تازہ تر ین

لتا منگیشکر سُروں کی دیوی

مریم ارشد
کیاسہانی روح تھی۔ لہروں کی دوش پر دنیا کے ہر خطے میں دلِ نادان کی وہ آواز عجیب داستانیں سناتی رہی۔ کبھی وہ آواز برہا کی سلی سلی راتوں میں جلتی رہی۔ تنہائی میں پریتم جہاں چلتا ہے اس سریلی آواز کا سایہ ساتھ ساتھ ہوتا ہے۔ اس مدُھر آواز میں کئی زندگیوں نے جینے کی تمنا کی اور مرنے کا ارادہ بھی کیا۔ سنگیت اور سُر بلا شبہ ربّ کی دین ہے۔ خدا نے بہت سخاوت سے لتا جی کو سنگیت کے سارے سُر عطا کیے تھے۔لتا جی کی آواز زندگی کی چلچلاتی دھوپ میں فروری کے مہینے کی مست ٹھنڈی ہواؤں کی طرح دلوں کو چھو جاتی۔ چاندنی راتوں میں بیٹھ کر ”آجا صنم مدُھر چاندنی میں ہم“ سنتے ہوئے چاندنی واقعی مدُھر ہو جاتی ہے۔ گانے میں سانس کہاں چھوڑنی اور کہاں لینی ہے لتا جی کو اس پر ملکہ حاصل تھا۔ لتا جی اس صدی کی مہان گلوکارہ جو سادگی، عاجزی، بُردباری اور تحمل کا حسین امتزاج تھیں۔ سنگیت میں سُر نہ ہو تو وہ مر جاتا ہے۔
لتا کو خدا نے سُر جھولیاں بھر بھر کر سُچے موتیوں کی صورت میں دیا تھا۔ لتا منگیشکر فلموں کے کرداروں میں کھو کر گاتی تھیں۔ مینا کماری، نوتن، نرگس، سادھنا پر لتا جی کی آواز بہت سجتی تھی۔ لتا جی کے گیتوں سے محبتوں کے خواب دیکھنے والوں کے دلوں میں پُھول کھلنے کے سلسلے شروع ہو جاتے ہیں۔ دل جب فرصت کے رات دن ڈھونڈتا ہے تو زندگی میں پیار کے نغمے شروع ہو جاتے ہیں۔ زندگی پھر تیری میری کہانی بن جاتی ہے تو ویرانوں میں بہار آ جاتی ہے۔ جس طرح پھول کی خوشبو کھلنے پر ہر طرف پھیل جاتی ہے۔ لتا جی کی آواز بھی سُروں کی مدھر لہروں پر پھیل جاتی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے سننے والوں کے سینوں میں عطر کی ٹھنڈک اترنے لگتی ہے۔ اپنے والد کی ڈرامہ کمپنی میں انہوں نے کم سنی میں ہی گانا شروع کیا۔ لتا جی کبھی سکول نہیں گئیں۔ لیکن بہت سی زبانیں انہوں نے گھر ہی میں سیکھیں۔ مراٹھی ان کی زبان تھی۔ لتا جی کی آواز میں نجانے کیا طلسماتی کھنک تھی۔ کون سی جھنجھناہٹ تھی کہ سُننے والا بے اختیار تھرکنے لگتا ہے۔اگر ان کا گانا دل تو پاگل ہے کی ریکارڈنگ دیکھیں تو سادہ سی لتا جی گا رہی ہیں۔ لیکن ان کی آواز کی کھنک ہر کسی کو تھرکنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
دلیپ کمار لتا جی کو اپنی چھوٹی بہن مانتے تھے۔ 1947میں ان کی ملاقات انیل بسواس کے ساتھ ٹرین میں ہوئی۔ وہ لتا جی کے سامنے بیٹھے تھے۔ انیل بسواس نے دلیپ کمار سے کہا یہ لتا منگیشکر ہے۔ مراٹھی لڑکی ہے بہت اچھا گاتی ہے۔ دلیپ کمار صاحب نے کہا اچھا مراٹھی ہے تو مجھے اس کے اردو تلفظ پر تھوڑا شک ہے۔ ان کے اردو بولنے پر ایسا لگتا ہے جیسے دال چاولوں کی بُو آرہی ہو۔ لتا جی کو یہ بات بہت کھٹکی۔ پھر انہوں نے اپنے منہ بولے بھائی شفیع سے کہا کہ انہیں اردو سیکھنی ہے۔ وہ ایک مولانا جن کا نام محبوب تھا انہیں لتا جی کو اردو پڑھانے لے آئے۔ انہوں نے کہا اردو کے ساتھ غا لب، ذوق، میر تقی میر کو بھی پڑھنا شروع کرو۔ یوں لتا جی نے اردو پڑھنا سیکھی۔ لتا جی کو ”سُروں کی دیوی“ کا خطاب دیا گیا۔
برستی بارشوں، جھلملاتے ستاروں، چاندنی راتوں میں، بھیگتی برساتوں میں لتا جی کے سُر کلیاں بن کے یادوں کے باغِ وفا میں مہکا کریں گے۔ ان کے جتنے مداح بھارت میں ہیں اتنے ہی پاکستان میں بھی ہیں۔ ماسٹر غلام حیدر ان کے گرو تھے۔ تین نسلیں لتا جی کے گانوں کے طلسم میں پل کر جوان ہوئیں۔ لتا جی وہ پہلی عورت تھیں جنھوں نے گلوکار کو گانے کی رائلٹی دلوانے کی ابتدا کی۔ ”خوب صورت ہے تُو تو ہوں میں حسیں“ ”اچھا تو ہم چلتے ہیں“۔ کیا کیا خوب صورت گانے گائے ہیں انہوں نے۔ لتا منگیشکر بننا آسان نہیں۔ لتا جی نے کلاسیکل میوزک بہت گایا۔ لتا منگیشکر کو ”ایشیا کی کوئل“ بھی کہا جاتا تھا۔
لتا جی 14برس کی تھیں تو میڈم نور جہاں سے ہلا پور میں ایک شوٹنگ پر ملاقات ہوئی۔ لتا جی نے انہیں شاستری سنگیت سنایا۔ میڈم نور جہاں نے پوچھا کوئی فلمی گانا سناؤ۔ لتا جی نے سنایا تو میڈم نے کہا تم بہت دور تک جاؤ گی۔ میڈم نور جہاں کی یہ پیشن گوئی سچ ثابت ہوئی۔ لتا جی بھی میڈم کی پرستار تھیں۔ کسی گیت میں لتا جی جانے کیوں لوگ محبت کیا کرتے ہیں کا شکوہ کرتی ہیں تو ساتھ ہی لگ جا گلے کہ پھر یہ حسیں رات ہو نہ ہو گاتی ہیں۔ کہیں ان کے پاؤں زمیں پر نہیں پڑتے تو کبھی ساون کے جُھولے جھولتی دکھائی دیتی ہیں۔ کبھی کبھی لتا جی کے دل میں خیال آتا ہے تو ایشور اللہ تیرو نام جیسا بھجن گلے کے سُریلے سُروں سے نکلتا ہے تو امر ہو جاتا ہے۔
گلزار صاحب کا کہنا ہے کہ لتا جی گانے کا جینڈر بدلنے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔انہوں نے قصہ سنایا کہ ہیمنت کمار کے ساتھ ”ہم نے دیکھی ہیں ان آنکھوں کی مہکتی خوشبو“ فلمانا تھا تو میں نے کہا کہ یہ جملہ تو کوئی لڑکا ہی کسی لڑکی کو کہہ سکتا ہے یہ لتا جی کیسے گا سکتی ہیں۔ ہیمنت کمار نے کہا یہ کمپوزیشن تو صرف لتاہی گائیں گی۔ گلزار صاحب کہتے ہیں پھر لتا جی نے یہ گانا گایا تو گانے کا جینڈر ہی بدل گیا۔ لتا جی نے جو گایا کمال گایا۔ لتا جی نے روایت کے مطابق شادی نہیں کی جبکہ شادی عورت کی زندگی کی بڑی ضرورت سمجھی جاتی ہے۔ لتا جی نے ثابت کیا کہ ان کی روح صوفیانہ ہے۔ انہوں نے شیرنی کی طرح اپنے اندر کی جنگ لڑی ہوگی۔ باپ کے جانے کے بعد باپ بن کر نہ صرف اپنے بہن بھائیوں کو پالا بلکہ اپنی ماں کے اوپر بھی چھت مہیا کی۔ محبت کا سیاق و سباق دل سے جڑ تا ہے۔
لتا جی سراپا محبت تھیں۔ جب تک دل اور روح آپس میں گُھلیں گے نہیں تو گلے سے سچے سُر نہیں نکلیں گے۔ لتا جی نے گیتوں کے ایسے خزانے چھوڑے ہیں کہ وہ اپنے مداحوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔لتا جی نے جب مغلِ اعظم کے لیے ”بے کس پر کرم کیجیے سرکارِ مدینہ“ گایا تو پتھر دل بھی پگھل گئے۔ نجانے خدا لتا منگیشکر کے گائے اس کلام کو کس معیار پر پرکھے گا۔ یہ رب ہی جانے کہ وہ تو بے نیاز ہے۔
(کالم نگارقومی وسماجی ایشوزپرلکھتی ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain