور سڑکوں پر گھسیٹنے تک کی نوبت آگئی اور نہ گھسیٹنے پر ”میرا نام بدل دینا“ کی شرطیں لگتی رہیں مگر دانشوروں کا قول ہے کہ وقت بڑا بے رحم ہوتا ہے اس کے بدلتے دیر نہیں لگتی اور پھر ایسا ہی ہوا کہ پہلے میاں نوازشریف لندن میں بینظیر بھٹو کے پاس چل کر گئے اور میثاق جمہوریت پر دستخط کئے اور پھر 5فروری کو شہبازشریف نے سڑکوں پر گھسیٹنے والے کی گاڑی کا دروازہ کھول کر استقبال کیا۔
بڑا عجیب منظر تھا جب شہبازشریف، مریم نواز ودیگر مسلم لیگی جُھکی جُھکی نگاہوں سے آصف زرداری کے قدموں سے قدم ملا کر چل رہے تھے اور میٹنگ میں فرما رہے تھے کہ ”بس ماضی کی بات کا ذکر نہ کریں“ مستقبل کی بات کریں ماضی چھوڑیں۔ بڑے عجیب اور دلفریب منظر کے ساتھ یہ ایک عبرتناک منظر بھی تھا کہ قادر مطلق نے اُسی چور کے استقبال پر شریف برادران کو کس طرح مجبور کیا جس کا پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی دولت نکالنے کے تکبرانہ دعوے کرتے تھے۔ ٹی وی پر جب یہ منظر میں دیکھ رہا تھا تو مجھے خواجہ آصف بڑا یاد آرہے تھے جب انہوں نے قومی اسمبلی کے فلور پر وزیر خارجہ کو کہا تھا کہ انسان میں کوئی شرم ہوتی ہے، حیا ہوتی ہے، غیرت ہوتی ہے۔
چلو ان سب کو چھوڑ کر مقصد کی بات کرتے ہیں کہ شریف برادران کا مقصد عمران حکومت کا خاتمہ کرنا ہے جس کیلئے انہیں سب کچھ کرنا اور سہنا پڑ رہا ہے اور وہ اپنی دشمن حکومت کو ہر صورت ختم کرنا چاہتے ہیں اور گزشتہ دو سال سے وہ سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں مگر میرا صرف ایک سوال ہے کہ مقتدر قوتوں کے بغیر یہ ممکن ہے؟ کیا آصف زرداری نے کچی گولیاں کھیلی ہوئی ہیں؟ جو وہ عمران حکومت کا خاتمہ کرکے اپنی روزی روٹی سے بھی جائے؟ ہرگز ایسا نہیں ہوگا وہ شروع دن سے تحریک عدم اعتماد کی بات کرتے ہیں اب جا کر شریف برادران نے تسلیم کیا ہے کہ زرداری سندھ حکومت کسی صورت نہیں چھوڑیں گے چلو شاید عدم اعتماد کامیاب ہو جائے اور اب انہوں نے لانگ مارچ اور اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کی ضد بھی ختم کردی ہے۔ دیکھتے ہیں عدم اعتماد کب اور کیسے کامیاب ہوتی ہے؟
اسمبلی میں موجودہ صورتحال کچھ یوں ہے کہ حکومتی اتحاد کے ممبران قومی اسمبلی کی تعداد184 ہے جبکہ اپوزیشن کی تعداد 151ممبران ہیں۔ اس وقت اگر بی اے بی، بی این پی، ایم کیو ایم اور مسلم لیگ(ق) حکومتی اتحاد کو خیرباد کہہ دیں تو پھر اپوزیشن کے گیم نمبرز پورے ہوتے ہیں ورنہ ہنوز دلی دوراست۔ چند سوالات اس بابت اور بھی ہیں مثلاً کیا مریم نواز اپنے چچا کی حمایت کریں گی؟ مولانا فضل الرحمن ودیگر پی ڈی ایم لیڈروں کو کیوں نہیں بلایا گیا؟ اس عدم اعتماد کیلئے گارنٹی کون دے گا؟ کیا اس کو ہر صورت توڑ چڑھایا جائے گا، کیا مسلم لیگ(ق) کے چودھری برادران‘ شریف برادران کو اقتدار میں دیکھنا اور خود باہر رہنا پسند کریں گے؟
کیا ایم کیو ایم‘ پی پی پی کا ساتھ دے سکتی ہے؟ یہ دونوں جماعتیں اپنے بڑوں سے پوچھ کر سانس لیتی ہیں تو اتنا بڑا کام یہ بغیر اجازت کیسے کرسکتے ہیں؟ حکومت کا یہ آخری سال ہے جسے الیکشن کا سال کہا جاتا ہے اور 16ماہ باقی ہیں نئی حکومت اگر بن بھی جاتی ہے تو کیا وہ اس مختصر عرصے میں عمران خان سے بہتر کارکردگی دِکھا سکے گی؟ یہ صرف چائے کی پیالی میں اُبال ہے سب لوگ موجودہ تنخواہ پر ہی کام کرینگے البتہ رونق میلہ لگا رہے گا مگر میں تو صرف اتنا ہی کہوں گا کہ میاں صاحب کس منہ سے آپ نے زرداری کا استقبال کیا؟
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain